ایک جگہ محفل جمی تھی۔ مرزا غالب وہاں سے اکتا کر اُٹھے۔ باہر ہوا دار موجود تھا۔ اس میں بیٹھے اور اپنے گھر کا رخ کیا۔ ہوادار سے اتر کر جب دیوان خانے میں داخل ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ متھرا داس مہاجن بیٹھا ہے۔
غالب نے اندر داخل ہوتے ہی کہا، ’’اخاہ متھرا داس! بھئی تم آج بڑے وقت پر آئے۔۔۔ میں تمہیں بلوانے ہی والا تھا!‘‘
متھرا داس نے ٹھیٹ مہاجنوں کے انداز میں کہا، ’’حضور روپوں کو بہت دن ہو گئے۔ فقط دو قسط آپ نے بھجوائے تھے۔۔۔ اس کے بعد پانچ مہینے ہو گئے، ایک پیسہ بھی آپ نے نہ دیا۔‘‘
اسد اللہ خان غالبؔ مسکرائے، ’’بھئی متھرا داس! دینے کو میں سب دے دوں گا۔ گلے گلے پانی دوں گا۔۔۔ دو ایک جائیداد ابھی میری باقی ہے۔‘‘
’’اجی سرکار! اس طرح بیوپار ہو چکا۔ نہ اصل میں سے نہ سود میں سے، پہلا ہی ڈھائی ہزار وصول نہیں ہوا۔ چھ سو چھپن سود کے ہو گئے ہیں۔‘‘
مرزا غالبؔ نے حقے کی نَے پکڑ کر ایک کش لیا، ’’لالہ، جس درخت کا پھل کھانا منظور ہوتا ہے، اس کو پہلے پانی دیتے ہیں۔۔۔ میں تمہارا درخت ہوں، پانی دو تو اناج پیدا ہو۔‘‘
متھرا داس نے اپنی دھوتی کی لانگ ٹھیک کی، ’’جی، دیوالی کو بارہ دن باقی رہ گئے ہیں۔ کھاتہ بند کیا جائے گا۔ آپ پہلے روپے کا اصل سود ملا کر دستاویز بنا دیں تو آگے کا نام لیں۔‘‘
مرزا غالبؔ نے حقے کی نَے ایک طرف کی، ’’لو، ابھی دستاویز لکھے دیتا ہوں۔ پر شرط یہ ہے کہ دو ہزار ابھی ابھی مجھے اور دو۔‘‘
متھرا داس نے تھوڑی دیر غور کیا، ’’اچھا، میں اشٹام منگواتا ہوں۔۔۔ بہی ساتھ لایا ہوں۔ آپ منشی غلام رسول عرضی نویس کو بلا لیں۔ پر سود وہی سوا روپیہ سینکڑہ ہوگا۔‘‘
’’لالہ کچھ تو انصاف کرو۔ بارہ آنے سود لکھوائے دیتا ہوں۔‘‘
متھرا داس نے اپنی دھوتی کی لانگ دوسری بار درست کی، ’’سرکار! بارہ آنے پر بارہ برس بھی کوئی مہاجن قرض نہیں دے گا۔۔۔ آج کل تو خود بادشاہ سلامت کو روپے کی ضرورت ہے۔‘‘
ان دنوں واقعی بہادر شاہ ظفر کی حالت بہت نازک تھی، اس کو اپنے اخراجات کے لیے روپے پیسے کی ہر وقت ضرورت رہتی تھی۔ بہادر شاہ تو خیر بادشاہ تھا لیکن مرزا غالب محض شاعر تھے۔ گو وہ اپنے شعروں میں اپنا رشتہ سپاہ گری سے جوڑتے تھے۔
یہ مرزا صاحب کی زندگی کے چالیسویں اور پینتالیسویں سال کے درمیانی عرصے کی بات ہے، جب متھرا داس مہاجن نے ان پر عدم ادائیگیِ قرضہ کے باعث عدالت دیوانی میں دعویٰ دائر کیا۔۔۔ مقدمے کی سماعت مرزا صاحب کے مربی اور دوست مُفتی صدر الدین آزردہ کو کرنا تھی، جو خود بہت اچھے شاعر اور غالبؔ کے مداح تھے۔ مفتی صاحب کے مردھانے عدالت کے کمرے سے باہر نکل کر آواز دی، ’’لالہ متھرا داس مہاجن مدعی اور مرزا اسد اللہ خان غالب مدعاعلیہ حاضر ہیں؟‘‘
متھرا داس نے مرزا غالب کی طرف دیکھا اور مردھے سے کہا، ’’جی دونوں حاضر ہیں۔‘‘
مِردھے نے روکھے پن سے کہا، ’’تو دونوں حاضرِ عدالت ہوں۔‘‘
مرزا غالب نے عدالت میں حاضر ہو کر مفتی صدر الدین آزردہ کو سلام کیا۔۔۔ مفتی صاحب مسکرائے۔ ’’مرزا نوشہ، یہ آپ اس قدر قرض کیوں لیا کرتے ہیں۔۔۔ آخر یہ معاملہ کیا ہے؟‘‘
غالب نے تھوڑے توقف کے بعد کہا، ’’کیا عرض کروں۔۔۔ میری سمجھ میں بھی کچھ نہیں آتا۔‘‘
مفتی صدر الدین مسکرائے، ’’کچھ تو ہے، جس کی پردہ داری ہے۔‘‘
غالب نے برجستہ کہا، ’’ایک شعر موزوں ہو گیا ہے مفتی صاحب۔۔۔ حکم ہو تو جواب میں عرض کروں۔‘‘
’’فرمائیے!‘‘
غالبؔ نے مفتی صاحب اور متھرا داس مہاجن کو ایک لحظے کے لیے دیکھا اور اپنے مخصوص انداز میں یہ شعر پڑھا:
قرض کی پیتے تھے مے، لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوےگی ہماری فاقہ مستی ، ایک دن
مفتی صاحب بے اختیار ہنس پڑے۔ ’’خوب، خوب۔۔۔ کیوں صاحب! رسی جل گئی، پر بَل نہ گیا۔۔۔ آپ کے اس شعر کی میں تو ضرور داد دوں گا۔۔ مگر چونکہ آپ کو اصل اور سود، سب سے اقرار ہے۔ عدالت مدعی کے حق میں فیصلہ دیئے بغیر نہیں رہ سکتی۔‘‘
مرزا غالبؔ نے بڑی سنجیدگی سے کہا، ’’مدعی سچا ہے، تو کیوں فیصلہ اس کے حق میں نہ ہو اور میں نے بھی سچی بات نثر میں نہ کہی، نظم میں کہہ دی۔‘‘
مفتی صدر الدین آزردہ نے کاغذاتِ قانون ایک طرف رکھے اور مرزا غالب سے مخاطب ہوئے، ’’اچھا، تو زرِ ڈگری میں ادا کردوں گا کہ ہماری آپ کی دوستی کی لاج رہ جائے۔‘‘
مرزا غالبؔ بڑے خود دار تھے۔ انہوں نے مفتی صاحب سے کہا، ’’حضور ایسا نہیں ہوگا۔۔۔ مجھے متھرا داس کا روپیہ دینا ہے۔ میں بہت جلد ادا کردوں گا۔‘‘
مفتی صاحب مسکرائے، ’’حضرت، روپے کی ادائیگی، شاعری نہیں۔۔۔ آپ تکلّف کو برطرف رکھیے۔۔۔ میں آپ کا مداح ہوں۔۔۔ مجھے آج موقع دیجیے کہ آپ کی کوئی خدمت کر سکوں۔‘‘
غالبؔ بہت خفیف ہوئے، ’’لاحول ولا۔۔۔ آپ میرے بزرگ ہیں۔۔۔ مجھے کوئی سزا دے دیجیے کہ آپ صدرالصدور ہیں۔‘‘
’’دیکھو، تم ایسی باتیں مت کرو۔۔۔‘‘
’’تو اور کیسی باتیں کروں؟‘‘
’’کوئی شعر سنائیے۔‘‘
’’سوچتا ہوں۔۔۔ ہاں ایک شعر رات کو ہو گیا تھا۔۔۔ عرض کیے دیتا ہوں۔۔۔‘‘
’’فرمائیے‘‘
’’ہم اور وہ سبب رنج آشنا دشمن۔۔‘‘
مُفتی صاحب نے اپنے قانونی قلم سے قانونی کاغذ پر یہ حروف لکھے
’’ہم اور وہ بے سبب رنج آشنا دشمن، کہ رکھتا ہے۔‘‘
مفتی صاحب بہت محظوظ ہوئے۔ یہ شعر آسانی سے سمجھ آ سکنے والا نہیں لیکن وہ خود بہت بڑے شاعر تھے، اس لیے غالبؔ کی دقیقہ بیانی کو فوراً سمجھ گئے۔
مقدمہ کی باقاعدہ سماعت ہوئی۔ مفتی صدرالدین آزردہ نے مرزاغالب سے کہا، ’’آپ آیندہ قرض کی نہ پیا کریں۔‘‘
غالب جو شاید کسی شعر کی فکر کر رہے تھے، کہا، ’’ایک شعر ہو گیا، اگر آپ اجازت دیں تو عرض کروں۔‘‘
مفتی صاحب نے کہا، ’’فرمائیے۔۔۔ فرمائیے۔۔۔‘‘
مرزا غالبؔ کچھ دیر خاموش رہے۔ غالباً ان کو اس بات سے بہت کوفت ہوئی تھی کہ مفتی صاحب ان پر ایک احسان کر رہے ہیں۔ مفتی صاحب نے ان سے پوچھا، ’’حضرت آپ خاموش کیوں ہو گئے؟‘‘
’’جی کوئی خاص بات نہیں۔‘‘
ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں،
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی۔۔۔
’’آپ کو باتیں کرنا تو ماشاءاللہ آتی ہیں۔‘‘
غالبؔ نے جواب دیا، ’’جی ہاں۔۔۔ لیکن بنانا نہیں آتیں۔‘‘
مفتی صدر الدین مسکرائے، ’’اب آپ جا سکتے ہیں۔۔۔ زرِ ڈگری میں ادا کردوں گا۔‘‘
مرزا غالبؔ نے مفتی صاحب کا شکریہ ادا کیا۔’’ آج آپ نے دوستی کے تمسک پر مہر لگا دی۔ جب تک زندہ ہوں، بندہ ہوں۔‘‘
مفتی صدر الدین آزردہ نے ان سے کہا، ’’اب آپ تشریف لے جائیے۔۔۔ پر خیال رہے کہ روز روز زرِ ڈگری میں ادا نہیں کر سکتا، آئندہ احتیاط رہے۔‘‘
مرزا غالبؔ تھوڑی دیر کے لیے سوچ میں غرق ہو گئے۔ مفتی صاحب نے ان سے پوچھا، ’’کیا سوچ رہے ہیں آپ؟‘‘
مرزا غالبؔ چونک کر بولے، ’’جی! میں کچھ بھی نہیں سوچ رہا تھا۔۔۔ شاید کچھ سوچنے کی کوشش کر رہا تھا کہ
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی۔۔“
مفتی صاحب نے ان سے پوچھا، ’’کیا آپ کو رات بھر نیند نہیں آتی؟‘‘
مرزا غالبؔ نے مسکرا کر کہا، ’’کسی خوش نصیب ہی کو آتی ہوگی۔‘‘
مفتی صاحب نے کہا، ’’آپ شاعری چھوڑیئے۔۔۔ بس آئندہ احتیاط رہے۔‘‘
مرزا غالبؔ اپنے انگرکھے کی شکنیں درست کرتے ہوئے بولے، ’’آپ کی نصیحت پر چل کر ثابت قدم رہنے کی خدا سے دعا کروں گا۔۔۔ مفتی صاحب! مفت کی زحمت آپ کو ہوئی۔ نقداً سوائے ’شکر ہے‘ کے اور کیا ادا کر سکتا ہوں۔ خیر خدا آپ کو دس گنا دنیا میں، اور ستّر گنا آخرت میں دے گا۔‘‘
یہ سن کر مفتی صدر الدین آزردہ زیر لب مسکرائے، ’’آخرت والے میں تو آپ کو شریک کرنا محال ہے۔۔۔ دنیا کے دس گنے میں بھی آپ کو ایک کوڑی نہیں دوں گا کہ آپ مے خواری کیجیے۔‘‘
مرزا غالبؔ ہنسے، ’’مے خواری کیسی مفتی صاحب!
مے سے غرض نشاط ہے کس رُو سیاہ کو
اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے۔۔“
اور یہ شعر سنا کر مرزا غالبؔ، عدالت کے کمرے سے باہر چلے گئے۔