شعیب خان: کراچی انڈر ورلڈ کا وہ کردار جس کے دبئی تک پھیلے ’جوئے کے نیٹ ورک‘ پر ہاتھ ڈالنے کے لیے گورنر کو آرمی چیف تک جانا پڑا

جعفر رضوی

گولی لگتے ہی گردن سے خون کا فوّارہ اُبَل پڑا۔ حلق میں بھر جانے والے خون نے سب انسپیکٹر غلام دستگیر کو دوسری سانس لینے تک کا موقع نہیں دیا۔ حملہ تھا ہی اتنا شدید کہ شعیب خان کی حفاظت پر مامور چار پولیس اہلکاروں میں سے کوئی بھی زندہ نہ بچ سکا اور اب خون میں ڈوبی چاروں لاشیں پولیس وین میں پڑی تھیں۔

آپ کے لیے شاید یہ تفصیلات بھیانک اورہولناک ہوں، مگر 1990 کی دہائی کے کراچی میں ہزاروں پولیس افسران و اہلکاروں اور سیاسی و مذہبی تنظیموں کے لاکھوں کارکنوں کے ساتھ ساتھ ہم صحافیوں کے لیے تو یہ سب کچھ معمول بن چکا تھا۔

سیاسی، فرقہ وارانہ اور لسانی تشدد، یا چھینا جھپٹی اور قتل و غارت۔۔۔ کون سا جُرم تھا، جسے اِس شہر کے باسیوں نے ہوتے نہ دیکھا ہو۔

بعض اوقات تو پتا ہی نہیں چلتا تھا کہ سڑک پر بہتا خون، ماورائے عدالت قتل ہونے والے کسی بے قصور سیاسی کارکن کا ہے یا دہشتگردی کا شکار کسی بے بس پولیس اہلکار کا؟ کسی ٹارگٹ کلر کا ہے یا ’اِنکاؤنٹر اسپیشلسٹ‘ کا؟

اُس روز بھی پولیس وین سے بہتے ہوئے خون سے پتا نہیں چل رہا تھا کہ یہ ہلاک ہونے والے پولیس اہلکاروں کا ہے یا زخمی ہو کر بچ جانے والے شعیب خان کا۔۔

کراچی کے ’سیاسی جرائم‘ یا ’مجرمانہ سیاست‘ کے انتہائی پراسرار کردار شعیب خان کو جانتے تو شاید بہت ہی کم لوگ ہوں گے مگر پروفائل کا عالم یہ تھا کہ شعیب خان کے کاروبار پر ہاتھ ڈالنے کے لیے صوبے کے اُس وقت کے گورنر کو ملک کے فوجی صدر اور آرمی چیف تک جانا پڑا تھا اور آئی ایس آئی سربراہ کو کراچی بھیجا گیا تھا۔

شعیب خان کراچی انڈر ورلڈ کے کوئی معمولی کردار نہیں تھے۔ شہر کی پولیس دن کی روشنی میں شعیب خان کے خلاف قتل و اقدامِ قتل، جُوا، سٹہ اور بَھتّہ خوری جیسے مقدمات درج کرتی تھی اور رات کے اندھیرے میں اُسی پولیس کے اعلیٰ ترین افسران شعیب خان کی ’پارٹی‘ میں شرکت کرتے تھے۔

میں شعیب خان کی پروفائل پر کئی سال تک کام کرتا رہا۔ میری تحقیق کے مطابق شعیب خان کی چار بہنیں اور چھ بھائی تھے۔ جس علاقے میں شعیب خان بڑے ہوئے، وہاں ’مختار کی چائے‘ بہت مشہور تھی۔

اس چائے خانے پر علاقے کے ایک پرانے مکین بزرگ نے کئی برس قبل مجھے بتایا کہ شعیب خان ’نوعمری میں بلاوجہ ہی لوگوں سے الجھ جایا کرتا تھا۔ تھوڑا مزاج کا گرم تھا۔ اندازہ تو اسی زمانے میں ہوتا تھا کہ یہ سیدھی سادی زندگی نہیں گزارے گا۔‘

خبر رساں ادارے اردو پوائنٹ نے چار فروری 2005 کو اپنی ویب سائٹ پر بتایا کہ ابتداً شعیب خان نے کراچی وسطی کے علاقے عزیز آباد میں موٹر سائیکل کرائے پر دینے کا کاروبار شروع کیا اور گاہے بگاہے علاقے کی پولیس کے لیے مخبری بھی کر دیتا تھا۔

ہائی پروفائل کریمنل کیسز میں شعیب اور اُن جیسے کئی افراد کے وکیل رہنے والے ایک قانون داں نے بتایا ”شعیب کا خاندان روشن باغ کے قریب بھی رہائش پذیر رہا۔ یہاں شعیب خان کے بھائیوں کی وی سی آر اور ویڈیو کیسٹس کرائے پر دینے کی ایک دکان ’ایس کے ویڈیو‘ تھی۔“

پاکستان کے انگریزی جریدے ’نیوز لائن‘ کی ستبمر 2001 کی اشاعت میں صحافی غلام حسنین کے تحقیقاتی مضمون کے مطابق شعیب جوئے سٹّے کے کاروبار سے جُڑ گئے۔ ”جُوا شعیب خان کے لیے نیا ہرگز نہیں تھا کیونکہ یہ کام شعیب کے والد اختر علی خان برسوں سے کر رہے تھے۔“

تمغۂ شجاعت سمیت کئی قومی و سرکاری اعزازات حاصل کرنے والے سندھ پولیس کے سابق ایس پی فیاض خان اُن تفتیشی افسران میں شامل رہے، جنہوں نے دورانِ حراست شعیب خان سے بھی تفتیش کی۔ فیاض خان کا کہنا ہے ”ڈسٹرکٹ سینٹرل میں جُوا شعیب کے والد کے بغیر ہوتا ہی نہیں تھا۔ وہ پولیس سے اجازت لے کر برسوں تک جُوا چلاتے رہے۔“

سابق ایس پی فیاض خان کا کہنا ہے 1988 کے آغاز میں جب شعیب نے جُوئے کے کاروبار میں قدم رکھا، تب تک شعیب خان اور خالد شہنشاہ کی دوستی بہت پرانی ہو چکی تھی۔

خالد شہنشاہ خود بھی کریم آباد پر ’رمی کلب‘ کی آڑ میں جوئے کا اڈہ چلاتے رہے تھے اور پیپلز پارٹی اور پارٹی کی طلبا تنظیم پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن (پی ایس ایف) کے اعلیٰ عہدیداروں اور پارٹی کے عسکری بازو ’الذوالفقار‘ کے قریب رہے۔

خالد شہنشاہ بے نظیر بھٹو کے ذاتی محافظین میں شامل رہے اور بے نظیر کے قتل کے وقت بھی اُن کے ساتھ تھے۔ پولیس، تھانہ، کچہری، مقدمے یہ سب شعیب خان کی طرح خالد شہنشاہ کے لیے بھی روزمرہ کی بات تھی۔

ایک روز کسی مقدمے کے سلسلے میں شعیب اور خالد شہنشاہ صدر کے علاقے (تھانہ پریڈی کی حدود میں) ایم اے جناح روڈ پر واقع کسی وکیل کے دفتر پہنچے۔ وہیں ایک اور شخص اقبال نیازی کا خالد سے جھگڑا ہو گیا۔

اقبال نیازی نے خالد کا گلہ دبوچ لیا تو شعیب خان نے اچانک ہی اقبال نیازی کو گولی مار دی۔ اقبال نے موقع پر دم توڑ دیا۔ یہ شعیب خان کا پہلا قتل تھا۔

اسی زمانے میں لیاقت آباد میں بھی ذاتی جھگڑے کے دوران کوئی شخص قتل ہوا اور پولیس کا خیال تھا کہ یہ قتل بھی شعیب خان نے کیا ہے۔ پھر شعیب نے اور بھی کئی قتل کیے۔ کچھ تفتیش میں مانے اور کچھ نہیں۔

دیگر تفتیش کاروں کے مطابق ’جرم و تشدد کا راستہ اپنا لینے والے شعیب خان نے اپنا کاروبار بڑھانے کے لیے پولیس کے اعلیٰ افسران کے ساتھ ساتھ شہر کی سیاسی، سماجی، کاروباری اور معروف شخصیات سے بھی تعلقات بنانے اور ان کے لیے ’خاص پارٹی‘ کے انتظامات کرنا شروع کیے۔

بی بی سی اردو کی 27 جنوری 2005 کی اشاعت میں نامہ نگار اعجاز مہر نے بتایا کہ اُس وقت کے وزیر اعلیٰ سندھ ارباب رحیم نے دعویٰ کیا کہ صوبے کی پولیس قیادت کے بعض اعلیٰ ترین افسران کا شعیب خان سے تعلق تھا۔

مگر پولیس افسران سے ایسے تعلق کے باوجود بھی شعیب خان کے خلاف قتل، اقدامِ قتل اور جوئے سٹّے سے متعلق مقدمات درج ہوتے رہے اور ان ہی معاملات میں کئی بار شعیب کو جیل اور حوالات کی ہوا بھی کھانی پڑی۔

تب ہی ایک بار جیل میں شعیب خان کی ملاقات اسلم ناتھا سے ہوئی۔

فیاض خان نے بتایا کہ ”شراب، جوا، سٹہ، بھتہ، قتل و غارت، جائیدادوں پر قبضے اور دیگر کئی جرائم میں گلے گلے تک دھنسے ہوئے اسلم ناتھا کراچی میں ’جوئے کا کنگ‘ کہلاتے تھے۔ غیر قانونی کاروبار ہوں یا اُن کی سرپرستی کرنے والے بدعنوان پولیس افسران، محلّوں کے بدمعاش ہوں یا عادی جرائم پیشہ۔۔ یا تو سب اسلم ناتھا کو جانتے تھے یا اسلم ناتھا سب کو جانتے تھے۔ یہی نہیں بلکہ ٹی وی اداکار اور اشتہاروں میں ٹی وی پر دکھائی دینے والی ماڈلز، اداکارائیں (اسلم) ناتھا کی پہنچ سب تک تھی۔“

اسلم ناتھا جس دھندے میں تھے، اُس میں دوستیاں ہی نہیں، دشمنیاں بھی بنتی ہیں تو دشمن تو اسلم ناتھا کے بھی تھے۔

فیاض خان نے بتایا ”ایسے ہی ایک دشمن نے موقع دیکھ کر ایک بار جیل میں اسلم ناتھا پر حملہ کر دیا۔ اب یہ محض اتفاق تھا یا قسمت، کہ شعیب خان بھی اُس وقت وہیں موجود تھے۔ ناتھا پر حملہ ہوا تو شعیب خان نے ناتھا کو بچایا بھی اور حملہ آور قیدیوں سے جھگڑا بھی کیا اور تب ہی ناتھا کی زمانہ شناس نظریں شعیب کا ٹیلنٹ بھانپ گئیں۔“

فیاض کا کہنا ہے کہ جیل سے رہا ہونے کے بعد بھی شعیب نے ناتھا کے دشمنوں سے جھگڑے مول لیے۔ دونوں میں قربت اور اعتماد اتنا بڑھا کہ اسلم ناتھا نے عرشی سینما کے قریب واقع اپنے جوئے کے اڈّے کا انتظام شعیب خان کے سپرد کر دیا لیکن آہستہ آہستہ شعیب کو احساس ہوا کہ وہ تو محض ایک کارندہ ہے اور اصلی ’ڈان‘ تو اسلم ناتھا ہیں۔

بس پھر اسلم ناتھا کی جگہ خود ’ڈان‘ بننے کی خواہش اور شہر میں اپنا سکہ جمانے کی حسرتیں رفتہ رفتہ شعیب اور اسلم ناتھا کے درمیان دراڑ بننے لگیں۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ شعیب نے اسلم ناتھا کو ہی قتل کروا دیا۔

اسلم ناتھا کا قتل 13 جون 1995 کو ہوا۔ پولیس حکام کے مطابق شعیب خان اسلم ناتھا کہ قتل میں ملوث تھے۔

ناتھا کے قتل کے بعد جوئے کے دھندے نے ایک اور کروٹ لی۔

شہر کے ایک سابق پولیس چیف نے بتایا ”یہ وہ زمانہ تھا کہ پہلے تو انڈیا میں جُواریوں نے کرکٹ میچ میں جُوئے کی ’بک‘ متعارف کروائی۔ فوراً ہی فیشن کراچی بھی پہنچ گیا۔ یہاں بھی نامی گرامی جُواری بُکی بن گئے تو کراچی انڈر ورلڈ نے بھی بک کے ذریعے کرکٹ سے منسلک جوئے کو آسمان تک پہنچا دیا۔ یہ کراچی انڈر ورلڈ بزنس ایمپائر کا نیا وینچر تھا۔“

فیاض خان نے بتایا ”تب تک شعیب کراچی میں جوئے سٹے کے کاروبار پر چھا چکا تھا۔ کرکٹ بُکس (جوا) پر بھی اسی نے کنٹرول کی کوشش کی اور بڑی حد تک کامیاب بھی رہا مگر اسلم ناتھا کے قتل کے بعد شعیب خان کو ناتھا کے دوستوں سے زبردست خطرہ بھی تھا۔“

اور اُن میں سب سے بڑا نام تھا مناف پریڈی۔ مناف صدر میں واقع پریڈی پولیس لائن کے سب انسپیکٹر عبدالرسول خانزادہ کے چار بیٹوں میں سے ایک تھے۔ یہ چاروں بھائی یعنی خالد، مناف، مراد، اور ادریس انڈر ورلڈ اور گینگ وار جیسے تنازعات میں قتل ہوئے۔

یہ خاندان پریڈی پولیس لائن میں رہائش پذیر تھا۔ جارح مزاج رکھنے والے یہ چاروں بھائی اتنے طاقتور تھے کہ سیاسی جماعتوں خصوصاً ایم کیو ایم جیسی تنظیموں کو بھی خاطر میں نہیں لاتے تھے۔

فیاض خان کا کہنا ہے ”مناف پریڈی کا قتل شعیب نے اپنے اُن کارندوں سے کروایا جو خود ایم کیو ایم ہی کے عسکری بازو سے تعلق رکھتے تھے اور لائنز ایریا سیکٹر سے جُڑے تھے“

ردّعمل جاننے کے لیے میرے رابطہ کرنے پر ایم کیو ایم کے سینیٹر فیصل سبزواری نے کہا ”یہ حقیقت ہے کہ تنظیم میں کچھ ناپسندیدہ عناصر ضرور آئے تھے مگر اُن کی غیر قانونی سرگرمیوں کا علم ہونے پر انہیں ایم کیو ایم سے خارج کر دیا گیا تھا۔ اُن میں سے بعض افراد کے بارے میں ہم بھی سنتے تھے کہ وہ جا کر شعیب خان سے مل گئے ہیں لیکن شعیب خان کی کسی بھی غیر قانونی سرگرمی، یا اُن کے کسی کام دھندے سے ایم کیو ایم کا کوئی لینا دینا کبھی نہیں رہا۔“

یہ سب کچھ بہت قریب سے دیکھنے والے کئی ذرائع کے مطابق، اسی دوران شعیب خان سیاسی جماعتوں کے عسکری بازو، پولیس اور خفیہ اداروں کے ’بڑوں‘ سے مل کر جوئے کے دھندے کو وسعت دیتے رہے

”راہ میں جو بھی آیا یا تو شعیب خان کے پیسے کا مقابلہ نہ کرسکا یا پھر شعیب خان طاقت کے بل پر سب سے نمٹتے ہوئے اڈے پر اڈہ کھولتے رہے۔ پولیس ہو یا ریاست کے دیگر ادارے، سب کے اعلیٰ ترین افسران تو بس اپنے حصے پر خوش رہے۔ یہاں تک ہوتا رہا کہ پولیس افسران اپنی پوسٹنگ کے لیے رشوت کے پیسے بھی شعیب خان سے مانگتے تھے۔“

فیاض خان بتاتے ہیں ”شعیب کو میمن جواریوں کے ذریعے کرکٹ بکس کے عالمی بادشاہ اور ممبئی انڈر ورلڈ کنگ داؤد ابراہیم کے بارے میں علم ہوا۔“

میمن سیٹھوں نے جو نقشہ کھینچا، اس سے شعیب کو سمجھ میں آ گیا کہ اگر کام، دھندا، طاقت اور پیسہ بڑھانا ہے تو داؤد ابرہیم تک جانا ہو گا، جو اُس وقت دبئی میں مقیم تھے

دھندا بڑھانے کا یہی خیال 1992 میں شعیب کو دبئی لے گیا، جہاں ایک مشترکہ دوست توفیق میمن نے شعیب خان کو داؤد ابراہیم تک پہنچا بھی دیا۔

نیوز لائن کے مطابق شعیب 1998 تک جوئے کا ایک اڈہ دبئی میں بھی چلاتے رہے لیکن ایک دن اُسی اڈے پر ایک خطیر رقم جیتنے والےعرفان گوگا سے جھگڑے کے بعد شعیب نے گوگا کو قتل کر دیا۔ گوگا کی لاش تو کبھی نہیں مل سکی مگر اُن کی گاڑی دبئی کے ہوائی اڈے کی پارکنگ میں کھڑی ملی۔

پی ایس ایف کراچی کی 1990 کی قیادت میں شامل رہنے والے میرے اور شعیب خان کے ایک مشترکہ دوست نے بتایا ”گوگا کی لاش مل بھی نہیں سکتی تھی۔ شعیب نے اُسے تیزاب سے بھرے ڈرم میں ڈال دیا تھا۔“

گوگا، داؤد ابراہیم کے بھی دوست تھے۔ داؤد ابراہیم کی پوچھ گچھ پر شعیب نے بتایا کہ گوگا دراصل داؤد ابراہیم کے بارے میں ایسی باتیں کر رہے تھے، جو اُن (شعیب) سے برداشت نہیں ہوئیں تو انھوں نے گوگا کو قتل کر دیا۔

تب تک داؤد ابراہیم کے لیے اُن ہی کے سب سے قریبی ساتھی چھوٹا راجن دشمن اور خطرہ بن چکے تھے اور داؤد کو بھی شعیب خان جیسے نئے قابلِ اعتبار اور ’ٹیلنٹڈ‘ دوستوں کی ضرورت تھی۔

جب گوگا کے قتل کا معاملہ سنگین ہونے لگا تو اس سے قبل کہ دبئی حکام شعیب کو گرفتار کر سکتے وہ فرار ہو کر واپس کراچی آ پہنچے۔

ادھر انڈین حکومت کی جانب سے بھی انتہائی مطلوب داؤد ابراہیم کو انٹرپول کے ذریعے دبئی سے گرفتار کرنے کی تیز ہوتی کوششوں نے داؤد ابراہیم کی دلچسپی بھی کراچی میں بڑھا دی تھی۔ نیوز لائن کے مطابق داؤد ابراہیم بھی کراچی آ گئے۔

اُدھر چھوٹا راجن مبینہ طور پر انڈین خفیہ اداروں سے ہاتھ ملا کر داؤد کے خلاف اپنا گروہ تشکیل دے چکے تھے اور بینکاک میں اپنے ایک با اعتماد ساتھی اور ٹاپ شوٹر روہت ورما کے اپارٹمنٹ میں مقیم تھے۔

داؤد ابراہیم کی فرمائش پر شعیب خان نے بھولو سے کہا کہ چھوٹا راجن کو ٹھکانے لگانا ہے۔

نیوز لائن کے مطابق بھولو ’کانٹریکٹ کلر‘ تھے۔ شعیب خان کی جانب سے ’سپاری‘ دیے جانے پر بھولو نے کوشش تو کی اور راجن کو ڈھونڈ کر حملہ بھی کروا دیا مگر راجن بچ نکلے لیکن اُن کے میزبان روہت ورما ہلاک ہو گئے۔

اس معاملے پر پہلے تو شعیب خان اور بھولو اور پھر داؤد ابراہیم اور شعیب خان میں زبردست تلخی بھی ہوئی۔ شعیب نے بھولو کو سپاری کی بقیہ رقم بھی ادا نہیں کی۔

داؤد ابراہیم سے ملاقات، اُن کے رہن سہن اور انداز و اطوار قریب سے دیکھے تو اس شاہانہ زندگی کی چکا چوند نے شعیب خان کو ایک نیا خواب دکھایا۔ اب شعیب بھی داؤد ابراہیم جیسا ’ڈان‘ بننا چاہتا تھا۔

نیوز لائن کے مطابق کراچی واپس پہنچ کر شعیب نے جُوئے کا سب سے بڑا اڈہ ہاکی کلب آف پاکستان کے قریب کھولا۔

حیرت انگیز طور پر جوئے کا یہ اڈہ سندھ میں پاکستانی فوج کے صدر مقام یعنی کور کماندڑ سندھ کے دفتر کے عین عقب میں ہاکی کلب آف پاکستان کے قریب واقع پاکستانی اخبار اُمت کے دفتر کی عمارت میں ایک علیحدہ حصے میں بنا۔

ایک غیر فوجی خفیہ ادارے کے افسر نے بتایا کہ ”ہاکی کلب میں رمی کلب کا لائسنس انگریز حکومت کے زمانے میں جاری ہوا تھا اور جب شعیب کے ہاتھ لگا تو کسی کاکا نامی شخص کے نام منتقل ہو چکا تھا۔ شعیب کی طاقت، دیدہ دلیری اور ہمت دیکھیے کہ پاکستانی فوج کی ناک کے عین نیچے وہ بھی اُمت جیسے اخبار کے دفتر کی عمارت میں جُوا خانہ کھولنا کھیل نہیں تھا، مگر شعیب نے سوچا کہ کرنا ہے تو بس کر دیا۔“

کراچی کے کئی اعلیٰ ترین پولیس افسران مجھ سے کہہ چکے ہیں کہ ’پورے شہر کو پتا تھا کہ ہاکی کلب میں جوئے کا اڈہ ہے اور یہ بھی معلوم تھا کہ کس کا ہے مگر کسی بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے نے اس اڈے کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا۔‘

لیکن چند ہی برسوں میں شعیب خان کو اُن کی اندھا دھند تیز رفتاری ہی لے ڈوبی۔

ایم کیو ایم ہو یا پیپلز پارٹی، شہید بھٹو گروپ (مرتضیٰ بھٹو کا سیاسی دھڑا) ہو یا جماعت اسلامی، قریباً ساری سیاسی قوتیں ہوں یا پھر فوج، پولیس اور دیگر ریاستی ادارے، شوبز اور انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کے نامور افراد ہوں یا معروف تجارتی و کاروباری شخصیات، کوئی حلقہ ایسا نہیں تھا جہاں شعیب خان کی رسائی، جان پہچان، یا تعلقات نہ ہوں مگر اب زمین کے اوپر کی دنیا تیزی سے بدل رہی تھی۔

12 اکتوبر 1999 کو نواز شریف کی دوسری حکومت گرا کر فوجی صدر جنرل مشرف اقتدار پر گرفت مضبوط کر چکے تھے اور اُن کی سب سے بڑی اتحادی الطاف حسین کی جماعت ایم کیو ایم تھی۔

نواز شریف دور میں ’آپریشن کلین اپ‘ میں کردار ادا کرنے والے پولیس افسران اب ہوا کا رخ دیکھتے ہوئے ایم کیو ایم کے قریب آ چکے تھے اور اس کے علاوہ ایم کیو ایم کے عسکری بازو کے ناراض اراکین اب شعیب خان کے ساتھ ملتے جا رہے تھے۔

چوہدری اسلم جیسے افسران ایم کیو ایم حکومت کے عہدیداروں کو شعیب خان اور اُن کے ساتھ جا ملنے والے ایم کیو ایم کے عسکری بازو کے اراکین کی سرگرمیوں کی تفصیلات کہانی کی طرح سنایا کرتے تھے۔

مگر شعیب خان کی پہنچ پولیس، ایم کیو ایم اور حکومت سب سے بہت اوپر تک تھی۔ دھندے میں بہت آگے بڑھ جانے والے شعیب خان کسی کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔

شعیب خان کے ایک قریبی ساتھی نے کئی برس قبل جیل کے ایک دورے کے دوران مجھے بتایا کہ ’شعیب خان تو یار ماری (دوستوں کے قتل) پر اتر آئے تھے اور یہی اُن کے زوال کی وجہ بنی۔‘

خود میری تحقیق کے مطابق بھی شعیب خان کے زوال کا آغاز بھولو کی پراسرار گمشدگی سے ہوا۔

حاجی ابراہیم بھولو سنہ 1990 تک کراچی میں پیپلز پارٹی کی طلبا تنظیم پی ایس ایف کے کارکن رہ چکے تھے۔ غصّہ ور اور جارحانہ رجحان کے حامل بھولو کے بارے میں پاکستانی حکام کا دعویٰ رہا ہے کہ وہ پی ایس ایف کے عسکری بازو کا حصّہ تھے پھر مرتضیٰ بھٹّو سے منسوب تنظیم ’الذوالفقار‘ سے وابستہ رہے اور پھر جنوبی افریقہ میں منشیات، ہنڈی حوالہ، اسمگلنگ اور دیگر جرائم کے منظم بھولو گینگ سے جُڑ گئے۔

نیوز لائن کے مطابق، جب جنوبی افریقہ میں جاری پاکستانی اور انڈین جرائم پیشہ گروہوں کی گینگ وار میں بھولو کا نام گونجنے لگا تو وہ داؤد ابراہیم کے لیے بھی کام کرنے لگے اور داؤد ابراہیم سے اُن کی دوستی ہی کی وجہ سے وہ دبئی میں شعیب خان سے ملے تھے۔

کراچی کے گزری تھانے میں درج ایف آئی آر کے مطابق خیابانِ غازی کے رہائشی حاجی ابراہیم بھولو اِسی علاقے کے خیابانِ سحر سے لاپتہ ہوئے۔

انگریزی اخبار ڈان کے مطابق آٹھ جنوری 2001 کو بھولو شعیب خان سے ملنے گئے تھے مگر پُراسرار طور پر گمشدہ ہو گئے۔ بھولو کی پُر اَسرار گمشدگی کا معاملہ حل نہیں ہوا تو جنوبی افریقہ میں بھولو کے گینگ نے معاملہ انجام تک پہنچانے کی کوشش کی۔

میرے، بھولو اور شعیب خان کے ایک مشترکہ دوست اور ایک سابق طالبِ علم رہنما نے بتایا کہ ’یہاں کہ کچھ لوگ داؤد ابراہیم تک جا پہنچے۔‘

نیوز لائن کے مطابق شعیب خان کراچی میں داؤد ابراہیم کے لیے بھی بھتّے کا دھندا چلاتے رہے، مگر بھولو کے حملے میں چھوٹا راجن کے بچ جانے کی وجہ سے شعیب خان اور داؤد ابراہیم کے تعلقات پہلے جیسے نہیں رہے تھے۔

ایک سابق طالبِ علم رہنما نے کہا کہ ’بھولو کی گمشدگی پر غصہ ایسا تھا کہ داؤد ابراہیم کو بھی اندازہ ہو گیا کہ معاملہ آسانی سے نہیں سلجھے گا۔ شعیب خان جو کبھی داؤد ابراہیم کا اثاثہ رہے تھے مگر تب تک وہ ایک بوجھ بن چکے تھے۔‘

دوسری طرف اسی معاملے پر کراچی پولیس میں بھی شعیب سے ناراضگی بڑھنا شروع ہوئی۔ کراچی میں پولیس افسران کا ایک گروہ، جس میں چوہدری اسلم وغیرہ شامل تھے، یہ سب بھی بھولو کے قریبی دوست تھے۔ بھولو کا گینگ اُن پولیس افسران پر شعیب خان جیسی ہی مہربانیاں کیا کرتا تھا۔

بھولو کی گمشدگی کے بعد چوہدری اسلم اور راؤ انوار جیسے افسران کا اندازہ تھا کہ بھولو قتل کر دیے گئے ہیں۔ اِن پولیس افسران کو شبہ تھا کہ بھولو کے قتل میں سو فیصد شعیب خان کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔

کراچی پولیس کے افسران میں شامل ایس ایس پی راؤ انوار نے تو اب بھی مجھ سے گفتگو میں تسلیم کیا کہ انہیں سو فیصد یقین ہے کہ بھولو کا قتل شعیب خان نے کروایا۔

تیسری طرف شعیب خان کی ایم کیو ایم کے ساتھ مخاصمت بھی بڑھتی جا رہی تھی۔

ایک سرکاری عہدیدار کے مطابق ”شعیب خان، جو پیسے کے بل پر پولیس افسران کی پوسٹنگز اور ٹرانسفرز تک کروا سکتے تھے، ایک افسر کی پوسٹنگ کے لیے گورنر سندھ عشرت العباد کے ایک رشتہ دار کو تیس لاکھ روپے دیے مگر جب تعیناتی نہ ہو سکی تو شعیب کے لہجے کی سختی نے ایم کیو ایم کے حلقوں میں بھی اُن کے لیے گنجائش کم کرنا شروع کر دی۔“

جب اس الزام کی تردید یا تصدیق کے لیے میں نے خود سابق گورنر سندھ اور ایم کیو ایم رہنما عشرت العباد سے اُن کا موقف جاننا چاہا، تو انہوں نے مجھ سے ہی سوال پوچھا ”تو کیا جس افسر کی تعیناتی کے لیے پیسے دیے گئے تھے وہ ہو گئی؟ نہیں ہوئی ناں۔۔ تو یہی کافی ہے سمجھنے کے لیے کہ یہ سب کہانی ہے۔“

داؤد ابراہیم، ایم کیو ایم اور کراچی پولیس، سب ناراض ہو رہے تھے اور ایسے وقت میں بھی شعیب خان دوستوں کو دشمن بنا رہے تھے۔

سینٹرل پولیس آفس کراچی میں 2009 تک تعینات رہنے والے ایک اعلیٰ افسر نے مجھے بتایا ”معاملہ چوہدراہٹ کا تھا، طاقت اور پیسے کا۔ ایک وقت ایسا آیا تھا کہ شعیب کا نام بھتّے سے بھی جڑنے لگا۔“

بہرحال زمین پر اس بدلتے ہوئے ماحول میں شعیب خان کے برے دن آ پہنچے تھے اور پہلا برا دن تھا 21 فروری 2001 کا

اس روز شعیب کو بھولو کیس میں ضمانت کے لیے پیشی پر عدالت آنا تھا مگر بدلے ہوئے حالات کے پشِ نظر شعیب خان نے اپنے لیے اضافی سکیورٹی کو یقینی بنانا چاہا۔

نیوز لائن، تفتیش کاروں اور کئی دیگر ذرائع کے مطابق اس اضافی سکیورٹی کے لیے شعیب خان نے نیم فوجی ادارے رینجرز کے افسران سے مدد مانگی اور انہیں سکیورٹی دی گئی مگر اُن سے پہلے وہاں بھولو گینگ کے لوگ بھی موجود تھے، جو بھولو کی گمشدگی پر ناراض تھے۔

یہ تو پتا نہیں چل سکا کہ پہل کس طرف سے ہوئی مگر جب شعیب خان رینجرز اہلکاروں اور اپنے مسلح حامیوں کے ساتھ عدالت کے احاطے میں داخل ہوئے تو بھولو کے حامیوں اور شعیب کے ساتھیوں میں تصادم ہو گیا۔

رینجرز اہلکاروں نے بھی گولی چلا دی۔ شعیب تو حملے میں محفوظ رہے مگر گولیاں لگنے سے کچھ افراد کے زخمی ہونے پر رینجرز افسران کو کورٹ مارشل کا سامنا کرنا بڑا، جس کے نتیجے میں انہیں ملازمت سے سبکدوش کر دیا گیا۔

کراچی پولیس کے افسر راؤ انوار نے بھی مجھ سے گفتگو میں رینجرز افسران کے کورٹ مارشل کی تصدیق کی۔ نیوز لائن اور دیگر ذرائع نے بھی رینجرز افسران کے کورٹ مارشل کی تصدیق کی۔

انٹرنیٹ پر موجود مواد کے مطابق ’ان افسران کا شعیب کی اُن نجی محفلوں میں آنا جانا بھی تھا (جہاں مجرے ہوا کرتے تھے) اور شعیب کی حفاظت کے لیے رینجرز اہلکاروں کا عدالت جانا ان افسران کا ذاتی فیصلہ تھا۔‘

یہ سب ہوا تو شعیب خان کو بھی احساس ہو گیا کہ باہر کی دنیا میں چاروں طرف اتنے مخالفین اور دشمنوں کی موجودگی خطرناک ہو سکتی ہے اور جیل کو محفوظ سمجھتے ہوئے شعیب خان نے 14 جون 2001 کو خود کو حکام کے حوالے کردیا۔

حکام نے شعیب خان کو لانڈھی جیل میں رکھنے کا فیصلہ یہی سوچ کر کِیا تھا کہ وہاں شعیب قدرے محفوظ رہیں گے مگر چند ہی ماہ میں شعیب خان پر دشمنوں نے دوسرا وار کیا۔

میری تحقیق کے مطابق 25 اگست 2001 کو شعیب کو سٹی کورٹ میں ایک پیشی کے بعد واپس جیل منتقل کیا جا رہا تھا۔ خصوصی اور غیر معمولی انتظامات کے تحت چار مسلح اہلکار، جن میں سب انسپیکٹر غلام دستگیر بھی شامل تھے، اُس وین کے عقبی حصّے میں ہی تعینات تھے، جس میں خُود شعیب خان بھی سوار تھے جبکہ ایک اور سب انسپیکٹر کی قیادت میں آٹھ اہلکار اُس اضافی پولیس وین میں شعیب خان کی حفاظت پر مامور تھے جو شعیب خان کو جیل واپس لے جانے والی وین کے پیچھے پیچھے آرہی تھی۔

پولیس افسر فیاض خان کا کہنا ہے کہ اُن کی تفتیش کے مطابق ’بھولو گینگ کے سربراہ منظر عباس نے بھولو کی گمشدگی کا بدلہ لینے کے لیے اب شعیب کو قتل کروانے کی ٹھان لی تھی اور اس کے لیے لیاری گینگ وار کے سرغنہ رحمٰن ڈکیت کو دو کروڑ روپے کی سپاری دی گئی تھی۔ دو میں سے ایک کروڑ روپے کی ادائیگی ہو چکی تھی اور ایک کروڑ کام ہو جانے پر دیے جانے تھے۔‘

جیسے ہی یہ قافلہ نشانے پر پہنچا رحمٰن اور اُس کے پانچوں دیگر مسلح ساتھیوں نے قطار بنا کر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔

حملے میں شعیب خان اور وین میں سوار کئی پولیس اہلکار شدید زخمی ہوئے جبکہ شعیب خان کو لے جانے والی وین میں سوار غلام دستگیر سمیت چاروں پولیس اہلکار تو موقع پر ہی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

فیاض خان نے بتایا کہ ’شعیب خان کو حملے میں زخمی ہونے کا فائدہ یہ ہوا کہ انہیں طبی بنیادوں پر عدالت سے ضمانت مل گئی۔‘

بُرے دن آ تو چکے تھے مگر ’ڈان‘ بن جانے کے خوابوں کے پیچھے بھاگتے شعیب خان کے ہاتھوں قتل و غارت اور جرم کا سلسلہ تب بھی تھم نہیں سکا۔

اب شعیب خان نے زمینوں اور جائیدادوں پر قبضے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا۔ اسی قبضے کے سلسلے میں ایک روز شعیب خان منور سہرودری سے جا لڑے۔

پیپلز پارٹی رہنما منور سہروردی، اپنی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو کے انتہائی با اعتماد قریبی ساتھی اور چیف سکیورٹی افسر بھی تھے۔ جب شعیب خان، منور سہروردی سے الجھے، تب کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ پیپلز پارٹی سے اتنا بڑا جھگڑا مول لے سکتے ہیں۔

شعیب خان کا منور سہروردی سے جھگڑا اپنی جگہ تھا مگر زیادہ غصہ اس بات پر تھا کہ وہ بھولو کے دوستوں کے حامی تھے۔

فیاض خان کے مطابق ’شعیب خان نے پیپلز پارٹی کے مرتضیٰ بھٹو گروپ کے قریب رہنے والے اور عسکری بازو الذوالفقار سے جڑے چند سرگرم لوگوں (عاشق حسین کھوسو اور نیاز) سے سودا کیا اور انھیں منور سہرودی کے قتل پر آمادہ کیا۔‘

پہلے شعیب نے اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے عاشق کھوسو اور نیاز وغیرہ کو ’تحفے‘ میں انسپیکٹر ذیشان کاظمی کے قتل کا موقع دیا تاکہ وہ میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل اور مرتضیٰ بھٹو کے عسکری بازو کے سب سے اہم رکن علی سنارا کی گرفتاری کا بدلہ لے سکیں۔

میر مرتضیٰ بھٹو کے یہ حامی عاشق کھوسو اور نیاز وغیرہ سمجھتے تھے کہ اس سب کچھ میں انسپیکٹر ذیشان کاظمی مرکزی کردار رہے تھے۔

جس کراچی آپریشن کا رُخ 1992 میں الطاف حسین کی ایم کیو ایم کی جانب مُڑ گیا تھا، اُس کے سب سے نامور کردار انسپیکٹر ذیشان کاظمی تھے۔ اگرچہ ذیشان کاظمی کے قتل پر شبہے کی انگلی ایم کیو ایم ہی کی جانب اٹھی مگر کئی سال بعد گرفتار ہونے والے ملزمان کی تفتیش سے راز کھلا کے حقیقت کیا تھی اور دراصل انسیپکٹر ذیشان کاظمی کا قتل عاشق کھوسو اور نیاز وغیرہ نے کِیا۔

فیاض خان کے مطابق انسپیکٹر ذیشان کاظمی کو شعیب خان نے گزری میں واقع خیابانِ سحر میں اپنے گھر بلوایا اور دھوکے سے انہیں عاشق کھوسو اور نیاز کے حوالے کر دیا۔

ڈان اخبار کے مطابق انسپیکٹر ذیشان کاظمی کی لاش منگل 14 اکتوبر 2003 کو رات گئے شہر کے مشرقی علاقے پی ای سی ایچ سوسائٹی کے بلاک ٹو کی خالد بن ولید روڈ پر ملی۔

شعیب خان کی جانب سے وعدہ پورا کیے جانے پر عاشق کھوسو اور نیاز نے اپنا عہد بھی نبھایا اور ساتھیوں کے ساتھ مل کر 17 جون 2004 کو تھانہ جمشید کوارٹرز کی حدود میں شہر کے بالکل وسط یعنی گرومندر کے قریب گولیاں مار کر منور سہروردی کو بھی قتل کروا دیا۔

پولیس افسر راؤ انوار نے بھی تصدیق کی کہ ’منور سہروردی اور ذیشان کاظمی دونوں کے قتل میں سو فیصد شعیب خان کا ہاتھ تھا۔‘

مخالفین ایک ایک کر کے شعیب خان کے خلاف صف آرا ہونے لگے اور تمام تر تعلقات کے باوجود بھی شعیب خان کے خلاف مقدمات پر مقدمات تو درج ہوتے رہے مگر کوئی ٹھوس کارروائی نہیں ہو رہی تھی۔

سابق گورنر عشرت العباد نے بھی تصدیق کی کہ ’جب ہم نے شہر میں جوئے سٹے، بھتے اور جرائم کے خلاف کام کرنا چاہا تو پتا چلا کہ پولیس شعیب خان صاحب کے خلاف سرکاری احکامات سن لیتی ہے اور کارروائی نہیں کرتی۔‘

مگر سنانے والے کہانی کا دوسرا رخ بھی بیان کرتے ہیں۔

شعیب خان کے قریب رہنے والے ایک سیاستدان نے بتایا کہ ایم کیو ایم کے عسکری بازو کے ناراض کارکن باہر ہوں یا جیل میں بند، سب ہی شعیب خان کے لیے کام کرنے لگے تھے۔

میرے ایک ذریعے نے بتایا کہ ’ایک موقع پر شعیب خان نے شہر کی پولیس کے سربراہ کے ذریعے گورنر عشرت العباد کو پیغام بھجوایا کہ اگر عرشی سینما، کلفٹن اور ہاکی کلب سمیت شہر میں ان کے چار جوئے کے اڈے کھلے رہنے دیے جائیں تو وہ کروڑوں روپے کی ادائیگی کو بھی تیار ہیں۔‘

اردو پوائنٹ نے چار فروری 2005 کو اپنی ویب سائٹ پر بتایا کہ شعیب خان کی جانب سے مفاہمت کی پیشکش پر لندن ایم کیو ایم نے انکار کر دیا۔

دوسری جانب گورنر سندھ کی سربراہی میں صوبائی انتظامیہ نے شعیب خان کے گرد گھیرا تنگ کرنا تو چاہا، مگر ہو نہیں سکا۔

ڈاکٹر عشرت العباد بتاتے ہیں کہ ’ہمیں پتا چلا کہ پولیس کے کچھ افسران کے شعیب خان سے بہت اچھے تعلقات ہیں۔ یہاں تک ہوا کہ جب میں نے اور آئی جی نے ایک بہت ہی سینیئر افسر کو کارروائی کا ٹاسک دیا اور انہوں نے کئی بار شعیب خان کے اڈوں میں داخل ہونے کی کوشش کی تو اس افسر کو 14 مرتبہ توہینِ عدالت کی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا۔‘

عشرت العباد نے کہا کہ ’یہ سب ہوا تو میں نے پھر صدر جنرل مشرف سے ملاقات کا وقت مانگا۔ دورانِ ملاقات میں نے صدر مشرف سے کہا کہ ہم جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کارروائی کرنا چاہتے ہیں۔ جنرل مشرف نے مجھ سے کہا کہ بالکل کیجیے۔۔۔ کہاں رکاوٹ ہے؟ تو میں نے صدر صاحب کو بتایا کہ ایک تاثر یہ ہے کہ جن جرائم پیشہ عناصر کے خلاف ہم کارروائی کرنا چاہتے ہیں، انہیں ریاست میں چہیتے کی حیثیت حاصل ہے اور ریاستی ادارے ان کے پشت پناہ ہیں۔ جب تک یہ تاثر دور نہیں ہوگا، پولیس کارروائی سے ہچکچاتی رہے گی۔‘

اسلام آباد میں تعینات رہنے اور ریاست کی اعلیٰ ترین سطح تک رابطے رکھنے والی ایک شخصیت نے مجھے بتایا کہ ’عشرت العباد کی اس ملاقات کے بعد صدر مشرف نے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل احسان الحق کو کراچی بھیجا تھا۔‘

ڈاکٹر عشرت العباد نے کہا کہ ’جنرل مشرف نے افسر کو ہدایت کی آپ خود جائیں اور تمام ریاستی مشینری اور تمام متعلقہ افسران و محکمہ جات کو بالکل واضح ہدایات دیں کہ کسی کو بھی ریاست یا حکومت کی پشت پناہی یا سرپرستی حاصل نہیں۔ کوئی جرائم میں ملوث ہوتا ہے تو اس کے خلاف مکمل قانونی کارروائی ہوگی۔‘

عشرت العباد کے مطابق اُن کی اور جنرل مشرف کی اس ملاقات کے بعد آرمی چیف کی جانب سے حکومتِ سندھ کو مکمل فری ہینڈ دیا گیا۔

میرے ذرائع کے مطابق آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل احسان الحق کی کراچی میں افسروں کی دی گئی واضح ہدایات کے بعد پورے سسٹم نے بھرپور کارروائی شروع کی۔

اگر اُس وقت کے ذرائع ابلاغ کا جائزہ لیا جائے تو عجیب ہی کہانی سامنے آتی ہے۔

شعییب خان کے پورے گینگ اور ساتھ کام کرنے والے افراد (جن میں ایسے ایم کیو ایم کارکنان بھی شامل تھے جن پر قتل و غارت اور دہشتگردی کے کئی کئی مقدمات درج تھے) پولیس نشانے پر تھے۔ آئے دن پولیس چھاپوں اور انتہائی مشکوک پولیس مقابلوں کا ایک بار پھر آغاز ہوا۔

ایسے فوجی و پولیس افسران کے تبادلوں اور معطلی کا سلسلہ بھی شروع ہوا، جنہیں شعیب خان کا ہمدرد، قریبی دوست یا شعیب خان کی مہربانیوں سے مستفید ہونے والے افسران سمجھا جاتا تھا۔ حتٰی کہ فوج کے ایک انتہائی حساس شعبے سے تبادلہ ہو کر سندھ میں جیل کے آئی جی تعینات کیے جانے والے ایک بریگیڈیئر سمیت کم از کم تین بریگیڈیئرز کا تبادلہ کیا گیا۔

حالات اتنی تیزی سے بگڑے کہ بھولو کیس میں طبّی بنیادوں پر جیل سے ضمانت پر رہا ہوتے ہی شعیب خان نے کراچی سے نکل کر روپوش ہو جانے میں ہی عافیت جانی مگر ریاست بھر کے ادارے اُن کی تلاش میں سرگرداں رہے۔

پھر شعیب خان کے خلاف پولیس کے روایتی حربے بھی شروع ہوئے۔

ابھی یہ سب کچھ چل ہی رہا تھا کہ 29 دسمبر 2004 کو کراچی کی رپورٹنگ کرنے والے تقریباً تمام قومی ذرائع ابلاغ سمیت انٹرنیشنل میڈیا نے ایک چونکا دینے والی خبر دی۔ یہ پنجاب کے شہر لاہور سے شعیب خان کی گرفتاری کی خبر تھی۔

یہ اتنی بڑی خبر تھی کہ اس کی اشاعت کے لیے سرکار نے تمام بڑے افسران کی مشترکہ پریس کانفرنس کا اہتمام کیا۔ ہنگامی پریس کانفرنس میں شریک تمام حکام نے فخریہ یہ اعلان تو کیا کہ شعیب خان کو گرفتار کر لیا گیا مگر یہ تفصیلات نہیں بتائی گئیں کہ انہیں کیسے گرفتار کیا گیا۔

لیکن مجھے یہ تفصیلات کراچی پولیس میں آج بھی تعینات میرے انتہائی با اعتماد ذرائع نے بتائیں۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ ’شعیب خان روپوش تو ہو گئے مگر اُن کے جوئے کے اڈّے پھر بھی کسی نہ کسی طور چلتے رہے۔ بگڑے ہوئے حالات میں شعیب تو اپنا فون بند کر چکے تھے مگر ملازمین کے فون کھلے ہوئے تھے۔ ایک روز شعیب نے کلفٹن کے اڈے کے مینیجر سے رابطہ کرنے کی غلطی کر ڈالی۔‘

میرے ذرائع نے بتایا کہ شعیب لاہور کینٹ ایریا میں اُسی فوجی افسر کے گھر پر تھے، جن کی مدد سے وہ رینجرز اہلکاروں کو اپنی پیشی کے دن سٹی کورٹ لے کر گئے تھے۔

’سراغ ملتے ہی پولیس افسر چوہدری اسلم کو شعیب خان کی گرفتاری کا حکم دیا گیا اور چوہدری اسلم اپنے سب سے بااعتماد ساتھی پولیس افسر عرفان بہادر کے ساتھ لاہور پہنچے۔‘

ایس ایس پی عرفان بہادر اب کراچی کے ضلع شرقی میں پولیس کے سربراہ ہیں اور کافی عرصے پہلے مجھ سے گفتگو میں تصدیق کر چکے ہیں کہ شعیب خان کو گرفتار کرنے کے لیے وہ بھی چوہدری اسلم کے ہمراہ لاہور پہنچے تھے مگر جب عرفان بہادر نے اس سے زیادہ کچھ بھی بتانے سے گریز کیا تو لاہور کے ایک کرائم رپورٹ نے میری مدد کی۔

انھوں نے بتایا کہ ’کراچی پولیس کی ٹیم کینٹ ایریا میں داخل نہیں ہو سکتی تھی۔ لاہور کے پولیس حکام دو طرح کے موقف بیان کرتے ہیں۔ پہلا یہ کہ عدالت پیش کیے جانے کی شرط پر شعیب کو کراچی پولیس حکام کے حوالے کیا گیا اور دوسرے موقف کے مطابق شعیب کے کینٹ ایریا سے باہر نکلنے کا انتظار کیا گیا اور باہر آتے ہی انہیں دھر لیا گیا۔‘

گرفتاری کیسے بھی ہوئی مگر اب شعیب خان کراچی پولیس کی تحویل میں تھے اور اب مسئلہ انہیں بحفاظت کراچی پہنچانے کا تھا۔

لاہور کے کرائم رپورٹر نے بتایا کہ شاید سندھ میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ پہلے شعیب کو کراچی پہنچایا جائے اور پھر اُن کی گرفتاری کی خبر عام کی جائے ورنہ شعیب خان کے ساتھ ساتھ انہیں حراست میں لینے والی کراچی پولیس کی ٹیم کی جان بھی خطرے میں پڑ سکتی تھی۔

’مگر مسئلہ یہ تھا کہ اگر لاہور سے بذریعہ ہوائی جہاز لایا جاتا تو ٹکٹ تو شعیب خان کے نام سے بنتا اور خبر پھیل سکتی تھی۔ ریل سے بھی شعیب خان کو کراچی لے جانا حکام کو محفوظ نہیں لگ رہا تھا۔ اب ایک ہی طریقہ باقی بچتا تھا اور وہ تھا بذریعہ سڑک یعنی گاڑی سے کراچی تک کا سفر۔‘

ایک اور سرکاری عہدیدار کے مطابق کراچی میں آئی جی سندھ کمال شاہ اور گورنر عشرت العباد دونوں ہی پوری رات جاگتے رہے تاکہ شعیب کی کراچی منتقلی کے اس سفر کی نگرانی خود کر سکیں۔

کراچی پہنچنے پر شعیب خان کو انتہائی کڑے حفاظتی انتظامات میں جیل منتقل کیا گیا، جہاں محض 28 دن بعد یعنی 26 اور 27 جنوری 2005 کی درمیانی شب جیل حکام نے دعویٰ کیا کہ ’دل کا دورہ پڑنے‘ سے شعیب خان کی موت ہو گئی ہے۔

بی بی سی اردو نے 27 جنوری 2005 کو بتایا کہ کراچی جیل کے ڈپٹی سپرنٹینڈینٹ امان اللّہ نیازی کا کہنا تھا کہ شعیب خان دو دن سے بیمار اور جیل کے ہسپتال میں داخل تھے۔ جمعرات 27 جنوری کی صبح تین بجے طبیعت بگڑ جانے پر انہیں جناح ہسپتال کے ادارۂ امراض قلب منتقل کیا جا رہا تھا کہ وہ راستے میں دم توڑ گئے۔‘

ڈان کی 28 جنوری 2005 کی اشاعت کے مطابق شعیب کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے مردہ خانے منتقل کیا گیا، جہاں اسے رات گئے تک رکھا گیا اور دوپہر کو ایک جوڈیشل مجسٹریٹ ہسپتال پہنچے لیکن اُن کا کہنا تھا کہ معاملہ اُن کے دائرۂ عمل میں نہیں آتا۔

شام کو آنے والے ایک اور مجسٹریٹ نے پوسٹ مارٹم پر مامور میڈیکل بورڈ سے کہا کہ وہ صرف تب ہی پوسٹ مارٹم کی اجازت دے سکتے ہیں، جب تمام قانونی تقاضے پورے کر لیے جائیں۔

ڈان اخبار کے مطابق شعیب خان کے اہلِ خانہ اور خاندان نے شبہ ظاہر کیا کہ شعیب خان کو زہر دے کر ہلاک کیا گیا اور اگر پوسٹ مارٹم اور لیبارٹری میں ٹیسٹ کے ذریعے غیر جانبدارانہ تحقیات کی جائیں تو پتا چل جائے گا کہ شعیب خان کی موت طبعی یا فطری نہیں تھی۔

تحقیقاتی صحافیوں ہوں یا پولیس اور فوجی و غیر فوجی خفیہ اداروں کے افسران، سیاستدان ہوں یا پھر وکلا اور پولیس سرجنز، جن سے بھی میری گفتگو ہوئی، انھوں نے 40 سالہ شعیب خان کو دل کا دورہ پڑنے سے ہونے والی موت کو انتہائی پُر اَسرار اور مشکوک قرار دیا۔

تقریباً سب نے ہی شعیب خان کے خاندان کا یہ الزام دہرایا کہ انہیں جیل میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ قتل کیا گیا۔

ایک سرکاری عہدیدار کی گفتگو میں یہ بھی سامنے آیا کہ ’صرف شعیب خان ہی نہیں بلکہ منصوبے کے تحت اُس وقت اسی کراچی جیل میں قید ایم کیو ایم حقیقی کے سربراہ آفاق احمد کو بھی قتل کیا جانا تھا۔‘

آفاق احمد نے مجھے تصدیق کی کہ ’منصوبہ تو یہی تھا۔‘ آفاق احمد نے مزید کہا کہ جب شعیب کو سیل سے نکالا گیا تو وہاں اور بھی قیدی تھے۔ لوگوں نے بتایا کہ شعیب تو بالکل صحتمند تھا۔‘

مگر شعیب خان کو کوئی کیوں ’قتل‘ کروائے گا؟ میرے اس سوال کے جواب میں آفاق احمد نے کہا کہ ’ایم کیو ایم کے جو عسکری بازو کے لوگ پارٹی سے اختلافات کر رہے تھے، انہیں ایم کیو ایم سے نکالا جاتا تھا تو شعیب خان انہیں اپنے ساتھ شامل کر لیتے تھے۔ اس پر متحدہ نے جیل حکام سے شعیب کو قتل کرنے کی فرمائش کی اور اس فرمائش پر جیل افسران پیر شبیر اور امان اللّہ نیازی آپس میں لڑے کہ یہ کام ہم کر دیں گے۔‘

جب میں نے آفاق احمد کے اس موقف پر ردعمل جاننے کے لیے اُس وقت کے وزیرِ داخلہ اور ایم کیو ایم رہنما رؤف صدیقی سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ’میں تو آج پہلی بار سن رہا ہوں کہ ایم کیو ایم کا نام آیا۔ شعیب خان کے بھائیوں نے تو مجھ سے ملاقات بھی کی تھی۔ انہوں نے تو مجھ سے ایسا کچھ نہیں کہا۔ آفاق جو دعویٰ کر رہے ہیں کہ انہیں بھی مارا جانا تھا تو وہ تو زندہ ہیں ناں۔۔۔ یہ سب کہانیاں ہیں۔‘

شعیب خان کی پُر اَسرار موت پر آفاق احمد کے اس موقف پر کہ ’یہ قتل تھا، جو متحدہ کی فرمائش پر کیا گیا‘ پارٹی کا ردعمل لینے کے لیے میں نے سینیٹر فیصل سبزواری سے بات کی۔

انھوں نے کہا کہ ’ایم کیو ایم کو کیا سیاسی فائدہ ہو سکتا ہے کسی انڈر ورلڈ ڈان کی موت سے؟ ہاں یہ حقیقت ہے کہ ایم کیو ایم میں بعض ناپسندیدہ عناصر تھے جنہیں ہم نے نکال دیا تھا اور وہ شعیب خان کے ساتھ کام کر رہے تھے۔ شعیب خان کی گرفتاری مقدمات کے تحت ہی ہوئی اور یہ بھی سب کے علم میں ہے کہ ان کے اپنے سے بڑے انڈر ورلڈ ڈان سے تنازعات تھے۔ ہاں جیل میں موت کی تحقیقات ضرورہونی چاہیے تھیں لیکن ایم کیو ایم کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔‘

سابق گورنر سندھ عشرت العباد نے بھی آفاق احمد کے موقف پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ سب کہانیاں ہیں۔ اگر شعیب خان کو مارنا ہی ہوتا تو گرفتاری کے بعد راستے میں مار سکتے تھے۔ اتنا لمبا معاملہ کیوں رکھتے کہ لاہور سے لائیں اور کراچی میں جیل میں رکھیں۔‘

کچھ مقدمات میں شعیب خان کے وکیل رہنے والے قانون دان خواجہ نوید نے بھی مجھے بتایا کہ شعیب خان کی موت سے ایک دن قبل جب وہ کسی مقدمے کے سلسلے میں جیل گئے تو انہوں نے شعیب خان کو صحیح سلامت دیکھا تھا۔

لیکن پھر شعیب خان کے خاندان نے اُن کی اچانک، پراسرار اور متنازع موت پر عدالتی کارروائی یا قانونی چارہ جوئی کیوں نہیں کی؟

اس سوال کا جواب جاننے کے لیے میں بڑی کوشش کے بعد دبئی میں مقیم شعیب خان کے سب سے بڑے بھائی جاوید علی خان تک پہنچا۔

شعیب خان کے بھائی نے مجھ سے بات کرنے سے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ ’ہم بڑے دکھ سے گزرے ہیں۔ یہ بڑی تکلیف دہ یادیں ہیں۔ اب ہم بیس برس پرانے زخموں کو کریدنا نہیں چاہتے۔‘

شعیب خان کا خاندان تو اُن کی پراسرار موت پر خاموش رہنا چاہتا ہے مگر جو شعیب خان کی وجہ سے مارے گئے، اُن کے خاندان خاموش نہیں رہنا چاہتے۔

تو اس سیریز کی اگلی قسط میں شعیب خان کی وجہ سے قتل ہونے والے ایک مقتول کے خاندان سے آپ کی ملاقات ہو گی۔ اگلے ہفتے اِن ہی صفحات پر۔۔۔

بشکریہ بی بی سی اردو

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close