احمد الغفیری اس فضائی حملے میں محفوظ رہے تھے، جس میں اُن کا پورا خاندان تباہ و برباد ہو گیا۔ جب غزہ پر اسرائیل کی طرف کیے گئے ایک فضائی حملے میں اُن کے خاندان کے 103 افراد مارے گئے تو اُس وقت اپنے گھر سے 80 کلومیٹر دور مقبوضہ مغربی کنارے کے ایک قصبے ’اریحا‘ میں پھنسے ہوئے تھے۔
احمد الغفیری تل ابیب میں ایک تعمیراتی جگہ پر مزدوری کر رہے تھے جب حماس، اسرائیل تنازع کی ابتدا ہوئی۔
اسرائیل کی طرف سے غزہ پر حملے اور راستے بند ہونے کی وجہ سے وہ اپنی اہلیہ اور تین بچوں کے پاس واپس آنے کے قابل نہ رہے۔
اس کے بعد جب بھی فون کا رابطہ بحال ہوتا تو وہ تقریباً روزانہ ہی فون پر اپنی اہلیہ اور بچوں سے بات کرتے تھے۔ جب آٹھ دسمبر کو اُن کے گھر والے ایک اسرائیلی فضائی حملے کی لپیٹ میں آئے تو وہ اُس وقت بھی اپنی اہلیہ شرین سے فون پر بات کر رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’وہ جانتی تھیں کہ وہ مر جائیں گی۔ انھوں نے کہا کہ اگر مجھ سے کوئی کبھی خطا سرزد ہو گئی ہو تو مجھے معاف کر دینا۔ میں نے انھیں کہا کہ ایسا کہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اور یہ ہم دونوں کی آخری فون کال تھی۔‘
اُن کے چچا کے گھر پر ہونے والے اس بڑے اسرائیلی فضائی حملے میں اُن کی اہلیہ اور ان کی تین چھوٹی بیٹیاں طالا، لانا اور ناجلا بھی وفات پا گئیں۔
اس حملے میں احمد کی والدہ، اُن کے چار بھائی اور ان کے خاندان کے افراد اور اس کے علاوہ اُن کے کزن، ماموں، چچا، درجنوں پھوپھیاں، خالائیں اور چچیاں بھی ہلاک ہو گئیں۔
اس حملے میں احمد کے خاندان کے 100 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ دو ماہ سے زیادہ وقت گزرنے کے باوجود ابھی تک چند افراد کی لاشیں ملبے کے نیچے ہی دبی ہوئی ہیں۔
گذشتہ ہفتے انھوں نے اپنی ہلاک ہونے والی ایک بیٹی کی سالگرہ منائی۔ اگر ان کی بیٹی ناجلہ زندہ ہوتیں تو اِس وقت وہ دو برس کی ہوتیں۔ احمد ابھی بھی اس نقصان کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
وہ اپنے بچوں کے لاشیں نہیں چھو سکے اور جلد بازی میں کی جانے والی اُن کی تدفین میں بھی شریک نہیں ہو سکے۔ وہ آج بھی خیالوں ہی خیالوں میں اپنے بچوں سے باتیں کر رہے ہوتے ہیں۔ چہرے پر آنسوؤں کی لڑیوں میں اُن کے چہرے پر کسی قسم کے احساسات نظر نہیں آتے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’میری بچیاں میرے لیے ننھے پرندوں کی طرح ہیں۔ مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ میں ایک خواب دیکھ رہا ہوں۔ مجھے ابھی بھی یقین نہیں آ رہا ہے کہ ہمارے ساتھ کیا ہوا ہے۔‘
اب انھوں نے اپنے فون اور لیپ ٹاپ سے اپنی بچیوں کی تصاویر ہٹا دی ہیں۔ انھوں نے اپنے بچ جانے والے رشتہ داروں اور پڑوسیوں سے اس واقعے سے متعلق ٹکڑوں میں کچھ کہانیاں سنی ہیں، جنہیں اب وہ سنا رہے ہیں۔
اُن کے خاندان کے گھر کے داخلی دروازے پر پہلے ایک میزائل آ کر گرا۔ اُن کے مطابق ’اس کے بعد میرے گھر والے جلدی سے گھر سے نکل گئے اور پھر وہ میرے چچا کے گھر چلے گئے۔ کوئی 15 منٹ بعد ایک جنگی طیارے نے اس گھر کو بھی نشانہ بنایا۔‘
یہ چار منزلہ عمارت جہاں احمد کے گھر والے اور رشتہ دار مارے گئے یہ غزہ سٹی کے زیتون کے علاقے میں صحابہ میڈیکل سینٹر کے کونے میں واقع ہے۔
اب یہاں ملبے کا ایک ڈھیر ہے۔ یہاں اس ملبے پر مختلف طرح کے رنگ، ایک سبز پلاسٹک کپ اور مٹی میں اٹے کپڑوں کے ٹکڑے ملے ہیں۔
ایک کار کا ٹوٹا ہوا ڈھانچہ قریب ہی کنکریٹ کی چٹانوں کے نیچے دبا ہوا ہے۔
احمد کے زندہ بچ جانے والے رشتہ داروں میں سے ایک حامد الغفیری نے بی بی سی کو بتایا کہ جب حملے شروع ہوئے تو پہاڑی کی طرف بھاگنے والے افراد تو بچ گئے مگر گھروں میں پناہ لینے والے مارے گئے۔ ان کے مطابق ’یہ ایک فائر بیلٹ تھا۔‘
’ہمارے ساتھ والے چار گھروں پر حملے ہو رہے تھے۔ وہ وہاں موجود ہر گھر کو ہر دس منٹ بعد نشانہ بنا رہے تھے۔‘
حامد کے مطابق اس جگہ پر اُن کے خاندان کے 110 لوگ موجود تھے، جن میں اُن کے بچے اور دیگر رشتہ دار تھے اور ان میں سے چند ایک کے علاوہ سب مارے گئے۔
لواحقین کا کہنا ہے کہ بچ جانے والوں میں 98 برس کی دادی اور نو دن کا سب سے چھوٹا بچہ ہے۔
حامد کے ایک احمد نامی کزن نے بھی فضائی دھماکوں کی تفصیلات بتائی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان حملوں سے متعلق پہلے خبردار نہیں کیا گیا تھا۔ ان کے مطابق اگر کچھ لوگ یہاں سے چلے نہ گئے ہوتے تو مارے جانے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہوتی۔ اب یہ علاقہ یکسر مختلف تصویر پیش کر رہا ہے۔
یہاں پر تین چھوٹے اور ایک بڑے مکان کے علاوہ ایک کار پارکنگ اور پانی ذخیرہ کرنے کی جگہ تھی۔ ان حملوں نے پورے رہائشی علاقے کو تباہ کر دیا۔
حامد کے مطابق زندہ بچ جانے والے صبح تک اس ملبے سے لاشیں نکالنے میں مصروف رہے۔
حامد کے کزن احمد کے مطابق ’جب ہم لاشیں نکالنے میں مگن تھے تو آسمان پر طیارے منڈلا رہے تھے اور کواڈ کاپٹرز سے ہم پر فائرنگ کر رہے تھے۔‘
احمد الغفیری نے بتایا کہ ’ہم گھر میں بیٹھے ہوئے تھے اور آن کی آن میں ہم نے اپنے کو ملبے تلے پایا۔‘
ان کے مطابق ’مجھے ایک جگہ سے دوسری جگہ پھینکا گیا۔ مجھے نہیں معلوم وہ مجھ تک کیسے پہنچے اور پھر وہاں سے مجھے باہر نکالا۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے سامنے موت کو دیکھا ہے۔‘
ڈھائی ماہ بعد بھی ابھی یہاں چند لاشوں کی تلاش جاری ہے۔ اس خاندان نے یہاں ملبہ ہٹانے کے لیے مزدوروں کی خدمت حاصل کرنے کے لیے پیسے جمع کیے ہیں۔
احمد نے بتایا کہ ’ہم نے یہاں سے مزید چار لاشیں نکالی ہیں، جس میں میری بھابی اور بھتیجا محمد بھی شامل ہیں، جن کے جسموں کے ٹکڑے اس ملبے تلے سے نکالے گئے ہیں۔ وہ اس ملبے تلے 75 دنوں سے دبے ہوئے تھے۔‘
ان کی عارضی قبریں قریب ہی خالی پڑی جگہ ہے، جہاں ارد گرد اب نشانی کے طور پر ڈنڈے کھڑے کیے گئے ہیں اور ان پر پلاسٹک لپیٹ دی گئی ہے۔ احمد ابھی بھی اریحا میں ہی پھنسے ہوئے ہیں اور یہاں ان قبروں پر ابھی تک نہیں آ سکے ہیں۔
انھوں نے سوال کیا کہ ’میں نے ایسا کیا کر دیا کہ مجھے میری ماں، اہلیہ، بچوں اور بھائیوں سے محروم کر دیا ہے؟
’وہ سب عام شہری تھے۔‘
الغفیری ہاؤس سے تھوڑی مسافت پر احمد کے خاندان والوں کے ہلاک ہونے سے کچھ دن قبل اور بعد میں الشجاعية کے مقام پر اسرائیلی افواج اور حماس کے جنگجوؤں کے درمیان شِجیعہ میں شدید لڑائی ہوئی۔
روزانہ کی تازہ صورتحال بتاتے ہوئے اسرائیلی فوج نے نو دسمبر کو کہا ہے کہ انھیں ایسے بہت سے علاقے ملے ہیں جہاں اینٹی ٹینک میزائل نصب ہیں اور یہی وجہ ہے کہ الشجاعية کی طرف دستے بڑھے ہیں اور پھر یہاں ہیلی کاپٹر سے حملہ کرنے کا بھی کہا گیا۔
اسرائیلی فوج کے مطابق وہ غزہ کی پٹی پر دہشتگردی کے ٹھکانوں کا نشانہ بنا رہی ہے اور وہاں زمینی آپریشن جاری ہیں۔ زیتون کے علاقے میں بھی اس وقت اسرائیلی افواج آپریشن کر رہی ہیں۔
اریخا میں اپنے مزدور والد کے ساتھ پھنسے احمد ابھی بھی غزہ میں اپنے زندہ بچ جانے والے رشتہ داروں کو فون کرتے ہیں۔
اپنے گھر سے دور ابھی احمد کو یہ نہیں معلوم کہ کیا وہ کبھی اپنے گھر واپس جا سکے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ غزہ میں میرا خواب تباہ ہو گیا ہے۔ اب میں وہاں کس کے لیے جاؤں؟ مجھے اب مجھے کون پاپا کہے گا۔ اب مجھے کون ’ڈارلنگ‘ کہے گا، جو کہ پوری زندگی مجھے میری اہلیہ کہتی تھیں۔ اب مجھے یہ سب کون بتائے گا؟
بشکریہ بی بی سی اردو۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)