الیکش ہو گئے، ووٹ گنے گئے، ووٹ غائب بھی کیے گئے، ووٹ غائب سے ظہور میں بھی لائے گئے، کچھ سیاستدانوں نے اپنی عزت بچائی، کچھ نے بچی کھچی بھی گنوائی، پھر الیکشن ہارنے والوں نے جوڑ توڑ کیا، پارلیمانی جمہوریت میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ حکومت بنی تو پتہ چلا کہ الیکشن میں جیتا کون ہے؟ محسن نقوی!
نہ کوئی سیاسی جماعت، نہ کوئی حلقہ، نہ الیکشن کا جھنجھٹ۔۔ پہلے اپنے ہی ٹی وی چینل کے دفتر سے اٹھ کر گئے اور آٹھ مہینے تک پنجاب چلایا اور ایسے دھڑلے سے چلایا کہ بڑی مارا ماری کے بعد حکومت بنانے والوں نے کہا کہ پورا ملک بھی آپ ہی سنبھالیں۔۔ اور وزیر داخلہ بنا دیا!
سیاست کے علاوہ پاکستانی قوم کو ایک ہی شوق ہے اور وہ ہے کرکٹ، تو وہ بھی محسن نقوی کے حوالے۔۔ شاید پاکستان کی حالیہ تاریخ میں پہلی دفعہ ایک ایسا نابغہ (غیرمعمولی ذہین) ڈھونڈا گیا ہے، جسے ذمہ داری دی گئی ہے کہ ملک کی سرحدوں کے اندر چوکیداری بھی کرو اور ساتھ قوم کے خون کو گرم رکھنے کے لیے کرکٹ کے معاملات بھی سنبھالو۔
پاکستان میں پہلی کابینہ 1988 میں بے نظیر بھٹو کی بنتی دیکھی تھی۔ انہیں کہا گیا تھا، حکومت لینی ہے تو لے لو لیکن یہ وزیرِ خارجہ اور وزیرِ خزانہ ہمارا ہی چلے گا۔ انہوں نے مان لیا۔
اس وقت بھی انہیں اپنی مرضی کا وزیر داخلہ لگانے کی اجازت تھی۔ تب سے زیادہ تر حکومتوں میں وزارتیں اسی طرح بٹتی رہی ہیں کہ بظاہر طاقتور نظر آنے والی وزارتِ دفاع صرف فائلوں پر ٹھپے لگا سکتی ہے، وزارتِ خارجہ کا کام چونکہ دنیا میں ہماری دوستیاں اور دشمن داریاں نبھانے کا ہے، اس لیے سرحدوں کے محافظوں کا مشورہ ضروری ہے کیونکہ آخر میں ’سجن کون، دشمن کون‘ کا فیصلہ اُنہوں نے ہی کرنا ہے۔
وزارتِ خزانہ بہت اہم ہوتی ہے۔ اُس میں بھی کچھ ایسی روایت بن گئی ہے کہ یا تو خاندانی منشی کو لگایا جائے گا یا کسی مقامی یا عالمی بینک سے بندہ ادھار لیا جائے۔
سیاستدانوں کو اتنے تواتر سے چور اور لٹیرے کہا گیا ہے کہ ان پر اعتبار نہیں کیا جاتا کہ وہ خزانے کی چابی کی حفاظت کر سکیں گے۔
وزارتِ خزانہ بجلی، تیل، آٹے، دال کی قیمتوں کا حساب رکھتے ہوئے عوام کی زندگی پر براہِ راست اثر انداز ہوتی ہے تو شاید کوئی عوامی ووٹوں سے منتخب نمائندہ، جس کو اپنے حلقے میں جانا ہوتا ہے، یہ ذمے داری کچھ حساس طریقے سے نبھا سکتا۔ لیکن ہماری معیشت ایسا گورکھ دھندا ہے کہ یہ مان لیا گیا ہے کہ کوئی اتنا مہنگا بینکر لے کر آؤ، جس نے عوام کو صرف دُور سے غالباً کسی گالف کورس کے سبزہ زار سے دیکھا ہو۔
ہمارے منتخب نمائندوں میں کیا ایک بھی ایسا نہیں جو کیلکولیٹر چلا سکتا ہو؟ بجٹ کی سپریڈ شیٹ سمجھ سکتا ہو؟
اس کے بعد ایک وزارت بچتی ہے اور وہ ہے وزارتِ داخلہ۔۔ جو تھانے کچہریاں، جیلیں، دفعہ 144، پانی کی توپیں، رینجرز سب کی مالک ہے۔ نام ہی کافی ہے۔ سرحدیں آپ سنبھالیں، ملک کے اندرونی بدمعاشوں کو ہم خود دیکھ لیں گے۔
لیکن اس حکومت نے ہمیں بتایا ہے کہ ہم تھانے کچہریاں، پانی والی توپیں سنبھالنے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتے۔ یہ کام بھی محسن نقوی کو کرنا پڑے گا۔
کیا ایک سال پہلے ہم نے سوچا تھا کہ اس کے گلشن کا کاروبار محسن نقوی کے بغیر چل ہی نہیں سکتا؟
سپہ سالار نے گذشتہ سال نوجوانوں کے ساتھ اپنی ایک گپ شپ میں کہا تھا کہ دراصل کچھ لوگ عسکری اداروں کے بنائے ہوئے پوش علاقوں اور ان کے ہسپتالوں کو دیکھ کر حسد کرتے ہیں۔ حسد ایک بنیادی انسانی کمزوری ہے۔۔ لیکن محسن نقوی صحافی بھی رہے ہیں۔ اور میں ہمیشہ سے صحافی سے سیٹھ بننے والے صحافی بھائیوں سے حسد نہیں، رشک کرتا ہوں۔
لیکن سابق صحافی بھائی کو یہ بھی یاد کروانا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اس سے پہلے بھی یہاں پر حکومت تھی، عمران خان نے بھی اپنا ایک وزیر داخلہ لگایا تھا، شیخ رشید۔
اب دونوں جیل میں ہیں اور جیلیں محسن سنبھالیں گے۔ اور ساتھ ہی قوم کو احسان مند ہونا چاہیے کہ وہ اپنی خدمات کی تنخواہ بھی نہیں لیں گے۔
مجھے لگا شاید یہ کہہ رہے ہیں کہ ’غریب پاکستانیو! تم مجھے افورڈ ہی نہیں کر سکتے۔‘ لیکن وہ حسد بول رہا تھا۔
سچ یہ ہے کہ اب محسن نقوی سب پاکستانیوں کو مفت میں دستیاب ہے۔ اس لیے قوم کی طرف سے سواگت کرتے ہوئے کسی سیانے نے سوشل میڈیا پر کہا ہے کہ اب تو لگتا ہے فریج بھی کھولیں گے تو اندر سے محسن نقوی نکلے گا۔
بشکریہ بی بی سی اردو۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)