اور جب پناہ گزینوں کے مخالف فرانس کو پناہ گزین کھلاڑیوں نے فٹبال کا چیمپیئن بنا دیا۔۔۔

ویب ڈیسک

دفاعی چیمپیئن فرانس مراکش کو ہرا کر ایک بار پھر فٹبال ورلڈکپ کے فائنل میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو گیا ہے، جہاں اتوار کو ارجنٹینا کے خلاف ایک دلچسپ مقابلے کی توقع ہے

یہ بات قابل ذکر ہے کہ گذشتہ سات ورلڈکپ ٹورنامنٹس میں چوتھی مرتبہ ہے کہ فرانس ورلڈکپ کے فائنل میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوا ہے۔ اس دوران دنیائے فٹبال میں کوئی دوسری ٹیم اتنی کامیاب نہیں ہو سکی

فرانس نے سنہ 1998 میں اپنے ہوم گراؤنڈ پر برازیل کی ایک مضبوط ٹیم کو فائنل میں شکست دے کر اپنا پہلا ورلڈکپ جیتا تھا۔ اس ٹیم کی کپتانی کرنے والے ڈیسکیمپس فرانس کے موجودہ کوچ ہیں

مایہ ناز کھلاڑی زنیڈین زیڈان کی قیادت میں فرانس نے سنہ 2006ع کے ورلڈکپ فائنل میں بھی جگہ بنائی تھی لیکن اسے اٹلی سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یہ وہی میچ ہے جس میں زیڈان نے مخالف کھلاڑی کو ’ہیڈ بٹ‘ مارا تھا اور پھر انہیں ریڈ کارڈ دکھا کر میدان بدر کر دیا گیا تھا

اس ورلڈکپ فائنل کے بارہ سال بعد فرانس نے روس میں ہونے والے ورلڈکپ فائنل میں کروشیا کو شکست دی تھی اور اب 2022 کے ورلڈکپ میں ایک بار پھر فرانس کی ٹیم فائنل میں ہے

سوال یہ ہے کہ فرانس، جو سنہ 1998ع سے پہلے کوئی ورلڈکپ نہیں جیت سکا تھا، کو ایسی کون سی گیدڑ سنگھی ہاتھ لگی کہ محض چوبیس سال کے عرصے میں وہ نہ صرف چار بار فائنلز میں پہنچا بلکہ دو ورلڈکپ جیت بھی گیا

اس سوال کا جواب فرانس کی تاریخ اور بیسویں صدی کے اواخر میں اس کے تبدیل ہوتے معاشرے میں چھپا ہے

فرانس دراصل ایک نوآبادیاتی طاقت تھا اور اس کی سلطنت خصوصاً افریقہ ایشیا اور شمالی امریکہ کے چونسٹھ مختلف ممالک تک پھیلی ہوئی تھی۔ وقت کے ساتھ یہ ملک آزاد ہوتے گئے اور ان میں سے مراکش نے سنہ 1956، کیمرون نے 1960 جبکہ الجیریا نے 1962ع میں فرانس کے سامراجی تسلط سے آزادی حاصل کی تھی

اس دوران افریقہ اور دیگر ایسے ممالک کے اکثر خاندان یا تو روزگار کی غرض سے فرانس منتقل ہوتے تھے یا پھر انہیں بطور غلام فرانس میں لایا جاتا تھا۔ افریقہ میں خصوصاً فٹبال کو خاصی پذیرائی حاصل تھی اور اسے غریب یا ورکنگ کلاس طبقے کا کھیل کہا جاتا تھا

وقت کے ساتھ فرانس میں کام کرنے والے پناہ گزینوں نے وہاں بھی اس کھیل میں عافیت اور تفریح ڈھونڈ لی اور یہاں اپنے کلب بھی بنائے

یوں فرانس کی ٹیم میں بھی پناہ گزین خاندانوں سے تعلق رکھنے والے کھلاڑی شامل ہونے لگے اور اس سے فرانس کی ٹیم کو تقویت ملنے لگی

تاہم فرانس کی انتہائی دائیں بازو کی جماعتیں ہمیشہ سے ہی پناہ گزینوں کے حوالے سے سخت گیر نظریات رکھتی آئی ہیں اور اس سیاسی بیانیے کے حامیوں کی فرانس میں ایک بہت بڑی تعداد ہے

اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ فرانس کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت نیشنل فرنٹ کے ایک طویل عرصے تک سربراہ رہنے والے رہنما لا پین کی جانب سے نوے کی دہائی میں فرانس کی ٹیم کو ’مصنوعی‘ قرار دیا گیا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس ٹیم میں بہت کم سفید فام کھلاڑی شامل تھے۔ان کا کہنا تھا کہ فرانس کی ٹیم ایسے کھلاڑیوں کے ساتھ ملک کی نمائندگی کے قابل نہیں ہے، جنہیں اپنا قومی ترانہ بھی نہیں آتا

یہ وہ حالات تھے، جن کے درمیان نوے کی دہائی کے اواخر میں ہونے والے فٹبال ورلڈکپ 1998ع میں فرانس نے برازیل کی انتہائی مضبوط ٹیم کو شکست دے کر اپنی تاریخ کا پہلا ورلڈ کپ جیتا، اور اس کے کچھ عرصے بعد فرانس نے سنہ 2000ع میں یورپین چیمپیئن شپ بھی جیتی

ان دونوں ٹورنامنٹس میں جس کھلاڑی کی کارکردگی نے سب کو حیران کیا تھا، وہ معروف فٹبالر زنیڈن زیڈان تھے، جنہوں نے دونوں ٹورنامنٹس میں شاندار کھیل پیش کیا تھا

زیڈان کا تعلق بھی الجیریا سے فرانس میں پناہ لینے والے ایک خاندان کی دوسری نسل سے تھا

لیکن فرانس کی ٹیم میں شامل زیڈان ایسے اکیلے کھلاڑی نہیں تھے بلکہ فرانس کی پوری ٹیم میں آرمینیا، گھانا، سینیگال سمیت دیگر ممالک اور جزائر سے تعلق رکھنے والے کھلاڑی بھی موجود تھے

تاہم فرانس میں پناہ گزینوں سے متعلق نفرت میں وقت کے ساتھ اضافہ ہوتا گیا اور یہاں موجود مسلمانوں کو جہاں اسلاموفوبیا سے منسلک مسائل درپیش ہیں، وہیں یہاں کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت اب بھی پناہ گزینوں کے خلاف نفرت ابھار کر اپنی الیکشن مہم چلاتی ہے۔ لا پین کی بیٹی میرین لا پین کو رواں سال ہونے والے انتخابات میں ایک کروڑ تیس لاکھ ووٹ حاصل کیے تھے

تاہم سنہ 2018ع میں جب فرانس نے ایک بار پھر ورلڈکپ جیتا تو اس کے ستاسی فی صد کھلاڑی پناہ گزین خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ فرانس کی ورلڈکپ میں فتح کے بعد اکثر افراد نے اس طرف توجہ مبزول کرواتے ہوئے افریقہ کو مبارکباد دی تھی

کیا آپ جانتے ہیں کہ فرانس کی موجود ٹیم میں شامل پناہ گزین کھلاڑی کون ہیں؟

اس وقت فرانس جس فارورڈ پر سب سے زیادہ انحصار کرتا ہے، وہ کلیئن ایم باپے ہے، جو اس وقت بلاشبہ دنیا کے بہترین کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں اور انیس سال کی عمر میں نہ صرف سنہ 2018ع ورلڈکپ کی فاتح ٹیم کا حصہ تھے بلکہ اپنی بہترین کارکردگی سے وہ سب کو حیران بھی کر چکے ہیں

ان کی رفتار انہیں دوسرے کھلاڑیوں سے مختلف بناتی ہے اور فائنل سے پہلے ہی ان کا موازنہ میسی کے ساتھ کیا جانے لگا ہے۔ زیڈان کی طرح ایم باپے کے والدین بھی الجیریا سے فرانس منتقل ہوئے تھے

دوسرے کھلاڑی فرانس کی فٹبال ٹیم میں ونگر کے طور پر کھیلن والے عثمان ڈیمبیلے ہیں، جنہوں نے اس ٹورنامنٹ میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ڈیمبیلے کی والدہ کا تعلق سینیگال جبکہ والد کا تعلق مالی سے ہے

خیال رہے پال پوگبا اور کریم بینزیما اس ٹورنامنٹ میں انجری کے باعث شرکت نہیں کر سکے تھے۔ بینزیما کے والدین کا تعلق الجیریا جبکہ پوگبا جن کے والدین کا تعلق گنی سے ہے

ریال میڈرڈ اور فرانس کے لیے ڈیفنسو مڈفیلڈر کے طور پر کھیلنے والے چوامینی کے والدین کا تعلق کیمرون سے ہے۔ اسی طرح سینٹر بیک کی پوزیشن پر کھیلنے والے دایوٹ کے والدین کا تعلق گنی بساؤ سے ہے

مارکس ٹیورم دراصل للین ٹیورم کے بیٹے ہیں، جو فرانس کی سنہ 1998ع کی ورلڈکپ جیتنے والی ٹیم کا حصہ تھے۔ مارکس ٹیورم بطور لیفٹ ونگر کھیلتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close