عاشق کیرانوی کا کہنا ہے،
سُرورِ علم ہے کیفِ شراب سے بہتر،
کوئی رفیق نہیں، کتاب سے بہتر۔۔
کتاب سے محبت کرنے والا ہر انسان اس کے نشے سے واقفیت رکھتا ہے۔ جب اس کے ہاتھ کی پَوریں کتاب کے اوراق کا لمس پاتی ہیں، تب ایک مانوس سی مہک اذہان کے مخفی خانوں کو سُرور کا پتہ بھیجتی ہے۔ اس کیفیت سے وہ لوگ بہ خوبی آگاہ ہوتے ہیں، جو مطالعے کی عادت اور کتاب سے رغبت رکھتے ہوں۔
موجودہ معاشرے میں عاشق کیرانوی کا یہ شعر ہمارے نوجوانوں کو شاید کسی اور نشے کی خبر دے، کیوں کہ ان کے مشاغل میں اوراق کی عرق ریزی کی جگہ انٹرنیٹ پر موجود بےسر و پا مواد پر وقت ضائع کرنا ہے۔ شغلِ غوغاں، رقص و سُرور، مادی اشیا سے منسوب ویڈیوز اور دیگر امور نا کارہ نے جواں سال طبقے سے وقت کی اہمیت کی خبر چھین لی ہے۔
معاشرتی زوال کا سبب بننے والی اس نام نہاد جدیدیت نے اس بات کو بھی پسِ پشت ڈال دیا ہے کہ کتاب کا مطالعہ شخصی و ذہنی ارتقاء، پختہ سوچ اور شائستگی کا سبب بنتا ہے۔
عین ممکن ہے اسی روش کے سبب آنے والے کچھ ہی برسوں میں یہ بات کوئی لوک کتھا لگے کہ گزرے زمانے میں مطالعے کا ذوق اور کتب ہر گھر میں ہوا کرتی تھیں۔ والدین بچوں کی ذہن سازی کے لیے رات کو سونے سے قبل، سبق آموز کہانیاں سنا کر ان کی غیر محسوس انداز میں تربیت کیا کرتے تھے۔
اب خلاصہ یہ ہے کہ مطالعہ ذہن و فکر کو جِلا بخشنے، غور و فکر کی صلاحتیں اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ شخصیت سازی اور علم میں اضافے کا سبب بھی ہے۔۔ مگر دورِ جدید کی ہماری یہ نسل کتاب سے جتنا دور ہوئی ہے، اتنا ہی موبائل یا گیمز سے واقفیت رکھتی ہے۔ اب کتابیں فٹ پاتھ، شو کیس اور الماریوں میں رکھی اور سجائی جاتی ہیں۔ بچ جانے والی آبا و اجداد سے منسوب کچھ سوکھی، کُتری اور دیمک لگی کتب بوسیدہ شیلفوں کی زینت ہیں۔ بیش بہا رقم کے عوض موبائل حاصل کرنا آسان اور چند سو رُوپے کی کتاب خریدنا بوجھ ہے۔ ادب و شاعری کی ساری ریل پیل اور مکمل کہانی فقط نصاب، اور مقابلے کے امتحان سے جڑی ہے۔
حاصلِ بحث اور توجہ طلب امور کا پسِ منظر یہی دکھ ہے جس کی کچھ وجوہات میں: والدین کی عدم توجہی، غیر معیاری نصاب تعلیم، بلا سبب مہنگی کتب اور چائے خانوں کی محافل میں کتاب پر نہ ہونے والی گفت گو ہے۔
یورپ یا دیگر ترقی پسند معاشروں میں مطالعہ کتب کو بے انتہا اہمیت حاصل ہے۔ تعلیمی اداروں کے علاوہ بھی بچوں میں مطالعے کی عادت ڈالی جاتی ہے تا کہ ان میں علم سے رغبت پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ جاننے، سوچنے اور سمجھنے کا شعور پیدا ہو۔
دوسری طرف ہمارے نوجوانوں میں کتب بینی کا رجحان روز بہ روز کم ہوتا جا رہا ہے۔ نوجوان تعلیمی اداروں میں تفریحی و غیر نصابی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ تو لے سکتا ہے، مگر عین چناؤ کے اس لمحے میں لائبریریاں اس کی راہ تکتی رہ جاتی ہیں۔ شاید جدید ٹیکنالوجی کی سہولت نے بھی کتاب سے دوری بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اچھی خبر کے طور پر ہم یہ تسلیم کر سکتے ہیں کہ اب نوجوان ای بُکس اور ڈیجیٹل کتب کے وسائل سے مطلوبہ مواد کا حصول ممکن بنا رہا ہے، مگر کیا اس سب میں کتاب کا وہ مسحور کن ذائقہ عنقا نہیں ہو گیا؟ وہ خوشبو اور طلسماتی سوندھی لذت جو اوراق چھونے، انہیں بدلنے اور سونگھنے سے حاصل ہوتی تھی، وہ کس سمت ہوا ہو گئی؟
ایک تحقیق کے مطابق، صرف پچیس فیصد لوگ کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں، جبکہ باقی پچھتر فیصد کتب بینی سے دور ہیں۔ تو آخر میں یہی سوال بچتا ہے کہ کیا اس برانڈ کانشیس نوجوان طبقے کے لیے کتاب کا مقصد فقط ڈگری کا حصول ہے؟ اور کیا یہ روش معاشرتی ارتقاء کے لیے نقصان کا باعث نہیں ہے؟
بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)