’’صاف پانی کی مسلسل قلت زندگی اور موت کا مسئلہ ہے اور غزہ میں زیادہ تر اموات کا سبب ڈی ہائڈریشن اور آلودہ پانی ہے۔ بہت سوں کو قطرہ بھر پینے کا پانی بھی میسر نہیں‘‘ (یونیسیف ڈائریکٹر کیتھرین رسل)
غزہ میں موجودہ بحران سے پہلے بھی صاف پانی کا بحران تھا۔ زیادہ تر آبادی کا دار و مدار کنوؤں پر تھا۔ سمندر کے ساتھ ساتھ واقع ہونے کے سبب چھ سے بارہ کلومیٹر چوڑی غزہ پٹی کے بیشتر کنوؤں کا پانی کھارا ہے۔
پچاس ملین لیٹر میٹھا پانی تین پائپ لائنوں کے ذریعے اسرائیل سے آتا تھا۔ یہ سپلائی بھی نو اکتوبر سے بند ہے۔ مقامی کنوئیں بارود کی مسلسل برسات اور بجلی اور ڈیزل کی رسد منقطع ہونے کے نتیجے میں پمپنگ نہ ہونے اور سیوریج نظام ختم ہونے سے جنم لینے والی آلودگی کے سبب ناقابلِ استعمال ہو چکے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کا امدادی ادارہ برائے غزہ تیرہ برس قبل کیے گئے ایک آبی سروے میں غزہ کے زیرِ زمین پانی کے نوے فیصد ذخیرے کو بنا ٹریٹمنٹ انسانی استعمال کے لیے مضر قرار دے چکا ہے اور اب ٹریٹمنٹ پلانٹس تباہ ہونے سے یہ مضرِ صحت پانی تک میسر نہیں۔
مغربی کنارے پر آبی حالات فی الحال اتنے ابتر نہیں البتہ پرانے زنگ آلود آبی ڈھانچے کے سبب پانی کی اچھی خاصی مقدار آلودہ یا ضایع ہو رہی ہے۔ لگ بھگ سو فیصد قابض یہودی آبادکاروں کو صاف پانی اور سیوریج کی سہولت میسر ہے۔ یہودی آباد کاروں کو ایک اوسط فلسطینی گھرانے کے مقابلے میں تین گنا زائد صاف پانی اپنی روزمرہ ضروریات کے لیے میسر ہے۔
صرف تیس فیصد فلسطینی گھرانے مغربی کنارے پر سیوریج نظام سے منسلک ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی کے پاس محض پانچ تا دس فیصد آلودہ یا کھارا پانی صاف کرنے کے مالی و تکنیکی وسائل ہیں۔ مغربی کنارے کے اسی فیصد آبی وسائیل پر اسرائیل کا کنٹرول ہے۔یہ وہی اسرائیل ہے جو آبی کفائیت شعاری میں مدد دینے والی ٹیکنالوجی کے شعبے کا عالمی امام کہلاتا ہے۔ سوائے فلسطینیوں کے یہ اسرائیلی ٹیکنالوجی پوری دنیا کو میسر ہے۔
بحیرہ مردار اردن، فلسطین اور اسرائیل کے درمیان واقع ہے۔ اس کے پانی کا بے تحاشا استعمال سالانہ اس کی سطح ایک میٹر تک کم کر رہا ہے۔ اور نکالی جانے والی مقدار کا اسی فیصد اسرائیل کھینچ لیتا ہے اور پھر اسے بطور انسانی ہتھیار استعمال کرتا ہے۔
اگر اسرائیل اور فلسطین سے ہٹ کے دنیا کے آبی نقشے کا جائزہ لیا جائے تو انسانی استعمال کا پانی لگ بھگ ہر جگہ بڑھتی آبادی کے سبب ضروریات کے مقابلے میں ہر لمحہ کم ہو رہا ہے۔
اقوامِ متحدہ کی تازہ ترین آبی رپورٹ کے مطابق آٹھ ارب انسانوں میں سے تقریباً سوا دو ارب کو پینے کے صاف پانی اور ساڑھے تین ارب نفوس کو معیاری سوریج تک رسائی نہیں ہے۔
اس بحران کا زیادہ نشانہ دیہی خواتین اور بچے ہیں۔ ان کی لازمی گھریلو ذمے داریوں میں پانی جمع کرنا بھی شامل ہے، بھلے کتنا بھی فاصلہ طے کرنا پڑا۔ ان علاقوں میں بچیوں کی ناخواندگی کا ایک بنیادی سبب قلتِ آب بھی ہے، کیونکہ انہیں پانی کی تلاش اور اسے گھر تک لانے کے لیے روزانہ گھنٹوں سفر کرنا پڑتا ہے۔ناقص اور کمیاب پانی صحت و صفائی کی ناقص سہولتوں کے نتیجے میں بیماریوں اور جسمانی کمزوری کو دعوت دیتا ہے۔
قحطِ آب بھی ہجرت کے بڑے اسباب میں شامل ہے۔ دس فیصد عالمی ہجرت کا سبب پانی ہے اور پھر ان مہاجروں اور ان باشندوں کے درمیان کشیدگی اور کشیدگی کے سبب تشدد جنم لیتا ہے، جنہیں تھوڑے بہت پانی کی سہولت میسر ہے۔ اوپر سے ماحولیات کی ابتری ایک جانب اگر غیر معمولی سیلابوں کا سبب بن رہی ہے تو دوسری جانب آبی خشک سالی میں بھی تیزی سے اضافہ کر رہی ہے۔
چونکہ ہر ملک تیز رفتار صنعتی ترقی چاہتا ہے اور صنعتیں ہی سب سے زیادہ پانی استعمال کرتی ہیں، لہٰذا یہ قلت اس شعبے کی بڑھوتری کی راہ میں ایک بنیادی رکاوٹ ہے۔ ویسے بھی ترقی کا خواب دیکھنے والا ہر ملک تعبیر پانے کے لیے کھارے پانی کو میٹھا بنانے کی مہنگی ٹیکنالوجی افورڈ نہیں کر سکتا۔ افورڈ کر بھی لے تو لاگت میں اضافے کے سبب عالمی سطح پر جاری قیمتوں کے مقابلے میں اس کی مصنوعات پیچھے رہ جائیں گی۔ اس دوڑ میں جو ممالک آگے نکل گئے سو نکل گئے، بقیہ کے لیے پانی کا بحران ’’نا جائے رفتن نہ پائے ماندن“ بن گیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کا تخمینہ ہے کہ پسماندہ اور نیم متوسط ایک سو چالیس ممالک کے باشندوں کو صاف پانی اور نکاسی کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے ہر سال کم از کم ایک سو چودہ ارب ڈالر کی رقم درکار ہے۔ جب کہ دو ہزار تیس تک دنیا کے ہر شخص کو صاف پانی کی فراہمی کے اقوام متحدہ کے ملینیم ہدف کی تکمیل کے لیے سالانہ چھ سو ارب سے لے کر ایک کھرب ڈالر تک کی رقم چاہیے۔ امیر ممالک کے لیے اتنا پیسہ نہائیت معمولی ہے، مگر وہ یہ رقم بحرانی ممالک کو بنا کسی جوابی فائدے کے آخر کیوں فراہم کریں؟
اگرچہ دنیا کے ایک سو تریپن ممالک مشترکہ آبی وسائیل استعمال کرتے ہیں، ساٹھ فیصد میٹھے دریائی پانی میں دو یا دو سے زائد ممالک حصہ دار ہیں مگر محض چوبیس ممالک نے اس مشترکہ میراث کے منصفانہ استعمال اور خوش اسلوب حصہ داری یقینی بنانے کے لیے تحریری معاہدے کیے ہیں۔ جب کہ دیگر ممالک اس بارے میں ایک دوسرے سے بدظن ہیں یا رہ چکے ہیں یا مستقبلِ قریب میں ان کے تعلقات تیزی سے کشیدہ ہو سکتے ہیں۔
کہا جاتا ہے بیسویں صدی تک بیشتر جنگیں زمین یا معدنی وسائل پر قبضے کے لالچ میں ایجاد ہوئیں، مگر اکیسویں صدی میں ماحولیات کی تیز رفتار ابتری کے سبب لگ بھگ آدھی جنگیں پانی پر قبضے یا زیادہ سے زیادہ حصہ ہتھیانے یا بٹورنے کی کوشش میں ہوں گی۔
آبی تنازعات کے تصفیے اور مشترکہ انتظام کے لیے انیس سو بانوے میں اقوامِ متحدہ کی چھتری تلے یورپی واٹر کنونشن نافذ ہوا۔ دو ہزار سولہ میں اس کنونشن کا دائرہ پوری دنیا تک بڑھا دیا گیا، مگر اب تک اس کنونشن کی صرف باون ممالک نے توثیق کی ہے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)