چین کے ایغور مسلمانوں کی نسل کشی پر اقوام متحدہ میں بحث کی تحریک مسترد، مخالت میں مسلم ممالک پیش پیش!

ویب ڈیسک

چین نے ایغور مسلمانوں اور دیگر نسلی اقلیتوں پر مبینہ مظالم پر اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں بحث کی تحریک مسترد ہو جانے کو اپنی ’فتح‘ قرار دیا ہے جبکہ انسانی حقوق کے گروپوں نے اس ’شرمناک‘ رویے کی مذمت کی ہے

چین کے شمال مغربی علاقے سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں اور دیگر نسلی اقلیتوں کے خلاف چین کے مظالم کے خلاف اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کونسل میں بحث کی ایک تحریک جمعرات 6 اکتوبر کو مسترد کر دی گئی، حالانکہ کونسل کا کہنا ہے کہ سنکیانگ میں اقلیتوں کے خلاف جس بڑے پیمانے پر مظالم ہو رہے ہیں، وہ ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ کے مترادف ہیں

پاکستان، قطر اور متحدہ عرب امارات سمیت اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے رکن کئی مسلمان ممالک نے بھی مغربی ممالک کی اس تحریک کی مخالفت کی

جبکہ اس کا مسودہ امریکہ، آسٹریلیا، کینیڈا، فرانس، جرمنی، ناروے، سویڈن اور ترکی سمیت دیگر ممالک نے پیش کیا تھا

جنیوا میں واقع اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 47 اراکین میں سے 17 نے بحث کرانے کے حق میں جب کہ 19 نے اس کے خلاف ووٹ دیا، 11 ممالک نے اس میں حصہ نہیں لیا۔ جس کی وجہ سے مغربی ممالک کی طرف سے پیش کردہ تحریک مسترد ہو گئی۔ حالانکہ مغربی ملکوں کا خیال تھا کہ چونکہ یہ انسانی حقوق کا معاملہ ہے، اس لیے تقریباً تمام ممالک اس کے حق میں ووٹ دیں گے

کونسل کی سولہ سالہ تاریخ میں یہ دوسرا موقع ہے، جب اس طرح کی کسی تحریک کو مسترد کیا گیا ہے، جسے مبصرین احتساب کی کوششوں، انسانی حقوق پر مغرب کے اخلاقی اختیار اور خود اقوام متحدہ کی ساکھ دونوں کے لیے دھچکے کے طور پر دیکھ رہے ہیں

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے بیشتر رکن ممالک جنہوں نے بحث نہ کرانے کے لیے ووٹ دیے وہ مسلم اکثریتی ملک ہیں۔ ان میں پاکستان، انڈونیشیا، قطر، متحدہ عرب امارات، قزاقستان، سوڈان اور ازبکستان شامل ہیں

بولیویا، کیمرون، کیوبا، اریٹیریا، گیبون، آئیوری کوسٹ، موریطانیہ، نمیبیا، نیپال، سنیگال اور وینزویلا نے بھی بحث نہ کرانے کے حق میں ووٹ دیے

اس پر آئی ایس ایچ آر کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر فل لنچ نے کہا کہ یہ ’شرمناک‘ ہے کہ ’مسلم ممالک نے اویغوروں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اقوام متحدہ کی بحث کی بھی حمایت نہیں کی

صومالیہ واحد افریقی ملک اور تنظیم اسلامی تعاون کا واحد رکن تھا، جس نے ایغوروں کے خلاف زیادتی پر بحث کرانے کے حق میں ووٹ دیا

مبصرین کا کہنا ہے کہ افریقی ممالک، جہاں چین بڑے پیمانے پر بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کرنے کے بعد سب سے بڑا قرض دہندہ ہے، خاص طور پر بھاری لابنگ کا سامنا کرنا پڑا۔ افریقہ کے 13 ممالک میں سے صرف صومالیہ نے ’ہاں‘ میں ووٹ دیا ہے

دوسری طرف ووٹنگ میں حصہ نہ لینے والے ملکوں میں بھارت، ملائشیا، ارجنٹینا، برازیل، میکسیکو اور یوکرین شامل تھے۔ گیمبیا، لیبیا اور ملاوی بھی ووٹنگ سے غیر حاضر رہے

چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ہوا چن ینگ نے اس پر ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا ”یہ ترقی پذیر ملکوں کے لیے فتح ہے، یہ سچائی اور انصاف کی فتح ہے۔ انسانی حقوق کو جھوٹ کا پہاڑ بنانے اور دیگر ملکوں کے داخلی معاملات میں مداخلت کرنے یا ان پر قابو پانے، انہیں ڈرانے دھمکانے اور ان کی تحقیر کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے‘‘

ترجمان نے مزید لکھا ”واشنگٹن اور کچھ مغربی ممالک نے سنکیانگ کو افواہیں پھیلانے اور پریشانی پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا، یہ انسانی حقوق کی آڑ میں سیاسی جوڑ توڑ میں ملوث ہیں اور چین کے امیج کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘

انہوں نے کہا ”بعض مغربی ممالک کی سازش ایک بار پھر ناکام ہو گئی ہے۔“ ان کے بقول: سنکیانگ سے متعلق مسائل بنیادی طور پر انسانی حقوق کے مسائل نہیں ہیں، بلکہ انسداد دہشت گردی، انتہا پسندی کے خاتمے اور علیحدگی پسندی مخالف مسائل ہیں

دوسری جانب ایغور ورلڈ کانگریس کے صدر ڈولکن عیسیٰ نے ایک بیان میں کہا کہ کونسل کے اراکین نے چین کو دیگر ملکوں کے اسی طرح کے معیار پر قصور وار ٹھہرانے کا ایک موقع ضائع کر دیا

انہوں نے کہا ”بین الاقوامی برادری ایغوروں کی نسل کشی کو نظر انداز نہیں کر سکتی‘‘

ڈولکن عیسیٰ نے مزید کہا ”یہ ایک سانحہ ہے، یہ واقعی مایوس کن ہے۔ ہم کبھی ہار نہیں مانیں گے لیکن ہم مسلم ممالک کے رد عمل سے واقعی مایوس ہیں‘‘

واضح رہے کہ ڈولکن کی والدہ چین کے ایک کیمپ میں فوت ہو گئی تھیں اور ان کے دو بھائی تاحال لاپتہ ہیں

ہیومن رائٹس واچ چین کی ڈائریکٹر سوفی رچرڈسن نے اسے ”ذمہ داری سے دست برداری اور ایغور متاثرین کے ساتھ دھوکہ دہی‘‘ قرار دیا

انٹرنیشنل سروس فار ہیومن رائٹس چائنا (آئی ایس ایچ آر) کے وکیل رافیل ویانا ڈیوڈ نے کہا، ”کونسل کے ارکان نے آج ایک خوفناک پیغام بھیجا ہے کہ چین کو ابھی تک کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔‘‘

آئی ایس ایچ آر کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر فل لنچ نے کہا کہ یہ ”شرمناک‘‘ ہے کہ مسلم ممالک نے ایغوروں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اقوام متحدہ کی بحث کی بھی حمایت نہیں کی

انڈونیشیا کے سفیر فیبریان رڈیارڈ نے اس صورتحال پر اپنے اقدام کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ”دنیا کا سب سے بڑا مسلم ملک اور ایک متحرک جمہوریت ہونے کے ناطے ہم اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کی حالت زار پر آنکھیں بند نہیں کر سکتے، لیکن جیسا کہ چین نے اس بحث پر رضامندی ظاہر نہیں کی، اس لیے اس سے معنی خیز پیش رفت حاصل نہیں ہوگی، لہٰذا انڈونیشیا نے بحث نہ کرانے کے حق میں ووٹ دیا۔‘‘

قطر کے سفیر ہند المفتاح نے بھی اسی طرح کے جذبات کا اظہار کیا۔ چین نے مشیل بیچلیٹ کی رپورٹ کو بھرپور انداز میں مسترد کیا ہے

مغربی ممالک کا خیال تھا کہ چونکہ نتائج کے بارے میں صرف بات کرنے کی کوشش کرنے سے آگے نہیں بڑھنا، لہٰذا دوسرے ممالک اسے ایجنڈے پر ڈالنے سے نہیں روکیں گے

ایک مغربی سفارت کار کا کہنا تھا ”نتائج سے قطع نظر سنکیانگ کو شہ سرخیوں میں لانے کا نمبر ایک مقصد پورا ہو گیا ہے۔‘‘

برطانیہ کے سفیر سائمن مینلے کا کہنا تھا ”کم ووٹوں کے فرق سے بیجنگ پر یہ ظاہر ہوگیا ہے کہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے معاملے میں بہت سے ممالک خاموش نہیں رہیں گے، چاہے وہ مجرم کوئی بھی ہو۔‘‘

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سیکرٹری جنرل ایگنس کالامارڈ نے کہا ہے ”جمعرات کو ہونے والی ووٹنگ نے کونسل کو اقوام متحدہ کے اپنے انسانی حقوق کے دفتر کے نتائج کو نظر انداز کرنے کی مضحکہ خیز پوزیشن میں ڈال دیا ہے“

ان کا مزید کہنا تھا ”کونسل کے رکن ممالک کے لیے ایک ایسی صورت حال پر تبادلہ خیال کرنے کے خلاف ووٹ دینا، جہاںاقوام متحدہ خود کہتا ہے کہ انسانیت کے خلاف جرائم واقع ہوسکتے ہیں، انسانی حقوق کونسل کی ہر اس چیز کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے، جس کے لیے انسانی حقوق کونسل کو کھڑا ہونا چاہیے‘‘

چین میں مسلمان اویغور کمیونٹی کی نسل کشی کے خلاف یہ اقدام اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی سابق سربراہ مشیل بیچلیٹ کی جانب سے سنکیانگ کے حوالے سے ایک رپورٹ جاری کرنے کے بعد سامنے آیا ہے، جو کافی عرصے سے تاخیر کا شکار تھی۔ اس رپورٹ میں دور دراز مغربی خطے میں اویغوروں اور دیگر مسلمان اقلیتوں کے خلاف ممکنہ جرائم کا حوالہ دیا گیا

31 اگست کو ان کی مدت ملازمت ختم ہونے سے چند منٹ قبل شائع ہونے والی مشیل بیچلیٹ کی رپورٹ میں بڑے پیمانے پر تشدد، غیر قانونی حراست اور مذہبی اور تولیدی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ’قابل اعتماد‘ الزامات پر روشنی ڈالی گئی ہے

اس رپورٹ سے اقوام متحدہ کی جانب سے طویل عرصے سے جاری ان الزامات کی توثیق ہوئی کہ بیجنگ نے دس لاکھ سے زائد اویغوروں اور دیگر مسلمانوں کو حراست میں لیا اور خواتین کی زبردستی نس بندی کی

بیجنگ نے ان الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے اصرار کیا کہ وہ انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے خطے میں پیشہ ورانہ تربیتی مراکز چلا رہا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close