ایچی سن کالج کی پَگ پر کوئی داغ نہیں

محمد حنیف

ہمارے گاؤں کے پرائمری اسکول میں کمرے تو دو ہی تھے۔ چار دیواری تھی نہیں، جب بنی تو اس پر کسی مقامی فنکار سے خطاطی کروائی گئی۔ خودی کو بلند کروانے والے علامہ اقبال کے اشعار کے ساتھ ایک حدیث بھی درج تھی کہ علم حاصل کرو، چاہے چین جانا پڑے۔

چین تو بہت دور تھا، اس لیے پڑھنے کے لیے لاہور آنا پڑا۔ گاؤں کے کسانوں کو بھی کسی نے یقین دلایا تھا کہ بچوں کو پیٹ کاٹ کر بھی پڑھانا پڑے تو پڑھاؤ۔

تعلیم کی کمی کو تب بھی اور اب بھی سارے مسائل کا حل سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کی پسماندگی، فرقہ پرستی، دہشت گردی سب کا علاج تعلیم ہی سمجھا جاتا ہے۔

ہر سیانا سب سے پہلے یہ بتاتا ہے کہ کتنے کروڑ بچے کبھی اسکول گئے ہی نہیں۔ گھومتے پھرتے، کچی پکی تعلیم حاصل کر کے مجھے تعلیم کے فوائد پر کچھ شک سا ہونے لگا ہے۔

مغربی ملکوں میں بنیادی تعلیم لازمی ہے۔ بچہ اسکول نہ جائے تو سرکاری ہرکارے گھر پہنچ جاتے ہیں۔ مغربی ملکوں کے حکمران بھی زیادہ تر بڑی بڑی یونیورسٹیوں سے ڈگریاں لے کر آتے ہیں۔ یہ وہ تعلیم ہے، جس نے ان کا کچھ نہیں بگاڑا۔

غزہ میں ہوتا قتل عام اپنے موبائل فونوں پر روز دیکھتے ہیں اور پھر فیصلہ کرتے ہیں کہ ابھی پیسے پورے نہیں ہوئے، جاری رکھو۔۔ جنوبی ایشیا میں بھی سب سے پڑھا لکھا ملک سری لنکا ہے، وہاں تیس سال تک ایسی وحشیانہ خانہ جنگی چلی اور اس کا انجام اس بربریت سے ہوا کہ لوگ پوچھنے لگے کہ ان کو پتہ نہیں اسکولوں میں کیا پڑھاتے ہیں۔

لاہور پڑھنے آئے تھے لیکن زیادہ تر وقت بتیاں دیکھتے ہی گزارا۔ مال روڑ پر گشت کرتے تھے۔ ایک گورنر ہاؤس تھا، جس کی دیوار ختم ہی نہیں ہوتی تھی۔۔ اور اس کے بعد ایچی سن کالج، جہاں پر بڑی بڑی گاڑیوں سے اونچے شملوں والے پپو بچے نکلتے ہوئے کبھی کبھی نظر آتے تھے۔

پھر پتا چلا کہ کالج کے اندر گھڑ سواری بھی ہوتی ہے۔ پہلے خیال یہی آیا کہ اگر یہ تعلیم ہے تو پھر ہم گورمنٹ پرائمری اسکول میں کیا کر رہے تھے۔

ادھر اس عمر کے بچے، جنہیں شاید ابھی بوٹ کے تسمے باندھنے بھی نہیں آئے تھے، وہ شاہسوار بن گئے تھے۔ ہمارے اسکول میں تفریح کے پیریئڈ میں ہیڈ ماسٹر صاحب کی بھینس کے لیے چارہ کاٹنے اور زیادہ گرمی والے دن اسے نہلانا ہی ہماری کردار سازی کا واحد ذریعہ تھا۔

جس عمر میں ہم علامہ اقبال کی نظموں کو رٹا لگا رہے تھے، ہماری عمر کے بچے فر فر شیکسپیئر سنا رہے تھے۔ تعلیم کا اور مہنگی تعلیم کا ایک ہی مقصد سمجھ آیا کہ بچے پر کسی مقامی زبان کا یا ثقافت کا اثر نہ ہونے پائے۔

ایچی سن اور اس جیسے دوسرے تعلیمی اداروں کی دیواریں اسی لیے اتنی بلند نہیں ہیں کہ ہم ان بچوں کو دیکھ کر حسد نہ کریں، بلکہ اس لیے ہیں کہ بچے کہیں پسینے کی بُو میں رواں دواں پاکستان نہ دیکھ لیں۔

جتنا اسکول میں داخلہ مشکل ہوگا، جتنی فیس زیادہ ہوگی، تعلیم اتنی ہی معیاری سمجھی جائے گی۔ ایچی سن کے وارث آپس میں تو تو میں میں ہوگئے تو عوام نے چار دن مزہ لیا۔

کسی نے جوش میں آ کر یہ بھی کہہ دیا کہ یہ کالج انگریزوں کی دَین ہے، اسے بند کرو اور زمین بیچ کر باقی عوام کے لیے معیاری اسکول کھولو۔

لیکن اس تعلیم کا اصلی فائدہ یہ نہیں ہے کہ ایچی سن کالج سے کتنے بچے پڑھے بلکہ یہ کہ کوئی عام انسان اور اس کا بچہ گیٹ پار کر کے گھڑ سواری بھی نہیں دیکھ سکتا۔

دنیا میں بڑے بڑے مہنگے اسکولوں کی بھی بس چلتی ہے، لیکن پاکستان کے کسی بڑے پرائیویٹ اسکول کے باہر آپ بس نہیں دیکھیں گے۔ اگر اسکول میں چار سو طالب علم ہیں تو صبح اور پھر چھٹی کے وقت چار سو گاڑیاں موجود ہوں گی۔ بعض بچوں کے ساتھ چار مسلح گارڈ بھی ہوں گے۔

اگر بچے کو آٹھ، دس سال کی عمر میں یہ تعلیم دی جائے کہ بیٹا تم اتنے خاص ہو کہ اپنے پگ والے باقی طالب علموں کے ساتھ بس میں بیٹھنا بھی تمہاری شان کے خلاف ہے تو وہ بچہ بڑا ہو کر جھنڈے والی گاڑی نہ مانگے تو کیا کرے۔

کوئی بیس سال پہلے میرے گاؤں میں ایک چھوٹے سے مکان میں سستا سا پرائیویٹ اسکول کھلا۔ میں نے کہا نہیں چلے گا، گورمنٹ کا اسکول موجود ہے۔ جس کو مہنگی تعلیم کا شوق ہے، وہ شہر چلا جائے گا۔۔

لیکن میں نے اسی سکول میں دیکھا کہ لوگ بچوں کو اسکول کی یونیفارم پہنا کر کھوتی رہڑی پر سے اتار رہے ہیں۔

آخری گنتی کے مطابق اب میرے گاؤں میں چھ پرائیویٹ اسکول ہیں۔۔ کیونکہ تعلیم حاصل کرو چاہے تمھیں بچوں کو فیری جوائے انٹرنیشنل اسکول (ایئر کنڈیشن) ہی کیوں نہ بھیجنا پڑے۔

بشکریہ بی بی سی اردو۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close