گوانتاناموبے میں قید پاکستانی شہری کی رہائی کے بعد وطن واپسی۔۔ قید سے رہائی تک کی کہانی

کیوبا میں قائم بدزمانہ امریکی جیل گوانتاناموبے میں قید سب سے پرانے اور ضعیف پاکستانی شہری سیف اللہ پراچہ انیس سال کے بعد رہا ہو کر وطن واپس پہنچ گئے ہیں

پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں سیف اللہ پراچہ کی وطن واپسی کی تصدیق کی گئی

پاکستانی شہری سیف اللہ پراچہ کو امریکی سی آئی اے نے جولائی 2003ع میں القاعدہ کو معاونت فراہم کرنے کے الزام میں بینکاک ایئر پورٹ سے گرفتار کیا تھا۔ ان کی گرفتاری سے کچھ عرصے قبل ان کے بڑے بیٹے عزیر پراچہ کو بھی نیویارک میں گرفتار کر لیا گیا تھا، جنہیں بعد میں رہا کر دیا گیا تھا

ذیابیطس اور دل کے مرض میں مبتلا 74 سالہ سیف اللہ پراچہ بغیر کسی الزام کے گذشتہ کئی سالوں سے گوانتانامو بے حراستی مرکز میں قید تھے

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ریکارڈ کے مطابق سیف اللہ پراچہ چھبیس سال کی عمر میں تعلیم کی غرض سے امریکہ گئے تھے اور کاروبار شروع کرنے کے لیے پاکستان واپسی سے قبل تقریباً دس سال تک اپنے رشتہ داروں کے پاس مقیم رہے

انہوں نے پانچ جولائی 2003 کو ایک کاروباری میٹنگ کے لیے تھائی لینڈ جانا تھا۔ انہوں نے روانگی سے قبل اپنی بیٹی کو کال کر کے کہا تھا کہ وہ تھوڑی دیر بعد تھائی لینڈ کے لیے روانہ ہوں گے، تاہم وہ اپنی میٹنگ میں نہیں پہنچ سکے

بعد ازاں انہوں نے جنگجویانہ سرگرمیوں میں ملوث افراد کی تحقیقات کرنے والے ٹربیونل کو گوانتاناموبے میں بتایا تھا کہ جب وہ چھ جولائی کو بنکاک پہنچے، وہاں پر انہیں گرفتار کر لیا گیا

سیف اللہ پراچہ نے یہ بھی بتایا تھا کہ اس کے بعد ان کے سر پر کپڑے کا غلاف چڑھا کر اور گاڑی میں ڈال کر کسی نامعلوم مقام پر لے جایا گیا، جہاں ان کو چند روز تک رکھا گیا اس دوران ان کی آنکھوں پر پتی بندھی رہی، کانوں پر خول چڑھائے گئے اور پیروں میں بیڑیاں ڈالی گئیں

اس کے بعد امریکی حکام نے انہیں افغانستان کے بگرام ایئربیس منتقل کیا، جہاں وہ تقریباً ایک سال تک رہے اور ستمبر 2004 میں انہیں گوانتاناموبے منتقل کر دیا گیا، جہاں وہ قید میں رہنے والے واحد قیدی تھے، جن پر نہ تو کوئی فردِ جرم عائد کی گئی اور نہ ہی ان پر مقدمہ چلایا گیا

ایک ماہ بعد نیوز رپورٹس سے ان کے خاندان والوں کو پتہ چلا کہ انہیں امریکی حکام نے حراست میں لیا ہے اس کے چند روز بعد انہیں انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی آف ریڈ کراس کی وساطت سے خط موصول ہوا جس میں بتایا گیا تھا کہ ان کو بگرام میں رکھا گیا ہے

سیف اللہ نہ صرف گوانتانامو بے کے سب سے پرانے بلکہ سب سے عمر رسیدہ قیدی بھی ہیں، جنہیں ان کی اہلیہ کے مطابق دوران حراست دو بار دل کا دورہ بھی پڑا تاہم پرزنر ریویو بورڈ نے دو سال قبل دو دیگر قیدیوں کے ہمراہ پراچہ کی رہائی کی منظوری دے دی تھی

ان کی وکیل کے مطابق حکم میں کہا گیا تھا کہ پراچہ سے اب امریکہ کو ’آئندہ کوئی خطرہ نہیں۔‘

تب سیف اللہ پراچہ کی امریکی وکیل شلبی سلووین بینِس نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا: ’17 مئی کی صبح کو ان (سیف اللہ پراچہ) کو ایک خط پڑھ کر سنایا گیا، یہ خط ایگزیکٹیو برانچ کی جانب سے جاری کیا گیا تھا، جس میں ان (سیف اللہ پراچہ) کی پاکستان منتقلی کی تجویز دی گئی تھی۔ مجھے اب تک جو بتایا گیا ہے کہ سیف اللہ پراچہ کو منتقلی کے لیے ’کلئیر‘ قرار دے دیا گیا ہے۔ ایسے حالات میں میں قیدی کی اپنے ملک منتقلی اس بات پر منحصر ہے کہ میزبان ملک کے ساتھ امریکی حکومت کے تعلقات اچھے ہوں اور اس ملک کی جانب سے یہ تجویر دی جائے کہ قیدی کو ان کے آبائی ملک منتقل کر دیا جائے، نہ کہ دوبارہ امریکہ میں قید رکھا جائے۔‘

انٹرویو کے دوران بطور وکیل اس کیس کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر شلبی سلووین بینس نے جواب دیا تھا کہ ’سیف اللہ پراچہ گوانتاناموبے میں دو دہائیوں سے بند سب سے معمر قیدی ہیں۔ وہ بے حد قابل احترام ہیں۔ میں عدالتی کارروائی، قواعد کی خلاف ورزیوں اور ان کی اسیری کو جذباتی انداز میں دیکھتی ہوں۔‘

انہوں نے مزید کہا تھا: ’اس دوران اس مرکز میں ایک اوسط قیدی نے قواعد کی کئی خلاف ورزیاں کی ہوں گی۔ بعض نے ہزاروں خلاف ورزیاں کی ہوں گی۔ بہت سے لوگوں نے بھوک ہڑتال کی جسے ضابطے کی خلاف ورزی سمجھا گیا۔ جہاں تک سیف اللہ پراچہ کا تعلق ہے کہ انہوں نے کتنی بار قواعد کی خلاف ورزی کی، یہ معاملہ خفیہ رکھا گیا ہے لیکن میں پھر بھی کہوں گی کہ ان کی جانب سے کی گئی خلاف ورزیوں کی تعداد ان قیدیوں سے کم ہے جو آج گوانتاناموبے کے حراستی مرکز میں رہ گئے ہیں۔‘

وکیل نے کہا تھا کہ ’پراچہ نے نہ صرف قیدیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا بلکہ ان مریکی فوجیوں کے ساتھ بھی ان کا رویہ اچھا تھا، جو انہیں پر کوئی فرد جرم عائد کیے بغیر انہیں قید میں رکھے ہوئے تھے۔‘

سیف اللہ پراچہ پر الزامات

امریکی حکام کا کہنا تھا کہ ان کا تعلق القاعدہ سے ہے اور ان کے اسامہ بن لادن سمیت دیگر عہدیداروں سے رابطے رہے

سیف اللہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اسامہ بن لادن کو ایک عوامی ملاقات میں دیکھا تھا اور صرف اتنی بات کی تھی کہ کیا وہ ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیں گے؟
انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ انہوں نے ایسے پاکستانی شہریوں کو مدد فراہم کی تھی جن کا تعلق القاعدہ سے تھا تاہم انہیں اس بات کا علم نہیں تھا

سیف اللہ کے خاندان والوں کے لیے ان کی اچانک گرفتاری ایک دھچکہ ضرور تھی لیکن وہ اپنے خاندان کے پہلے فرد نہیں تھے، جنہیں ’القاعدہ کو معاونت فراہم کرنے‘ کے شبے میں گرفتار کیا گیا تھا

سیف اللہ کی گرفتاری سے کچھ عرصے قبل ہی ان کے سب سے بڑے بیٹے عزیر پراچہ کو مارچ 2003 میں نیویارک میں گرفتار کیا گیا اور عزیر پراچہ کی جانب سے دوران تفتیش دیے گئے بیانات ہی دراصل سیف اللہ پراچہ کی گرفتاری کی ایک اہم وجہ بنے

جب عزیر کو گرفتار کیا گیا تو ان پر الزام تھا کہ انھوں نے مبینہ طور پر القاعدہ کے رکن ماجد خان اور عمار ال بلوچی کو دہشتگردی کے لیے معاونت فراہم کی تاہم عزیر نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ انھوں نے ماجد خان کی کچھ کاغذات کے حصول میں مدد ضرور کی لیکن وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ ماجد خان یا عمار ال بلوچی کا تعلق القاعدہ سے ہے

عزیر پراچہ کی عمر تیئیس سال تھی، جب انہیں امریکہ کی انسداد دہشتگردی فورس کی جانب سے 2003 میں نیویارک سے گرفتار کیا گیا۔ عزیر اپنے والد سیف اللہ کی طرح امریکی شہریت کے حامل تھے اور اپنے کاروبار کے سلسلے میں امریکہ میں موجود تھے تاکہ وہ امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کو کراچی میں واقع ان کے والد کے پر تعیش اپارٹمنٹس فروخت کر سکیں

عزیر کا رہن سہن اور حلیہ ماڈرن تھا کیونکہ وہ نہ صرف متعدد بار امریکہ کا سفر کر چکے تھے بلکہ انھوں نے کراچی کے مشہور نجی اسکول سے تعلیم بھی حاصل کی تھی

عزیر نے دوران تفتیش بتایا انھوں نے ماجد خان کی مدد اپنے والد سیف اللہ پراچہ کے کہنے پر کی۔ ماجد خان امریکی نژاد پاکستانی ہیں اور وہ میری لینڈ کے رہائشی تھے، جہاں وہ اپنے والد کے گیس سٹیشن پر کام کرتے تھے

ماجد خان کو پاکستانی سکیورٹی فورسز نے پانچ مارچ سنہ 2003 کو کراچی سے حراست میں لیا تھا۔ گرفتاری کے بعد ساڑھے تین سال تک انھیں خفیہ حراستی مراکز میں رکھا گیا اور ان کے اہلِخانہ کا بھی ان سے کوئی رابطہ نہیں تھا

ماجد خان پر الزام تھا کہ وہ نائن الیون کے ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد کے ساتھ مل کر امریکہ میں ایک گیس اسٹیشن کو دھماکے سے اڑانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے

عزیر کو پولیس کو دیے گئے بیانات کے مطابق ماجد خان نے انھیں ان کے امیگریشن کے دستاویزات سے متعلق پیشرفت جاننے اور امریکہ میں ان کے نام پر قائم پوسٹ آفس باکس بند کرنے میں مدد طلب کی تھی۔ امریکی حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ وہی پوسٹ آفس باکس ہے، جسے ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے ماجد خان کے نام پر میری لینڈ میں کھولا اور اسی مقصد کے لیے انھوں نے دسمبر 2002 میں امریکہ کا سفر کیا

تاہم ڈاکٹر عافیہ نے اس الزام کی تردید کی اور ان کا کہنا ہے کہ وہ امریکہ نوکری تلاش کرنے کے مقصد سے گئی تھیں

جب عزیر پراچہ کو گرفتار کیا گیا تو ان سے اس پوسٹ آفس باکس کی چابی بھی برآمد ہوئی۔ اس کے علاوہ ماجد خان نے عزیر کو اپنا کریڈٹ کارڈ استعمال کرنے کو کہا اور اس کے بینک اکاؤنٹ میں پیسے جمع کروانے کو کہا۔ اس کا مقصد یہ تاثر دینا تھا کہ ماجد خان امریکہ میں ہیں تاہم عزیر کو یہ دونوں ہی کام کرنے کا موقع نہیں ملا

عزیر پراچہ پر ایک اور مبینہ القاعدہ رکن عمار ال بلوچی سے تعلقات کا الزام بھی عائد کیا گیا تاہم عزیر کے مطابق انھوں نے عمار ال بلوچی سے صرف اس لیے ملاقات کی تھی کیونکہ انھوں نے ان کے والد کے کاروبار میں 18 سے 20 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا

عمار ال بلوچی خالد شیخ محمد کے بھانجے تھے اور مبینہ طور عافیہ صدیقی کے دوسرے شوہر تھے۔ عزیر نے گرفتاری کے فوراً بعد دیے گئے بیان میں کہا تھا کہ ان کو لگتا ہے کہ ان کے والد سیف اللہ پراچہ کے القاعدہ سے تعلقات ہیں لیکن ان کے والد نے کبھی ان سے اس متعلق بات نہیں کی تاہم بعد میں عزیر کے وکیل نے موقف اپنایا کہ عزیر نے یہ بیان دباؤ میں آ کر دیا تھا

عزیر اور سیف اللہ پراچہ دونوں کا اصرار تھا کہ انھوں نے ماجد خان اور عمار ال بلوچی کی مدد ضرور کی لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ ان دونوں کا تعلق القاعدہ سے ہے۔ اس کے علاوہ ماجد خان اور عمار ال بلوچی نے بھی اپنے بیانات میں اعتراف کیا کہ انھوں نے کبھی سیف اللہ اور عزیر کو اپنے القاعدہ سے تعلقات سے آگاہ نہیں کیا تھا

سنہ 2006 میں ایک امریکی عدالت نے عزیر پراچہ کو القاعدہ کے ارکان کی مدد کے جرم میں 30 سال قید کی سزا سنائی تاہم 2018 میں اسی عدالت کے جج نے نئے شواہد سامنے آنے کی روشنی میں اس فیصلے کو کالعدم قرار دیا اور ٹرائل کو نئے سرے سے کرنے کا حکم دیا

تاہم امریکی حکومت نے اس ٹرائل کی مزید پیروی کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ کیونکہ عزیر 16 سال اپنی سزا کاٹ چکے ہیں اور انھوں نے اپنی امریکی شہریت سے بھی دستبردار ہونے پر رضامندی ظاہر کی ہے لہذا حکومت مزید وقت اور وسائل اس کیس پر خرچ نہیں کرنا چاہتی جس کے بعد عزیر پراچہ کو 2020 میں رہا کر کے پاکستان بھجوا دیا گیا

الزامات لگنے کی وجہ کیا تھی؟

گرفتاری سے قبل سیف اللہ پراچہ کا شمار کراچی کے کامیاب بزنس مین میں ہوتا تھا۔ وہ 1970 میں نیویارک انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں کمپیوٹر سائنس کی تعلیم حاصل کرنے امریکہ گئے۔ وہ اپنی ڈگری تو مکمل نہ کر سکے لیکن 1974 میں انھوں نے اپنے بھائی کی مدد سے ’گلوبل ٹریول سروسز‘ کے نام سے ٹریول ایجنسی کھولی اور 13 سال امریکہ میں ہی گزارے

امریکہ میں ہی ان کی ملاقات اپنی اہلیہ فرحت سے ہوئی اور 1979 میں ان کی شادی ہوئی جن سے ان کے چار بچے ہیں

سیف اللہ پراچہ نماز کے پابند تھے اور صاحب حیثیت ہونے کی وجہ سے خیراتی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ انھوں نے اپنے بچوں کو کراچی کے بہترین سکولوں سے تعلیم دلوائی

سنہ 2009 میں دیے گئے اپنے انٹرویو میں سیف اللہ کی اہلیہ نے بتایا تھا کہ سیف اللہ پراچہ نائن الیون سے پہلے دو مرتبہ افعانستان بھی گئے جہاں ان کی مبینہ طور پر اسامہ بن لادن سے ملاقات ہوئی تھی

فرحت پراچہ کے مطابق ان کے شوہر صنعتکاروں کا وفد لے کر افغانستان گئے تھے تاکہ مسلمان بھائیوں کی مدد کے لیے اس تباہ حال ملک میں پلاسٹک اور بائی سائیکل کی فیکٹریاں لگائی جا سکیں

اطلاعات کے مطابق سیف اللہ پراچہ نے اسامہ بن لادن سے کہا تھا کہ ’تم جو یہاں کر رہے ہو اس سے امریکہ تمہارے خلاف ہو گیا ہے۔ تم اپنا مؤقف بتاؤ اور ہمیں ایک انٹرویو دو۔‘

اس مقصد کے لیے وہ اپنا وزیٹنگ کارڈ بھی اسامہ کے پاس چھوڑ آئے تھے

امریکی حکومت کے دعوے مطابق افغانستان میں القاعدہ کے کمپاؤنڈ پر چھاپے کے دوران سیف اللہ کا وزیٹنگ کارڈ برآمد ہوا تھا جس کے بعد ان پر الزام عائد کیا گیا انھوں نے اسامہ کو پاکستان میں اپنے نشریاتی بزنس پر القاعدہ کے پراپیگنڈہ کرنے کی پیشکش کی

گوانتاناموبے ٹریبونل کے سامنے دیے گئے اپنے بیان میں پراچہ نے اعتراف کیا کہ وہ دسمبر سنہ 1999 اور جنوری سنہ دو ہزار میں افغانستان میں اسامہ بن لادن سے مل چکے ہیں۔ سیف اللہ کا کہنا تھا کہ انھوں نے اسامہ بن لادن کو انٹرویو کی پیشکش صرف اس لیے کے کیونکہ وہ چاہتے تھے اسلام اور دیگر مذاہب میں اختلافات کو کم کیا جا سکے

سیف اللہ نے بتایا کہ 2001 میں ‘میر’ نامی ایک شخص کراچی میں ان کے دفتر ان سے ملاقات کے لیے آیا اور وہ ان کے اسامہ بن لادن کے انٹرویو سے متعلق مزید جاننا چاہتا تھا

سیف اللہ کے بیان کے مطابق میر نامی شخص نے ہی انھیں اپنے ساتھی مصطفیٰ اور ماجد خان سے ملوایا اور جب ماجد خان کو معلوم ہوا کہ سیف اللہ کا بیٹا عزیر بزنس کے سلسلے میں امریکہ جا رہا ہے تو انھوں نے اس سے مدد کی درخواست کی

یکم مارچ 2003 کو جب سی آئی اے اور پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں نے خالد شیخ محمد کو راولپنڈی سے گرفتار کیا اور اس کی خبر ٹی وی پر چلی تو سیف اللہ پراچہ کو احساس ہوا کہ وہ جس شخص کو میر سمجھ کر ملتے رہے وہ دراصل القاعدہ کے سرکردہ رہنما خالد شیخ محمد ہیں اور ان کے ساتھی مصطفیٰ دراصل عمار ال بلوچی ہیں

سیف اللہ کے بیان کے مطابق وہ ‘میر’ اور ‘مصطفی’ نامی شخص سے صرف اس لیے رابطے میں رہے کیونکہ انھیں لگا کہ یہ دونوں ان کے کاروبار میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں

سیف اللہ پراچہ پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ خالد شیخ محمد نے انھیں پانچ سے چھ لاکھ ڈالر کی رقم امانت کے طور پر دی تھی اور سیف اللہ پراچہ نے خالد شیخ محمد کو بین الاقوامی جہاز رانی کے ذریعے ہونے والی تجارت میں اپنے طویل تجربہ کی بنیاد پر عورتوں اور بچوں کے کپڑوں میں چھپا کر دھماکہ خیز مواد امریکہ سمگل کرنے میں اپنی خدمات کی پیش کش کی تھی۔ تاہم سیف اللہ نے ان الزامات کی تردید کرتے آئے ہیں

سیف اللہ کے وکیل کا کہنا ہے کہ امریکی سینٹ کی رپورٹ کے مطابق خالد شیخ محمد نے یہ بیانات تفتیشی افسران کی جانب سے ان پر اذیت ناک تشدد کیے جانے کے بعد دیے۔ اس کے علاوہ بعد میں جب خالد شیخ محمد کو سیف اللہ پراچہ کی تصویر دکھائی گئی تو انھوں نے انھیں پہچاننے سے انکار کر دیا۔

اس کے علاوہ عمار ال بلوچی نے بھی دوران تفتیش اعتراف کیا کہ سیف اللہ ان کے القاعدہ سے تعلقات سے آگاہ نہیں تھے اور انھیں سیف اللہ سے میڈیا میں استعمال ہونے والے سامان اور اس کی ترسیل سے متلعق معلومات حاصل کیں تھی

مارچ 2003 میں خالد شیخ محمد کی گرفتاری کے چند دن بعد ہی ماجد خان کو پاکستانی اہلکاروں کی جانب سے گرفتار کر لیا جاتا ہے جس نے دوران تفتیش سیف اللہ پراچہ اور عزیر پراچہ کے نام لیے۔ اس کے بعد نیویارک میں عزیر کو گرفتار کیا گیا اور اپریل 2003 ہی میں عمار ال بلوچی کو کراچی ائیرپورٹ سے اغوا کر کے امریکی حراست میں دے دیا گیا

یہ وہی وقت تھا جب ڈاکٹر عافیہ صدیقی کراچی سے لاپتہ ہوئیں۔ اس کے بعد جولائی 2003 میں سیف اللہ کو بینکاک سے گرفتار کیا گیا

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close