کل اور آج

امر جلیل

یہ بہت پرانی کہانی ہے۔ برصغیر کے بٹوارے سے زیادہ پرانی کہانی ہے۔ تب ہندوستان میں انقلابیوں کی کمی نہیں تھی۔ گلی کوچوں میں انقلابی گھومتے پھرتے نظر آتے تھے۔ تب ہم چھوٹے تھے، بلکہ چھوٹے بچے تھے۔ حیران ہو کر ہم انقلابیوں کو دیکھتے تھے۔ دیکھنے میں وہ عام آدمیوں کی طرح تھے۔ وہی آدمیوں والا ناک نقشہ، وہی آدمیوں والی چال ڈھال، وہی عام آدمیوں والا لب و لہجہ، مگر جب وہ انقلاب کی بات کرتے تھے، تب آپ انقلابیوں کی آواز میں گھن گرج سن سکتے تھے۔

بٹوارے سے پہلے والے ہم بچے آج کل کے بچوں کی طرح سیانے اور کائیاں نہیں ہوتے تھے۔ فلم میں ٹارزن کے پیچھے گھات لگائے ہوئےچیتے کو دیکھ کر گھبرا جاتے تھے۔ بیک گرائونڈ میوزک کے ساتھ ہم بچے بھی چلا اٹھتے تھے، ٹارزن ،پیچھے دیکھ۔۔۔ سنیما ہال میں بیٹھے ہوئے لوگ پلٹ کر ہم بچوں کی طرف دیکھتے تھے اور ہنس پڑتے تھے۔ مگر آج کل کے بچوں کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ آج کل کے بچوں کی کسی کے ساتھ کسی قسم کی جذباتی وابستگی نہیں ہوتی۔ وہ جانتے ہیں کہ فلمیں اسکرپٹ اور اسکرین پلے کے مطابق بنائی جاتی ہیں۔ جو کچھ اسکرین پر دکھائی دیتا ہے، ویسا کچھ نہیں ہوتا۔ ٹارزن ہیرو ہونے کے ناتے چیتے کا بھوجن نہیں بن سکتا۔ بڑا فرق ہے آج کل کے بچوں میں اور جب ہم بچے ہوا کرتے تھے۔۔ تب بڑی بڑی باتیں، ہماری سمجھ سے بالاتر ہوا کرتی تھیں۔ ہماری سمجھ میں نہیں آتی تھیں۔

یہ سنی سنائی باتیں نہیں ہیں جو میں آپ کو سنا رہا ہوں۔ تب میں خود بچہ ہوتا تھا، اس لیے میری سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ بیمار قائدِ اعظم کو ماڑی پور ائیر بیس سے گورنر ہاؤس تک لے جانے کے لئے ایک چھکڑا قسم کی ایمبولینس کس کے کہنے پر بھیجی گئی تھی۔ ہمیں اس بات کا بھی علم نہیں تھا کہ کس کے حکم پر ڈرائیور نے پھٹیچر ایمبولینس ماڑی پور روڈ پر عین ایک بہت بڑے مہاجر کیمپ کے سامنے گاڑی میں خرابی کا بہانا بنا کر روک دی تھی اور ستمبر کی چلچلاتی دھوپ میں ایمبولینس بے یار و مددگار گھنٹوں کھڑی رہی تھی۔۔ مگر آج کے بچے، جو تب پیدا نہیں ہوئے تھے، جانتے ہیں کہ کس کے حکم پر قائدِ اعظم کو ٹوٹی پھوٹی ناقص ایمبولینس میں سوار کیا گیا تھا۔ آج کے بچے جانتے ہیں کہ کس کے حکم پر ڈرائیور نے انجن میں خرابی کا بہانہ بنا کر مہاجر کیمپ کے سامنے ایمبولینس روک لی تھی۔ آج کل کے بچے یہ تک جانتے ہیں کہ انیس سو سینتالیس میں نشر ہونے والی قائدِ اعظم کی افتتاحی تقریر جب اخبارات کو شائع کرنے کے لئے بھیجی گئی تھی، تب قائدِ اعظم کی تقریر کس کس نے ایڈٹ کی تھی اور تقریر میں کاٹ پیٹ کی تھی۔ تب ہم بچے تھے کچھ سمجھ نہیں سکتے تھے، کچھ ہمارے پلے نہیں پڑتا تھا۔۔ مگر آج کے بچے، ہمارے دور کے ہم بچوں کی طرح بدھو نہیں۔ ستر اَسی برس پرانی باتیں وہ آپ کو اس قدر ٹھیک ٹھیک اور کھرے پن سے سنائیں گے کہ آپ دنگ رہ جائیں گے۔

کمال کے بچے ہیں آج کل کے! ہمارے سامنے تاریخ کے اوراق لکھے جا رہے تھے مگر تب کے ہم بچے بےخبر تھے۔۔ مگر آج کے افلاطون بچے سب جانتے ہیں کہ اخباروں میں کانٹ چھانٹ کے بعد تدوین کی ہوئی تقریر پڑھ کر قائدِ اعظم کو بے انتہا دکھ ہوا تھا۔ وہ اس کے بعد چپ ہو گئے تھے۔ کسی کا تبادلہ نہیں ہوا۔ کسی کو مستعفی ہونا نہیں پڑا تھا۔ کوئی سسپنڈ نہیں ہوا تھا۔ کسی سے وضاحت نہیں مانگی گئی۔ قائدِ اعظم اس کے بعد زیادہ دیر اس دنیا میں نہیں رہے۔ چلے گئے۔ یہ باتیں آج کل کا بچہ بچہ جانتا ہے۔ ہم جو اب بچے نہیں رہے، اور اب تو بڑے بوڑھے ہوچکے ہیں یہ باتیں نہیں جانتے۔ بھول بھال گئے ہیں۔

آج کل کے بچے تو آپ کو یہ بھی بتادیں گے کہ لیاقت علی خان کو قتل کرنے کا منصوبہ کب، کہاں اور کس کس نے بنایا تھا۔ ایک اجنبی کو حاضرین کی پہلی صف میں عین وزیرِ اعظم کے سامنے کس نے بٹھایا تھا، جس نے تقریر شروع ہونے کے فوراً بعد وزیرِ اعظم کے سینے میں ریوالور سے گولیاں داغ دی تھیں۔ آج کل کے بچے تو یہ تک جانتے ہیں کہ بینظیر بھٹو کے قتل کا ماسٹر مائنڈ کون ہے، کہاں ہے اور آج کل کیسے کیسے گل چھرے اڑا رہا ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ تاریخ کے پوشیدہ اوراق کے بارے میں ہم اتنا کچھ کیوں نہیں جانتے، جتنا کہ آج کل کے بچے جانتے ہیں۔

بٹوارے سے پہلے کے دور کا ایک بھولا بسرا انقلابی خیر سے کراچی پہنچا۔ کنگلا تھا، اس لیے ہم کنگلوں کی بستی میں آ کر رہنے لگا۔ انقلاب کی مد میں اس نے کیسے کیسے کارنامے سرانجام دیے تھے، ان کارناموں کے بارے میں، میں بےخبر تھا۔ مگر آج کے بچے بےخبر نہیں۔ وہ انقلابی کے بارے میں باخبر تھے۔ بچوں نے مجھ سے پوچھا ’’انکل، یہ کنگلا انقلابی بٹوارے سے پہلے کے دور کا انقلابی ہے۔ یعنی آپ کے دور کا انقلابی ہے۔ پھر آپ انقلابی کو کیوں نہیں پہچانتے؟‘‘

میں نے کہا،’’ تب میں تم لوگوں کی طرح چھوٹا سا بچہ تھا۔۔ اور میں تم لوگوں کی طرح کائیاں بھی نہیں تھا۔‘‘

کچھ دیر کی خاموشی کے بعد میں نے بچوں سے پوچھا، ’’تم لوگوں کو کیسے پتہ چلا کہ یہ دبلا پتلا آدمی ایک انقلابی ہے؟‘‘

بچوں نے کہا، ’’بٹوارے سے پہلے انگریز کی پولیس اور خفیہ اداروں نے اس کا جینا دوبھر کر دیا تھا۔ آج کل پاکستانی پولیس اور خفیہ ادارے اس کھڑوس انقلابی کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔‘‘ گَل ختم۔

بشکریہ روزنامہ جنگ۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close