کسی کی تعزیت ہو، کسی کی شادی، غم ہو یا خوشی، خواتین دوسری خواتین کو آنکھیں سکیڑ کر دیکھتی ہیں اور پھر بغیر کسی حیل و حجت کے دوسرے کی ہئیت، جسامت، عمر، وزن اور شکل پر تبرا بھیج کر یہ جا وہ جا۔۔
ہائے کتنی کالی ہو گئی ہو، کیا ہوا؟ پھیل گئی ہو، موٹی کیوں ہو رہی ہو؟ چھائیاں کیوں پڑ رہی ہیں؟ شکل پر نحوست آ گئی ہے، دانے کیوں ہیں؟ پیٹ کیوں نکل رہا ہے؟
یہ ایک لمبی فہرست ہے۔ آپ اپنی سہولت کے مطابق اضافہ کر کے اس طرزِ عمل کا مشاہدہ کر لیں۔
اب یہ ہمیشہ سے سیکھا ہوا طرزِ عمل ہے۔ اس معاشرے میں لوگوں کی شخصیت کو تباہ کرنے کے عوامل میں ایک یہ بھی ہے کہ دوسروں کو برا محسوس کرا کے خود اچھا محسوس کرو۔
میں نے تو متعدد بار یہ بھی نوٹ کیا کہ جب کوئی کسی کو منہ پر اس کو برا بھلا کہہ رہا ہوتا ہے تو ایسا کرتے ہوئے چہرے پر ایک سکون اور فخر بھی ہوتا ہے۔
جیسے کسی کو یہ بتا کر، کہ اس کے منہ پر چھائیاں ہو گئی ہیں، کوئی خدمتِ خلق انجام دی ہے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے یہ طرزِ عمل صرف خواتین کے حوالے سے کیوں بیان کر رہی ہوں۔ مردوں کے تاثرات ذرا مختلف ہوتے ہیں، وہ اس قدر ظاہری شخصیت کے ارد گرد نہیں گھومتے۔
مرد موٹا ہو تو اس کو دیکھ کر کہہ دیں گے، ’خیر ہو خوراک پر زور ہے، بڑی جان بنا رہے ہو؟‘
بہت پتلا ہو تو اس پر بعض اوقات نامناسب القابات سے نوازا جاتا ہے لیکن یہ ہر وقت اور ہر جگہ نہیں ہوتا۔
خواتین کے لیے یہ جملے اور تاثرات ہر جگہ موجود ہیں۔ خواتین یہ کام ہر جگہ پر ماحول اور ہر حالات میں کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں اور جب کبھی بوریت حد سے بڑھے تو اس صلاحیت کا استعمال وہ مردوں کی شخصیت کا تیا پانچہ کر کے بھی کرتی ہیں۔
سننے کو ملے گا، بڑا ہی بدشکل ہے ان کا داماد، اس کا شوہر گنجا ہے وغیرہ وغیرہ۔
مرد حضرات بھی عورتوں کی ظاہری شخصیت پر تبصرے کرتے ہیں، لیکن موٹی پتلی سے زیادہ کم ہی کسی کے منہ پر کہا جاتا ہے۔
منہ پر کسی کو برا بھلا کہنا اور دل میں کسی کو دیکھ کر کوئی رائے بنانا دو مختلف چیزیں ہیں۔ یہ سیکھنا کہ کب کیا رائے دینی چاہیے، اور کہاں نہیں دینی چاہیے اور اس کا مقصد کیا ہے، یہ بھی لازم ہے۔
کہنے کو تویہ عام سی سادہ سی باتیں ہیں مگر ان کا اثر لوگوں کی شخصیت پر بہت گہرا پڑتا ہے، اس کا احساس دلانا ضروری ہے۔ لوگوں کی ذہانت اور صلاحیت کا ان کی جسامت اور ظاہری شکل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
جیسے ہی لوگ کسی مکالمے میں تلخی کی طرف بڑھتے ہیں تو سب سے پہلا جملہ بولتے ہیں، ’اپنی شکل دیکھو، اپنی اوقات میں رہو۔‘
کسی کی سُستی پر اس کو ہڈحرام کہہ دیتے ہیں اور کسی کی سست روی پر اس کو لولا لنگڑا کہہ دیتے ہیں۔
ہمارے نصاب میں گھر کی تربیت میں مثبت رویوں اور ان کی اہمیت کا کوئی ذکر نہیں۔ کسی بھی شخص کو اپنی صلاحیتوں کو بھرپور استعمال کرنے کے لیے مثبت توانائی کی ضرورت ہوتی ہے، وہ ان رویوں سے مل سکتی ہے جو اس کی تعریف کریں اور اس کی خوبیوں پر فوکس کریں۔
ہمارے سماج میں عمومی طور پر منفی زاویے اور مسائل ہی زیرِ بحث رہتے ہیں، ناکامیوں پر کوسنے کا عمل ساری زندگی جاری رہتا ہے اور اس ناکامی کے بعد کی کامیابیاں بھی اس ناکامی کی گرد بٹھانے میں ناکام رہ جاتی ہیں۔
اس طرزِ عمل سے جو نقصان ہوگا، اس کا اندازہ کرنا ضروری ہے۔ وہ لوگ جو اپنی زندگی میں آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں، ان کی شخصیت پر بلاوجہ کی تنقید ان کی رفتار کو متاثر کرتی ہے۔
یہ ایک کلیشے بات ہے کہ لوگوں کی بری باتوں کی پروا نہیں کرنی چاہیے۔ جب تک کوئی یہ فیصلہ کرتا ہے کہ ایسے جملوں کو نظر انداز کرنا ہے، تب تک وہ جملے اور تاثرات اس کے ذہن اور اعتماد کو متاثر کر چکے ہوتے ہیں۔
سب سے اہم اور مشکل لوگوں کو یہ احساس دلانا ہے کہ ایسے جملے بولنا، ایسے تاثرات کا برملا اظہار کرنا، حتٰی کہ لوگوں کو صرف ان کی ظاہری شخصیت کے تناظر میں دیھکنا نا مناسب اور تہذیب سے ہٹ کر ہے۔
بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ کام کرتے اور بیرونِ ملک سفر کرتے جب آپ کا واسطہ انگریزوں سے پڑتا ہے تو آپ کو اصل میں معلوم ہوتا ہے کہ مہذب دنیا کے لوگ کیسے سوچتے ہیں اور ہر کسی سے کیسا سلوک کرتے ہیں۔
زندگی کے معمولات میں وہ ہمیشہ آپ کو مثبت نظر آئیں گے۔ اس سے پہلے کہ میں اپنی رائے اپنے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں دوں، نوٹ فرما لیں یہ دعویٰ ہر گز نہیں کر رہی کہ مغرب کو مجھ سے بہتر کوئی نہیں جانتا!
تو جب انگریز خواتین اور مرد آپ کو دیکھتے ہیں تو کچھ ایسے جملوں کا تبادلہ ہوتا ہے: آپ شاندار لگ رہی ہیں۔ وہ آپ کو سراہنے کے لیے کہیں گی آپ امیزنگ ہیں، آپ شاندار ہیں، آپ سپر ہیرو ہیں، آپ کا لباس شاندار ہے۔
بے شک آپ کی اپنی رائے ایسی نا ہو اس دن کے موڈ اور لباس کے مطابق، مگر وہ آپ کو ایسے مثبت جملوں سے خوشگوار کر دیں گے۔ اگر وہ آپ کو نہیں بھی جانتے تو وہ گرمجوشی سے آپ کی تعریف کریں گے۔
ہم اپنے رہن سہن کو تو جدت دے چکے ہیں۔ اچھے شاندار گھروں میں عمدہ سجاوٹ کے ساتھ رہنا اب عام سی بات ہے، لیکن ہماری سوچ اور ہمارے طرزِ عمل کو نکھرنے اور مہذب ہونے میں شاید ایک صدی اور لگ جائے۔
اتنا وقت لگنے پر مجھے کوئی افسوس نا ہو، اگر ایسا محسوس ہو کہ ہم نے اس طرف سفر شروع کر دیا ہے۔
ہم تو کسی اور ہی ڈگر پر ہیں، پہلے سماج میں بدتمیزی کرنے پر کچھ ہچکچاہٹ محسوس ہوتی تھی، بدتمیز اور منہ پھٹ کی قبولیت کم تھی لیکن اب تو ہر منہ پھٹ ہیرو سمجھا جاتا ہے۔
بدتمیزی کرنے کو یہ کہہ کر صائب قرار دیا جاتا ہے کہ سچ تو بولنا چاہیے۔ یہ تربیت کس نے کرنی ہے؟ سماجی رویوں میں احساس نرمی اور ہمدردی کس نے لانی ہے؟
تعلیمی نصاب میں تو ایسا کوئی انتظام نہیں ہے اور ویسے بھی جیسے ان رویوں پر سماج پختہ ہو چکا ہے، اس کو بدلنا صرف نصاب کی تبدیلی کے بس کی بات نہیں۔
معاشروں کے فکری ارتقا میں وہاں کے دانش وروں اور ادیبوں کا کردار رہا ہے، بدقسمتی سے ہمارے اکثر دانش ور خود تمیز اور تہذیب سے عاری ہیں، وہ سوشل میڈیا کے ستارے بن چکے ہیں اور فکری منافقت اپنے عروج پر ہے۔
کتاب لکھنے والے لوگ تو موجود ہیں مگر شاید اب نئے عہد کے میڈیم کو استعمال کرنا ہوگا۔
ہمارے ہاں بدتہذیبی اور گالم گلوچ کی قبولیت زیادہ تشویش ناک ہے، شریف شرفا ڈر کے مارے بات نہیں کرتے اور بدتمیزی کرنے والے شیر ہوئے جاتے ہیں۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)