اس وقت بدلتے ہوئے موسمی حالات کے باعث زمین تندور بنتی جا رہی ہے اور پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے کئی علاقوں میں پارہ 50 ڈگری سنٹی گریڈ سے اوپر نکل رہا ہے، ایسے وقت میں سائنس دانوں کے ایک گروپ نے زمین کو مزید گرم ہونے سے روکنے اور اسے رہنے کے قابل بنانے کا ایک آسان اور سستا طریقہ ڈھونڈا ہے، جس میں ہر شخص عملی طور پر شامل ہو سکتا ہے۔
دنیا کے قدرتی موسم اور فطرت کے نظام میں خلل ڈالنے کا ذمہ دار خود انسان ہے، جس کی بنیاد اس نے اٹھارویں صدی کے نصف میں صنعتی انقلاب کے نام سے رکھی تھی۔ کارخانوں کی چمنیوں سے خارج ہونے والے جس دھوئیں کو کبھی ترقی کی علامت سمجھا جاتا تھا، اب ایک عفریت کی شکل میں سب کچھ نگلتا نظر آ رہا ہے۔
زمین کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو روکنے اور پلٹنے کے لیے سائنسدان پچھلی صدی کے آخر سے تجاویز دے رہے ہیں۔ اس مسئلے کے حل کے لیے عالمی سطح پر کانفرنسیں بھی ہو رہی ہیں۔ دنیا بھر کے ملک عمل درآمد کے وعدے بھی کر رہے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ان پر عمل کی رفتار بہت سست ہے۔
بات دراصل یہ ہے کہ ڈھائی تین سو برس سے چلتے ہوئے نظام کو پلک جھپکتے بدلنا آسان نہیں ہے، اس کے لیے اربوں کھربوں ڈالر درکار ہیں۔۔ لیکن گرمی کی شدت روکنے کا ایک آسان اور سستا طریقہ بھی موجود ہے!
آسٹریلیا کے شہر برنگرو میں قائم جارج انسٹیٹیوٹ فار گلوبل ہیلتھ اور لندن کے امپیریل کالج کی ایک مشترکہ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اگر ہم اپنے کھانے پینے کی چیزوں کے ملتے جلتے ماحول دوست متبادل کا استعمال شروع کر دیں تو گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج 26 فی صد سے زیادہ کم ہو سکتا ہے۔
تحقیق میں اس کی وضاحت ایک مثال سے کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اگر پاستا کو گوشت کی بجائے سبزیوں کے ساتھ پکایا جائے تو کاربن گیسوں کے اخراج میں 71 فی صد تک کمی ہو سکتی ہے۔
اس تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا ہے کہ لوگوں کو اس تبدیلی کی جانب راغب کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں یہ بتایا جائے کہ اس کے فائدے کیا ہیں اور کھانے پینے کی چیزوں کے پیکٹوں پر یہ لکھا جانا چاہیے کہ اس سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کتنی کمی ہوئی ہے۔
کرہ ارض کے بڑھتے ہوئے درجہِ حرارت کو روکنے کے لیے خوراک کے استعمال پر یہ پہلا ایسا تفصیلی اور منفرد سائنسی مطالعہ ہے، جس میں خوراک کی خریداری سے متعلق لوگوں کے رویوں کے ماحول پر اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس تحقیق میں سپر مارکیٹوں میں کھانے پینے کی ہزاروں اشیا کا ڈیٹا شامل ہے اور ان کی تیاری میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی مقدار بتائی گئی ہے۔
رپورٹ میں کھانے پینے کی زیادہ تر ان چیزوں کو شامل کیا گیا ہے جو اکثر ملکوں میں استعمال کی جاتی ہیں۔
آسٹریلیا کے جارج انسٹیٹیوٹ اور امپیریل کالج لندن کے اس مطالعے کے قائد ڈاکٹر ایلی سن گینز کہتے ہیں ”اگر ہم کاربن گیسوں کے اخراج کے اہداف حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں کھانے پینے کی عادات میں نمایاں تبدیلیاں کرنا ہوں گی، خاص طور پر امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا جیسے امیر ملکوں میں۔“
ان کا مزید کہنا ہے کہ اگر صارفین ہماری خوراک اور کھانے پینے کی عادات کے ماحول پر اثرات سے آگاہ ہوں گے تو وہ اپنی پسند کے بہتر متبادل ڈھونڈ سکیں گے۔
اس تحقیق میں آسٹریلیا کے سات ہزار گھرانوں کا انتخاب کیا گیا ہے اور ان کی سال بھر کی گراسری کے متوقع اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ ان گھرانوں کی خوراک میں شامل بائیس ہزار سے زیادہ چیزوں کا ڈیٹا بھی اکٹھا کیا گیا، جو اس تحقیق کا حصہ ہے، جس میں سادہ روٹی سے لے کر برگر تک شامل ہیں اور اس بارے میں اعداد و شمار دیے گئے ہیں کہ ان کی تیاری میں کاربن گیسوں کی کتنی مقدار خارج ہوتی ہے۔
اس مطالعاتی جائزے میں بتایا گیا ہے کہ متبادل خوراک کے استعمال سے کاربن گیسوں کے اخراج میں کتنی کمی کی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر آسٹریلیاکے صارف ایک قسم کے برگر کی بجائے دوسری قسم کا برگر خریدنا شروع کر دیں تو اس سے صرف ایک چیز کی تبدیلی سے آسٹریلیا سے کاربن گیسوں کے اخراج میں 26 فی صد تک کمی ممکن ہے، جو 19 لاکھ کاروں سے خارج ہونے والے دھوئیں کے مساوی ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ برگر کی طرح ہم کھانے پینے کی کچھ اور چیزیں بھی تبدیل کر لیں تو کچھ مزید کیے بغیر آسٹریلیا سے 71 فی صد تک کاربن گیسوں کا اخراج روک سکتے ہیں۔
ڈاکٹر گنیز کہتے ہیں کہ ہماری تحقیق کے نتائج یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم صرف خوراک تبدیل کر کے گلوبل وارمنگ کا سبب بننے والی گیسوں کا اخراج بڑی حد تک روک سکتے ہیں، لیکن یہ تب ہی ممکن ہے کہ دوسرے ملک بھی ایسا ہی کریں۔
ڈاکٹر گنیز کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہم نے اپنی تحقیق میں خوراک کے ایسے متبادل پیش کیے ہیں جو ذائقے اور غذائیت میں بہت قریب ہیں اور اس تبدیلی سے ان کی صحت پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا۔ بس صرف یہ ہو گا کہ وہ ایسی خوراک کی بجائے، جس کی تیاری میں بہت زیادہ کاربن گیسیں خارج ہوتی ہے، ایسی چیز استعمال کریں گے جسے بنانے میں کاربن گیس کم مقدار میں خارج ہوتی ہے۔
تحقیق میں شامل کئی اعداد و شمار بڑے دلچسپ ہیں۔ مثلاً گراسری اسٹوروں کی مجموعی خریداریوں میں گوشت کی مصنوعات کا حصہ صرف 11 فی صد ہے، جب کہ اس کی تیاری میں کاربن گیسوں کا اخراج کا حصہ 49 فی صد ہے۔ اسی طرح کل خریداریوں میں سبزی اور پھلوں کا حصہ تقریباً 25 فی صد ہے، جب کہ ان کی کاشت سے لے کر صارف کے تھیلے تک منتقل ہونے میں کاربن گیسوں کے کل اخراج میں وہ صرف پانچ فی صد کے حصے دار ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق کاربن گیسوں کے کل اخراج میں زراعت کے شعبے کا حصہ ایک تہائی ہے۔ جب کہ اس سے ہمارے ماحول اور صحت کے نظام کو ہر سال چودہ ٹریلین ڈالر تک کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
اگر صرف زراعت کے شعبے کی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج پر قابو پا لیا جائے تو ان گیسوں کے سبب ہونے والی انسانی ہلاکتوں کو روکا جا سکتا ہے۔ یہ تعداد سالانہ ایک کروڑ بیس لاکھ بنتی ہے۔