استحقاق کا استحقاق

امر جلیل

بچپن میں، میں نے ایک عجیب و غریب لفظ سنا تھا اور چکرا کر گر پڑا تھا۔ بڑے برے طریقے سے گرا تھا کہ چھوٹے کا چھوٹا رہ گیا تھا اور بوڑھا کھوسٹ ہو جانے کے بعد آج تک چھوٹا ہوں۔ ’’چھوٹے پلاس پکڑا‘‘، ’’چھوٹے مارتول اٹھا‘‘، ’’چھوٹے کالی پیلی گاڑی کے ڈینٹ نکال‘‘۔ میں آج تک اس شخص کے بارے میں سوچتا رہتا ہوں، جس نے اس قدر بیہودہ لفظ ایجاد کیا تھا۔ اگر میرے بس میں ہوتا، تو میں اسے وعدہ معاف گواہ بنا کر، آخرکار اسے پھانسی پر لٹکا دیتا۔۔ مگر ایسی انوکھی کارکردگی میرے بس کی بات نہیں ہے۔ وہ انوکھا اور ناقابلِ فہم لفظ ہے، استحقاق۔

بچپن میں جب میں نے پہلی مرتبہ غیرمانوس لفظ استحقاق سنا تھا، تب سے آج تک، جب کہ میں بوڑھا بچہ رہ گیا ہوں، میں نے نامراد پیچیدہ لفظ استحقاق کے بارے میں سوچا ہے، اور کھوجا ہے۔ میں اس بچگانہ نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اللہ سائیں نے کسی کو بھی استحقاق دے کر اس دنیا میں نہیں بھیجا ہے۔ استحقاق اس دنیا کی کون سی بلا ہے جو بالآخر وبالِ جان بن جاتی ہے، یا وبالِ جان بن جاتا ہے۔ چونکہ میں بچہ ہوں اور بچوں کے ساتھ ہی میرا اٹھنا بیٹھنا اور مرنا جینا ہے، اس لیے بچہ ہونے کے ناطے میں نہیں جانتا کہ استحقاق مذکر ہے یا مونث ہے۔ ہم بچے نہیں جانتے کہ استحقاق جن ہے یا بھوت ہے؟ ہم بچے یہ بھی نہیں جانتے کہ استحقاق چرند ہے یا پرند ہے؟ کیا کھاتا ہے، اور کیا پیتا ہے؟ عام طور پر استحقاق پاکستان میں کہاں پایا جاتا ہے؟ اس دوران کھوجی بچوں نے پتہ چلا لیا کہ استحقاق نام کی چیز آپ کی عزت، آپ کی آبرو، آپ کے احترام کی طرح آپ کو کمانی پڑتی ہے۔ گھر بیٹھے ہوئے آپ نام نہیں کما سکتے۔ اچھے کام، اچھی کارکردگی کے عوض آپ کی عزت کی جاتی ہے ۔ آپ جب دوسروں کا احترام کرتے ہیں، تب دوسرے لوگ بھی آپ کا احترام کرتے ہیں۔ مگر استحقاق آپ اپنی اچھی کارکردگی سے کماتے نہیں ہیں، استحقاق آپ کو ملتا ہے۔۔ کیسے ملتا ہے؟ کیوں ملتا ہے، کن حالات میں ملتا ہے، ہم چھوٹے بچے نہیں جانتے اور یہ کیوں ہے کہ استحقاق مخصوص لوگوں کو ملتا ہے پھر چاہے وہ پرلے درجے کے ناکارہ اور بیکار اشخاص کیوں نہ ہوں۔

ایک اور بات جس نے بچوں کو پریشان کر کے رکھ دیا تھا۔ استحقاق نہ کسی نے دیکھا ہے، نہ کسی نے بھالا ہے۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ غیر مانوس لفظ استحقاق کسی کا دیکھا بھالا نہیں ہے۔ اس عجیب و غریب لفظ کی جسمانی یا طبعی شکل و صورت نہیں۔ بچوں کو اس بات نے بھی پریشان کر رکھا ہے کہ استحقاق اکثر مجروح یعنی زخمی ہو جاتا ہے۔ جس لفظ کی طبعی یا جسمانی صورت شکل نہ ہو، ہیئت نہ ہو، اس کے زخمی ہونے کی بات بچوں کے پلے نہیں پڑتی۔ گیند لگنے سے، جلسے جلوسوں کے دوران سر پر ڈنڈا پڑنے سے آپ کا سر زخمی ہو سکتا ہے، یعنی آپ کا سر مجروح ہوتا ہے۔ آپ کا دایاں بایاں بازو زخمی ہو سکتا ہے۔ آپ کا گھٹنا، آپ کی ٹانگ زخمی ہو سکتی ہے۔ استحقاق کیسے مجروح ہوتا ہے؟ ہر عمر کے بچوں کے لئے سوچنے کی بات ہے۔ جو چیز دکھائی نہ دے، جس شے کی شکل و صورت نہ ہو، وہ کیسے زخمی ہو سکتی ہے؟ ہے نا مخمصوں میں ڈالنے والی بات؟

آپ کی عزت، آپ کا احترام مجروح نہیں ہوتا۔ آپ نے کبھی نہیں سنا ہوگا کہ فلاں صاحب کی عزت مجروح ہو گئی۔ الٹے سیدھے کام کرنے سے، ہیراپھیری کرنے سے، دھوکہ دہی کی وجہ سے آپ کمائی ہوئی عزت اور احترام کھو بیٹھتے ہیں۔ آپ کی شہرت زخمی نہیں ہوتی۔ غلط کام کرنے کی وجہ سے آپ اپنی شہرت سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ آخر یہ لفظ استحقاق کیا چیز ہے؟ دکھائی نہیں دیتا، مگر اکثر زخمی ہوتا رہتا ہے۔

ہم اللہ سائیں کے بندوں کے پاس استحقاق کیوں نہیں ہوتا؟ استحقاق گنتی کے چند لوگوں کے پاس کیوں ہوتا ہے؟ یہ گتھی بچوں کی سمجھ بوجھ سے بالاتر تھی۔

استحقاق کی اصطلاح سمجھنے کے لئے بچوں نے جھنگور کے سو سالہ پراسرار نانا سے ملنے کا فیصلہ کیا۔ جھنگور جھنگوی کے پراسرار نانا زمانہ ساز تھے۔ وہ زمانہ ساز اس لئے تھے کہ بہت سے ساز بجا سکتے تھے اور راگ درباری کو تمام راگوں پر بھاری مانتے تھے اور بلند بانگ کہتے پھرتے تھے، ایک راگ درباری، سب راگوں پر بھاری۔نانا درباری کی تلاش میں بچے ایسے علاقے سے گزرے، جہاں بہت بڑی بڑی کوٹھیاں بنی ہوئی تھیں۔ بچوں نے محسوس کیا کہ استحقاق انہیں کوٹھیوں میں سے کسی بہت بڑی کوٹھی میں رہتے ہونگے۔ ایک بہت بڑی کوٹھی کے باہر بیٹھے ہوئے مشٹنڈے گن مین سے بچوں نے پوچھا ’’کیا اس کوٹھی میں استحقاق صاحب رہتے ہیں؟‘‘ جواب دینے کی بجائے چوکیدار نے کڑک آواز میں پوچھا ’’یہ استحقاق صاحب کون ہیں؟‘‘ بچوں نے کہا ’’یہ تو ہم بھی نہیں جانتے کہ استحقاق کون ہیں، وہ اکثر مجروح ہوتے رہتے ہیں۔ وہ زخمی ہوتے رہتے ہیں۔‘‘ چوکیدار نے مونچھ کو تاؤ دیتے ہوئے کہا ’’اس کوٹھی میں سردار ہیبت خان جبل رہتے ہیں، وہ زخمی نہیں ہوتے، وہ لوگوں کو زخمی کرتے ہیں۔‘‘

مایوس بچے آخر کار پراسرار نانا کے پھٹیچر گھر پہنچے، اتنے بچوں کو ایک ساتھ دیکھ کر نانا نے پوچھا، ’’کیا ڈی چوک پر دھرنا دینے جا رہے ہو۔‘‘ جھنگور جھنگوی نے کہا، ’’نانا، ہم یہ معلوم کرنے آئے ہیں کہ استحقاق آدمی ہے، جن ہے، بھوت ہے، جانور ہے، چرند ہے، پرند ہے؟ کیا کھاتا ہے، کیا پیتا ہے، کیا پہنتا ہے اور کہاں پایا جاتا ہے؟‘‘

’’استحقاق اسمبلیوں میں پایا جاتا ہے۔‘‘ نانا نے کہا ’’وہ کوئی لباس نہیں پہنتا، اس لیے کہ وہ دکھائی نہیں دیتا۔‘‘

بشکریہ روزنامہ جنگ۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close