تاریخ اور یورپی سامراج نے جو نسل پرستی کا نظریہ پیش کیا، اس بنیاد پر اُنہوں نے ایشیا اور افریقہ میں اپنی کالونیز بنائیں تو اپنی تاریخ کو رنگ و نسل کی بنیاد پر لکھا۔ ایمپیریل ازم کے اپنے ہیروز کی تعریف و توصیف کر کے اُن کے جرائم چھپا کر اُن کی یادگاریں تعمیر کرائیں اور تاریخ کو مسخ کر کے اُن کے بارے میں غلط معلومات فراہم کر کے لوگوں کے ذہنوں کو بدلنے کی کوشش کی۔
یہاں ہم اُن شخصیتوں کا ذکر کریں گے، جن کے کارناموں کو ایک ہی رُخ سے دیکھا گیا ہے۔ یہ تاریخ کا یورپی نقطہ نظر ہے۔ یعنی یورو سینٹرک۔
اس میں ایشیا اور افریقہ کے نظریے کو فراموش کر دیا گیا ہے۔ مثلاً انگلینڈ کے شہر برسٹل کا ایک شہری یا ایک تاجر، جس کا نام کورٹن تھا، اِس نے غلاموں کے کاروبار میں بے انتہا دولت کمائی۔ اس کے جہاز افریقہ سے غلاموں کو خرید کر لاتے اور انہیں ویسٹ انڈیز میں فروخت کر کے وہاں ان سے گنّے کی کاشت کرائی جاتی تھی، جس سے یہ شَکّر بناتے تھے۔ کورٹن نے اس کاروبار سے جو دولت کمائی، اس نے خود بھی عیاشی کی زندگی گزاری اور برسٹل کے عام لوگوں کے لیے اسکول اور ہاسٹل قائم کیے، غریبوں کی مالی اِمداد کی، جس کی وجہ سے وہ برسٹل کے لوگوں میں مقبول ہو گیا تھا اور شہر کے مختلف عہدوں کے لیے انتخابات میں کامیاب بھی رہا۔
اس کے مرنے پر جب چرچ میں تعزیتی تقریب ہوئی تو پادری نے اُسے نیک پارسا، خدا ترس اور غریبوں کا ہمدرد کہا۔ برسٹل کے شہریوں نے اُس کا مجسمہ بنوا کر بطور یادگار نصب کروایا۔ اُس کی نیکی کے اُن کارناموں میں کسی نے اُس کے غلاموں کے کاروبار کا ذِکر نہیں کیا اور نہ ہی یہ بتایا کہ افریقی غلاموں پر کیا بیتی۔۔! اُن کو اپنے قبیلے اور خاندان سے جدا کر کے زبردستی ویسٹ انڈیز لایا گیا، جہاں مرتے دَم تک انہوں نے محنت و مشقّت کی زندگی گزاری۔ پھر اِن کو تاریخ میں گمنام کر دیا گیا۔ کیونکہ ان کے مظالم کی تاریخ لکھنے والا کوئی مورخ نہیں تھا۔
اِس کی دوسری مثال سیسل روڈز کی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک دن جب وہ اپنے گھر سے نکلا تو اُس نے لندن میں غریبوں کے ایک ہجوم کو دیکھا، جو بھیک مانگ رہا تھا۔ اُن کا لباس پھٹا ہوا تھا، اُن کے چہروں سے بھوک، غربت اور مایوسی جھلکتی تھی۔
یہ دیکھ کر اُس نے فیصلہ کیا کہ وہ ان کی مفلسی کو دُور کر کے اِن کی زندگی میں خوشحالی لائے گا۔ اپنے اس منصوبے کی تکمیل کے لیے وہ جنوبی افریقہ چلا گیا، جہاں اُس نے کان کُنی کے کاروبار میں نام پیدا کیا اور جب وہاں ہیرے برآمد ہوئے تو یہ دنیا بھر میں ہیروں کا ایک بڑا تاجر بن گیا۔ پھر اُس نے کیپ کالونی اور زمبابوے میں افریقیوں کو بےدخل کر کے اُن کی زمینوں پر قبضہ کیا اور اپنے نام سے روڈیشیا کا مُلک بنایا۔
افریقیوں کی زمینوں پر کاشتکاری کے لیے نوآبادکار لائے گئے، جنہوں نے زمینوں پر اپنے حق اور ملکیت ثابت کرنے کے لیے نسل پرستی کا نظریہ پیدا کیا۔ اس وجہ سے جنوبی افریقہ اور روڈیشیا میں رنگ و نسل کی بنیاد پر فرق پیدا ہوا۔ افریقیوں کو اُن ہی کے مُلک میں غلام بنا کر اُن سے مشقّت کرائی گئی۔
سیسل روڈز کو اس کامیابی نے کیپ کالونی کا وزیرِاعظم مُنتخب کرایا۔ انتخاب میں افریقیوں کو ووٹ کی اجازت نہیں تھی۔ اپنے اس استحصالی کاروبار میں سیسل روڈز نے جو دولت کمائی، اُس سے ایک ٹرسٹ قائم کر کے روڈز اسکالرشپ شروع کی، جو دنیا بھر کے ذہین طالبِ علموں کے لیے تھی۔ اسکالرشپ پانے والا آکسفورڈ یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرتا ہے۔
اگرچہ روڈز نے انگلستان کے غریبوں کو افریقہ میں زمینیں دیں، اسکالرشپ کے لیے ٹرسٹ قائم کیا، لیکن اُس نے یہ دولت کیسے حاصل کی، انسانیت کے کن کن جرائم کا ارتکاب کیا، اس بارے میں تاریخ خاموش ہو جاتی ہے۔ اُس کا یادگاری مجسمہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں اُس کی کامیابی کی یادگار ہے۔
یہ یکطرفہ تاریخ نویسی ہے، جو شخصیتوں کے جرائم پر پردہ ڈالتی ہے۔ اِس کی مثال کوئی تاجر یا سیاستدان نہیں ہے۔ بلکہ انگریزی کے مشہور ناوِل نگار چارلس ڈکنس نے اپنے ناولوں میں انگلستان کے غریبوں کی حالتِ زار بیان کی ہے۔ ان میں ان یتیموں کا ذِکر ہے، جو یتیم خانوں میں بھوکے رہتے تھے اور انتظامیہ کے ظُلم و ستم سہتے تھے۔ ان میں پیشہ ور بھیک مانگنے والوں کا ذکر ہے، جن کے اپنے گروہ ہوتے تھے، اور بھیک مانگنے کے لیے نئے نئے حربوں کا استعمال کرتے تھے۔
ان کے ناولوں میں انگلستان کے غریبوں کی حالت کو دردناک انداز میں پیش کیا گیا ہے، لیکن جب یہی چارلس ڈکنس افریقیوں کا ذکر کرتا ہے تو اُنہیں وحشی غیر مُہذب، کاہل، سُست، بدصورت اور بے ڈھنگے کہہ کر اُن سے اپنی نفرت کا اظہار کرتا ہے۔ اُسے اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ یہ بھی انسان ہیں، غربت میں ہیں اور ہمدردی چاہتے ہیں۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ یورپی تاریخ نویسی میں دو مُتضاد نظریات ہیں۔ ایک سفید فام نسل پرستی کا اور دوسرا ایشیا، افریقہ کے لوگوں کا جو محتاجی کی زندگی گزارتے ہیں۔
برِّصغیر پاک وہ ہند کی تاریخ میں بھی یہی مُتضاد رویّے نظر آتے ہیں۔ وہ حکمراں طبقے جو کسانوں اور کاریگروں کی محنت سے دولت وصول کرتے ہیں، وہ اپنی دولت کی بنیاد پر لنگر خانے کھولتے ہیں، بھوکوں کو کھانا کھلاتے ہیں، فقیروں کو خیرات دیتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ معاشرے میں سخی اور فیاض ہو جاتے ہیں، لیکن کوئی یہ سوال نہیں کرتا ہے کہ اُنہوں نے یہ دولت کیسے حاصل کی۔ اِن کی دولت بے بس اور غریب عوام کی محنت سے حاصل ہوتی ہے، اور پھر یہ بڑے بڑے زمیندار، جاگیردار اور اُمراء اِس دولت کو اپنی عیاشیوں پر خرچ کرتے ہیں اور اُس کا تھوڑا بہت حصّہ دے کر عوام کی نظروں میں فیاض، سَخی اور پاکباز ہو جاتے ہیں۔
لہٰذا اس بات کی ضرورت ہے کہ مورخ اِن تضادات کے بارے میں تحقیق کریں اور یہ بتائیں کہ کیا دولت بغیر کسی کام کے یا محنت کے حاصل کی جا سکتی ہے؟ فلاح و بہبود کے نام پر جو سرمایہ استعمال ہوتا ہے، اُس میں بھی غریبوں کا خون شامل ہوتا ہے۔ اس لیے ایک نئی تاریخ نویسی کی ضرورت ہے، جو تاریخ کے گُمشدہ گوشوں کو سامنے لائے۔
بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)