برطانوی وزارت عظمٰی کے بھارتی نژاد امیدوار کی لندن میں گاؤ پوجا، کیا وہ نئی تاریخ رقم کر سکتے ہیں؟

ویب ڈیسک

برطانیہ میں وزارت اعظمٰی کے بھارتی نژاد امیدوار رشی سونک کی لندن میں گائے کی پوجا کرنے کی ایک وڈیو سامنے آئی ہے

سوشل میڈیا پر وائرل وڈیو میں برطانیہ کے وزیراعظم بننے کے بھارتی نژاد امیدوار رشی سونک کو بیوی کے ہمراہ لندن میں گائے کی پوجا کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ برطانیہ کے سابق وزیرخزانہ اور وزارت اعظمٰی کی دوڑ میں شامل رشی سونک کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی ہے۔ متعدد صارفین نے رشی سونک کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا

ایک سوشل میڈیا صارف نے طنزیہ ٹوئٹ میں کہا ”رشی سونک ایسے ملک (برطانیہ) کا وزیراعظم بننے کے لئے گائے کی پوجا کررہے ہیں جہاں سالانہ بیس لاکھ گائے کاٹی جاتی ہیں“

واضح رہے کہ رشی سُونک ایک ہندو ہیں اور مذہبی طور طریقے بھی اپناتے ہیں۔ سنہ 2015ع میں پہلی بار پارلیمانی انتخابات جیتنے کے بعد، انہوں نے ہندوؤں کی مذہبی کتاب ’بھگوت گیتا‘ پر ہاتھ رکھ کر حلف لیا تھا۔ بھارتی نژاد لوگ اُن کی جیت کے لیے دعائیں کر رہے ہیں۔ لیکن کیا وہ واقعی وزیر اعظم بن سکتے ہیں

تاریخ کا بدلتا دھارا

ایک وقت تھا، جب بھارتی نژاد لوگوں کو برطانیہ میں کئی طرح کے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ تب یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ ایک دن ایسا آئے گا جب ان میں سے کوئی شخص اس ملک کا وزیراعظم بننے کا خواب دیکھے گا

برطانیہ میں حزب اختلاف کی لیبر پارٹی کے رکن پارلیمنٹ وریندر شرما اب پچھتر سال کے ہو گئے ہیں۔ وہ پچپن سال قبل بھارتی پنجاب سے لندن آئے تھے

اپنے ابتدائی دنوں میں ہونے والے امتیازی سلوک کا ذکر کرتے ہوئے وریندر شرما بتاتے ہیں ’1960ع کی دہائی میں گھروں کے باہر لکھا ہوتا تھا ’کرائے کے لیے دستیاب یہ گھر ایشیا سے تعلق رکھنے والوں اور سیاہ فاموں کے لیے نہیں ہے‘ اسی طرح کلبوں کے باہر لکھا ہوتا تھا کہ ’کتوں، آئرش، خانہ بدوشوں اور سیاہ فاموں کو اندر جانے کی اجازت نہیں ہے‘ انگریز جب بھارت کے لوگوں کو دیکھتے تھے تو کہتے تھے کہ یہ تو ہمارے غلام تھے، اب ہمارے ساتھ بیٹھے ہیں“

لیکن اب برطانیہ میں وریندر شرما جیسے کئی بھارتی نژاد رکن پارلیمان ہیں۔ بورس جانسن کی حکومت میں کابینہ کے کئی وزرا بھی بھارتی نژاد تھے

رشی سُونک، جو بورس جانسن کی کابینہ کے وزیر تھے، آج وزیر اعظم بننے کی دوڑ میں سب سے آگے ہیں

سُونک برطانیہ کے وزیر خزانہ بھی رہ چکے ہیں اور کنزرویٹو پارٹی کے اہم رہنما ہیں۔ وزیر اعظم کے عہدے کی دوڑ میں بیالیس سالہ رشی سُونک کا مقابلہ لز ٹرس سے ہے، جو پارٹی کی تجربہ کار رہنما بھی ہیں

کنزرویٹو پارٹی کے ایک لاکھ ساٹھ ہزار اراکین برطانیہ کا اگلا وزیر اعظم منتخب کرنے کے لیے ان دونوں میں سے کسی ایک کو ووٹ دیں گے۔ اس دوڑ میں کون جیتے گا، یہ 5 ستمبر کو معلوم ہوگا

رشی سونک کون ہیں؟

رشی سونک ’انفوسس‘ کے بانی این آر نارائن مورتی کے داماد ہیں۔ اُن کی اہلیہ اکشتا مورتی برطانیہ کی امیر ترین خواتین کی فہرست میں شامل ہیں

سُونک بورس جانسن کی کابینہ میں وزیر خزانہ تھے اور سنہ 2015ع سے رچمنڈ، یارکشائر سے کنزرویٹو ایم پی منتخب ہوئے

ان کے والد ایک ڈاکٹر اور والدہ فارماسسٹ تھیں۔ اُن کے خاندان کے افراد مشرقی افریقہ سے برطانیہ آئے تھے

ان کی تعلیم ایک خصوصی پرائیویٹ اسکول ونچسٹر کالج میں ہوئی، جبکہ اعلیٰ تعلیم کے لیے وہ آکسفورڈ گئے تھے اور بعد میں اسٹینفورڈ یونیورسٹی سے انہوں نے ایم بی اے کیا

سیاست میں آنے سے پہلے انہوں نے سرمایہ کاری بینک ’گولڈمین سیکس‘ میں کام کیا

کیا برطانیہ کا اگلا وزیر اعظم بھارتی نژاد ہوگا؟

لندن سے تقریباً سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع شہر چیلٹن ہیم برطانیہ کی حکمران کنزرویٹو پارٹی کا گڑھ ہے۔ یہ بنیادی طور پر سفید فام لوگوں کا شہر ہے

شہر کی ایک نوجوان خاتون رشی سُونک کے وزیر اعظم کے عہدے کی دوڑ میں رہنے پر کہتی ہیں ”معیشت کے لیے تو وہ بہتر ثابت ہوں گے کیونکہ وہ ایک ماہر معاشیات ہیں۔ اس لیے مجھے لگتا ہے کہ اس لحاظ سے اُن کا کیس زیادہ مضبوط ہے“

یہ بات کہنے والی نوجوان خاتون کی ایک ساتھی نے کہا ”ان کی پالیسیاں ان جیسے امیر لوگوں کے علاوہ کسی کی مدد نہیں کرتیں۔ اسی لیے میں ان میں سے کسی کی حمایت نہیں کرتی“

جب ایک اور خاتون سے پوچھا گیا کہ کیا برطانوی معاشرہ ایک غیر سفید فام وزیراعظم کے لیے تیار ہے؟

خاتون نے جواب دیا ”ذاتی طور پر میں اس کے بارے میں نہیں سوچتی لیکن مجھے لگتا ہے کہ میں بالکل تیار ہوں۔ میرا جھکاؤ رشی کی جانب ہے“

شہر کے بازار میں ایک آدمی نے اس سوال پر کہ کیا آپ کو لگتا ہے کہ یہاں کا معاشرہ کسی براؤن نسل کے وزیراعظم کے لیے تیار ہے؟ تو اس شخص نے جواب دیا ”میں ضرور تیار ہوں، میں کسی اور کے بارے میں نہیں جانتا لیکن ہاں، میرا خیال ہے کہ یہ اچھا ہوگا“

کیا پاکستانی نژاد بھی رشی سونک کی حمایت کر رہے ہیں؟

برمنگھم برطانیہ کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ یہاں کی آبادی میں تنوع نظر آتا ہے۔ شہر میں حال ہی میں دولت مشترکہ کھیلوں کی ثقافتی تقریبات میں اس تنوع کو محسوس کیا گیا

یہاں پاکستانی نژاد لوگوں کی بڑی تعداد ہے۔ کیا پاکستانی نژاد لوگ بھارتی نژاد رشی سُونک کو وزیر اعظم بنانا پسند کریں گے؟

جمعہ کی نماز پڑھ کر مسجد سے باہر نکلنے والے ایک شخص کا کہنا تھا ”مجھے امید ہے کہ اب پورا معاشرہ اتنا سمجھدار ہو گیا ہے کہ وہ قابلیت کو دیکھے گا، یہ نہیں دیکھے گا کہ اس آدمی کی نسل یا اس کا رنگ کیا ہے یا وہ کہاں سے آیا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ رشی ایک قابل آدمی ہیں، اس لیے مجھے اُن پر یقین ہے کہ وہ ایک اچھے وزیر اعظم بھی بنیں گے“

ایک اور شخص نے کہا ”میں سمجھتا ہوں کہ اقلیت ہونے کی وجہ سے، برطانیہ کے اگلے وزیر اعظم کے امیدوار کے طور پر رشی ایک بہترین امیدوار ہیں“

آزاد کشمیر کے شہر میرپور سے انگلینڈ میں آباد ایک اور شخص نے کہا ”میرے خیال میں رشی سُونک کو وزیر اعظم بننا چاہیے کیونکہ پچھلے کئی برسوں سے ہم نے دیکھا ہے کہ زیادہ تر سفید فام لوگ وزیر اعظم بنتے ہیں تو اب بھارتی نژاد یا ایشیائی نژاد وزیراعظم ہونا چاہیے، جس کی وجہ سے بھی کافی تبدیلی کی توقع ہے“

رشی سُونک 12 مئی 1980 کو ساؤتھمپٹن شہر میں پیدا ہوئے اور وہیں پرورش پائی۔ ان کے والدین اب بھی اسی شہر میں رہتے ہیں، وہ اور ان کے خاندان کا ویدک سوسائٹی ’ہندو مندر‘ سے گہرا تعلق ہے

رشی سُونک کو بچپن سے جاننے والے اسی مندر میں موجود پچھتر سالہ نریش سون چاٹلا کہتے ہیں ”مجھے لگتا ہے کہ وہ وزیر اعظم بن جائیں گے۔ لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرتے ہیں تو اس کی وجہ ان کی جلد کی رنگت ہو سکتی ہے“

ان کے برعکس مندر کے صدر سنجے چندرانا رشی کے ساتھ امتیازی سلوک کے خدشے کو رد کرتے ہوئے کہتے ہیں ”اس ملک میں دیکھا جاتا ہے کہ کس کی پالیسی اچھی ہے، کس کا رویہ درست ہے، کون اس ملک کو آگے لے کر جائے گا۔ رنگ یا نسل سے اتنا فرق نہیں پڑتا“

پارٹی کے اندر کیا رائے ہے؟

کنزرویٹو پارٹی کی نوجوان نسل رشی کے حق میں نظر آتی ہے لیکن سینیئر ارکان رشی کے بارے میں مختلف خیالات رکھتے ہیں۔ پارٹی دونوں امیدواروں کے درمیان ملک کے مختلف شہروں میں مباحثوں کا انعقاد کر رہی ہے۔ ان ایونٹس کو ’ہسٹنگز‘ کہا جاتا ہے

انتخابات میں لز ٹرس کو واضح برتری حاصل ہے، لیکن ہسٹنگز کے ساتھ ہونے والے پروگراموں میں، لیکن رشی کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ پارٹی کے ارکان لز ٹرس کے مقابلے رشی سُونک کی طرف زیادہ مائل ہیں

رشی کی مہم ٹیم لز کی ٹیم سے زیادہ منظم دکھائی دیتی ہے۔ اس کے علاوہ رشی کی ٹیم میں نوجوان زیادہ ہیں، اس لیے ان کے کیمپ میں زیادہ جوش و خروش ہے۔لز کی ٹیم میں پارٹی کے پرانے لوگ زیادہ نظر آتے ہیں

رچرڈ گراہم گلوسٹر حلقے سے کنزرویٹو پارٹی کے رکن پارلیمنٹ ہیں اور رشی سُونک کے حامی ہیں، اس سوال پر کہ کیا لوگ رشی کے لیے تیار ہیں؟ انہوں نے کہا
”میں تیار ہوں اور بہت سے دوسرے بھی۔ ان میں کنزرویٹو پارٹی کے زیادہ تر ارکاِن پارلیمنٹ شامل ہیں۔ اور مجھے لگتا ہے کہ ملک بھر میں ہمارے ممبران کی ایک بڑی تعداد تیار ہے۔ لیکن ہم اراکین کی رائے کا انتظار کریں گے۔ ہم سب رشی کو صحیح انتخاب کے طور پر دیکھتے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ اس مقابلے میں جیت کے لیے کسی کا رنگ کوئی کردار ادا کرے گا“

ٹیم کے ایک رکن نے امتیازی سلوک کے معاملے پر کہا ”یہ سوچیں بھی مت کہ یہ ایک قابلِ بحث مسئلہ ہے۔ میرے خیال میں ہم جس پر بحث کر رہے ہیں وہ امیدواروں کی پالیسیاں ہیں“

ٹیم کے ایک نوجوان رکن نے کہا ”مجھے نہیں لگتا کہ رشی کا پس منظر کوئی تشویش کا باعث ہوگا۔ عام طور پر لوگوں کو ان کے کام کی بنیاد پر پرکھا جاتا ہے نہ کہ ان کی نسل یا بیک گراؤنڈ کی بنیاد پر۔ کووڈ کے دوران رشی سُونک کی فرلو جیسی پالیسی نے لاکھوں لوگوں کو ان کی ملازمتوں میں قائم رکھا، لاکھوں چھوٹے کاروباروں کی مالی مدد کی اور معیشت کو ڈوبنے سے بچایا“

بھارتی نژاد ہونے کا عنصر

لز ٹرس کی حامیوں میں سے ایک نے کہا ”میرے خیال میں لز حقیقی قدامت پسندی کا مظاہرہ کر رہی ہے اور ہمیں اس ملک میں اسی کی ضرورت ہے۔ رشی ہم میں سے زیادہ تر سے کٹے ہوئے ہیں، مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کا پس منظر کیا ہے؟ 2010 کے بعد سے اور گذشتہ پانچ برسوں میں، مَیں واقعی بہت بدل چکا ہوں اور مجھے لگتا ہے کہ مجھے اس وقت سیاہ فام یا کسی یا نسل سے کوئی مسئلہ نہیں ہے“

مارسیا جیکو نامی ایک ریٹائرڈ خاتون ٹیچر سے جب پوچھا گیا کہ کیا انہیں رشی سُونک کے وزیر اعظم بننے سے کوئی مسئلہ ہے؟ تو ان کا کہنا تھا ”اس سے تھوڑا سا فرق پڑتا ہے حالانکہ میرے شوہر یہاں برطانیہ میں پیدا نہیں ہوئے تھے۔ لیکن ووٹ دیتے ہوئے میں اس کا خیال رکھتی ہوں“

اور پھر وہ وزیر اعظم کے عہدے کے لیے اپنی پسند کو واضح کرتے ہوئے کہتی ہیں ”مجھے رشی پسند ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ بہت ہوشیار شخص ہیں لیکن میرے لیے اگلی وزیر اعظم لز ہیں“

تاحال کچھ واضح نہیں ہے۔۔

واضح رہے کہ اس سال جولائی میں بورس جانسن نے وزارت عظمیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا جس کے بعد نئے وزیر اعظم کے انتخاب کے پہلے مرحلے میں آٹھ امیدوار سامنے آئے تھے۔ آخری راؤنڈ سے پہلے، پارٹی کے تمام ممبران پارلیمنٹ نے، جنہوں نے رشی اور لز کو منتخب کیا تھا، تمام راؤنڈ میں ووٹ ڈالنا تھا

اب آخری راؤنڈ میں پارٹی کے ایک لاکھ ساٹھ ہزار ارکان کو ووٹ ڈالنا ہے

مڈل سیکس یونیورسٹی کی ڈاکٹر نیلم رینا کا خیال ہے کہ اس ملک کی اقلیتی نسلوں کے لیے وزیر اعظم بننے کا راستہ کھل گیا ہے

وہ کہتی ہیں ”آپ نے دیکھا کہ دروازہ کھلا ہے۔ اگر آپ کے پاس ہنر ہے تو پہلے نمبر پر آنے کا دروازہ کھلا ہے۔ لیکن یہ دروازہ فی الحال ایک دولت مند بھارتی کے لیے کھلا ہے“

اگر رشی سُونک وزیر اعظم بنتے ہیں تو یہ ایک تاریخی لمحہ ہوگا۔ ایک لحاظ سے اس کا موازنہ 2008ع میں امریکی صدر باراک اوباما کی امریکہ میں فتح سے کیا جا سکتا ہے

ڈاکٹر رینا کہتی ہیں ”اس معنی میں دیکھیں تو یہ تاریخی لمحہ ہو گا کیونکہ وہ یہ ثابت کرے گا کہ گذشتہ بیس برسوں میں جس تنوع اور سب کو ساتھ لے کر چلنے پر جو بات ہوئی ہے کیا وہ واقعی کام کر رہی ہے۔ اگر ہم جیت جاتے ہیں تو یہ بہت بڑی بات ہوگی“

بہرحال پارٹی ارکان کی رائے منقسم نظر آتی ہے اور تاحال کچھ واضح نہیں ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close