سماجی کارکن صارم برنی کی گرفتاری: آخر اصل معاملہ کیا ہے؟

ویب ڈیسک

معروف سماجی کارکن صارم برنی کو بدھ کے روز اس وقت کراچی ایئر پورٹ پر وفاقی تفتیشی ادارے (ایف آئی اے) حکام نے اس گرفتار کر لیا، جب وہ امریکہ سے کراچی پہنچے.

سینئر صحافی افضل ندیم ڈوگر نے دعویٰ کیا ہے کہ گرفتاری دراصل امریکی ادارے کی شکایت پر ہوئی ہے، جبکہ صارم برنی کے قریبی ساتھی کا کہنا ہے کہ آج کا واقعہ اتنا سادہ نہیں، یقیناً اس کے لیے بہت پہلے سے کام کیا جا رہا ہوگا۔

ایف آئی اے کے ایک افسر کے مطابق صارم برنی پر انسانی اسمگلنگ کا الزام ہے اور انہوں نے امریکہ میں قانونی تقاضے پورے کیے بغیر بچوں کو گود لیا۔

امریکی حکومت کی شکایت پر انہیں گرفتار کرکے مزید تحقیق کی جا رہی ہے۔ وہ پاکستان سے متعدد لاوارث بچے امریکہ لے گئے اور وہاں کے قانون کے تقاضے پورا کیے بنا بچے امریکہ میں مقیم خاندانوں کو دے دیے جو انہیں گود لینا چاہتے تھے۔

گرفتاری پر ردعمل دیتے ہوئے صارم برنی کی اہلیہ عالیہ صارم نے کہا، ”جو الزامات میرے شوہر پر لگائے گئے ہیں وہ انتہائی گھٹیا نوعیت کے ہیں۔ صارم کی گرفتاری کی خبر نے مجھے چونکا دیا ہے۔ میں کوئی ایسی بات نہیں کہنا چاہتی جو میرے ملک کے اوپر آئے۔ جس آدمی نے اپنی زندگی اس ملک کے لیے وقف کر دی۔ کیا ثبوت ہیں جس کے تحت ان پر یہ الزامات لگا کر گرفتار کیا گیا ہے۔“

یاد رہے کہ اکتوبر 2021 میں اینٹی نارکوٹکس فورس (اے این ایف) نے صارم برنی کے گھر پر منشیات کی موجودگی کے شک میں چھاپہ مارا تھا لیکن تلاشی کے بعد کچھ نہ ملنے پر اے این ایف کی ٹیم واپس چلی گئی تھی۔

اب صارم برنی، جو ایک معروف سماجی کارکن کے طور پر جانے جاتے ہیں، کو بدھ کو کراچی ایئر پورٹ پر وفاقی تفتیشی ادارے (ایف آئی اے) حکام نے اس وقت گرفتار کیا جب وہ امریکہ سے کراچی پہنچے تھے۔

ایف آئی اے حکام کے مطابق صارم برنی کو امریکی ادارے کی شکایت پر گرفتار کیا گیا۔ ان پر الزام ہے کہ ان کے ٹرسٹ نے بچوں کو غیر قانونی طریقے سے امریکہ میں مقیم جوڑوں کو آڈپشن (گود) کے لیے دیا۔

ریکارڈ میں ان بچوں کو مختلف اوقات میں صارم برنی سینٹر کے حوالے کیے جانے کو ظاہر کیا گیا۔

حکام کے مطابق تمام بچوں کے حوالے سے یہ کہا گیا کہ انہیں سینٹر کے باہر کوئی چھوڑ گیا تھا، لیکن تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ ان بچوں کو ان کے والدین اور لواحقین کی ’ملی بھگت‘ سے امریکہ بھیجا گیا۔

انسدادِ انسانی اسمگلنگ کے شعبے کے حکام کا کہنا ہے کہ سترہ بچوں کو خلاف ضابطہ امریکہ بھجوانے کے شواہد سامنے آئے ہیں، جس کے بعد صارم برنی کی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔

ایف آئی اے حکام نے صارم برنی کو ایئر پورٹ سے گرفتار کر کے ایف آئی اے کے ہیومن ٹریفکنگ سرکل صدر میں منتقل کر دیا ہے۔ ایف آئی آر درج کر کے معاملے کی تحقیقات شروع کر دی ہے۔ صارم برنی کو جمعرات کو سٹی کورٹ کے مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیے جانے کا امکان ہے۔

واضح رہے کہ امریکہ سے روانگی سے دو روز قبل صارم برنی نے اپنے ایک وڈیو پیغام میں کہا تھا کہ بہت سارے لوگوں نے مجھ پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کی ہے، جس کا وہ ثبوتوں کے ساتھ جواب دیں گے۔

صارم برنی ’انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم صارم برنی ٹرسٹ‘ کے سربراہ ہیں، جو 1990 میں رجسٹرڈ ہوئی۔ صارم اپنی اہلیہ عالیہ صارم کے ہمراہ ٹرسٹ چلا رہے ہیں، جس میں بے گھر خواتین اور بچوں کو شیلٹر مہیا کرنے کے علاوہ، گھریلو و صنفی تشدد کے خلاف خواتین کی قانونی مدد بھی کی جاتی ہے۔

اس کے علاوہ بے سہارا بچوں کا ان کا ادارہ بے اولاد جوڑوں کو گود بھی دیتا ہے۔ صارم برنی نے کئی بے سہارا لڑکیوں کی شادیاں بھی کروائی ہیں جو اکثر پاکستان کے مقامی چینلز کے مارننگ شوز پر ہوئیں۔

صارم برنی ٹرسٹ کے قیام سے قبل وہ اپنے بھائی انصار برنی کے ہمراہ انصار برنی ویلفئیر ٹرسٹ انٹرنیشنل میں بطور وائس چیئرمین کام کر رہے تھے۔ اس ادارے کا قیام 1980 میں ہوا تھا۔ یہ ادارہ انسانی اسمگلنگ کے خلاف کام کرنے کی وجہ سے جانا جاتا ہے، لیکن 2012 میں ایک واقعے نے دونوں بھائیوں کے درمیان اختلافات کو جنم دیا، جس کے سبب صارم برنی نے اپنے بھائی کے ادارے کو چھوڑ کر اپنا سارا وقت اپنے ادارے کو دینا شروع کر دیا۔

سن 2012 میں رمضان ٹرانسمیشن جس کی میزبان مایا خان تھی، اس شو میں ایک ہندو لڑکے سنیل نے اسلام قبول کیا۔ اس واقعے پر انصار برنی نے سخت ردِعمل دیتے ہوئے مایا خان کے خلاف قانونی کاروائی کی دھمکی دی اور اس عمل کو ڈرامہ قرار دیا۔

ساتھ ہی انھوں نے اپنے بھائی صارم برنی پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ کرپشن کے خلاف ہیں اور اس کا آغاز انہوں نے اپنے گھر سے کرتے ہوئے اپنے بھائی کو اپنے ادارے سے نکال کر کیا ہے، کیوں کہ ان کے بھائی ادارے کے فنڈز کی خرد برد میں ملوث تھے۔

یہی نہیں 2008 میں صارم اور انصار برنی اس وقت شدید تنقید کی زد میں آئے، جب پاکستان میں دہشت گردی اور جاسوسی کے الزام میں قید کشمیر سنگھ کو پینتیس برس بعد ان بھائیوں کی بدولت رہائی ملی اور بھارت روانہ کیا گیا۔

یہ تنقید کشمیر سنگھ کے بھارت پہنچتے ہی پاکستان کے خلاف بات کرنے پر ہوئی کہ انصار اور صارم برنی نے ایک ایسے مجرم، جس پر سنگین نوعیت کے الزامات تھے، ان کی رہائی کی کوششیں کیوں کی۔ یہ رہائی سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں عمل میں آئی تھی۔

دوسری جانب ٹی وی اداکارہ اور میزبان مایا خان نے معروف نیوز ادارے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ صارم برنی کے اہلِ خانہ سے رابطے میں ہیں اور ان کی فیملی پر امید ہے کہ جلد ہی صارم برنی اس مسئلے سے نکل جائیں گے۔

مایا خان کا کہنا تھا کہ جب میں نے ٹی وی پر صارم برنی کی گرفتاری کی خبر دیکھی تو مجھے جھٹکا لگا۔

دوسری جانب نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے صارم برنی کے قریبی ساتھی کا کہنا تھا کہ آج کا واقعہ اتنا سادہ نہیں یقیناً اس کے لیے بہت پہلے سے کام کیا جا رہا ہوگا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ صارم کے خلاف اس کارروائی میں ان کے اپنے شامل ہوں، جن سے ان کے شدید اختلافات ہیں۔

ان الزامات کے حوالے سے سینئر صحافی افضل ندیم ڈوگر کا کہنا ہے کہ ماضی میں صارم برنی کے خلاف ویسے تو کوئی کیس منظرِ عام پر نہیں آیا۔ تاہم اس بات سے سب واقف ہیں کہ ان کے اپنے بڑے بھائی انصار برنی سے تعلقات کشیدہ رہے ہیں۔

افضل ڈوگر کے مطابق انصار برنی جو بحری قزاقوں سے پاکستانیوں کی رہائی کروانے میں اہم کردار مانے جاتے ہیں، ان کے اس کام کی شفافیت پر کئی بار صارم برنی نے ہی سوال اٹھایا ہے۔ اسی طرح انصار برنی نے اپنے بھائی کے کام پر تنقید کی۔

افضل ندیم ڈوگر کا مزید کہنا تھا کہ تین ہفتے قبل ایک مقامی میڈیا چینل میں انصار برنی نے صارم برنی کے خلاف کچھ انکشافات کیے تھے جس میں ایک معاملہ بچوں کی آڈپشن کا بھی تھا۔

افضل ندیم ڈوگر کا کہنا تھا کہ صارم برنی کی گرفتاری در اصل امریکی ادارے کی شکایت پر ہوئی ہے۔ یہ شکایت ان بچوں کے امریکہ منتقل ہونے کی ایک ہی وجہ بتانا تھی کہ تمام بچے سینٹر کے باہر لاوارث چھوڑے گئے۔ یہ مؤقف ہی درحقیقت شک کی وجہ بنا۔

اُن کے بقول اسی بنیاد پر ایف آئی اے نے تحقیقات کیں تو انہیں سترہ بچوں کے حوالے شواہد ملے کہ یہ سب سینٹر کے باہر لاوارث نہیں چھوڑے گئے تھے بلکہ یہ بچے ان کے والدین نے بہتر زندگی کے لیے امریکہ بھیجنے کے لیے استعمال کیے تھے۔

افضل ندیم ڈوگر کے مطابق ابھی صارم برنی جب امریکہ کے دورے پر تھے تو وہاں بھی امریکی ادارے ان کی نگرانی کر رہے تھے۔

یاد رہے کہ بچوں کو گود لینے کے حوالے سے قوانین اور ان کے حقوق کے بارے میں سن 2019 میں صارم برنی ٹرسٹ کی عالیہ صارم نے بتایا تھا کہ ان کا ادارہ کئی ایسے بے اولاد جوڑوں کو بچے دے چکا ہے، جو اولاد پیدا نہیں کر سکتے تھے۔

عالیہ صارم کا کہنا تھا کہ جب بھی ہم بچے کو ایسے والدین کے سپرد کرتے ہیں تو اس بچے کے تحفظ کی ضمانت کے لیے اس کے نام دس لاکھ روپے کی رقم بانڈ کی صورت میں عدالت میں رکھوا دیتے ہیں کہ جب بچہ اٹھارہ برس کا ہو تو وہ اس رقم کا مالک ہو۔

عالیہ صارم کا کہنا تھا کہ وہ بچے ان ہی لوگوں کو گود دیتے ہیں جو بے اولاد ہو، ان کی شادی کو دس سال کا عرصہ گزر گیا ہو اور ان کا کوئی میڈیکل ریکارڈ ہو۔

ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی کا کہنا ہے صارم برنی کی گرفتاری کی خبر ان کے لیے پریشان کن ہے۔

اس سوال پر کہ پاکستان کے فلاحی ادارے بچوں کو کیسے آڈپشن کے لیے دیتے ہیں، فیصل ایدھی کا کہنا تھا کہ جب بھی کوئی بے اولاد جوڑا بچہ گود لینے کے لیے ہمارے ادارے سے رجوع کرتا ہے تو اس کو مختلف مراحل سے گزر کر ہی بچہ ملتا ہے۔

فیصل ایدھی کے مطابق گود دیے جانے والے بچوں میں نوے فی صد لڑکیاں ہوتی ہیں۔ ان میں سے کچھ بچے جھولے میں ڈال دیے جاتے ہیں جن میں سے بیش تر ذہنی اور جسمانی معذور بچے ہوتے ہیں، جہیں کوئی بھی جوڑا گود لینا پسند نہیں کرتا یا پھر جھولے میں ڈالے جانے والی بڑی تعداد لڑکیوں کی ہوتی ہے۔

فیصل ایدھی کے مطابق ایدھی فاؤنڈیشن کے قیام سے اب تک سب سے زیادہ بچے ان کے ادارے نے گود دیے ہیں جن کی تعداد چھ ہزار سے زائد ہے۔ ان بچوں میں بڑی تعداد پاکستان میں مقیم بے اولاد جوڑوں کے پاس ہے اس کے بعد امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا بھی بچے گود دیے گئے ہیں۔

پاکستان میں آڈپشن کا قانون نہ ہونے کے سبب بچے کو گود لینے کے لیے گارڈین شپ کے مروجہ قانون کا سہارا ہی بچتا ہے جس کے تحت بچہ اٹھارہ سال کے بعد آزاد اور خود مختار ہو سکتا ہے۔

واضح رہے کہ صارم برنی ٹرسٹ کی ویب سائٹ کے مطابق یہ ٹرسٹ بےگھر افراد اور بچوں کے لیے شیلٹر ہوم، کم عمر بچوں کی شادی کی روک تھام کرنے کے ساتھ ‘انسانی سمگلنگ’ کو کی روک تھام کے لیے کام کرتا ہے۔

ویب سائٹ کے مطابق ٹرسٹ اپنے قیام سے اب تک بہت سے غریبوں اور متاثرین، بچوں اور خواتین کی مدد کی ہے۔

صارم برنی کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہیں۔ ان کی اہلیہ عالیہ ٹرسٹ کی وائس چیئرپرسن ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close