بڑے ہجوموں میں لوگوں میں بھگدڑ مچنے کے بارے میں سائنس کیا کہتی ہے؟

ویب ڈیسک

بڑے ہجوم کو اپنی طرف متوجہ کرنے والے بڑے واقعات تفریحی، دلچسپ اور یادگار ہو سکتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے، بڑے ہجوم میں حفاظتی خطرات بھی لاحق ہو سکتے ہیں، جس میں بھگڈر مچنے کا خطرہ سر فہرست ہے

گزشتہ ہفتے منگل کے روز بھارت کی شمالی ریاست اتر پردیش میں ایک مذہبی اجتماع میں ایسی ہی ایک ہلاکت خیز بھگدڑ مچی، جس میں کم از کم سوا سو افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔ یہ سانحہ بڑے واقعات میں ہجوم کے اضافے اور بھگدڑ مچنے کی طویل تاریخ میں صرف تازہ ترین واقعہ تھا، جس کے نتیجے میں زخمی یا ہلاکتیں ہوئیں

اکثر ہماری نظروں سے ہجوم میں بھگڈر مچنے کی ایسی خبریں گزرتی رہتی ہیں، جنہیں پڑھنے کے بعد سب سے پہلا خیال یہ آتا ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اور ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے؟ اس فیچر میں ہم انہی سوالات کے جواب ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے۔

ہجوم میں اضافے کا امکان کسی بھی وقت موجود ہوتا ہے جب بڑی تعداد میں لوگ ایک جگہ جمع ہوتے ہیں۔ جب کہ ہجوم کی کثافت ایک اہم عنصر ہے، عام طور پر کچھ ایسا بھڑکانے والا واقعہ ہوتا ہے جو ایک ہی وقت میں بڑی تعداد میں لوگوں کو ایک ہی سمت میں منتقل کرنے کے لیے ایک محرک کا کام کرتا ہے۔ بعض اوقات ہجوم کسی حقیقی یا سمجھے جانے والے خطرے سے دور ہونے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔

بھگدڑ کو اکثر ’ہجوم کی منظم نقل و حرکت میں خلل‘ کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ کبھی کبھار کسی چیز کے حصول یا کسی کو دیکھنے کی خواہش بھی اس کا محرک بنتی ہے۔

ہجوم کے اضافے سے موت کی سب سے بڑی وجہ دم گھٹنا ہے۔ متاثرین کو اتنی مضبوطی سے نچوڑا جاتا ہے کہ ان کے پھیپھڑے آکسیجن کھینچنے کے لیے کافی حد تک پھیل نہیں پاتے۔

سوئٹزرلینڈ کی سینٹ گالن یونیورسٹی میں ثقافتی اور سماجی نفسیات کی ایسوسی ایٹ پروفیسر انا زیبن برسوں سے ہجوم کی حرکیات پر تحقیق کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جو لوگ ایسی کسی بھگدڑ کے واقعے میں شامل ہوتے ہیں، انہیں یہ ادراک ہی نہیں ہوتا کہ کچھ غلط ہو رہا ہے، جب تک انہیں کچھ معلوم ہوتا ہے، تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔

سوئٹزرلینڈ کے ای ٹی ایچ زیورخ میں کمپیوٹیشنل سوشل سائنس کے پروفیسر ڈیرک ہیلبنگ بھی ان سے اتفاق کرتے ہیں، ”ہجوم میں پیش آنے والے ایسے زیادہ تر حادثات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ خوف و ہراس کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسی ذہنی حالت ہوتی ہے، جس میں اضطراب اور خوف بڑھ جاتے ہیں جبکہ خون کی گردش بھی تیز تر ہوتی جاتی ہے، اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان جبلی طور پر ’بھاگو یا لڑو‘ کی کیفیت میں آ جاتا ہے۔ اس کے بعد لوگ بلاوجہ خوف زدہ ہو کر بھاگنا شروع ہو جاتے ہیں اور وہ ان کو بھی پاؤں تلے کچلنا شروع کر دیتے ہیں، جو ان کے راستے میں آتے ہیں۔‘‘

تاہم فقط ذہنی حالت ہی بھگدڑ کی ذمہ دار نہیں ہوتی۔ پروفیسر ڈیرک ہیلبنگ کے مطابق نفسیاتی حالت کے بجائے، ’کراؤڈ ٹربولینس‘ نامی جسمانی قوتیں بھگدڑ کے سانحات کے امکان میں اضافہ کرتی ہیں۔

کراؤڈ ٹربولینس کی وضاحت کرتے ہوئے پروفیسر ڈیرک ہیلبنگ نے کہا کہ کراؤڈ ٹربولینس اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب بہت سے لوگ کسی ایسی جگہ موجود ہوتے ہیں، جہاں چلنے پھرنے کی گنجائش کم اور لوگوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ وہاں لوگ ایک دوسرے کے درمیان دب جاتے ہیں

اس طرح ایک نئی قوت پیدا ہوتی ہے، جسے پروفیسر ڈیرک ہیلبنگ جسموں کے درمیان ‘قوتوں کی منتقلی‘ کا نام دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ”وہ قوت غیر متوقع طریقوں سے لوگوں کو جوڑتی اور پھر دھکیل دیتی ہے۔ اس قوت سے کبھی کبھار لوگ کئی کئی میٹر دور تک چلے جاتے ہیں۔ اس طرح کی صورت حال میں اپنا توازن برقرار رکھنا اور اپنے پاؤں پر کھڑا رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔‘‘

آخر کار کوئی ایک شخص ٹھوکر کھا کر گر جاتا ہے، جس سے بھیڑ میں خلا پیدا ہو جاتا ہے۔ جب جگہ خالی ہوتی ہے تو اس کے ساتھ جڑے شخص کو سہارا دینے والی قوت ختم ہو جاتی ہے اور نتیجے کے طور پر وہ بھی گر پڑتا ہے۔

پروفیسر ہیلبنگ کے مطابق ”اس طرح ایک ’جان لیوا ڈومینو ایفیکٹ‘ پیدا ہوتا ہے، جب کوئی ایک شخص دوسرے شخص کے اوپر گرتا ہے تو وزن کی وجہ سے سانس لینا دشوار ہو جاتا ہے۔ لہٰذا بہت سے لوگ دم گھٹنے سے مر سکتے ہیں، جیسا کہ جرمنی میں ایک مرتبہ لو پریڈ میں، سیئول میں اور اس سے پہلے بہت سی دوسری جگہوں پر دیکھا گیا تھا۔‘‘

عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ بھگدڑ کے دوران زیادہ ہلاکتیں کچلے یا روندے جانے کے باعث ہوتی ہیں، میڈیا میں بھی ایسے واقعات کی رپورٹنگ میں ہمیشہ یہی الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں، لیکن بھگدڑ میں زیادہ تر انسانی ہلاکتیں چھاتی اور/یا پیٹ کے اوپری حصے کے باہری دباؤ کی وجہ سے ہونے والے تکلیف دہ دم گھٹنے کے نتیجے میں ہوتی ہیں، جس کے نتیجے میں سانس مکمل یا جزوی طور پر بند ہو جاتی ہے۔ یہ اطلاع بھی دی گئی ہے کہ اعتدال پسند ہجوم کے ساتھ بھی اہم کمپریشن فورسز موجود ہو سکتی ہیں۔ 4500 N (1000 lb) تک کی قوتیں صرف چھ سے سات افراد ایک ہی سمت میں دھکیلنے کے ذریعے پیدا کی جا سکتی ہیں، جس میں اسٹیل کی ریلنگ کو موڑنے جتنی قوت موجود ہے۔

اگرچہ انسانی بھگدڑ سے بچ جانے والے افراد اور پوسٹ مارٹم رپورٹس موت کی بنیادی وجہ کے طور پر تکلیف دہ دم گھٹنا قرار دیتے ہیں، تاہم دیگر میکانزم پر بھی غور کیا گیا ہے، بشمول مایوکارڈیل انفکشن، انٹراتھوراسک یا انٹرا ایبڈومینل اعضاء کو براہ راست کچلنے والی چوٹ، سر کی چوٹ، اور گردن کا کمپریشن۔ یہ تمام میکانزم ممکن ہیں۔ لیکن، اس بارے میں بہت کم حقیقی معاون ثبوت موجود ہیں۔ پوسٹ مارٹم کے نتائج سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ جو لوگ ان منظرناموں میں دم توڑ دیتے ہیں وہ عام طور پر کمپریشن فورس کی وجہ سے عمودی حالت میں مر جاتے ہیں اور اس وقت تک فرش پر نہیں گرتے، جب تک کہ ہجوم کی کثافت اور دباؤ کم نہ ہوجائے۔ دبانے والی قوتوں نے آگے سے پیچھے یا اس کے برعکس دباؤ ڈالا، جس کے نتیجے میں وینٹیلیٹری کی ناکامی ہوئی، جب کہ وہ لوگ جو ایک طرف سے دوسری طرف دبانے والی قوتوں کا سامنا کر رہے تھے بچ گئے، غالباً اس وجہ سے کہ سینے/پھیپھڑوں کے پھیلاؤ کو خطرے کی حد تک دباؤ کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

چوٹوں کے مکمل اسپیکٹرم – بشمول فریکچر، ڈس لوکیشن، اور دیگر مکینیکل زخموں کی توقع بھی کی جا سکتی ہے۔ زندہ بچ جانے والوں میں، بہت سے لوگ پوسٹ ٹرامیٹک تناؤ، غم، یا زندہ بچ جانے والے احساسِ جرم کا شکار ہو سکتے ہیں اور انہیں نفسیاتی مشاورت یا مداخلت کی ضرورت ہوتی ہے۔

اس سلسلے میں اہم سوال یہ ہے کہ اگر ہم کسی ہجوم کا حصہ ہیں تو بھگدڑ مچنے سے پہلے ہی کیسے اس کا اندازہ کر سکتے ہیں اور ایسی صورت حال میں کیا کرنا چاہیے؟

بھگدڑ کے واقعات شاذ و نادر ہی پیش آتے ہیں اور جیسا کہ پروفیسر زیبن کہتی ہیں کہ یہ سمجھنا اکثر مشکل ہوتا ہے کہ آپ اس کا حصہ ہیں۔ جب تک آپ کو سمجھ آتی ہے، تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔

تاہم وہ کہتی ہیں کہ ایک نشانی، جو ممکنہ طور پر بھگدڑ کے واقعے کے آغاز یا اس کے رونما ہونے کی پیش گوئی کر سکتی ہے، وہ ہے ہجوم کا تمام سمتوں میں بے قابو ہو کر ڈولنا۔۔ یہ صورتحال اس بات کی علامت ہے کہ ہجوم میں بھگدڑ ہونے والی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ یہ بھیڑ میں زیادہ دباؤ کی علامت ہو سکتی ہے۔ اگر کبھی آپ کو بھیڑ میں ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے تو بہتر ہے آپ اپنے لیے فورا کوئی محفوظ راستہ تلاش کریں اور کسی کھلی جگہ کی طرف چلے جائیں۔ بعض اوقات لوگ ہنگامی راستوں کی طرف بھاگتے ہیں، جہاں دوبارہ ایسی صورت حال پیدا ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ ایسے میں ہجوم کے قریب ہی کوئی خالی جگہ تلاش کی جا سکتی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close