ہلکی بھوک میں چٹپٹا کھانے کے شوقین چٹوری طبیعت کے مالک بڑے کوئی نہ کوئی سنیک کھاتے ہیں۔۔ اور بچوں کے تو کہنے ہی کیا، کہ ان کا تو اب کھانا ہی یہی ہے۔
لیکن ہم میں سے اکثر لوگوں کو معلوم ہی نہیں کہ ہم جو سنیکس کے نام پر یہ الم غلم کھا رہے ہیں، یہ ہماری صحت کے لیے کتنا نقصان دہ ہے
اگرچہ یہ سنیکس کسی بھی طرح صحت کو ضرر ہی پہنچاتی ہیں، لیکن حال ہی میں سندھ فوڈ اتھارٹی کی جانب سے کولسن کمپنی کے گیارہ سنیکس کو باقاعدہ مضر صحت قرار دے کر انہیں مارکیٹ سے ہٹانے کا حکم دیا گیا ہے
سندھ فوڈ اتھارٹی کی رپورٹ کے مطابق گیارہ مصنوعات جن میں سلانٹی ویجیٹیبل، ٹوئچ کلاسک، سنیکرز ہاٹ مسالہ، سنیکر پیزا، پوٹیٹو اسٹکس، چیز بال مسالہ، چیز بالز چیز، کائی کورین ہاٹ، کائی اسپائسی مالا، کائی مالا ووک اور کائی کورین کمچی شامل ہیں، لیبارٹری ٹیسٹ کے نتیجے میں ان مصنوعات کو انسانی استعمال کے لیے موزوں نہیں پایا گیا۔
سندھ فوڈ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل مزمل حسین نے کولسن کمپنی کی انتظامیہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ مذکورہ مصنوعات تین دن کے اندر مارکیٹ سے واپس لے لیں ورنہ مذکورہ کمپنی کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
دوسری جانب کولسن کمپنی کی برانڈ مینیجر کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے ہم اپنے وکلا سے رابطے میں ہیں اور ان کی جانب سے آئندہ کا لائحہ عمل وضع کرنے کے بعد ہی اس بارے میں کوئی بیان دیں گے۔
خیال رہے کہ کمپنی کے پاس اس رپورٹ پر اپیل کرنے کے لیے سات دن کا وقت ہے۔
آئیے جانتے ہیں کہ اس رپورٹ میں سندھ فوڈ اتھارٹی کی جانب سے کیا کہا گیا ہے اور وہ کون سی مصنوعات ہیں جو مضرِ صحت قرار دی گئی ہیں؟
سندھ فوڈ اتھارٹی کی جانب سے گذشتہ روز جاری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کولسن کمپنی کی جانب سے اپنی گیارہ پراڈکٹس کے سیمپلز کو رجسٹریشن کی غرض سے سندھ فوڈ اتھارٹی کے پاس رواں برس 18 مارچ کو جمع کروایا گیا تھا۔
ان پراڈکٹس میں سلانٹی ویجیٹیبل، سنیکرز ہاٹ مسالہ، سنیکرز پیزا، ٹوئچ کلاسک، پوٹیٹو سٹکس، چیز بال مسالہ، چیز بالز چیز، کائی کوریئن ہاٹ، کائی سپائسی مالا، کائی مالا ووک اور کائی کوریئن کمچی شامل ہیں۔
19 اپریل کو ٹیسٹ رپورٹس سے معلوم ہوا تھا کہ یہ پراڈکٹس کوالٹی اور تحفظ سے متعلق معیارات پر پورا نہیں اترتیں، اس لیے یہ انسانوں کے کھانے کے لیے موزوں نہیں ہیں اور اس کے باعث عوام کی صحت کو ممکنہ طور پر نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے اور یہ موجودہ قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ’اس حوالے سے کی گئی خلاف ورزیاں اس نوعیت کی ہیں کہ تین روز کے اندر مذکورہ پراڈکٹس کی مارکیٹ سے واپسی ضروری ہے۔
اس حوالے سے کمپنی کو مندرجہ ذیل احکامات دیے گئے ہیں:
عوام کو کسی بھی قسم کے صحت کے نقصان سے بچانے کے لیے فوری طور پر ان مصنوعات کو مارکیٹ سے ہٹایا جائے۔
ان مصنوعات کی پیداوار اور ان کی فروخت کو فوری طور پر بند کیا جائے۔
موجودہ متاثرہ اسٹاک کس جگہ موجود ہے اور ان کی تعداد کتنی ہے، اس کے حوالے سے تین روز کے اندر رپورٹ کیا جائے۔
اس حوالے سے مذکورہ کمپنی کے پاس اپیل کا حق موجود ہے اور وہ سندھ فوڈ اتھارٹی سے سات روز کے اندر اس بارے میں اپیل کر سکتی ہے۔
ان مصنوعات میں کولیفارم، سٹیفیلوکوکس آریئس، اینٹروبیکٹریاکے، بیکیلس سیریئس نامی مائیکرو آرگنازمز طے کردہ معیار سے زیادہ شامل ہیں۔ ماہرین کے مطابق ان مصنوعات میں ان کی ایک حد سے زیادہ موجودگی دراصل ان کو بناتے وقت صفائی کا خیال نہ رکھنے سمیت متعدد وجوہات کے باعث ہو سکتی ہے۔
سندھ فوڈ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل مزمل حسین کا اس حوالے سے مزید کہنا ہے ”عام طور پر سیمپل کرنے کے دو تین طریقے ہوتے ہیں، ایک تو یہ کہ ہم کسی شک کو دور کرنے کے لیے رینڈم سیمپل لیتے ہیں۔ دوسرا یہ ہوتا ہے کہ آپ کی پراڈکٹ رجسٹر ہونی چاہیے، یعنی اس پراڈکٹ کا ایک رجسٹریشن سرٹیفیکیٹ موجود ہونا چاہیے۔ کمپنی خود ہی ان پراڈکٹس کے سیمپل جمع کرواتی ہیں، اس طرح ہر فلیور ایک پراڈکٹ تصور ہوتا ہے اور اسے علیحدہ رجسٹر کروایا جاتا ہے۔“
انہوں نے کہا ”کمپنی تین سیمپل لیتی ہے، ایک وہ اپنے پاس رکھتی ہے، دوسرا ہم اپنی اسٹوریج میں رکھتے ہیں اور تیسرا سیمپل ہماری سینٹرل لیب میں جاتا ہے جو کراچی یونیورسٹی میں موجود ہے۔ تو جب اپریل میں یہ سیمپل پراڈکٹ رجسٹریشن کے لیے بھجوائے گئے تو ان میں سے گیارہ کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ انسانوں کے کھانے کے لیے ٹھیک نہیں ہیں۔“
مزمل حسین کا کہنا تھا ”میری پوسٹنگ ابھی ہوئی ہے لیکن یہ رپورٹ اب سے تین ہفتے پہلے آئی تھی اور اس پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔ اس رپورٹ میں موجود احکامات کا مقصد اس کمپنی کو سزا دینا نہیں ہے بلکہ کیونکہ رپورٹ میں یہ بات سامنے آ گئی ہے کہ یہ نقصان دہ ہو سکتے ہیں، اس لیے انہیں مارکیٹ سے ہٹایا جانا ضروری ہے۔“
انھوں نے زور دیا کہ ہم نے ان پر پابندی نہیں لگائی، بلکہ ان مصنوعات کو مارکیٹ سے ہٹایا ہے
مزمل حسین نے مزید کہا ”اب ہم نے عوام کو بتا دیا ہے کہ ان مصنوعات کو استعمال نہ کریں جب تک یہ معاملہ حل نہ ہو جائے۔ کمپنی کے پاس سات روز کا وقت ہے، وہ اپیل کر سکتے ہیں اور اگر سیمپلز کو تھرڈ پارٹی سے ٹیسٹ کروانا چاہتے ہیں تو وہ بھی کر سکتے ہیں، اگر نتائج اس کے برعکس آتے ہیں تو بہترین ہے لیکن عوام کو اس دوران اگر ہم یہ نہیں بتائیں گے کہ یہ ان کی صحت کے لیے ممکنہ طور پر نقصان دہ ہو سکتے ہیں تو یہ مجرمانہ غفلت ہوگی۔“
انھوں نے کہا ”اس حوالے سے جو ابتدائی فارمولا ہے ہمیں اس پر آغاز میں کارروائی کرنی تھی تاکہ اس کے مزید بیچز نہ بنائے جائیں۔“
دوسری جانب ان مصنوعات کی ٹیسٹنگ کرنے والے ماہر ڈاکٹر غفران نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو مائیکروبیالوجی ٹیسٹنگ کے بارے میں تفصیلات بتائی ہیں۔ ان کا کہنا ہے ”اس کی مثال ایسی ہے کہ جب پانی آلودہ ہو جاتا ہے تو اس کے باعث آپ کا پیٹ خراب ہو سکتا ہے، اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس میں ایسے خطرناک بیکٹیریا آ جاتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ ان پراڈکٹس کی ٹیسٹنگ کے دوران بھی ہوا اور ان میں مختلف مائیکرو آرگنزمز معیار سے زیادہ مقدار میں پائے گئے۔“
خیال رہے کہ ان مصنوعات کو کمپنی کی جانب سے رجسٹریشن کی غرض سے خود ہی بھیجا گیا تھا اور ان مصنوعات کو فی الوقت سندھ فوڈ اتھارٹی کی جانب سے مارکیٹ سے واپس بلایا گیا ہے جس کا دائرہ کار صوبہ سندھ تک محدود ہے۔
واضح رہے کہ ’لوٹی کنفیکشنری کو لمیٹڈ‘ اس گروپ کی فلیگشپ کمپنی ہے۔ کمپنی کی ویب سائٹ کے مطابق اس کمپنی نے کوریا میں ایک ببل گم بنانے سے 1967 سے ابتدا کی اور اب اس کی پوری دنیا میں 500 مصنوعات موجود ہیں جن میں ببل گم، کینڈی، بسکٹس، چوکولیٹس، سنیکس اور آئس کریم شامل ہیں۔
آغاز میں یہ کمپنی فوڈ بزنس میں تھی، جس کے بعد اب یہ ریٹیل، سیاحت، سروس، کیمیل اور کنسٹرکشن بزنس میں بھی کام کر رہی ہے اور یہ تیس ممالک میں موجود ہے۔
پاکستان میں یہ کمپنی لوٹی کولسن کے نام سے کھانے پینے کی مصنوعات بیچ رہی ہے۔
کولسن ایک چھوٹا فیملی بزنس کے طور پر شروع ہوا جس کی شروعات 1940 میں سویاں بنانے والی کمپنی کے طور پر بنائی گئی تھی جو 1975 میں ایک رجسٹرڈ کمپنی بنی۔ لوٹی کنفیکشنری جس نے سنہ 2011 میں کولسن کو خریدا، اس کمپنی کا پیرنٹ گروپ ہے، اور سنہ 2014 میں یہ لوٹی کولسن کے نام سے جانی جانے لگی۔
سویوں کے علاوہ اب کولسن گروپ متعدد کھانے پینے کی مصنوعات بناتی ہے اور جنوبی کوریا اور پاکستان میں فروخت کرتی ہے۔