یورپی مورخین نے اپنے خطے کی تاریخ کو ایشیا اور افریقہ سے جدا کر تے ہوئے ایک علیحدہ شناخت دی ہے۔ لہٰذا یورپی اور مشرقی تاریخیں ایسے دو دھارے ہیں، جو ساتھ ساتھ سفر کرنے کے باوجود ایک دوسرے سے علیحدہ ہیں۔
یورپی مورخین نے جب ایشیا اور افریقہ کی تہذیبوں کے بارے میں اپنی تھیوریز میں کہا کہ انڈیا کی کوئی تاریخ نہیں ہے اور یہ کہ افریقہ ایک تاریک براعظم ہے۔ جب یہ کہا گیا تھا تو یورپی مورخین ایشیا اور افریقہ کی تاریخ سے پوری طرح باخبر نہیں تھے۔ سولہویں اور سترہویں صدیوں تک آرکیالوجی نے قدیم آثاروں کو دریافت نہیں کیا تھا۔ وادیِ سندھ کی تہذیب بھی 1920ء کی دہائی میں دریافت ہوئی، جس نے ہندوستان کی تہذیب اور تاریخ کے نظریات کو بدل ڈالا۔ کوٹلیا جو موریا خاندان کا وزیر تھا۔ سیاست پر اُس کی کتاب ارتھ شاستر نسخہ 1913ء میں سامنے آیا۔ جس نے ثابت کیا کہ اہل ہندوستان سیاست اور ڈپلومیسی میں کس قدر ماہر تھے۔ گندھارا اور ٹیکسلا کی دریافتوں نے بھی ہندوستان کی قدیم تاریخ کو نمایاں کیا۔
یہی صورتحال چین کی تھی، جس کی مکمل تاریخ سے یورپی مورخ واقف نہ تھے۔ جب چنگ خاندان کے بادشاہ کانگ شی کا مقبرہ دریافت ہوا ہے تو اس میں مٹی کے بنے ہوئے پوری فوج کے مجسمے مِلے ۔ جس سے چین کے آرٹ کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔ یورپی مورخوں کو ایتھوپیا، زمبابوے اور مالی کی سلطنتوں کے بارے میں علم نہ تھا۔
یورپی تہذیب نے اپنی برتری کی ابتداء ریناساں عہد سے کی۔ سامرامیر نے یورپی مرکزی تاریخ کی ابتداء کے بارے میں لکھا ہے کہ فلورنس کی ریاست نے ریناساں کے دور میں اس وقت سرمایہ داری کی بنیاد ڈالی جب فلورنس میں میڈیچی خاندان اقتدار میں تھا یہ بینکرز تھے اور اُن کا بینکنگ سسٹم پورے یورپ میں پھیلا ہوا تھا۔ جس کی وجہ سے تاجر نقدی کے بجائے ان کے بل لے جاتے تھے۔ جو کسی بھی یورپ کے بنک میں کیش کرا لیے جاتے تھے۔ سامِرامیر کے نظریے کے تحت یہ سرمایہ داری کی بنیاد بنی۔
جب یورپی مُلکوں نے کلونیل ازم اور سامراج کے تحت ایشیا اور افریقہ کے ملکوں پر قبضہ کیا تو انہیں اپنی طاقت اور نسل کی برتری کا احساس ہوا۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب ایشیا اور افریقہ کے ممالک اپنے عروج کا زمانہ گزار کر ذوال کی حالت میں تھے اور اپنی توانائی کھو چکے تھے۔ اُن کے پاس جو علم اور ٹیکنالوجی تھی اس میں کوئی اضافہ نہیں ہوا تھا۔ معاشرہ ذوال اور پسماندگی کی گرفت میں رہتے ہوئے بے بسی کا شکار تھا۔
جب اہل یورپ نے ان دو تہذیبوں کا مقابلہ کیا توان میں دو احساسات پیدا ہوئے۔ پہلا یہ کہ سفید اقوام نسلی اعتبار سے ذہین، باصلاحیت اور قابل ہیں۔ جبکہ اہل مشرق سست، کاہل اور قابلیت سے محروم ہیں۔ اس رویے کی وجہ سے انہوں نے مغربی تہذیب کو منفرد قرار دیا اور یہ دعوی کیا کہ ان کی ترقی میں مشرقی تہذیبوں کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ لہٰذا مغربی مؤرخین نے اس کی دلیل میں، جو کتابیں لکھیں ان میں یورپ کی ترقی کو معجزہ کہا گیا۔ جس میں بادشاہ کو مکمل اختیارات نہیں ہیں۔ جغرافیائی آب و ہوا اور سماج کی درجہ بندی یہ وہ عوامل ہیں جو یورپ کو مشرق سے جدا کرتے ہیں۔
جب یورپ نے مشرق میں اپنی نوآبادیاتی کالونیاں قائم کیں تو انہوں نے ان کی تاریخ اور تہذیب کو اپنے ماڈل پر دیکھا۔ مثلاً تاریخ کو قدیم، عہدِ وسطیٰ اور جدید میں تقسیم کیا۔ اسی طرح مشرقی ملکوں کی ترقی کے لیے جو راستہ متعین کیا وہ بھی یورپی تھا یعنی رینا ساں، ریفارمیشن، سائنسی انقلاب اور آذاد منڈی کا قائم ہونا۔
چین کے مورخوں نے اِس پر اعتراض کیا کہ یورپی تاریخ کے اسباب کا چین کی تاریخ پر اطلاق نہیں ہو سکتا ہے۔ اسلامی تاریخ میں بھی رینا ساں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لہٰذا مشرق اور یورپ کی تاریخیں اپنے ماحول کی پیداوار ہیں اور اسی میں ہی انہوں نے اپنا راستہ بنانا ہے۔ مگر کلونیل ازم میں یورپی نظریہ تاریخ کو مشرق پر اس قدر مسلط کر دیا ہے کہ وہ اس کی گرِفت سے نکلنے نہیں پا رہے ہیں۔ یورپی مورخوں نے مشرق سے علیحدہ ہو کر جب اپنی تاریخ لکھنی شروع کی تو اس کا دائرہ یورپ تک محدود رکھا۔ یورپی تاریخی عمل کو انہوں نے Linear یا سیدھی لائن میں بیان کیا ہے، جو بغیر کسی رکاوٹ کے مسلسل ترقی کر رہا ہے۔ ان کے نزدیک تاریخ وہ علم ہے، جو نئے نئے فلسفیانہ نظریات، انسانی عقل و شعور اور سوسائٹی کے بنیادی حقوق کو مکمل کرتا ہے اور تاریخ کے علم کا یہ عمل یورپ تک محدود ہے اور اہل مشرق اس سے ناواقف ہیں۔
اس وجہ سے یورپی تہذیب میں علم کا اضافہ ہوتا رہے گا اور یہ اہل مشرق پر اپنا تسلط برقرار رکھنے میں کامیاب ہو گی۔ یورپ کی تاریخ کے اس نقطہ نظر کو اہل مشرق نے چیلنج نہیں کیا بلکہ اس کو تسلیم کر کے اپنی تاریخ اور اس کی تشریح کو بھی اہل مغرب کے حوالے کر دیا۔ اس صورتحال میں یہ ممکن نہیں کہ ہم اپنی تاریخ اور تہذیب کا تجزیہ کریں اور نئے نظریات کے تحت خود کو یورپ کی گرِفت سے آذاد کریں۔
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)