وہ فلسفی جس نے عام لوگوں کے لیے زندگی وقف کر دی

ڈاکٹر مبارک علی

تاریخ میں بعض افراد حالات کے تحت اپنے نظریات کو بدلتے رہتے ہیں، یہ بدلتے نظریات کبھی کامیاب ہوتے ہیں اور کبھی انہیں نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

تاریخ کے مطالعے سے ہم پر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بعض ایسی شخصیتیں گزری ہیں، جنہوں نے عام لوگوں کے حقوق کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی، اور لوگوں کی راہنمائی کے لیے نئے نظریات اور افکار کو تخلیق کیا۔ اپنے مقصد کے حصول کے لیے صعوبتوں اور مصیبتوں کو برداشت کیا۔ ایسی ہی شخصیات میں سے ایک ٹامس پین ہے جو 1737 میں برطانیہ میں پیدا ہوا۔

اس نے غربت اور افلاس میں زندگی گزاری لیکن اسی ماحول سے اس نے سیاسی شعور بھی حاصل کیا۔ اس کی ابتدائی زندگی، سرکاری ملازمتوں اور کاروبار میں گزری مگر اپنی ذہانت اور محنت کے باوجود وہ سوسائٹی میں کوئی اعلیٰ مقام حاصل نہ کر سکا، کیونکہ ایک طبقاتی معاشرے میں کم تر طبقے سے تعلق رکھنے والوں کے لیے ترقی کی راہیں بند ہو جاتی ہیں۔

اس وقت یورپ کے ذہین نوجوانوں کے لیے ترقی کا ایک راستہ کھلا تھا، وہ یہ کہ امریکہ ہجرت کر جائیں، جہاں لائق اور ذہین افراد کی ضرورت تھی۔ ٹامس پین نے امریکہ کی مشہور شخصیت بنجمن فرینکلن سے مل کر ان سے ایک سفارشی خط حاصل کیا اور 1774 میں امریکہ چلا گیا۔

کسی بھی مہاجر کے لیے نئے ملک میں اپنی جگہ بنانا اور اس کے معاشرے میں ضم ہونا مشکل ہوتا ہے۔ ٹامس پین امریکہ کے شہر فلاڈیلفیا آیا جو سیاست، تجارت اور کلچر کے لحاظ سے مشہور تھا۔ اس شہر کو ’کویکر‘ فرقے کے لوگوں نے آباد کیا تھا، جو امن پسند تھے۔ ٹامس پین کا باپ بھی کویکر تھا۔

ٹامس پین کو ابتدا میں ایک اخبار کا ایڈیٹر مقر کیا گیا، اس میں چَھپنے والے اس کے مضامین بہت مقبول ہوئے، لیکن اس نے ملازمت چھوڑ کر سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔ یہ وہ ماحول تھا کہ جب برطانیہ امریکہ کی 13 نو آبادیوں میں سخت کشیدگی پیدا ہو گئی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ برطانیہ نے نوآبادیوں پر ٹیکسوں میں بہت اضافہ کر دیا تھا۔ امریکیوں کا موقف تھا کہ چونکہ برٹش پارلیمنٹ میں ان کا کوئی نمائندہ نہیں ہوتا، اس لیے بغیر نمائندگی کے کوئی ٹیکس نہیں نافذ ہونا چاہیے۔

نو آبادیوں کے لوگوں کو یہ بھی احساس تھا کہ برطانیہ ان کا استحصال کر رہا ہے، اور ان کو جمہوری حقوق نہیں دے رہا ہے، چونکہ امریکی عوام میں سخت تشویش تھی۔

اس موقع پر ٹامس پین نے ’کامن سینس‘ کے نام سے ایک پمفلٹ لکھا۔ اس پمفلٹ میں اس نے یہ دلائل دیے کہ امریکہ کی نو آبادیوں کو آزادی کا حق ملنا چاہیے، اور وہ لوگ جو برطانوی بادشاہت کے وفادار ہیں، اسے ترک کر کے آزادی کے لیے جدوجہد کرنا چاہیے۔

ٹامس پین کے نزدیک امریکہ کو جمہوری اور آزاد ملک کی حیثیت ملنی چاہیے کیونکہ یہاں نہ بادشاہت ہے اور نہ امرا کا طبقہ۔ جب یہ پمفلٹ چَھپا تو اس سے امریکہ میں ایک نیا سیاسی شعور پیدا ہوا۔ یہ لاکھوں کی تعداد میں بار بار چھپا۔

جارج واشنگٹن اور دوسرے رہنما بھی اس سے متاثر ہوئے۔ لہٰذا جب برطانیہ اور امریکہ کے درمیان جنگ ہوئی ہے تو امریکہ کی آزادی میں ’کامن سینس‘ پمفلٹ کا بھی حصہ تھا۔

ٹامس پین آزادی کے بعد پانچ سال تک امریکہ میں مقیم رہا۔ اس دوران یورپ کے اندر سیاسی تبدیلیاں آ رہی تھیں، فرانس کی معاشی حالت ابتر تھی۔ جب صورت حال زیادہ بگڑی تو 1789 میں وہاں انقلاب آ گیا۔ برطانیہ میں بھی صنعتی انقلاب کے بعد ورکنگ کلاس غربت اور افلاس میں مبتلا زندگی گزار رہی تھی۔ ریاست کی جانب سے ٹریڈ یونینز پر پابندی تھی۔ اس ماحول میں ٹامس پین واپس انگلینڈ آیا، اور یہاں اس نے اپنی کتاب ’انسان کے حقوق‘ لکھی۔

یہ کتاب محنت کش طبقے میں بہت مقبول ہوئی اور لوگ جمع ہو کر اس کتاب کو سنتے تھے۔ اس کی مقبولیت نے برطانوی ریاست کو پریشان کر دیا اور ٹامس پین پر غداری کا مقدمہ درج کر دیا گیا۔

قید سے بچنے کے لیے ٹامس پین فرار ہو کر فرانس چلا گیا، جہاں اس وقت انقلاب آ گیا تھا۔ انقلابیوں نے اس کو خوش آمدید کہا، لیکن جیکوبن اور گرانڈسٹس کے آپس کے جھگڑوں نے انقلابی حکومت کو متاثر کیا۔ جب جیکوبینز اقتدار میں آئے تو انہوں نے غیرملکیوں کو گرفتار کر لیا۔

یہ وہ وقت تھا کہ ذرا سے شک شبے پر انقلابی حکومت لوگوں کے سر کاٹ رہی تھی۔ غیر ملکی قیدیوں کو بھی یہی سزا دی جانے والی تھی، مگر یہ ان کی خوش قسمتی تھی کہ انقلابی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا، اور اس کے لیڈر روبزپیر کا بھی گلوٹین سے سر کاٹ دیا گیا۔ ٹامس پین کی گردن بال بال بچی۔

ٹامس پین واپس امریکہ جانا چاہتا تھا مگر اسے ڈر تھا کہ برطانوی بحری جہاز اسے گرفتار نہ کر لیں۔ اس دوران اس نے ’ایج آف ریزن‘ (عقل کا دور) کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ اس کتاب کو مذہب مخالف قرار دیا گیا اور ٹامس پین پر اعتراضات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

جب اسے واپس امریکہ جانے کا موقع ملا تو ٹامس جیفرسن امریکہ کا صدر منتخب ہوا اور اس نے ٹامس پین کو امریکی بحریہ کے جہاز میں امریکہ بلایا، لیکن جب ٹامس پین امریکہ پہنچا تو امریکہ کے حالات بدل چکے تھے۔ اس کا جوش و خروش سے خیرمقدم نہیں ہوا۔

مذہب کے خلاف ہونے پر اس پر الحاد کے الزامات لگائے گئے۔ اس کے دوستوں کا حلقہ بھی تنگ ہو گیا تھا۔ اس کے پاس آمدنی کے ذرائع بھی موجود نہیں تھے، لہٰذا بقیہ زندگی اس نے تنہائی اور غربت میں گزاری، اور انہی حالات میں 1809 میں اس کی امریکہ ہی میں وفات ہوئی۔ اس کی تدفین میں صرف چھ لوگ موجود تھے۔

ٹامس پین کی زندگی اور اس کے نظریات سے اندازہ ہوتا ہے کہ کسی خاص ماحول میں کوئی نظریہ مقبول ہوتا ہے، مگر جب حالات بدلتے ہیں تو وہ تاریخ میں گم ہو جاتا ہے۔

کبھی معاشرہ تبدیلی کا خواہش مند ہوتا ہے اور کبھی تبدیلی کو رد کرتا ہے۔ افراد کے نظریات جب ناکام ہوتے ہیں تو نظریہ ساز بھی اسی کے ساتھ اپنی اہمیت کھو دیتا ہے۔

بشکریہ انڈیپینڈنٹ اردو۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close