پریتو (افسانہ)

شاہین کمال (کیلگری)

”تو یہ تمہارا آخری فیصلہ ہے؟ پکا؟“

”ہاں پکا!“ پریتو نے بڑی شد و مد سے سر ہلایا.

”وہ جانتا ہے تمہارے شوق کے متعلق؟“ سلطانہ نے کٹار جیسا سوال کیا

”ہاں! اسے کوئی اعتراض بھی نہیں؟“

سلطانہ بھونچکا رہ گئی.

ارے بھئی اس کی محبت میں میں سب چھوڑ دوں گی نا…“ پریتو نے ہنستے ہوئے کہا

”ہاں یہ تو گویا بہت ہی آسان ہے نا…! سب چھوڑ دوں گی..“ سلطانہ بالکل ہی بھنوٹ ہوگئی

”یار سلطانہ! تم دوست ہو، دوست ہی رہو.. ہر وقت اماں مت بن جایا کرو میری..“ میں نے بدمزہ ہوتے ہوئے سلطانہ کو گھرکا

”پریتو! دوست ہوں، اسی لیے سمجھا رہی ہوں کہ جذباتی فیصلے نہ کرو. یہ زندگی ہے کوئی چھ سات گھنٹے کی فلائٹ نہیں کہ پھر نیا شہر ہو گا اور نئے لوگ… ایسے فیصلے پختہ اور ٹھوس ہونے چاہئیں، کیونکہ ان فیصلوں میں undo کا کوئی آپشن نہیں ہوتا.
Once you are committed, committed.
You don’t have any u turn.”

”ہاں بابا جانتی ہوں اور شادی کی اہمیت سے بھی واقف ہوں. اس مارچ میں اٹھائیس سال کی ہو چکی ہوں.. بچی نہیں رہی… یار سلطانہ تیری فضول کی جھک جھک نے سارے نشے کا ستیا ناس کر دیا.. لا میرا پرس پاس کر.. ایک کش تو لوں.“

”واٹ…!؟ تمہارے پرس میں سگریٹ ہے؟ او گوڈ!! تم آن ڈیوٹی ہو…!! تم بھری ہوئی سگریٹ سمیت کسٹم سے پار کیسے لگیں؟“ سلطانہ کی حیرت دیدنی تھی

”کونٹیکٹس.. ( Contacts) میری جان… تعلقات!“

”تم کو کچھ اندازہ ہے پریتو یہ کتنا خطرناک کام ہے؟ اور ابھی جو تم اس کی محبت میں گوڈے گوڈے غرق ہونے کی دعویدار تھیں، اس کا کیا ہوا؟ کیا اس کی محبت اتنی طاقتور ہے کہ تم نشہ وشہ سب چھوڑ دو گی؟“ سلطانہ نے جرح کی

”ہاں تو شادی کے بعد چھوڑ دوں گی نا نشہ کرنا.. اس کا ساتھ اتنا نشہ آور ہوگا کہ کسی اور نشے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی..“ پریتو نے ہنستے ہوئے جواب دیا

”پریتو! شادی ایک بہت سیریس میٹر ہے۔ اور ہنی مون پیریڈ فقط دو چار مہینے کی بہار.. محبوبہ اور بیوی میں آسمان زمین کا فرق ہوتا ہے. شادی سے پہلے محبوبہ کی جو ادائیں دلنواز لگتی ہیں نا، بیوی بننے کے بعد اسی پر ادا پر گلا دبانے کا دل چاہتا ہے“

”سلطانہ! اب دہشت زدہ تو نہ کرو یار!! اور تم نے کون سی شادی کی ہے؟ لیکچر تو تم کسی تجربہ کار میاں کی طرح دے رہی ہو. چل چھوڑ سب کچھ… تصویر دیکھ اپنے بہنوئی کی. ہے نا یوسف ثانی!“

پریتو سدا کی ڈھیٹ وہ کب پروں پر پانی پڑنے دیتی ہے…

”خوبرو تو خیر ہے… لیکن اچھی بات یہ ہے کہ معقول بھی ہے.. پچھلے اپریل میں دبئی کی فلائٹ پر تم نے پہلی بار ملوایا تھا.. بعد میں بھی ظفر سے ملاقات رہی. مجھے تو ظفر خاصہ معقول اور سلجھا ہوا بندہ لگا. اب تم دونوں نے شادی کا فیصلہ کر لیا ہے تو اللہ بہت بہت مبارک کرے پر خدارا پریتو اب اپنا جزباتی پن اور نشہ چھوڑ دو.“

”ہاں یار بالکل.“ پریتو نے سعادت مندی سے ہامی بھری

نوکری جاری رکھو گی؟“ سلطانہ نے پوچھا

”نوکری تو جاری ہی رکھنی پڑے گی.. کیوں کہ ظفر نے ابھی نیا بزنس شروع کیا ہے اور اس وقت اس کو فائنانشل (financial) سپورٹ کی ضرورت ہے.“

”کیوں؟ ظفر نے پروفیشنل فوٹو گرافی کیوں چھوڑ دی؟ کس چیز کا بزنس سیٹ کر رہا ہے وہ؟“ سلطانہ نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا، کیوں کہ فیشن انڈسٹری میں ظفر ایک چلتا ہوا مستند نام تھا. دبئی کے بیشتر فیشن شوز کی کوریج وہی کیا کرتا تھا.

”ہاں پیسوں کے معاملے میں پارٹی سے کچھ گرما گرمی ہوگئی تھی، چونکہ لوکل اور زور آور پارٹی تھی.. اس لیے ظفر کے ورک ویزا میں مشکل پیدا کر رہے ہیں اور دوسری سب سے بڑی وجہ یہ کہ جب سے ظفر نے عمرہ کیا ہے، تھوڑا بدل گیا ہے. وہ ماڈلز کے فوٹو سیشن سے گریز کرنے لگا ہے اور پھر کراچی میں اس کی امی کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں. وہ یوں بھی کراچی اور دبئی میں بٹا ہوا تھا، سو اس نے دبئی سے بزنس سمیٹ کر کراچی واپسی کا فیصلہ کیا ہے اور وہاں طارق روڈ پر مردانہ اور بچکانہ بوتیک کھول لی ہے.. میں اس ماہ کے آخر میں چھٹی لے رہی ہوں. بس جرمنی کی فلائٹ کے بعد لمبی چھٹی اور پیا کا سنگ. تم شادی پر تو آؤ گی نا؟“

”شاید میرا آنا ممکن نہ ہو پریتو، کیوں کہ اپیا کی شادی کی ڈیٹ فکس ہو گئی ہے اور مجھے شادی کی مد میں اضافی رقم کی ضرورت ہے. اس لیے تھوڑا اوور ٹائم لگانا پڑے گا.“ سلطانہ نے آہستگی سے جواب دیا ”پتہ ہے پریتو، پیسہ ہم مڈل کلاسیوں کی سب سے بڑی مشکل بھی اور مجبوری بھی. بے غیرت بن کر ڈھیٹ کی طرح کسی سے مانگ بھی نہیں سکتے اور کھینچ تان کر پوری بھی نہیں پڑتی . کوئی مشکل سی مشکل ہے.“

”یہ تو تم صحیح کہہ رہی ہو سلطانہ.. بیچارا مڈل کلاس روایات کی پاسداری اور سفید پوشی کے بھرم میں پسا جاتا ہے. بالکل دم گھونٹ دینے والی صورت حال ہے.“ اس نے سگریٹ کا گہرا کش لیتے ہوئے کسی ماہر معاشیات کی طرح تبصرہ کیا

”ایک بات پوچھوں برا تو نہیں مانو گی؟“ سلطانہ نے نائٹ بلب آن کرتے ہوئے پریتو سے کہا

”سلطانہ ایک تو تم تکلفات میں بہت پڑتی ہو. تمہیں اچھی طرح سے پتہ ہے کہ میں خاصی منہ پھٹ ہوں. برا لگے گا تو صاف کہہ دوں گی اور اگر جواب دینے کا موڈ نہیں ہوا تو جواب بھی نہیں دونگی.“

”تم نے نشہ کب اور کیوں شروع کیا؟“

”اوہ!“ پریتو خاموش ہو گئی اور یہ خاموشی اتنی طویل ہوگئی کہ سلطانہ اپنے سوال پر شرمندگی ہونے لگی

اچانک ٹھنڈے اور نیم تاریک کمرے میں پریتو کی سرگوشی سرسرائی ”میں تھرڈ ایئر میں تھی اور میرا حلقۂ احباب بہت وسیع تھا. سب میری دوست تھیں.. مگر ان میں سے کوئی بھی میری خاص دوست یا بیسٹ فرینڈ نہیں تھی. بس شغل میلہ اور ہلا گلہ تھا. اس میں ہائی کلاس، مڈل کلاس، الٹرا موڈ اور پردہ نشین سب شامل تھیں. ہم لوگ اکثر کلاس بنک کر کے لبرٹی اور فورٹ بھی چلے جایا کرتے تھے. ان میں سے کئیوں کے ریلیشنز بھی تھے. لڑکوں سے یاری دوستی بھی تھی. کچھ کا محض ٹائم پاس تھا ، دل پشوری تھی اور کچھ سنجیدہ تھیں. مجھے نہیں پتہ تھا کہ نگار اور راگنی نشہ کرتیں تھیں . ایک دن ہم سب کالج کے گراؤنڈ میں بیٹھے ہنسی مذاق کر رہے تھے کہ جانے کس نے وقار زکا کے ٹی. وی پروگرام کا زکر چھیڑ دیا اور پھر daring
کا کھیل شروع ہو گیا.. ہوتے ہوتے جانے راگنی کو کیا سوجھی.. کہنے لگی بہت ہو گئی بچوں جیسی daring
کسی میں تپڑ ہے تو یہ پی کر دکھاؤ… اس نے اپنے پرس سے بھری ہوئی سگریٹ نکالی. نگار ہیں ہیں ہی کرتی ہی رہ گئی. سب لڑکیوں کو جیسے سانپ سونگھ گیا اور میری شامت نے مجھے آواز دی. میں نے بڑھ کر سگریٹ اٹھا لی. پہلے کش نے چودہ طبق روشن کر دئیے. کھانس کھانس کر برا حال ہو گیا مگر میں نے کسی نہ کسی طرح سگریٹ ختم کر کے daring queen کا ٹائٹل جیت لیا. اس وقت تو اندازہ بھی نہیں تھا کہ اپنی جذباتیت کے ہاتھوں میں کیا قدم اٹھا چکی ہوں… میں سمجھتی تھی کہ ایک سگریٹ بھلا میرا کیا بگاڑ لے گی؟ مگر سلطانہ… میرا ضرورت سے زیادہ خود اعتماد
ہونا مجھے لے ڈوبا. دوسرے دن تنہائی میں راگنی اور نگار نے خوب میری پیٹھ ٹھوکی اور میری جرأت کی تحسین کی اور میں بیوقوف ستائش کے بہاؤ میں بہتی چلی گئی. میں تمہیں وہ سرور اور وہ کیفیت بیان نہیں کر سکتی سلطانہ… گویا کہکشاں کی سیر تھی. اس قدر انرجی اور چستی تھی مجھ میں کہ بیان سے باہر اور موڈ تو ایسا خوشگوار، کہ پوچھو مت… حالانکہ ان دنوں میں بہت بڑے کرائسس سے گزر رہی تھی. سگریٹ کی فراہمی نگار اور راگنی کی ذمہ داری تھی . ان دنوں تو وہ لوگ مجھ سے سگریٹ کی قیمت بھی نہیں لیتی تھیں اور سگریٹ کی ترسیل تو کوئی مسئلہ ہی نہیں تھی. نگار کے والد پولیس میں تھے، اس لیے ہم لوگ ڈر اور خوف سے بالکل مبرا تھے. گو پیتے ہم لوگ چھپ چھپا کے ہی تھے، لیکن یہ مت سمجھنا کہ کالج کی پرنسپل کو پتہ نہیں تھا . انہیں سب خبر تھی، سب کچھ ان کی ناک کے نیچے ہی تو ہو رہا تھا. مجھے جب خود اس نشے کی لت لگی تو پتہ چلا کے چوتھائی سے زیادہ کالج اس مرض میں مبتلا ہے. کالج کے باہر بھٹے والا اور کالج کا ایک پیون ریگولر سپلائر تھے. جیسا کہ میں نے بتایا کہ ان دنوں میری زندگی میں بھی کرائسس چل رہا تھا، امی ابا میں سمجھو بس طلاق ہونے ہی والی تھی. ان کے آپس کے جھگڑوں نے ان کو میری طرف توجہ دینے کی فرصت ہی نہیں دی اور اس روز روز کی چخ چخ سے فرار کے لیے چرس بہترین ساتھی ثابت ہوئی. ایک سگریٹ کیا پی کہ پھر تو سمجھو چل سو چل…. چرس، اسکنک اور پھر آئس اور اب تو سب سے آسان چوئینگم . کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا. اسکنک کی بو ذرا تیز ہوتی ہے. سب سے زود اثر آئس ہے اور اس کو کوئی انجان پہچان بھی نہیں پاتا کہ بالکل چینی کے دانوں جیسی ہوتی ہے.. کسی بھی سوفٹ ڈرنک میں ملاؤ اور مزے کرو…. خاندان کے بڑوں نے بیچ میں پڑ کر امی ابا کو طلاق کے فیصلے سے باز رہنے مجبور کیا مگر حقیقت یہ تھی سلطانہ، کہ جائداد کی تقسیم کی پیچیدگی کے باعث وہ دونوں طلاق کے فیصلے سے دستبردار ہوئے تھے. کتنے افسوس کی بات ہے نا کہ اس فیصلے کا سبب نہ تو اولاد کی محبت تھی اور نہ ہی ان کی اپنی وابستگی… ستم ظریفی تو دیکھو کہ نہ اولاد پیر کی زنجیر ثابت ہوئی اور نہ ہی محبت دامن گیر، بلکہ سب کرشمہ سازی پیسے کی تھی. پیسے میں بڑی طاقت ہے میری جان! بڑی طاقت!“

پریتو کی آواز بالکل بھیگی ہوئی تھی

”امی کو جب میرے نشے کی لت کی خبر ہوئی تو بڑا رونا پیٹنا مچا. خاندانی عزت اور وقار کا واسطہ اور باپ دادا کے نام کو بٹا لگانے والے سارے جذباتی مکالمے دھرائے گئے . امی نے مجھے راز داری سے اسلام آباد کے بہت مہنگے ری ہیب سنٹر میں داخل کرا دیا. لاہور سے دور، تاکہ رشتہ داروں کو میرے نشہ کرنے کی بھنک بھی نہ لگے. مگر تم جانو رشتہ دار بھی بو سونگھتے پھرتے ہیں. ان ظالموں نے وہ گناہ بھی میرے کھاتے میں ڈال دیا، جس کا تصور بھی کبھی میرے پاس سے نہیں گزرا تھا. خاندان میں میرے ابارشن کی خبر گرم تھی. میں جب ری ہیب سے واپس آئی تو میرے لیے یہ انتہائی شوکنگ اور شرمناک خبر تھی. گھر میں ابا کا حوصلہ شکن رویہ اور فون پر بھیا کی طنزیہ گفتگو نے مجھے دوبارہ اسی راہ کا راہی بنا دیا، جس سے بچانے کی کوشش میں میری ماں ہلکان تھی. بس ان سب باتوں سے گھبرا کر میں نے اپنا بوریا بستر سمیٹا اور لاہور کو خیرباد کہہ کر کراچی آ گئی. اس شہرِ مہربان نے چھت بھی دی اور نوکری بھی. مختلف ایر لائینوں سے ہوتے ہوتے اب امارات میں ہوں. میں پھر کبھی لاہور نہیں گئی. امی کو ملنا ہوتا ہے تو میرا شیڈول پوچھ کر کراچی آ جاتی ہیں. ابا اور بھیا کامل دو برس ناراض رہے ، تو جناب یہ ہے میری کہانی…“

”اب تو تمہاری زندگی میں ظفر ہے.. اب نشہ سے دستبردار کیوں نہیں ہو جاتیں؟“

”ارے میری جان! اب کمبل میری جان نہیں چھوڑتا، کوشش کرتی ہوں کچھ عرصہ ڈرائی گزرتا ہے پھر کوئی کمزور لمحہ غالب آ جاتا ہے اور
Back to the square one
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی…. دراصل سلطانہ نشہ کرنے والوں کی ول پاور بہت کمزور ہوتی ہے. میرے لیے کوئی ایسا محرک یا موٹیویشن بھی نہیں تھی، جو یہ لت چھڑا دیتی. اب دعا کرو ظفر کا ساتھ مجھ میں وہ طاقت پیدا کر دے کہ میں اس لعنت سے چھٹکارا پا لوں.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پھر سادگی سے ہم دونوں کی شادی ہو گئی. میری خواہش تو تھی کہ ہنی مون کے لیے باہر جاتے پر وقت کی کمی اور پیسے کی تنگی کے سبب اسکردو تک گئے. وہ میری زندگی کا حاصل خوبصورت اور یادگار آٹھ دن تھے.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پیاری سلطانہ.
تم حیران ہوگی کہ پانچ سال بعد میں تم سے مخاطب ہو رہی ہوں . کیا بتاؤں کہ زندگی کن کن راہوں سے ہو آئی . اب تم اور تمہاری نصیحتیں بہت یاد آتی ہیں . تم نے بالکل صحیح کہا تھا کہ شادی کا فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر لینا چاہیے کہ اس میں یو ٹرن کا آپشن نہیں ہوتا.
مجھے سب سے زیادہ نقصان میری جذباتیت نے پہنچایا. وہ وقت شاید شادی کے لیے نا موزوں تھا . میرا عجلت میں لیا گیا فیصلہ غلط تھا، کہ شادی جیسی سنجیدہ ذمہ داری اٹھانے کے لیے میں ذہنی طور پر پختہ نہیں تھی. شادی کے بعد بھی بہت محدود پیمانے پر ہی سہی مگر میں نشہ کرتی رہی. مجھے ظفر نے بھی کبھی نہیں ٹوکا اور نہ ہی ری ہیب لے گیا.
ہنی مون سے واپس آ کر ظفر اپنے بزنس میں ایسا غرق ہوا کہ میں بوریت کی انتہا پر جا پہنچی. اس کی بے توجہی کے سبب آپس کی تکرار معمول بننے لگی. کہیں آنا جانا بھی نہیں تھا اور میں گھر کی چار دیواری میں قید میں بے زار ہو گئی تھی ، میرا دم گھٹنے لگا تھا. مجھے لگتا تھا کہ واپس نوکری پر جانے کے بعد شاید ہم لوگوں کے مابین جھگڑے کم ہو جائیں گے مگر مشکل یہ ہوئی کہ جھگڑے تو کم نہیں ہوئے مگر ان کی نوعیت ضرور بدل گئی.
پہلے میں جھگڑتی تھی کہ ظفر مجھے وقت نہیں دیتا. اس کا بزنس، دوسرے نمبر پر اس کا سوشل ورک اور پھر نیٹ پہ دوستوں سے چیٹنگ.
یہ کل تین مصروفیات تھیں اس کی. ایک تو ناس جائے اس فیسبک، انسٹا گرام اور واٹس ایپ کا کہ اس کی وجہ سے سب کے مرے مردار اور گمشدہ محبوب اور محبوبائیں از سرنو دریافت ہو گئے ہیں . ہزار وہ قسمیں کھاتا کہ سب جسٹ کلاس فیلوز اور کولیگز ہیں مگر میرا دل نہیں مانتا تھا. اوپر سے اس کی فیمیل موڈلز کی یلغار… یقین مانو سلطانہ خوبصورت مرد بھی جان کا جنجال ہوتے ہیں. عورتیں ان پر پروانہ وار نثار ہوتی ہیں اور بےچاری بیویاں بیٹھ کر محض اپنا دل جلاتی ہیں.
شاید اب گنگا الٹی بہنے لگی ہے…
یہ دوستوں کا رولا کیا کم تھا کہ ظفر کے ناشتے کی ڈیمانڈ بڑھ گئی. وہی روایتی مردوں والا مطالبہ کہ مجھے تم ناشتہ بنا کر دو. میرا ناشتہ تمہاری ذمہ داری ہے.. میری ماں کی نہیں. بات اس کی جائز تھی پر میں کیا کرتی مجھ سے سویرے اٹھا ہی نہیں جاتا تھا اور ظفر کا اصرار کے ناشتہ میں بناؤں. مرتے پیٹتے کبھی کبھار بنا دیتی تھی. زیادہ تر آنٹی ہی بناتی تھیں. آنٹی میرے ساتھ ٹھیک تھیں مگر ظفر کی بڑی بہن کا رویہ نہایت غیر مناسب ۔
میری خواہش تھی کہ ہماری فیملی بڑھے مگر ظفر اس بات کے لیے بالکل آمادہ نہیں تھا. ایک دن تو اس نے صاف صاف کہہ دیا کہ وہ نہیں سمجھتا کے میں اولاد کی ذمہ داری اٹھانے کے لائق بھی ہوں . میرا تو دل ہی ٹوٹ گیا، بہت رونا دھونا ہوا . جھگڑے مزید بڑھےاور نتیجتاً میرا نشہ اوور ڈوز ہونے لگا. ابھی تک ظفر کی امی سے سب ڈھکا چھپا تھا. ان کو میرا انداز کھٹکتا تو تھا مگر ان کے پاس ثبوت نہیں تھا. جب ان کو میرے نشے کی خبر ہوئی تو وہ ہتھے سے اکھڑ گئیں. ماں بیٹے میں بھی جھگڑا ہوا. ظفر کی بہن نے جلتی پر مزید تیل چھڑکا. اب ظفر کی امی بھی مجھے باتیں سنانے لگی تھیں. ظفر جب رات گھر آتا تو پہلے ماں کی سنتا پھر میرے دکھڑے سنتا. ظفر نے مجھے ری ہیب میں داخلے کے لیے کہا مگر مجھے ایسا لگا کہ وہ مجھ سے بے زار ہے اور مجھ سے جان چھڑانا چاہتا ہے . میں نے اس کا مشورہ نہیں مانا اور یوں اپنے پیروں پر آپ ہی کلہاڑی مار لی . میں نے تمہیں بتایا تھا نا کہ نشہ سے قوت فیصلہ بہت متاثر ہوتی ہے. بس سمجھو میری بھی مت ماری گئی تھی.
اس سے پہلے کہ تم مجھے دوشی ٹھہراؤ، میں خود ہی اقرار کر لیتی ہوں کہ ہاں میں اس رشتے کو نبھا نہیں سکی . میں نے ظفر کے کہے کا اعتبار نہیں کیا اور اس سے اس کی خواتین دوستوں کو لے کر بہت جھگڑا کیا اور اس پر ہر طرح کے الزامات لگائے .
ہم لوگوں کی تکرار اتنی بڑھی کہ بیڈروم تو کیا پڑوس تک آواز گونجنے لگی . میں اس کو اس نہج پر لے گئی کہ وہ مجھ سے بے زار ہو گیا . میں یہ بھی مانتی ہوں کہ اس ازدواجی رشتے کی ناکامی میں میرا حصہ زیادہ تھا، مگر سلطانہ خطا وار وہ بھی تھا . اس نے میرے حصے کا وقت اور توجہ بھی دوسروں کو دان کر دیا تھا اور جب مجھے پانی سر سے اونچا ہونے کا احساس ہوا اور میں نے واپس پلٹنا چاہا تو شاید بہت دیر ہو چکی تھی . میں نے بہت زور دیا کہ ہم لوگوں کو میرج کانؤسلر Marriage counselor سے ملنا چاہئے، مگر ظفر آنا کانی کرنے لگا، وہی اس کا پرانا عدیم الفرصتی کا راگ.. میں نے اسے اپنے ری ہیب میں داخلے کے لیے بھی کہا مگر اس نے کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی . وہ شاید نبھاتے نبھاتے تھک چکا تھا اور اب جان چھڑانے کے بہانے ڈھونڈ رہا تھا .
میں نے سوچا کہ لاہور چلی جاتی ہوں.. وہاں امی کی مدد سے کسی ری ہیب میں داخل ہو جاؤں گی. بس یہی سوچ کر لاہور آ گئی. یہ غلطی مجھ سے ضرور ہوئی کہ میں نے اپنے ارادے سے اسے آگاہ نہیں کیا تھا.. میرا خیال تھا کہ صحت مند ہو کر اسے سرپرائز کرونگی سو میں امی سے ملنے کا کہہ کر لاہور آ گئی. مجھے کیا پتہ تھا کہ اس کے دل کے ساتھ ساتھ میری قسمت کا دروازہ بھی ہمیشہ کے لیے بند ہو چکا ہے . اس کو سرپرائز کرنے چلی تھی اور خود ہی شوکڈ ہو گئی . میرے لاہور پہنچنے کے ایک ہی ہفتے کے بعد رجسٹری ڈاک کے ذریعے مجھے طلاق نامہ موصول ہوا . یوں دو سالہ لڑتی جھگڑتی، روتی دھوتی شادی اختتام پذیر ہوئی.
دیکھو نصیب کے کھیل ”کہاں آ کے ٹوٹی کمند“ جب میں نے خود کو یکجا کرنے کی ٹھانی، اپنی بہتری چاہی تو بدقسمتی کی لہر میرا گھروندا ہی بہا کر لے گئی… مت پوچھو کیا گزری مجھ پر…! مستقل rehab کا چکر لگتا رہا. ری ہیب سے گھر آتی تو غم کی شدت سے گھبرا کر پھر نشے میں پناہ لیتی اور علاج کے لیے پھر ری ہیب جاتی . نشہ کرنا بہت آسان مگر اس عزلت سے باہر آنا بہت بہت مشکل ، مانو نشہ ایک دلدل ہے آپ اس عادت بد کو چھوڑنے کی جتنی کوشش کرتے ہیں، یہ موذی آپ کو اتنی ہی شدت سے واپس گھسیٹتا ہے… نشے کے عادی نشہ چھوڑنے کی کوشش میں جس اذیت سے گزرتے ہیں، وہ بس وہی جانتے ہیں یا ان کا خدا… ٹوٹتا بدن مانو جان کنی کا عذاب ہوتا ہے. بہت مشکل مرحلہ تھا جس کو امی کی محنت اور دعا نے پار لگایا. اب میں یہ دعویٰ کر سکتی ہوں کہ
”ہاں اب میں نشے کے چنگل سے آزاد ہوں“ مگر بڑی بھاری قیمت چکائی ہے میں نے نشے کی… اپنی محبت تو ہاری سو ہاری ہی ، ساتھ میں ماں باپ کی نیک نامی بھی گنوائی .
اب دل کی بھی سن لو!
وہ پاگل اب بھی اسی کے نام کی دھمال ڈالتا ہے اور اسی کے نام پر دھڑکتا ہے . آنکھوں میں ابھی تک اسی یار بے وفا کی تصویر جڑی ہے اور وہ نا مراد و نا شاد خواب بھی اسی خوش جمال کے دیکھتی ہیں . میری حماقت کی انتہا بھی سن لو کہ خوابوں میں وہ مجھے غم زدہ اور میرے فراق میں پریشان حال نظر آتا ہے .
ہائے! اس دل کی خوش گمانی نہیں جاتی سلطانہ…
دل یہی سوچنا چاہتا ہے اور آنکھیں یہی دیکھنا چاہتی ہیں اور حقیقت!!؟
حقیقت یہ ہے کہ پچھلے ہفتے ظفر نے منگنی کر لی اور دسمبر میں اس کی شادی طے ہے . اس نے فیسبک پر اپنی منگنی کی تصویریں پوسٹ کیں تھیں. وہ ویسا ہی سر سبز و شاداب ہے. وہی جان لیوا مسکراہٹ اور وہی موہنی ادا. اس کا تو نہ ہی کچھ بدلا نہ بگڑا… اور یہاں زندگی رل گئی.
کیا کسی کو زندگی سے نکال پھینکنا اتنا آسان ہوتا ہے سلطانہ؟
کیا واقعی آگے بڑھ جانا move on کر جانا اتنا سہل ہے؟
میں شاید اس کی زندگی کا زحل تھی. میں جب تک اس کے ساتھ تھی سب کچھ بگڑا رہا . جب اس نے مجھے اپنی زندگی سے نکال دیا تب اس کے لیے سب اچھا اچھا ہو گیا . مگر میرے لیے تو کچھ بھی اچھا نہیں ہوا . میرے لیے نہ تو دن روشن ہے اور نہ ہی رات ٹھنڈی . دل اب بھی اسی کے لیے ہمکتا ہے . دل یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ وہ اب پرایا ہے، شجر ممنوعہ ہے…
میں اس کی بے مہری کا گلہ کیا کروں کہ دنیا تو ہے کاملیت پسند اور وہ بھی اسی دنیا کا باسی ہے… بھلا ٹوٹے بکھرے لوگوں کو کون گلے لگاتا ہے؟
مگر میں حیران ہوں کہ کیا واقعی کسی کو دل سے کھرچ دینا اتنا آسان ہوتا ہے سلطانہ؟
محبت کتاب زندگی کا ایک ورق تو نہیں ہوتی کہ آپ نے صفحہ پلٹ دیا اور نئی کہانی شروع…
میں کیوں اسے بھول نہیں پاتی سلطانہ؟
وہ مجھے کیوں یاد آتا ہے؟
میرے لیے سانس سانس آزار کیوں ہے؟
میرے پاس تو کچھ بھی نہیں بچا، سوائے ایک کھوکھلے جسم اور ویران دل کے…
اب نہ زندگی کی چاہت ہے اور نہ جینے کی امنگ. سچ پوچھو تو جینے کو دل نہیں کرتا مگر میری ذات سے میرے ماں باپ کو اتنی تکلیف پہنچ چکی ہے کہ اب میری حتی الوسع کوشش یہی ہے کہ میں خود کو ایک اچھی بیٹی ثابت کروں. کوئی رشتہ تو زندگی میں سلیقے سے نبھا نہ سکی… ایک آخری کوشش ہے کہ ڈھنگ کی بیٹی ہی بن جاؤں.
کل شام میں فرینکفرٹ کے لیے نکل رہی ہوں .
مجھے Lufthansa میں نوکری مل گئی ہے اور میں خوش ہوں. میں ماضی کے ملال سے نکلنا چاہتی ہوں. میں خود کو ایک اور موقع دینا چاہتی ہوں. اس کوشش میں کہاں تک کامیاب ہونگی یہ تو میں نہیں جانتی پر اپنی کوشش پوری ہے.
دعا کرنا کہ نئی زندگی مجھے راس آ جائے..
اپنا بہت خیال رکھنا.
فقط
تمہاری پریتو
(پروین مہر علی)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close