بے باکی اور مسلسل جدوجہد کی علامت اسماعیل ہنیہ کی زندگی پر نظر

ویب ڈیسک

فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ 62 سالہ اسماعیل ہنیہ تہران میں اسرائیلی حملے میں شہید ہو گئے۔ اسماعیل ہنیہ فلسطینی گروپ کی بین الاقوامی سفارت کاری کا ایک چہرہ سمجھے جاتے تھے۔

اسماعیل ہنیہ فلسطینیوں کے ان رہنماؤں کی فہرست میں شامل تھے جو دلیری کے باعث مقبول تھے، کیونکہ کبھی کوئی ایسا موقع نہیں آیا جس میں اسماعیل ہنیہ کے قدم ڈگمگائے ہوں۔ ان کی ساری زندگی فلسطین پر اسرائیلی قبضے کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے ہی گزری اور اس جدوجہد میں ان کے خاندان کے بیسیوں افراد کو اسرائیل نے پہلے ہی شہید کر دیا تھا

2006 میں فلسطینی اتھارٹی کی حکومت کے وزیراعظم بننے والے اسماعیل ہنیہ بدھ کی صبح اپنے محافظ کے ساتھ شہید کر دیے گئے۔ ان پر حملہ ایسے وقت میں کیا گیا جب وہ ایران کے نئے صدر مسعود پیزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے تہران میں موجود تھے۔

اسماعیل ہنیہ فلسطین کے سابق وزیراعظم، حماس کے سیاسی سربراہ اور حماس کے پولیٹیکل بیورو کے چیئرمین تھے، 2017 میں انہیں خالد مشعال کی جگہ حماس کا سیاسی سربراہ مقرر کیا گیا۔

واضح رہے کہ غزہ میں حالیہ اسرائیلی جارحیت کے بعد 10 اپریل 2024 کو اسرائیل کے فضائی حملے میں ہنیہ کے تین بیٹے حازم، عامر اور محمد اس وقت شہید کیے گئے، جب اسرائیلی فضائیہ نے اس کار کو نشانہ بنایا، جس میں وہ سفر کر رہے تھے۔

اس حملے میں اسماعیل ہنیہ نے اپنے چار پوتے پوتیوں کو، جن میں تین لڑکیاں اور ایک لڑکا تھا، بھی کھو دیا تھا۔

لیکن اپنے خاندان کی شہادت پر اسماعیل ہنیہ نے کہا کہ شہیدوں کے خون اور زخمیوں کے درد سے ہم امید پیدا کرتے ہیں، ہم مستقبل بناتے ہیں، ہم اپنے لوگوں اور اپنی قوم کے لیے آزادی پیدا کرتے ہیں۔ اور بھتیجے، جنگ کے آغاز سے ہی مارے گئے ہیں۔ پیچھے نہیں ہٹیں گے، چاہے میرے بچے شہید اور گھر تباہ کر دیے جائیں

ہنیہ نے کہا ”اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ مجرمانہ دشمن انتقام کے جذبے اور قتل و خونریزی کے جذبے سے کارفرما ہے، اور یہ کسی بھی معیار یا قانون کی پاسداری نہیں کرتا.“

اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر ترجمان حماس خالد قدومی نے بتایا کہ اسماعیل ہنیہ کے خاندان کے 79 لوگ شہید ہو چکے ہیں، شہدا میں اسماعیل ہنیہ کے 2 بیٹے بھی شامل ہیں۔

ترجمان حماس کا کہنا تھا کہ ایران ایک مسلمان ملک ہے، مسلم امہ کو منہ توڑ جواب دینا چاہیئے، اسرائیل کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے آ چکا ہے، ہم اس وقت حالت جنگ میں ہیں اپنا دفاع کر رہے ہیں، اسرائیل تمام سرخ لکیروں کو عبور کررہا ہے عالمی برادری کیا کرے گی، اسرائیل نے ایک عالمی لیڈر کا قتل کیا ہے، اقوام متحدہ کو ایکشن لینا چاہیئے، اسرائیل نے صرف اسماعیل ہانیہ نہیں بلکہ تمام مسلمانوں پر حملہ کر دیا ہے۔

اسماعیل ہنیہ فلسطینی تحریک آزادی کے ایک اہم رہنما کے طور پر منظر عام پر آئے اور اپنی سیاسی زندگی کے دوران وہ ہمیشہ اسرائیل کے نشانے پر رہے۔ حالانکہ اسرائیل نے تہران میں ان پر جان لیوا حملے کی ذمہ داری رسمی طور پر قبول نہیں کی لیکن ایک اسرائیلی وزیر نے ان کی شہادت پر خوشی کا اظہار کیا۔

اسماعیل ہنیہ کا تعلق غزہ شہر کے ساحل پر واقع شطی پناہ گزین کیمپ سے تھا، جہاں وہ 1962 میں ایک پناہ گزین خاندان میں پیدا ہوئے، انہوں نے 16 سال کی عمر میں اپنی کزن امل ہنیہ سے شادی کی جن سے ان کے 13 بچے ہوئے، جن میں 8 بیٹے اور 5 بیٹیاں شامل ہیں۔

یہ وہ زمانہ تھا، جب عرب اسرائیل جنگ کے بعد اسرائیل نے غزہ کا محاصرہ کر لیا تھا۔ اسماعیل ہنیہ فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے اونروا کے زیر انتظام اسکولوں میں تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں انہوں نے غزہ کی اسلامی یونیورسٹی سے 1987 میں عربی ادب میں ڈگری حاصل کی پھر 2009 میں اسلامی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری حاصل کی۔

انہوں نے حماس میں اس وقت شمولیت اختیار کی جب یہ 1987 میں پہلی فلسطینی انتفادہ (انقلاب) میں تشکیل دی گئی۔اسرائیلی قبضے کے خلاف پہلی انتفادہ (انقلاب) کے دوران ہنیہ فلسطینی نوجوانوں کے احتجاج میں شامل رہے۔ انہیں گرفتار کر کے مختصر وقت کے لیے جلاوطن کر دیا گیا۔

اسرائیل نے اسماعیل ہنیہ کو کم از کم تین بار جیل میں قید کیا۔ 1992 میں انہیں دیگر سینئر حماس رہنماؤں کے ساتھ لبنان جلا وطن کیا گیا، لیکن ایک سال بعد وہ غزہ واپس آ گئے اور حماس کے روحانی رہنما شیخ احمد یاسین کے قریبی ساتھی بن گئے، جو ہنیہ کے خاندان کی طرح اشکلون کے قریب الجورا گاؤں سے تعلق رکھنے والے پناہ گزین تھے۔

1994 میں انہوں نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا تھا کہ یاسین فلسطینی نوجوانوں کے لیے ایک ماڈل ہیں اور انہوں نے کہا تھا کہ ’ہم نے ان سے اسلام سے محبت اور اس اسلام کے لیے قربانیاں دینا سیکھا اور ان ظالموں اور جابروں کے سامنے گھٹنے نہ ٹیکنا سیکھا۔‘

2003 تک وہ شیخ احمد یاسین کے ایک قابل اعتماد معاون رہے، جن کی یاسین کے غزہ کے مکان میں تقریباً مکمل طور پر مفلوج حماس کے بانی کے کان پر فون رکھ کر تصویر کھینچی گئی تھی تاکہ وہ بات چیت میں حصہ لے سکیں۔

2003 میں، ہانیہ اور یاسین ایک قاتلانہ حملے سے بچ گئے جب اسرائیلی جیٹ طیاروں نے غزہ کے مرکز میں ایک اپارٹمنٹ بلاک پر بمباری کی جہاں وہ ملاقات کر رہے تھے۔ تاہم صرف چھ ماہ بعد 2004 میں شیخ یاسین کو اسرائیلی فوج نے صبح کی نماز کے بعد مسجد سے نکلتے ہوئے ہیلی کاپٹروں سے نشانہ بنا کر شہید کر دیا۔

ہنیہ حماس کے سیاست میں داخل ہونے کے ابتداء میں حامی تھے۔ 1994 میں انہوں نے کہا تھا کہ ’ایک سیاسی جماعت بنانے سے حماس کو ابھرتی ہوئی صورت حال سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔‘

ابتدائی طور پر حماس کی قیادت نے اسے مسترد کر دیا تھا لیکن بعد میں اسے منظور کر لیا گیا تھا اور 2006 میں اسرائیلی فوج کے غزہ سے انخلا کے ایک سال بعد 44 سال کی عمر میں، ہنیہ نے حماس کو فتح تحریک پر قانون سازی کے انتخابات میں فتح دلائی، جو ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے اقتدار میں تھی۔ جس کے بعد ہنیہ فلسطینی وزیر اعظم بن گئے تھے۔ حماس نے 2007 میں غزہ پر کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔

سنہ 2012 میں جب نامہ نگاروں نے ان سے پوچھا تھا کہ کیا حماس نے مسلح جدوجہد ترک کر دی ہے تو ہانیہ نے جواب دیا تھا کہ ’بالکل نہیں‘ اور کہا کہ ’عوامی مزاحمت، سیاسی، سفارتی اور فوجی مزاحمت‘ تمام طریقوں سے جاری رہے گی۔

واضح رہے کہ 2006 کے انتخابات میں جب حماس نے حیران کن کامیابی حاصل کی اور ہنیہ فلسطینی اتھارٹی کے وزیر اعظم بنے لیکن مغربی ممالک نے حماس کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا اور فلسطینی اتھارٹی کی مالی امداد روک دی گئی، جس کے نتیجے میں حماس اور فتح کے درمیان تنازع بڑھ گیا۔ 2007 میں اسماعیل ہنیہ نے غزہ میں حماس کی حکومت قائم کی اور 2017 میں حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ بنے۔

2017 میں جب انہوں نے غزہ چھوڑا تو ان کے بعد یحییٰ سنوار نے اقتدار سنبھالا، جو دو دہائیوں سے زائد عرصے تک اسرائیلی جیلوں میں قید رہے اور سنہ 2011 میں قیدیوں کے تبادلے کے بعد ہنیہ نے انہیں غزہ میں دوبارہ خوش آمدید کہا تھا۔

قطر یونیورسٹی میں فلسطینی امور کے ماہر ادیب زادہ نے اپنی موت سے قبل کہا تھا کہ ’ہنیہ عرب حکومتوں کے ساتھ حماس کے لیے سیاسی جنگ کی قیادت کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’وہ حماس کا سیاسی اور سفارتی محاذ ہیں۔‘

یہ بات تو سب ہی جانتے ہیں کہ اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے لیے حماس اتنی طاقت ور تنظیم نہیں ہے لیکن اسماعیل ہنیہ کی قیادت میں حماس نے اپنے آپ کو اسرائیلی جارحیت کے خلاف ثابت قدم رہنے کے لیے اچھی طرح تیار کیا اور ہمیشہ ثابت قدم رہی۔ حماس کے کارکنوں کے لیے اسماعیل ہنیہ کا حوصلہ مشعلِ راہ کے مانند تھا۔ وہ اپنی تقریروں میں انتہائی جوش و خروش کے ساتھ اس نکتے پر زور دیتے تھے کہ کامیابی یا ناکامی کے بارے میں زیادہ سوچے بغیر ہمیں اپنے کاز پر توجہ دینی چاہیے، جو بھی ہو جائے، ثابت قدم رہنا ہی اصل فتح ہے۔

اسماعیل ہنیہ فلسطین حماس ہی نہیں بلکہ تمام مسلم دنیا میں ایک مقبول شخصیت تھے، اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے کبھی اپنی جدوجہد کے کسی بھی موڑ پر سمجھوتے یا اصولوں پر سودے بازی کی بات نہیں کی اور فلسطین کی آزادی پر کسی حال میں سمجھوتا نہیں کیا۔ یہی وجہ تھی کہ اسرائیل اُنہیں شہید کرنے کے درپے تھا، اور بالآخر اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہو گیا۔

اسماعیل ہنیہ کی شہادت حماس کےلیے ایک بڑا نقصان ہے، لیکن اسرائیل کی جانب سے ماضی میں بھی حماس کے رہنماؤں کو شہید کیا جاتا رہا ہے جس نے فلسطینی مزاحمت کو کمزور کرنے کے بجائے مزید مضبوط کیا ہے۔
اسماعیل ہنیہ کی زندگی فلسطینیوں کے حقوق اور آزادی کی جدوجہد کے لیے وقف تھی اور ان کا نام فلسطینی تحریک کے اہم رہنماؤں میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close