چند مشہور کہاوتیں اور ان کے پس منظر میں چھپی کہانیاں-1

ڈاکٹر شریف احمد قریشی

کہاوت نمبر 1:
نہ نو من تیل ہوگا، نہ رادھا ناچے گی

مطلب:
نہ سامانِ کثیر بہم پہنچے گا، نہ یہ امر ظہور پذیر ہوگا۔ کسی کام میں ایسی شرطیں لگانا جن کا پورا ہونا ناممکن یا دشوار ہو۔

پس منظر:
اس کہاوت کے تعلق سے کرشن جی اور رادھا کے قصہ کی تلمیح کچھ اس طرح مشہور ہے: ’’ایک رات کرشن جی نے اپنی محبوبہ رادھا سے ناچنے کے لیے کہا۔ رادھا نے معذرت طلب کی ، مگر کرشن جی ناچنے کے لیے مسلسل اصرار کرتے رہے۔ رادھا جی کو جب یہ محسوس ہوا کہ کرشن جی کسی طرح ماننے والے نہیں ہیں، تو انہوں نے کرشن جی سے کہا، ٹھیک ہے! میں ناچوں گی، آپ پہلے نو من تل کا چراغ جلوائیے۔ کیوں کہ میں ایسی ویسی نہیں ہوں، آپ کی محبوبہ ہوں۔ اس لیے میری بھی کچھ حیثیت ہے۔ کرشن جی یہ کہہ کر خاموش ہوگئے کہ، نہ نو من تیل ہوگا، نہ رادھا ناچے گی۔‘‘

کہاوت نمبر 2:
جس کی لاٹھی، اس کی بھینس

مطلب :
طاقتور ہی کا سب کچھ ہے۔ جب کوئی طاقتور اپنے بَل بوتے پر زبردستی کسی کمزور کا مال اپنے قبضے میں کر لے، تو یہ مثل کہی جاتی ہے۔

پس منظر :
اس مثل کے وجود میں آنے کا سبب ایک دلچسپ حکایت ہے جو اس طرح ہے:
’’ایک بار کوئی شخص بازار سے ایک بھینس خرید کر اپنے گھر کی طرف جا رہا تھا۔ راستے میں سنساں جنگل پڑتا تھا۔ جس وقت وہ سنسان راستے سے گزر رہا تھا، تو راستے میں ایک چور ملا۔ چور نے اس کا راستہ روک لیا اور ڈرا دھمکا کر کہا کہ بھینس میرے حوالے کردو۔ بھینس والے نے آنا کانی کی، تو چور نے لاٹھی تان کر کہا۔ اگر تم بھینس نہیں دو گے، تو اسی لاٹھی سے تمہارا سر پھاڑ دوں گا۔ پھر تم کو بھینس کے ساتھ ساتھ اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا۔ اچھائی اسی میں ہے کہ بے چوں و چرا بھینس میرے حوالے کردو اور اپنے گھر کا راستہ ناپو۔ بھینس والے نے سوچا کہ معاملہ گڑ بڑ ہے۔ کہیں جان ہی سے نہ جاؤں۔ بھینس دینے ہی میں عافیت ہے۔ اس نے بھینس کو چور کے حوالے کر دیا اور نہایت عاجزی و انکساری سے کہا۔ اب یہ بھینس آپ کی ہے۔ راستہ سنسان ہے، اگر تم مجھے اپنی یہ لاٹھی دے دو، تو میں اس کے سہارے اپنے گھر تک پہنچ جاؤں گا۔ چور نے سوچا، قیمتی بھینس تو مجھے مل گئی ہے، اب لاٹھی دینے میں کیا مضائقہ ہے۔ اس نے بھینس والے کو اپنی لاٹھی دے دی۔ چور جوں ہی بھینس کو لے کر چلنے لگا۔ اس شخص نے لاٹھی تان کر کہا، اب کہاں جاتا ہے؟ تیری عافیت اسی میں ہے کہ بھینس کو چھوڑ کر بھاگ جا، ورنہ تیرے سر کے دو ٹکڑے کردوں گا۔ چور گھبرا گیا۔ معاملہ الٹا ہوگیا تھا۔ موقعہ کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے اس نے بھینس چھوڑ دی اور لاٹھی واپس مانگی۔ اس شخص نے جواب دیا، اب یہ لاٹھی تیرے ہاتھ آنے والی نہیں۔ کیوں کہ ”جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔‘‘

کہاوت نمبر 3:
تین میں، نہ تیرہ میں

مطلب :
کہاوت یوں ہے: ’’تین میں نہ تیرہ میں، مردنگ بجاوے ڈیرے میں۔‘‘
ایسا شخص جو کمتر ہو یا جس کی حیثیت دوسروں کے سامنے کچھ نہ ہو۔ یہ کہاوت ایسے شخص کے لیے کہی جاتی ہے، جو اپنے آپ کو دوسرے کے برابر سمجھے۔ ان کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرے، مگر لوگ اسے اپنے سے کمتر ہی خیال کریں۔

پس منظر :
اس مثل کے بارے میں ایک حکایت کچھ یوں بیان کی جاتی ہے:
’’ایک بار بان پور (بندیل کھنڈ) کے راجا مردن سنگھ نے دعوت کا اہتمام کیا۔ انہوں نے سبھی ٹھاکروں کو نہایت تعظیم و تکریم کے ساتھ مدعو کیا۔ ٹھاکروں میں اعلیٰ درجہ کے ٹھاکروں کے تین قبیلے بندیلے، پنوار اور گھگھنرے تھے۔ ان کے علاوہ ٹھاکروں کے تیرہ گھرانے اور تھے، جن کا شمار بھی اعلیٰ ٹھاکروں میں کیا جاتا تھا، مگر اول تین قبیلوں کو ان پر فوقیت حاصل تھی۔ بھوج (یعنی دعوت) میں شامل ہونے کے لیے سبھی تیرہ گھرانوں کے ٹھاکر تشریف لائے مگر ایک ٹھاکر وہاں بن بلائے ہی پہنچ گئے۔ اس ٹھاکر کے گھرانے کا شمار کمتر گھرانوں میں ہوتا تھا۔ اعلیٰ درجہ کے ٹھاکر کمتر درجہ کے ٹھاکروں کے ساتھ نہ تو کھاتے پیتے تھے، اور نہ ان کی عزت ہی کرتے تھے۔ بھوج کے وقت یہ مسئلہ پیدا ہوگیا کہ ان حضرت کو کس طرح کھانا کھلایا جائے؟ کیوں کہ اعلیٰ درجہ کے ٹھاکر ادنیٰ درجہ کے ٹھاکروں کے ساتھ قطعی کھانا نہیں کھا سکتے۔ بہت سوچ بچار اور غور و فکر کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کا کھانا ان کے مکان ہی پر بھجوا دیا جائے۔ یہ وہیں کھانا کھائیں اور وہیں مردنگ بجائیں۔ کیوں کہ یہ تین میں ہیں نہ تیرہ میں، مردنگ بجاوے ڈیرے میں۔‘‘

ڈاکٹر شریف احمد قریشی کی تصنیف ’’کہاوتیں اور ان کا حکایتی و تلمیحی پس منظر‘‘ سے ماخوذ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close