تم بالکل بخیریت تھے۔ (امریکی ادب سے منتخب افسانہ)

ڈورتھی پارکر (ترجمہ: ڈاکٹر خالد سہیل)

ایک نوجوان آرام دہ کرسی پر پاؤں پسار کر بیٹھ گیا۔ اس کا رنگ زرد تھا۔ اس نے گردن ایک طرف جھکائی تاکہ تازہ ہوا اس کے رخسار اور کنپٹی کو چھو سکے۔

”او میری پیاری“ اس کے منہ سے نکلا، ”او میری پیاری او میری پیاری! او۔۔۔۔۔“

صوفے پر بیٹھی ہوئی شفاف آنکھوں والی لڑکی مسکرائی اور بولی، ”کیوں طبیعت ٹھیک نہیں آج؟“

”او ٹھیک ہوں۔ جانتی ہو کس وقت اٹھا ہوں آج۔ ٹھیک چار بجے سہ پہر۔ جب بھی اٹھنے کی کوشش کی تکیے نے سہارا نہ دیا۔ یہ جو میرے شانوں پر تمہیں سر نظر آرہا ہے، وہ میرا نہیں ہے۔۔ یہ کسی امریکی ادیب کا سر ہے اور میری پیاری او میری پیاری او میری پیاری۔“

”شراب کا ایک اور گلاس پی لو شاید طبیعت بہتر ہو جائے۔“ اس نے مشورہ دیا۔

”نہیں شکریہ۔ میں نے توبہ کرلی ہے، آخری توبہ۔۔ میرے ہاتھ کی طرف دیکھو، اس میں بالکل لرزہ نہیں، اپنی جگہ پر ساکت و جامد ہے، چہکتے ہوئے پرندے کی طرح یہ بتاؤ، کیا کل رات میری حالت بہت ہی خراب تھی؟“

”نہیں، ایسی کوئی بات نہیں۔۔ سب تمہیں مسخرا سمجھ رہے تھے، بس جم پیرس کو تم پر ذرا غصہ آ گیا تھا۔۔۔ اور تُو تُو میں میں ہونے لگی تھی۔ لیکن لوگوں نے اسے خاموش کروا دیا۔۔ میرا نہیں خیال باقی لوگوں کو اس کی خبر ہوگی۔“

”وہ مجھے مارنے لگا تھا، میں نے آخر ایسی کیا حرکت کی تھی؟“

”نہیں کچھ نہیں، تم بخیریت تھے۔۔ تم جانتے ہو جم میں بچپنا ہے، وہ جلد غصے میں آ جاتا ہے، خاص کر اگر کوئی الیا نور پر زیادہ توجہ دینی شروع کردے۔۔۔
نہیں نہیں، تم تنگ تھوڑا ہی کر رہے تھے، تم تو اپنے مزاحیہ موڈ میں تھے۔۔ وہ بھی تمہارے لطیفوں سے محظوظ ہو رہی تھی، وہ تو تھوڑی سی ناراض اس وقت ہوئی، جب تم نے جوس کا گلاس اس کی کمر پر الٹ دیا۔“

”او خدایا! کیا میں نے واقعی اس کی قمیض میں جوس انڈیلا۔۔ کتنا برا کیا۔۔ میں اس کی کیسے تلافی کر سکتا ہوں؟“

”فکر مت کرو، اسے ایک گلدستہ تحفتہً بھیج دینا، وہ خوش ہوجائے گی۔“

”نہیں، میں فکر نہیں کروں گا۔۔ مجھے دنیا کی کوئی فکر نہیں ہے۔۔ او میری پیاری، کیا میں نے ڈنر پر مضحکہ خیز حرکتیں بھی کیں؟“

”تم ٹھیک ہی تھے۔ ہوٹل کا مالک قدرے پریشان تھا کیونکہ تم اپنا گانا بند کرنے کا نام ہی نہ لیتے تھے، اتنا شور تھا کہ وہ ہوٹل بند کرنے کا سوچ رہا تھا لیکن سب لوگ لطف اندوز ہو رہے تھے، اس لیے اس نے نظر انداز کر دیا۔۔ تم نے گانا شروع کیا تو گاتے ہی چلے گئے، تقریباً ایک گھنٹہ ۔۔۔۔۔ آواز تو خیر زیادہ بلند نہ تھی۔“

”میں نے گانا گایا۔۔“ وہ بولا، "یہ تو حیرانگی کی بات ہے۔۔ مجھے گانا کہاں آتا ہے۔“

”کیا تمہیں یاد نہیں تم ایک گانے کے بعد دوسرے گاتے رہے، آخر میں تم ایک فوجی گانا شروع کرنے لگے تو سب نے تمہیں منع کرنا چاہا لیکن تم سنتے کہاں تھے۔ تم بڑے مزاحیہ موڈ میں تھے۔“

”کیا میں نے کھانا نہیں کھایا؟“

”نہیں تم نے بالکل نہیں کھایا، جب بھی ویٹر کچھ لے کر آتا تو تم واپس لوٹا دیتے اور ویٹر سے کہتے کہ جو بھی تمہارا ہے، وہ اس کا ہے کیونکہ وہ تمہارا سگا بھائی ہے لیکن جب وہ پیدا ہوا تو کسی خانہ بدوش نے اسے بدل دیا لیکن آخر اب تم نے اسے پا لیا ہے، وہ ویٹر آخر میں بہت برہم تھا۔“

”یقیناً ہوا ہوگا۔۔ میں نے ایک سرکس کے جانور کی طرح حرکتیں کی ہوں گی۔ ویٹر کی حادثے کے بعد کیا ہوا؟“

”کچھ زیادہ نہیں۔ کمرے کے دوسرے کونے میں ایک بوڑھا آدمی بیٹھا تھا، تمہیں وہ بالکل اچھا نہ لگا کیونکہ تمہیں اس کی ٹائی بالکل پسند نہ آئی، تم اس کا مذاق اڑاتے اڑاتے کمرے سے باہر نکل گئے۔“

”تو کیا میں کمرے سے باہر چلا گیا۔۔ کیا میں چلنے کے قابل تھا؟“

”ہاں چلے تو تھے لیکن سڑک پر جو برف تھی، اس پر پھسل گئے اور دھڑام سے زمین پر گرے، لیکن ایسا تو کسی کے ساتھ بھی ہو سکتا تھا۔۔۔

”اور پھر پیٹر!“ وہ جذبات میں آ گئی، ”تم یہاں بیٹھ کر مجھے یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس کے بعد کے واقعات تمہیں یاد نہیں۔ تم بالکل خیریت سے تھے بلکہ خوشی کے موڈ میں تھے، جب تم زمین سے اٹھے تو تم مجھ پر کتنے مہربان ہوئے تھے اور تم مجھے اپنے ساتھ لے گئے تھے اور ہم نے ٹیکسی میں لمبا سفر کیا۔ اگر تم نے کہا کہ تمہیں وہ بھی یاد نہیں تو میں جیتے جی مر جاؤں گی۔“

”او ہاں! ٹیکسی کی سیر! ہاں ہاں کچھ کچھ یاد پڑتا ہے۔ بہت لمبی سیر تھی میرے خیال میں۔“

”اور ہم پارک کے گرد کتنی دفعہ گھومے تھے۔ چاندنی میں درخت کتنے حسین لگ رہے تھے اور تم نے کہا تھا کہ میری قربت میں تمہیں پہلی بار احساس ہوا تھا کہ تم روح بھی رکھتے ہو۔“

”ہاں ہاں میں نے یہی کیا تھا۔“ وہ فوراً بولا۔

”اور تم نے کتنی پیاری پیاری اور میٹھی میٹھی باتیں کی تھیں۔ مجھے اس سے پہلے بالکل پتہ نہ تھا کہ تم میرے لیے ایسے رومانی جذبات رکتھے ہو اور میں نے بھی پہلے کبھی تم پر اپنا دل کا حال واضح نہ کیا تھا اور پھر کل رات ۔۔۔۔۔ پیٹر کل رات ہماری زندگی کی سب سے اہم رات تھی۔“

”ہاں میرا خیال ہے ہوگی۔“

”اب ہم عمر بھر خوشی سے دن رات گزاریں گے۔“ اس نے کہا، ”پہلے تو میں نے چاہا کہ سب لوگوں کو خبر کر دوں، پھر میں نے سوچا کہ ہم اسے راز ہی رکھیں۔“

”یہی بہتر ہوگا۔“ وہ بولا۔

”کتنا اچھا خیال ہے۔“ وہ مسکرائی۔

”ہاں بہت اچھا۔“

”بہت پیارا۔“

”دیکھو میری پیاری۔ میرا خیال ہے تم مجھے شراب کا ایک گلاس دے دو، میری حالت بہتر ہو رہی ہے۔۔ اگر میں نے جلد شراب نہ پی تو کہیں بے ہوش ہی نہ ہو جاؤں۔“

”او۔۔ فکر نہ کرو جلد ٹھیک ہو جاؤ گے، میں تمہارا خیال رکھوں گی۔۔ میں تمہارے لیے وسکی اور سوڈا بنا کر لاتی ہوں۔“

”سچی! میرا خیال تھا کہ کل کی بیوفوقانہ حرکات کے بعد تم مجھ سے بات تک کرنا گوارا نہ کرو گی۔ میرا خیال ہے میں تبت میں جا کر کسی خانقاہ میں قیام کر لوں۔“

”تم دیوانے ہوئے ہو کیا۔ـ“ وہ فوراً بولی، ”جیسا کہ اب میں تمہیں ضرور ہی جانے دوں گی، ایسی فضول باتیں نہ کرو، تم بالکل بخیریت تھے۔“

اس نے چھلانگ لگائی اس کی پیشانی پر بوسہ دیا اور کمرے سے باہر بھاگ گئی۔

اس نحیف و زرد آدمی نے اس کی طرف دیکھا، کافی دیر تک سر ہلاتا رہا پھر اپنے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے سر تھام لیا۔۔ ’او میری پیاری۔ـ‘ وہ ایک دفعہ پھر بولا۔۔ ’او میری پیاری! او میری پیاری!‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close