’فتح کے کئی مالک نکل آتے ہیں اور شکست ہمیشہ لاوارث رہتی ہے۔‘ مزدور باپ کے بیٹے ارشد ندیم کی عالمی ریکارڈ تک پہنچنے کی کہانی

سچ کہتے ہیں کہ فتح کے کئی مالک نکل آتے ہیں اور شکست ہمیشہ لاوارث رہتی ہے۔۔ گزشتہ دنوں ایک وڈیو منظر عام پر آئی، بڑے اہتمام سے بنائی گئی وڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ ان کے مشیر امور نوجوانان رانا مشہود بھی موجود تھے، جیسے ہی ارشد ندیم ریکارڈ بناتے ہیں تو رانا مشہود ارشد ندیم کی جیت کا کریڈٹ شہباز شریف کو دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وزیراعظم صاحب یہ آپ کا وژن تھا۔

پاکستانیوں نے ارشد ندیم کی فتح کا جتنا جشن منایا، اس وڈیو کا اتنا ہی مذاق بھی بنایا۔۔ پاکستانی شوبز انڈسٹری کی معروف اداکارہ و ماڈل کرن ملک بھی پیچھے نہ رہیں اور اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتنے والے ارشد ندیم کی کامیابی کا کریڈٹ لینے پر وزیراعظم شہباز شریف پر کڑی تنقید کی۔

اداکارہ و ماڈل کرن ملک نے سوشل میڈیا پر جاری کیے گئے پیغام میں وزیراعظم پر طنزیہ وار کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے ارشد ندیم کو موقع دیا!؟ نہیں جناب! انہوں نے ساری جدوجہد اپنی مدد آپ کے تحت کی ہے، آپ نے تو ارشد ندیم کو ٹریننگ کے لیے جِم تک کی سہولیات فراہم نہیں کیں۔

کرن ملک نے وزیراعظم کے مشیر رانا مشہود سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آپ ارشد ندیم کو عزت دیں کیونکہ انہوں نے عالمی سطح پر پوری پاکستانی قوم کا سر فخر سے بُلند کیا ہے۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ آپ اور آپ کے وزیراعظم صاحب تو صرف اپنی جیب بھرنے میں مصروف ہیں۔

دراصل حکومت کی جانب سے اس فتح کا کریڈٹ لینے پر تنقید کی وجہ یہ ہے کہ پیرس اولمپکس میں پاکستان کے لیے میڈل کی واحد امید سمجھے جانے والے جیولن تھروئر ارشد ندیم کو اپنے پاس موجود واحد بین الاقوامی معیار کی جیولن کے حوالے سے بھی مشکلات درپیش رہیں

ارشد ندیم 32 برس میں پاکستان کے لیے اولمپکس میں پہلا تمغہ حاصل کرنے کی امید تھے، جس پر وہ پورا بھی اترے، تاہم ان کے پاس موجود اکلوتی جیولن بھی خراب ہو چکی تھی۔ دوسری جانب ان کے حریف انڈیا کے نیرج چوپڑا کے لیے حکومت نے ٹوکیو اولمپکس سے پہلے 177 جیولن خریدے تھے۔

اولمپکس سے کچھ عرصہ قبل ارشد نے بتایا تھا کہ ان کے پاس ایک ہی بین الاقوامی معیار کی جیولن ہے، جو اس وقت خراب حالت میں ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان نے سنہ 1992 کے بعد سے اولمپکس میں کوئی بھی میڈل نہیں جیتا تھا، تب پاکستان ہاکی ٹیم نے کانسی کا تمغہ جیتا تھا۔ اب لگ بھگ 32 برس بعد ارشد ندیم نے اولمپکس گولڈ میڈل جیتا ہے

ارشد پہلے ہی پاکستان کے لیے کامن ویلتھ گیمز میں سونے اور عالمی ایتھلیٹکس چیمپیئن شپ میں چاندی کا تمغہ جیت چکے تھے، یوں وہ پاکستان کی تاریخ کے اب تک کے عظیم ترین ایتھلیٹ بن چکے ہیں۔

پاکستانی حکام ماضی میں بھی ارشد ندیم کو وہ تمام سہولیات دینے میں ناکام رہے ہیں جو ان کے پائے کے دنیا کے دیگر ایتھلیٹس کو ملتی ہیں۔

مثال کے طور پر جیولن تھرو ایونٹ میں ارشد کے حریف انڈیا کے نیرج چوپڑا جنہوں نے عالمی ایتھلیٹکس چیمپیئن شپ میں طلائی تمغہ حاصل کیا، گذشتہ برس دسمبر سے اس سال فروری تک جنوبی افریقہ میں ٹریننھگ کرتے رہے اور پھر اب مارچ کے بعد سے انڈیا کی وزارتِ یوتھ افیئرز اور اسپورٹس کے مشن اولمپکس سیل کی جانب سے انہیں ترکی میں مارچ سے مئی تک ٹریننگ کرنے کی منظوری دے دی تھی۔

اس سے پہلے نیرج فن لینڈ، امریکہ، برطانیہ، فرانس، جمہوریہ چیک، پولینڈ اور سویڈن میں بھی حکومتی خرچے پر ٹریننگ کے لیے جاتے رہے ہیں۔

انڈیا کی اسپورٹس اتھارٹی کی جانب سے جاری ایک دستاویز کے مطابق سنہ 2021 کے اولمپکس سے قبل تقریباً سوا ایک سال کے لیے نیرج چوپڑا کی ٹریننگ پر حکومت کی جانب سے لگ بھگ سات کروڑ انڈین روپے لگائے گئے تھے۔

ان میں بین الاقوامی ٹریننگ کیمپس کے علاوہ 177 نئے جیولنز کی خریداری کے علاوہ 74 لاکھ کی ایک جیولن تھرو مشین بھی خریدی تھی۔

اس دوران ایک اچھی خبر یہ بھی سامنے آئی ہے کہ ایک موٹر کا کمپنی پاکستان کی جانب سے ارشد ندیم کو پیرس اولمپکس تک اسپانسر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

مارچ کے مہینے میں ارشد ندیم کی جیولن کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ایک صحافی کی جانب سے ان کی جیولن کی شکل تبدیل ہونے اور اس کے باعث انھیں پریکٹس میں مشکلات کا سامنا کرنے کے حوالے سے بتایا گیا تھا اور اس حوالے سے رقم اکٹھی کرنے کی بات کی گئی تھی۔

تاہم ارشد ندیم کی جانب سے کہا گیا ہے کہ انھوں نے کسی کو بھی ایسا کرنے کا نہیں کہا اور اس حوالے سے ان کے کوچ سلمان بٹ اور کچھ دیگر افراد کوشاں ہیں۔

خیال رہے کہ جیولن کی ساخت اور اس کا معیار عالمی معیار سے مطابقت رکھنے پر ہی ایک ایتھلیٹ اچھی پریکٹس کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔

جیولن کی ساخت اور اس کا معیار اس لیے بھی اہم ہوتا ہے کیونکہ جیولن تھروئر کی جانب سے اسے فضا میں پوری طاقت سے ایک مخصوص سمت میں پھینکا جاتا ہے اور اگر اس کا توازن خراب ہو جائے یا شکل تبدیل یا ٹوٹی ہوئی ہو تو یہ مختلف سمت میں جا سکتی ہے، جس سے تھرو کا فاصلہ کم ہو سکتا ہے۔

ایتھلیٹ کے لیے بین الاقوامی معیار کی جیولن کا پریکٹس میں استعمال اس لیے بھی ضروری ہوتا ہے کیونکہ ان ایونٹس میں چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی بہت اہمیت رکھتی ہے اور تھوڑی سی اونچ نیچ بھی تمغے کا فرق ڈال سکتی ہے۔

میاں چنوں میں اپنے گاؤں کا ٹریکٹر: ارشد ندیم

پیرس اولمپکس 2024 میں جیولن تھرو میں ورلڈ ریکارڈ بنا کر سونے کا تمغہ جیتنے والے ارشد ندیم بطور ایتھلیٹ تو کسی تعارف کے محتاج نہیں، لیکن یہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ایک محنت کش باپ کے گھر پیدا ہونے والے اس نوجوان نے چھ بہن بھائیوں میں رہ کر یہ سفر کیسے طے کیا؟

ارشد نے جیولن تھرو جیسے مشکل ٹاسک کا انتخاب کیسے کیا؟ اور سہولیات نہ ہونے کے باوجود اس کٹھن سفر کو کس طرح طے کرنے میں کامیاب ہوئے؟ یہ ایک حیران کن کہانی ہے

لاہور سے تقریباً تین سو کلومیٹر دور جنوبی پنجاب کے شہر میاں چنوں کا نواحی گاؤں 101 آر ایل کافی پسماندہ ہے اور پنجاب کے دوسرے کئی دیہات کی طرح یہاں بھی بنیادی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔

میاں چنوں شہر سے بتیس کلومیٹر کی دوری پر واقع لگ بھگ پندرہ سو گھرانوں کے مسکن اس گاؤں میں نہ تعلیم کی مناسب سہولیات ہیں اور نہ ہی صحت کے حوالے سے کوئی مناسب بندوبست۔۔ گاؤں کی ایک کچی گلی، جہاں سیوریج کا مناسب نظام نہیں، میں ایک کچی نالی بہتی دکھائی دیتی ہے۔ سامنے ایک کچا پکا گھر، جس کے باہر دو تین بینر لگے ہیں، جن پر ارشد ندیم کی کامیابی پر مبارک باد کے الفاظ تحریر ہیں۔ یہ ارشد ندیم کا گھر ہے

ارشد کے والد راج مستری ہیں لیکن اُنہوں نے اپنے بیٹے کی ہر قدم پر حوصلہ افزائی کی۔ ارشد ندیم کے کریئر میں دو کوچز رشید احمد ساقی اور فیاض حسین بخاری کا اہم کردار رہا ہے۔

ان کی والدہ رضیہ پروین نے بتایا کہ ان کے سات بچے ہیں، جن میں سے پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ ’ارشد ان میں تیسرے نمبر پر ہے۔ شادی شدہ ہے اور اس کے بھی تین بچے ہیں۔ ایک بیٹی اور دو بیٹے۔ اس نے ملک اور ہمارا نام روشن کیا ہے، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔‘

ارشد ندیم کی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے والدہ نے بتایا کہ ’ایک محنت کش کے بیٹے کو جس طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ارشد نے بھی وہ سب برداشت کی ہیں۔ ان کے والد نے محنت مزدوری کر کے ان کو پڑھایا ہے۔ ارشد کو ساتویں کلاس سے کرکٹ، فٹ بال، گولہ اور نیزہ بازی کا شوق تھا۔ جب میٹرک میں اسکول کے مقابلوں میں نیزہ بازی میں اس نے پہلی پوزیشن لی تو اس کے والد نے اسے یہی کھیل جاری رکھنے کو کہا تھا۔

’ارشد اپنی مدد آپ کے تحت نیزہ بازی کرتا رہا اور میٹرک تک تعلیم بھی حاصل کر لی۔ پھر اچانک وہ بڑے بڑے مقابلے جیتنے لگا۔ کئی سال گزرنے کے بعد اس نے پہلے بھی میڈل جیتے اور اب یہ گولڈ میڈل جیت کر ہمارے سر فخر سے بلند کر دیے۔‘

شاہد بتاتے ہیں کہ ’ارشد کو ہم گاؤں میں ’روسی ٹریکٹر‘ بلاتے ہیں کہ اللہ نے اس میں بہت طاقت رکھی ہے۔‘

اس کی وضاحت کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ ’باقی جتنے بھی ٹریکٹر ہوتے ہیں ان سب کی وزن کھنچنے کی ایک حد ہوتی ہے مگر روسی ٹریکٹر کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ اس کے پیچھے جتنا بھی وزن لگا دو وہ کھنچ کر لے جاتا ہے۔‘

’ارشد نے اولمپکس میں روسی ٹریکٹر کی مثال کی دوبارہ یاد دلا دی کہ میں روسی ٹریکٹر ہوں، میں نے ایسا زور لگانا ہے اور پاکستان کے لیے اولمپکس کھینچ کر لے آنا ہے۔‘

ارشد کے دوسرے بھائی شاہد ندیم بتاتے ہیں کہ انھیں یہ تو امید تھی کہ ان کا بھائی گولڈ میڈل لے گا لیکن انھوں نے یہ نہیں سوچا تھا کہ وہ تاریخ بھی رقم کرے گا۔

ارشد ندیم کے ایک قریبی دوست کلیم اللہ کہتے ہیں ”ہم بچپن کے دوست ہیں۔ ارشد ایک کھلے دل کے سیدھے سادے انسان ہیں۔ ہم بچپن سے اب تک دوست ہیں۔ وہ عاجزی اور انکساری میں اپنی مثال آپ ہیں۔ وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ ایک دن میں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں سب سے لمبی تھرو کر کے دنیا کو حیران کروں گا۔ ہم سمجھتے تھے کہ مقامی سطح تک تو ارشد کا کوئی مقابلہ نہیں لیکن دنیا میں تو بہت بڑے کھلاڑی ہیں، یہ کیسے ممکن ہوگا؟ لیکن انہوں نے کر دکھایا۔ پہلے بھی میڈل جیتے اور آج دنیا کو حیران کر دیا۔“

میاں چنوں شہر میں بھی ارشد ندیم کے 40 سال بعد ملک کو گولڈ میڈل دلوانے کی گونج سنائی دی۔ شہریوں نے ارشد ندیم کو قومی ہیرو قرار دیتے ہوئے اپنا فخر قرار دیا۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ ارشد جیسے محنتی نوجوانوں کو ملک کا ہیرو بنانے کے لیے چھوٹے شہروں میں مواقع اور سہولیات فراہم کی جائیں تو مزید کئی ارشد ندیم پیدا ہو سکتے ہیں۔

عالمی معیار کا نیزہ بھی انہیں کچھ ماہ پہلے ہی شکوہ کرنے پر فراہم کیا گیا تھا۔ انہوں نے اس سے قبل بتایا تھا کہ یہاں عالمی معیار کی نہ تربیت کے مواقع ہیں اور نہ ہی دوسرے ممالک کے ایتھلیٹس کی طرح ان پر کوئی توجہ دی جارہی ہے۔ البتہ انہوں نے یہ دعویٰ ضرور کیا تھا کہ اس بار فٹنس برقرار رہی تو وہ میڈل ضرور لائیں گے۔

ارشد ندیم کے کریئر میں دو کوچز رشید احمد ساقی اور فیاض حسین بخاری کا اہم کردار رہا ہے۔ رشید احمد ساقی ڈسٹرکٹ خانیوال ایتھلیٹکس ایسوسی ایشن کے صدر ہونے کے علاوہ خود ایتھلیٹ رہے ہیں۔ وہ اپنے علاقے میں باصلاحیت ایتھلیٹس کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی میں پیش پیش رہے ہیں۔

سنہ 2021 میں رشید احمد ساقی نے بتایا تھا کہ ارشد ندیم جب چھٹی ساتویں جماعت کے طالب علم تھے، اُنھیں وہ اس وقت سے جانتے ہیں۔ اس بچے کو شروع سے ہی کھیلوں کا شوق تھا۔

اس زمانے میں ان کی توجہ کرکٹ پر زیادہ ہوا کرتی تھی اور وہ کرکٹر بننے کے لیے بہت سنجیدہ بھی تھے لیکن ساتھ ہی وہ ایتھلیٹکس میں بھی دلچسپی سے حصہ لیا کرتے تھے۔ وہ اپنے سکول کے بہترین ایتھلیٹ تھے۔‘

رشید احمد ساقی کا کہنا تھا ‘میرے ارشد ندیم کی فیملی سے بھی اچھے مراسم ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دن ان کے والد میرے پاس آئے اور کہا کہ ارشد ندیم اب آپ کے حوالے ہے، یہ آپ کا بیٹا ہے۔ میں نے ان کی ٹریننگ کی ذمہ داری سنبھالی اور پنجاب کے مختلف ایتھلیٹکس مقابلوں میں حصہ لینے کے لیے بھیجتا رہا۔ ارشد نے پنجاب یوتھ فیسٹیول اور دیگر صوبائی مقابلوں میں کامیابیاں حاصل کیں۔’

انہوں نے کہا ʹیوں تو ارشد ندیم شاٹ پٹ، ڈسکس تھرو اور دوسرے ایونٹس میں بھی حصہ لیتے تھے لیکن میں نے ان کے دراز قد کو دیکھ کر اُنھیں جیولن تھرو کے لیے تیار کیا۔’

رشید احمد ساقی کے مطابق ʹمیں نے ارشد ندیم کو ٹریننگ کے لیے پاکستان ایئر فورس بھیجا لیکن ایک ہفتے بعد ہی واپس بلا لیا۔ اس دوران پاکستان آرمی نے بھی ارشد ندیم میں دلچسپی لی بلکہ ایک دن آرمی کی گاڑی آئی اور اس میں موجود ایک کرنل صاحب میرا پوچھ رہے تھے۔

‘میں گھبرا گیا کہ کیا ماجرا ہے؟ لیکن جب اُنھوں نے ارشد ندیم کی بات کی تو میری جان میں جان آئی۔ کرنل صاحب بولے ارشد ندیم کو آرمی میں دے دیں، لیکن میں نے انکار کر دیا۔ کرنل صاحب نے وجہ پوچھی تو میں نے بتایا کہ آپ لوگ اس کی ٹریننگ ملٹری انداز میں کریں گے۔ بہرحال اس کے بعد میں نے ارشد ندیم کو واپڈا کے ٹرائلز میں بھیجا، جہاں وہ سلیکٹ ہو گئے۔‘

رشید احمد ساقی نے بتایا تھا کہ ’میں ارشد ندیم کو مذاقاً کہتا تھا کہ اولمپکس میں شرکت کا خواب پورا ہو جائے تو پھر شادی کرنا، لیکن آپ کو پتہ ہی ہے کہ گاؤں میں شادیاں کم عمری اور جلدی ہو جایا کرتی ہیں۔‘

ارشد ندیم کا سفر میاں چنوں کے گھاس والے میدان سے شروع ہوا جو اُنھیں انٹرنیشنل مقابلوں میں لے گیا۔

ارشد ندیم کے کوچ فیاض حسین بخاری ہیں جن کا تعلق پاکستان واپڈا سے ہے۔ وہ خود بین الاقوامی ایتھلیٹکس مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔

فیاض حسین بخاری کے مطابق ارشد ندیم ایک سمجھدار ایتھلیٹ ہیں جو بہت جلدی سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو کام ایک عام ایتھلیٹ چھ ماہ میں کرتا ہے ارشد وہ کام ایک ماہ میں کر لیتے ہیں۔‘

اُن کے مطابق دو سال قبل ہونے والی ساؤتھ ایشین گیمز سے قبل اُن دونوں نے یہ عہد کر لیا تھا کہ اولمپکس میں وائلڈ کارڈ کے ذریعے نہیں جانا بلکہ کارکردگی کے ذریعے کوالیفائی کریں گے۔

دوسری جانب پیرس اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتنے والے پاکستانی ایتھلیٹ ارشد ندیم نے کہا ہے کہ ان کی فائنل میں 88 میٹر کی تھرو 95 میٹر تک جا سکتی تھی اگر وہ اپنا بازو نہ دباتے۔

صحافیوں نے ارشد ندیم سے ان کی ٹیکنیک کے بارے میں سوال کیا کہ وہ کیسے 92.97 میٹر تھرو کرنے میں کامیاب ہوئے، جس پر ارشد نے کہا کہ انہوں نے اپنی ٹیکنیک پر بہت کام کیا اور یہ پہلے سے بہت بہتر ہوچکی ہے۔

ارشد ندیم نے نیرج چوپڑا کے ہمراہ نیوز کانفرنس میں کہا کہ انڈیا اور پاکستان کا جب کرکٹ میچ ہوتا ہے تو دونوں ملکوں کے عوام اپنا کام چھوڑ کر ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔

’اسی طرح میرا اور نیرج چوپڑا بھائی کا جب مقابلہ ہوتا ہے تو ہر کوئی اپنا کام چھوڑ کر ٹی وی دیکھتا ہے۔ اس کی ہمیں بڑی خوشی ہوتی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ دونوں طرف کے عوام اپنے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور جو محنت کرتا ہے اس کو پھل ملتا ہے۔

ارشد ندیم نے کہا ’ہم دونوں جنوبی ایشیا سے ہیں اور پوری دنیا میں پرفارم کرتے ہیں اس کی بڑی خوشی ہو رہی ہے۔ یہ دونوں ملکوں کے نوجوانوں کے لیے ایک پیغام ہے کہ وہ بھی محنت کریں اور پوری دنیا میں اپنے اپنے ملکوں کا نام روشن کریں۔‘

ارشد نے مزید کہا ’مجھے بہت کہا جاتا ہے کہ آپ کا رن اپ ایسا ہے جیسے آپ کرکٹ میں بھاگ رہے رہیں، میں اس پر کام کر رہا ہوں اور اب یہ کافی بہتر بھی ہوچکا ہے۔‘

کرکٹ کے حوالے سے ذکر کرتے ہوئے ارشد نے بتایا کہ وہ ہمیشہ کرکٹر بننا چاہتے تھے اور بہت اچھے بولر بھی تھے۔ صرف کرکٹ ہی نہیں فٹبال اور کبڈی میں بھی اچھی کارکردگی دکھاتے تھے۔ کرکٹ میں نام اور جگہ بنانا بہت مشکل ہو جاتا ہے اس لیے میں ایتھلیٹکس میں چلا گیا۔

دوسری جانب نیرج چوپڑا نے کہا کہ وہ اور ارشد ندیم سنہ 2016 سے ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔ گولڈ میڈل ہمیشہ سے میرے پاس رہا، مگر آج ارشد نے غیرمعمولی کارکردگی دکھائی اور کامیاب ہوئے۔ یہ اُن کے لیے اور اُن کے ملک کے لیے بڑی کامیابی ہے۔
میں ارشد ندیم کو سراہتا ہوں کہ انہوں نے بہت محنت کی۔ یہ پاکستان اور انڈیا کے لیے بہت اچھا ہے کہ اب مزید ایتھلیٹ اس کھیل میں آئیں گے اور جیولِن اُٹھا کر مقابلہ کریں گے۔

نیرج چوپڑا نے کہا ’حالیہ کچھ عرصے میں جیولن کا کھیل دونوں ملکوں میں مشہور ہو چکا ہے اور مستقبل میں یہ مزید مقبول کھیل کا درجہ حاصل کرے گا۔‘

واضح رہے جمعرات کو پیرس میں جیولن تھرو کے فائنل مقابلے میں ارشد ندیم نے دوسری اٹیمپٹ میں 92.97 میٹر تھرو پھینک کر نیا اولمپکس ریکارڈ قائم کیا تھا اور گولڈ میڈل حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔

بتیس سال قبل آٹھ اگست 1992 کو پاکستان نے آخری مرتبہ اولمپکس میں میڈل حاصل کیا تھا۔ پاکستان ہاکی ٹیم نے بارسلونا اولمپکس میں نیدرلینڈز کو تین کے مقابلے میں چار گول سے شکست دے کر کانسی کا تمغہ جیتا تھا۔

پاکستان نے 1984 کے لاس اینجلس اولمپکس میں ہاکی کے ایونٹ میں سونے کا تمغہ حاصل کیا تھا، تاہم اس کے بعد پاکستان 40 سال تک اولمپکس میں کوئی گولڈ میڈل نہیں جیت سکا تھا۔
فائنل مقابلے میں صرف ایک تھرو دُرست پھینکنے والے انڈیا کے نیرج چوپڑا 89.45 میٹر کی تھرو پھینک کر چاندی کے تمغے کے حق دار قرار پائے۔

گرینیڈا کے پیٹرز اینڈرسن نے 88.54 میٹر کی تھرو کے ساتھ کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔

اس سے قبل منگل کو ارشد ندیم نے پیرس اولمپکس 2024 کے ’مینز جیولین تھرو‘ مقابلے میں فائنل کے لیے کوالیفائی کیا تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close