صارفین کی نجی معلومات اور واٹس ایپ

ملک زید یونس 

انٹرنیٹ ٹیکنالوجی میں جدت نے جہاں زندگی کو تیز اور آسان بنایا ہے، وہیں اس نے انفرادی رازداری یا ’’پرائیویسی‘‘ پر کئی سوالات کو بھی جنم دیا ہے۔ طاقتور ممالک بشمول امریکا و چین میں ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے شہریوں کی نگرانی نے ان سوالات کو مزید گہرا کردیا ہے۔ حالیہ دنوں میں واٹس ایپ کی نئی ’’پرائیویسی پالیسی‘‘ کے مطابق واٹس ایپ صارفین کی معلومات مالک کمپنی فیس بک کے ساتھ منسلک کردی جائیں گی۔ صارفین اس پالیسی کو اپنی رازداری کی خلاف ورزی کہہ رہے ہیں، جبکہ کمپنی اس کی تشریح کاروبار سے بہتر رابطہ بنانے کی طرف ایک قدم کے طور پر کر رہی ہے۔ کئی صارفین تو واٹس ایپ کی متبادل ایپس پر شفٹ بھی ہوچکے ہیں۔

واٹس ایپ کی نئی پالیسی کے مطابق 8 فروری 2021ع کے بعد یورپی صارفین کے علاوہ ایپ کے تمام صارفین کی معلومات کو بالواسطہ اور بلاواسطہ فیس بک کمپنی کے ساتھ منسلک کیا جانا تھا۔ لیکن صارفین کے حد درجہ تنقید کے بعد اس فیصلے کو تین ماہ کے لیے موخر کردیا گیا ہے۔ بالواسطہ طریقہ وہ ہے جس کی رو سے فیس بک خودکار طریقے سے ان معلومات کو اکھٹا کر لے گی، جس میں صارف کا نام، پروفائل تصویر، فون نمبر نیٹ ورک، موبائل فون ماڈل کی تفصیلات، اس پر چلنے والے انٹرنیٹ کی تفصیلات و رفتار، موجودہ لوکیشن، ایپ پر سرگرمی کا دورانیہ اور نوعیت، واٹس ایپ اسٹیٹس، انٹرنیٹ براؤزر (جو آپ انٹرنیٹ پر سرچنگ کےلیے استعمال کرتے ہیں)، آئی پی ایڈریس (جس سے لوکیشن کا پتا چلایا جاسکتا ہے)، بیٹری اسٹیٹس، زبان اور ٹائم زون شامل ہیں۔

دوسرا طریقہ کسی تیسرے فریق کی جانب سے صارف کی معلومات حاصل کرنا ہے۔ تیسرے فریق میں کاروباری کمپنیاں، دوسرے صارفین اور بذات خود فیس بک بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ ہم اس پالیسی کے اثر کا جائزہ لیں، آئیے واٹس ایپ کے بارے میں کچھ جان لیں۔

واٹس ایپ برائن ایکٹن اور جان کوم نے 2009ع میں بنائی اور ریلیز کی، لیکن یہ ایپ 2014ع تک بین الاقوامی سطح پر خاطر خواہ پذیرائی حاصل نہ کرسکی۔ 2014ع میں فیس بک کمپنی نے واٹس ایپ کو 19 ارب ڈالر (کیش اور اسٹاک) کے عوض خرید لیا اور اس کے بعد واٹس ایپ دنیا بھر میں پھیل گئی۔

آج واٹس ایپ کے صارفین کی تعداد 2 ارب تک پہنچ چکی ہے۔ واٹس ایپ کا مالک مارک زکر برگ چاہتا تھا کہ واٹس ایپ اسٹیٹس میں اشتہارات چلا کر کمائی کی جائے، لیکن برائن ایسا نہیں چاہتا تھا اور اس نے کمائی کا متبادل طریقہ بھی تجویز کیا، جسے رد کرنے کی بنا پر برائن نے 2017ع میں فیس بک کو خیرباد کہہ دیا۔ آپ خود بتائیے 19 ارب ڈالر خرچ کر کے کون سا کاروباری آدمی منافع نہیں کمانا چاہے گا؟

یاد رہے کہ فیس بک اپنی کمائی کا تقریباً اٹھانوے فیصد حصہ اشتہارات سے کماتی ہے۔ آج کل جن دو متبادل ایپلی کیشنز کا ذکر ہو رہا ہے، ان میں سے ایک ’’سگنل‘‘ ہے۔ سگنل استعمال کرنے کا مشورہ اس وقت دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک نے دیا ہے، جس کے بعد اس ایپ کی مقبولیت میں ایسا اضافہ ہوا کہ اس کا سسٹم ہی آہستہ ہوگیا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سگنل نامی ایپ ’’سگنل فاؤنڈیشن‘‘ کے تحت چلائی جارہی ہے، جسے فیس بک سے علیحدہ ہونے والے برائن ایکٹن نے 2018ع میں پانچ کروڑ ڈالر دیے تھے۔

آپ نے اکثر مشاہدہ کیا ہوگا کہ آپ اپنے موبائل فون یا فیس بک پر جو چیز ’سرچ‘ کرتے ہیں، آپ کو اس سے متعلقہ اشتہارات نظر آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ فیس بک کی کمائی کا بڑا حصہ اشتہارات سے آتا ہے۔ اس لیے مبصرین کا کہنا ہے کہ چونکہ واٹس ایپ فیس بک سے منسلک ہوجائے گا، اس لیے فیس بک واٹس ایپ سے حاصل ہونے والی معلومات کو استعمال کرکے صارفین کو اشتہارات دکھا سکتی ہے اور کمائی کر سکتی ہے۔ لیکن یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکا و دیگر ممالک میں واٹس ایپ ادائیگیوں کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس لیے کمپنی نے اس سسٹم کو آسان بنانے کے لیے پالیسی میں یہ تبدیلیاں کی ہیں۔ اسی مقصد کے لیے فیس بک صارف اور کاروباری کمپنی کے درمیان ہونے والی گفتگو کو محفوظ/رکارڈ بھی کر سکتی ہے اور بعد ازاں اسے مارکیٹنگ کمپنی کو بیچ بھی سکتی ہے۔ اور اگر فیس بک ہی اس کمپنی کو مینیج کر رہی ہوگی تو صارف کو میسیج کے ذریعے اس سے مطلع بھی کیا جائے گا اور صارف کے پاس یہ اختیار ہوگا کہ وہ اس کا جواب نہ دے کر اپنی معلومات ان کے ساتھ شئیر نہ کرے۔

رہی بات اس سب سے ہونے والے ’نقصان‘ کی، تو پرائیویسی پالیسی کے مطابق واٹس ایپ چاہ کر بھی آپ کی ذاتی گفتگو کو پڑھ نہیں سکے گا، چاہے وہ انفرادی ہو یا کسی گروپ میں۔ آپ کی تمام ذاتی گفتگو محفوظ رہے گی۔ یہاں سوالات یہ ہیں کہ اگر ذاتی گفتگو محفوظ ہے تب بھی صارفین کا ردعمل اتنا سخت کیوں ہے؟ اور یورپی ممالک میں یہ پالیسی کیوں نافذ نہیں ہوگی؟

پہلے سوال کا جواب ٹرمپ کی 2016ع کی صدارتی مہم میں چھپا ہے۔ آپ کے علم میں ہوگا کہ اگر ٹرمپ کروڑوں ڈالر فیس بک پر مہم چلانے میں نہ بہاتے تو وہ کبھی صدر منتخب نہ ہوتے۔ ہوا یوں کہ ٹرمپ نے ایک ایسی ٹیکنالوجی کمپنی کو ٹاسک دیا جو فیس بک پر صارفین کی سرگرمی کو دیکھ کر ٹیکنالوجی کی بدولت اس کی شخصیت کا اندازہ لگاتی تھی اور پھر اسے ’’ٹرمپ کو ووٹ دو‘‘ پر مبنی مواد دکھاتی تھی۔ کچھ ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ اسی چیز کا استعمال کرکے اب فیس بک کاروباریوں اور خود کو بھی فائدہ پہنچا سکتی ہے۔ یعنی پہلے ووٹ نکلوائے گئے، اب پیسے نکلوائے جائیں گے۔ اس کے علاوہ ایک ہی کمپنی کا دنیا کے اربوں انسانوں پر اثر و رسوخ مزید بڑھ جائے گا۔

رہا دوسرا سوال، تو اس کا جواب یہ ہے کہ یورپی یونین نے کارپوریشنوں سے شہریوں کی معلومات کو محفوظ رکھنے کے لیے سخت قوانین بنائے ہیں، جن کی خلاف ورزی پر بھاری جرمانے عائد کیے جاتے ہیں۔ اس کی ایک تازہ مثال فیس بک کو یورپی کمیشن کی جانب سے قوانین کی خلاف ورزی پر 11 کروڑ ڈالر کا جرمانہ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ جرمانہ بھی واٹس ایپ کو فیس بک کے ساتھ منسلک ہونے کی بنا پر ہی کیا گیا تھا، کیونکہ واٹس ایپ خریدتے وقت فیس بک نے کہا تھا کہ یہ واٹس ایپ کو فیس بک سے منسلک نہیں کرے گی لیکن جونہی نئی پالیسی آئی تو یورپی کمیشن نے غلط معلومات دینے کی بنا پر جرمانہ عائد کردیا۔

دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی لوگ اس پالیسی پر ردعمل ظاہر کررہے ہیں۔ لیکن چونکہ پاکستان میں واٹس ایپ ادائیگیوں کےلیے بڑے پیمانے پر استعمال نہیں ہوتا، اس لیے اس کا اثر بھی واضح نہیں ہوگا۔ میرے خیال سے اس پالیسی میں کچھ بھی نیا نہیں ہے۔ معلومات اکھٹی کرنا اور استعمال کرنا بہت پہلے سے ہی چھپ چھپا کر ہورہا تھا، اب سامنے ہورہا ہے۔ اور رہی ڈیٹا کی بات، تو سارا ڈیٹا امریکی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے ڈیٹا سینٹرز میں موجود ہے۔ پہلے ’’ستے خیراں سی‘‘، اب ’’چھ‘‘ ہیں۔ لیکن اس ’’شور‘‘ کا فائدہ یہ ضرور ہوگا کہ ہمارے ہاں کم از کم لوگوں کو پرائیویسی نامی شے کا کچھ ادراک ضرور ہوجائے گا۔ حکومت سے بھی سنجیدگی کی اپیل ہے۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close