معذرت خواہ لومڑ (عربی ادب سے انتخاب)

الدکتور ألبير مطلق (ترجمہ: غلام مصطفیٰ دائمؔ)

ایک دیہاتی علاقے میں چند لومڑیاں اپنے ذریعۂ معاش کے سلسلے میں مشاورت کے لیے جمع ہوئیں۔ اُس علاقے میں ان کا کھانا بہت کم رہ گیا تھا اور کئی لومڑیاں تو رات کا کھانا کھائے بغیر ہی سو جاتی تھیں۔

ایک لومڑ نے کہا: ”آج کل سبھی مرغیاں غير متزلزل اور تالا لگے ڈربوں میں سو رہی ہوتی ہیں، جبکہ مرغی خانوں کے مالکان ہمارے لیے جال بچھاتے ہیں اور پھر جان سے مار دیتے ہیں۔ ان دنوں کسی ایک مرغی کو بھی حاصل کر لینے کا حیلہ آسان نہیں رہا۔”

دوسرا بولا: ”اگر ہم اسی حالت پر رہے تو بھوکے مریں گے۔ میرے خیال میں ہمیں مرغیوں کا معاملہ انسانوں پر چھوڑ دینا چاہیے اور خود درختوں کے برگ و بار اور پَھل کھا کر گزارا کرنا چاہیے۔“

اس بات پر سبھی لومڑیاں سیخ پا ہوئیں۔ ان میں سے ایک نے کہا: ”لیکن ہم تب لومڑیاں نہیں رہیں گی۔“

کئی دن تک لومڑیاں باہمی مشاورت اور بحث و جدل کرتی رہیں۔ ہر دن کے ساتھ ان کی نقاہت اور لاغری میں افزونی ہوتی جا رہی تھی۔ آخرِ کار سب اس بات پر متفق ہو گئے کہ وہ یہ دیہاتی علاقہ چھوڑ کر ہجرت کر جائیں گے۔
سوائے ایک لومڑ کے، جس کا نام ثعلبوط تھا، سبھی بڑی چھوٹی لومڑیوں نے سفر کی تیاری مکمل کی۔ وہ اپنی کمر مضبوط تنے کے ساتھ لگائے، ٹانگ پر ٹانگ رکھے، ٹیک لگائے ہوئے تھا۔ اس کے ساتھیوں میں سے ایک نے اس سے کہا: ”جو بھی آپ کو اس نشست پر بیٹھے ہوئے دیکھتا ہے، وہ یہی سمجھتا ہے کہ آپ یہیں ٹھہرے ہوئے ہیں۔“

وہ جواباً بولا: ”میں یہیں رہوں گا۔“

شروع میں تو باقیوں نے سمجھا کہ ان کا ساتھی چُہل کر رہا ہے، لیکن جلد ہی وہ جان گئے کہ وہ تو واقعی میں یہاں ٹھہرنے والا ہے۔

جب کوچ کا وقت آیا، ثعلبوط اپنے ساتھیوں کو الوداع کہنے کے لیے کھڑا ہوا اور انہیں غاروں سے نکلتے ہوئے اور پھر پہاڑوں کے وَرے گم ہو جانے تک دیکھتا رہا۔ پھر اس نے یہ کہتے ہوئے رقص کرنا شروع کیا: ”میں ایک تجربہ کار حیوان ہوں، جب میں مذاق کرتا ہوں تو تب میں سنجیدہ ہوتا ہوں۔ اگر میرے علاوہ سب خرگوش بن گئے ہیں، تو جان لو کہ لومڑ صرف ثعلبوط ہی ہے۔“

اگلے دن کی صبح ثعلبوط ایک ویرانے کی باڑ لگی اجاڑ مچان کی طرف گیا۔ وہاں ڈامچے کی چھت پر چڑھ بیٹھا اور کچھ ساعتوں تک وہیں رہا۔ پھر دُور سے گاؤں کی طرف نگاہ دوڑائی۔ اپنے سینے کو کھلی ہوا سے بھرا اور ’الناطور‘ کی جھونپڑی کی جانب ہو لیا۔

ناطور نے جب ایک لومڑ کو آتے ہوئے دیکھا تو سخت حیرت میں پڑا اور جلدی سے اپنی چھری اور عصا لانے گیا۔
لومڑ نے بہ آوازِ بلند التماس کی: ”معاف کیجیے گا جناب! میں کسی برائی کے ارتکاب کی نیت نہیں رکھتا۔ میں آپ کا ہمسایہ ہوں اور آج آپ کو سلام کہنے کی غرض سے آیا ہوں۔ میں نے خود کو آپ کی تحویل میں دے دیا ہے۔“

ناطور نے اس بات پر غضب ناکی سے قہقہہ لگایا اور کہا: ”میرے ہمسائے! تم شاید یہ لالچ رکھتے ہوگے کہ میں تمہیں مرغی یا مرغا پیش کروں۔“

ثعلبوط نے کہا: ”نہ نہ میرے حضور! میں تو اس سے توبہ کر چکا ہوں۔ اب میں کسی قسم کی حرص نہیں کرتا، سوائے یہ کہ آپ اور آپ کے گھروں کے سنتریوں کے ساتھ رہنے کی سعادت حاصل کروں۔ آپ مجھے جو کھانے کی چیز دیں گے، بلا تکلف کھا لوں گا۔“

ناطور گہری حیرت میں مبتلا، خود کلامی کرتے ہوئے بولا: ”میں نے آج تک نہیں سنا کہ لومڑ نے کبھی توبہ کی ہو۔“

اس سلسلے میں ناطور نے لومڑ کو گاؤں کے زُعما کے پاس لے جانے کا ارادہ باندھا لیکن اسے یہ ڈر بھی لاحق تھا کہ شاید اس کی توبہ کوئی حیلہ بہانہ ہو۔ اس نے اسے ایک رسّی سے باندھا اور اس کا ایک کنارہ پکڑ کر چلنے لگا۔
پورا گاؤں بندھے ہوئے لومڑ کا تماشا دیکھنے باہر نکل آیا۔ اس منظر سے ہر ایک ششدر تھا۔ البتہ مرغیاں اور مرغے سبھی ڈربوں کے اندرونی گوشوں میں چھپے رہے اور اسے دیکھنے کی کسی کو بھی جرأت نہ ہوئی۔

گاؤں کے اَشراف جمع ہوئے اور سنجیدہ صورت و خاموش طبع ثعلبوط کی طرف دیکھنے لگے۔ یہ انہیں لومڑ کے روپ میں خرگوش لگ رہا تھا۔ سبھی بہت مبہوت ہوئے۔ ان میں سے کچھ نے اس بات پر، کہ یہ تائب ہو چکا ہے، یقین کرنے کی کوشش بھی کی۔ تاہم ان میں سے ایک پکار اٹھا: ”ان لومڑوں نے میری آدھی مرغیاں کھا لی ہیں، میں کبھی نہیں مانوں گا کہ کوئی لومڑ توبہ کر سکتا ہے۔“

شرفاے بستی کئی گھنٹوں تک باہم گفت و شنید اور مشاورت کرتے رہے لیکن کسی متفقہ رائے تک نہ پہنچنے پائے۔ ثعلبوط دن چڑھے ان کے پاس آیا اور کہنے لگا: ”مجھے افسوس ہے کہ میں اس بستی کے عمائد کے مابین باہمی نزاع کا باعث بنا ہوں۔ میں اپنی پہاڑی قیام گاہ لوٹ رہا ہوں۔ آج کے بعد آپ کبھی بھی میرا چہرہ نہیں دیکھیں گے۔“

ازاں بعد معززینِ علاقہ نے ثعلبوط سے اپنے گاؤں میں ٹھہرنے پر اصرار کیا تاکہ وہ ان کے اور ان کے گھروں کے محافظوں کے پاس رہے۔ انہوں نے ثعلبوط کو ناطور کے حوالے کیا تاکہ وہ اسے کھلائے پلائے اور اس کی توبہ کی حفاظت کرے۔ انہیں لگا تھا کہ لومڑ نے پختہ توبہ کر لی ہے۔

لومڑ جب بھی کوئی مرغی دیکھتا، اس کے پاس جاتا اور اس سے محبت بھرے لہجے میں کہتا: ”صبح بخیر، میری محترمہ!“

اور جب علاقے کے باشندوں میں سے کسی کو آتے ہوئے دیکھتا تو شوخی سے اچھل کود شروع کر دیتا اور اپنی دُم خوشی سے ہلانے لگتا اور یہ کہتا: ”میں ہوں امانت دار ثعلبوط، میرے محترم!“

جلد ہی لوگ اس پر اعتماد کرنے لگے۔ حتٰی کہ کچھ ہی عرصے میں مرغیوں کو بھی اس کے آس پاس آنے جانے کی عادت سی ہو گئی۔ وہ خوف نامی کیفیت کو یکسر بھول چکی تھیں۔

ناطور کی اہلیہ کو ثعلبوط کی ملائم جِلد بہت پسند تھی، وہ روزانہ اس پر اپنا ہاتھ پھیرتی اور اسے محسوس کرتی، اور یہ خواہش کرتی کہ ایک نہ ایک دن وہ اس کھال سے بنی شال کو اپنے کاندھوں پر ضرور رکھے گی، جیسا کہ عمائدینِ دیہات کی بیگمیں رکھتی ہیں۔

ایک دن ایسا آیا کہ اسے مزید خاموشی برداشت نہ ہوئی۔ اس نے اپنے خاوند سے کہا: ”مجھے اس کی پوست چاہیے۔“

ناطور سخت قہر آلود ہوا اور چِلّایا: ”کیا تم چاہتی ہو کہ میں اس لومڑ کو جان سے مار ڈالوں، جسے بستی والوں نے کھلانے کے لیے اور اس کی توبہ کی حفاظت کے واسطے میرے حوالے کیا ہے۔“

لیکن اس کی بیوی چپ نہ رہ سکی۔ مستزاد یہ کہ وہ صبح شام اپنے شوہر کے درپے ہوتی۔ حتیٰ کہ اس کی زندگی عذاب میں ڈال رکھی تھی۔ مجبور ہو کر ناطور نے اپنے جی میں کہا: ”میں اس ثعلبوط لومڑ کی خاطر ہرگز اپنی جان گنوانے کی غلطی نہیں کروں گا۔“

پھر اپنی بیوی سے مخاطب ہو کر بولا: ”میں جلد ہی اسے ذبح کروں گا اور اس کا چرم تمہیں دوں گا، لیکن ضروری ہے کہ پہلے میں اس کے لیے ایک جال بچھاؤں۔ بصورتِ دیگر مجھے لوگوں کو اس کی وضاحت دینی پڑے گی۔“

ایک رات ثعلبوط اپنی عادت کے مطابق گلیوں میں چکر لگاتے ہوئے باہر نکلا۔ ناطور نے اس کا پیچھا کیا۔ ثعلبوط جان گیا تھا کہ کوئی اس کے تعاقب میں ہے لیکن اس نے ظاہر کیا کہ اسے کسی چیز کا ہوش گمان نہیں ہے۔ اس نے چند ثانیے بعد ایک گم گشتہ راہ مرغی کی آواز سنی تو دنگ رہ گیا۔ کیوں کہ اہلِ قریہ اپنی مرغیوں کے معاملے میں بہت حریص تھے۔ اس نے اس گاؤں میں آنے سے اب تک اس سے قبل کوئی آوارہ مرغی نہیں دیکھی تھی۔

ثعلبوط مرغی کے نزدیک آ کر اس سے مخاطب ہوا: ”شام بخیر ہو، میری محترمہ! فضا سیاہی سے داغ آلود ہو چکی ہے اور مجھے آپ کے حوالے سے ڈر ہے۔ ادھر تشریف لائیے، ذرا دڑبے کو ایک ساتھ چلتے ہیں۔“

وہ مرغی کے ساتھ اس کے کابک تک گیا، پھر بغیر پیچھے متوجہ ہوئے، اسے الوداع کہہ کر رخصت کیا۔

ناطور اپنی جگہ ٹھہرا رہا۔ جو اس نے اپنی آنکھ سے دیکھا اور اپنے کانوں سے سُنا، اس پر تصدیق کرنا اس کے لیے مشکل تھا۔ جب اس پر سے آثارِ حیرت چھٹکے تو وہ اپنی جھونپڑی میں لوٹا اور اپنی بیوی سے کہنے لگا: ”میں اس لومڑ کو ہرگز نہیں ذبح کروں گا، اس نے سچی توبہ کی ہوئی ہے۔“

گاؤں میں ثعلبوط اور آوارہ مرغی کی کہانی مشہور ہو گئی۔ سبھی لوگ اس مرتبہ تصدیق کر چکے تھے کہ لومڑ واقعی تائب ہو چکا ہے۔ کچھ تو یہ بھول جاتے تھے کہ ان کی مرغیوں کے ڈربے کھلے پڑے ہیں۔ جبکہ بعضوں نے یہ رائے تک دے دی کہ ناطور کو اب سے اپنے گھر میں مطمئن ہو کر سونا چاہیے۔

ایک دن ثعلبوط نے ایک موٹی تازہ لذیذ مرغی کو دیکھا، جس کا نام دَجدَج تھا۔ اس نے اس سے کہا: ”صبح بخیر، میری محترمہ!“

دجدج نے جواباً کہا: ”تمہیں بھی صبح بخیر، اے ثعلبوط!“

ثعلبوط، دَجدَج کے نزدیک آیا اور اس سے نہایت پیار بھری باتیں کرنے اور اس سے یہ دریافت کرنے لگا کہ اس کا شوہر مرغا ’عرفط‘ اور اس کا چھوٹا بچہ ’کتکوت‘ کہاں ہیں اور کیسے ہیں؟ پھر اس سے بولا: ”کاش میں بھی مرغی ہوتا۔“

دجدج کو یہ سن کر سخت اچنبھا ہوا، بولی: ”میں نے کبھی یہ نہیں سُنا کہ کسی لومڑ نے مرغی ہونے کی خواہش ظاہر کی ہو۔“

ثعلبوط نے کبیدہ خاطری سے اپنی گردن کو جھاڑا اور گویا ہوا: ”اگر میں مرغی ہوتا تو لوگوں کی طرف سے متوقع کھانوں کی حاجت نہ پیش آتی۔ میں زمین میں ایک ایسا خطہ بھی جانتا ہوں، جہاں آسمان سے دانوں کی برسات ہوتی ہے۔“

دجدج جلدی سے اپنے شوہر عرفط کے پاس گئی اور اسے ثعلبوط سے سنی تمام کہانی کہہ سنائی۔ عرفط نے زمین پر پیٹھ دھری، دیوار کے ساتھ اپنی کمر کو ٹیک دی اور بڑے کروفر سے مخاطب ہوا: ”تمہیں کتنی مرتبہ کہا ہے کہ ہر سنی سنائی بات پر یقین نہ کیا کرو۔“

دجدج اٹھ کھڑی ہوئی اور خشم آلود ہو کر بولی: ”سبھی لوگ ثعلبوط پر اعتبار کر چکے ہیں، اور ایک تم ہو کہ اس پر بھروسا نہیں کرتے۔“

مرغا غصے سے چیخا: ”لومڑ ہمارا گوشت کھاتا ہے، اگر اُن لوگوں کا گوشت کھاتا ہوتا تو وہ بھی اس پر اعتبار نہ کرتے۔“

عرفط اور دجدج کے مابین لڑائی زور پکڑ چکی تھی۔ کتکوت اپنی امی اور ابو کے قریب ہی سہما ہوا ان دونوں کے چِلانے کی آوازیں سن رہا تھا۔ بے چینی کی حالت میں ان کی جانب دیکھنے لگا۔ دجدج نے جب اپنا ننھا چوزہ ہراساں دیکھا تو اس کے پاس گئی اور اسے اپنے پروں میں ڈھانپ لیا۔

اُسی روز دجدج ثعلبوط کے پاس گئی اور اس سے بولی: ”مجھے اس سرزمین میں لے چلو، جہاں آسمان سے دانے نازل ہوتے ہیں۔“

ثعلبوط اور دجدج پہلو بہ پہلو چلتے ہوئے اُس ویرانے کی طرف نکلے اور متروکہ ویران باڑ میں داخل ہوئے۔ ثعلبوط بولا: ”میری محترمہ! اب کچھ دیر ہمیں آسمان سے دانے گرنے کا انتظار کرنا پڑے گا۔“

دجدج کو کچھ ڈر محسوس ہوا۔ وہ کھڑکی کے پاس گئی جہاں سے وہ آسمان کا مشاہدہ کر رہی تھی۔ اس دوران ثعلبوط نے اپنے ہاتھوں کو ایک رسی کی طرف بڑھایا جو چھت پر دانوں بھرے ایک لٹکے ہوئے برتن سے جُڑی ہوئی تھی۔

اس نے رسی کو کھینچا تو دانے دجدج کی آنکھوں کے سامنے زمین پر گرنے لگے۔ اس نے خوشی سے جست لگائی اور نہایت لطف اندوزی میں کٹکٹانے لگی۔

اس نے دانے کھانے اور حوض سے پانی پینے میں جلدی کی، پھر آسمان کی سمت اپنی آنکھیں اٹھا لیں۔

ثعلبوط اور دجدج دونوں گاؤں لوٹے۔ عرفط مرغے نے اپنی بانو مرغی کا عتاب انگیز سامنا کیا۔ یہ کہتے ہوئے چلّایا: ”تم میری اجازت کے بغیر کابک چھوڑ کر کیسے جا سکتی ہو؟“

لیکن مرغی نے اس کی اس چیخ و پکار پر دھیان نہ دیا۔ بلکہ خود سرور و مستی میں کٹکٹانے لگی۔ اور بلند بانگ آواز میں بولی: ”میں نے دانے برسانے والا آسمان دیکھا ہے۔ ہا‌ں! خود اپنی آنکھوں سے اسے دیکھا ہے۔“

اس بات پر مرغا حواس باختہ ہو گیا اور بغور اس کا سارا واقعہ سننے لگا، پھر بولا: ”میں، تم اور کابک کی سبھی مرغیاں جلد ہی روانہ ہوں گے تاکہ آسمان سے اترنے والے دانے کھائیں۔ میں نہیں چاہتا کہ تم اور باقی مرغیاں آج کے بعد دانہ دنکا تلاش کرنے میں اپنے آپ کو تھکائیں۔“

دجدج کا ارادہ تھا کہ وہ اکیلی وہاں جائے، نہ کہ سبھی مرغیوں سمیت۔۔ اس کا منشا تھا کہ وہ دانے صرف اُس کے لیے، نیز عرفط اور کتکوت کے لیے ہوں۔ وہ دڑبے کی باقی مرغیوں سے متعلق شدید بدسگالی کا جذبہ رکھتی تھی۔ بہت خشم ناک ہوئی اور بہ آوازِ بلند کٹکٹانے لگی۔ کتکوت اس مرتبہ بھی بہت ترساں ہوا اور ایک نزدیکی جگہ کی طرف نکل کھڑا ہوا۔ اپنے اطراف کی جگہوں میں پیچھے چھپ گیا تاکہ وہ اپنے کان بند رکھے اور اپنی امی اور ابو کی چیخیں نہ سن سکے۔

مرغے کا چِلّانا مرغی کی آواز سے بلند اور کرخت تھا۔ آخرِ کار دجدج کو خاموش ہونا پڑا۔ اس نے یہ مان لیا کہ دوسرے دڑبوں کی مرغیاں بھی ان کے ساتھ جائیں گی۔
مرغے نے اپنی گردن اٹھائی، پروں کو پھڑپھڑایا اور اپنے پیچھے مرغیوں کی قطار لیے چل پڑا۔ اس کے پیچھے دجدج تھی، اور اس کی پشت پر باقی دڑبوں کی مرغیاں۔ اس قافلے میں کتکوت نہیں تھا۔ وہ آکاس بیل کے پہلو میں اونگھ کی حالت میں پڑا رہا تھا اور اب تک سو چکا تھا۔ اس کی غیر موجودگی کی کسی کو بھی خبر نہ ہوئی۔ کیوں کہ مرغا اور اس کی مرغی اس سرزمین تک پہنچنے کے لیے بہت زیادہ آرزو مند تھے، جو آسمان سے دانے برساتی ہے۔

یہ قافلہ ایک دوسرے مرغی خانے کے پاس سے گزرا۔ عرفط اور دجدج کے تقابل میں یہاں دَیشہ اور نُفور تھے۔ دیشہ نے اپنی بانو بیگم سے کہا: ”عرفط اور اس کی مرغیاں اس وقت کہاں جا رہے ہیں؟“

دیشہ کی خانم نے اپنی سہیلی دجدج سے استفسار کیا: ”اس وقت تم سب کدھر رختِ سفر باندھے جا رہے ہو، دجدج!“

دجدج نے لومڑ والے سارے واقعے کو اس کے گوش گزار کیا۔ عرفط اس کی جانب متوجہ ہوا اور کہا: ”اس سے کہو نا کہ، میں ہی ہوں جس نے دانے برسانے والا آسمان دیکھا ہے۔“

کتکوت جب نیند سے بیدار ہوا، اس نے اپنے امی ابو کی چیخ و پکار نہ سنی تو اسے لگا کہ شاید وہ جھگڑے سے باز آ گئے ہیں۔ جلدی سے دڑبے کی طرف بھاگا لیکن وہ تو خالی تھا۔ وہ گاؤں سے سہما ہوا باہر نکلا اور اپنی امی ابو سے متعلق ہر ایک سے پوچھنے لگا۔ اسے بتایا گیا کہ وہ دونوں تو ویرانے کے راستے پر ہو لیے تھے۔ وہ بھی اسی دراز راستے پر چل پڑا۔ آخرِ کار اس نے ایک پرانے اجاڑ کھنڈر جھونپڑے کے خستہ دروازے کے پاس لومڑ کو دور ہی سے دیکھ لیا، جو اس کے امی ابو اور دیگر مرغیوں کی طرف منہ کیے ہوئے تھا۔ جب وہ جھونپڑے کے بالکل پاس پہنچا تو اس نے کراہنے اور کُوکنے کی درد ناک آوازیں سُنیں اور ایک دوسرے پر پڑے بکھرے ہوئے پنکھ دیکھے۔ شروع میں تو اسے یوں لگا جیسے اس کے والدین آپس میں لڑائی کر رہے ہیں، پھر اسے جلد ہی پتا چل گیا کہ لومڑ نے اس کے امی اور ابو کو اپنا لقمۂ تر بنا لیا ہے۔ وہ خوف سے زمین پر گر پڑا۔ رات پھیلنے لگی تھی۔ اسے کچھ دیر میں اونگھ نے آ لیا اور پھر چند ثانیے بعد وہ سو گیا۔

اگلے دن تڑکے ہی اس نے لومڑ کو وہ جھونپڑا چھوڑتے ہوئے دیکھا۔ وہ جلدی سے اس کے اندر گیا لیکن نہ اسے اپنی امی دکھائی دی، نہ اپنا ابو نظر آیا اور نہ باقی مرغیاں۔ کچھ نہیں بچا تھا، سوائے بکھرے ہوئے پَروں کے۔۔

ثعلبوط خورشید نکلنے سے پہلے ہی گاؤں پہنچ چکا تھا اور دیشہ مرغے کے دڑبے کے گرد پھیرے لگا رہا تھا۔ دیشہ اس وقت بہ آوازِ بلند بانگیں دے رہا تھا اور اپنی مرغیوں کے سامنے پروں کو پھڑپھڑا رہا تھا۔ جب اس نے لومڑ کو دیکھا تو اس سے دریافت کیا: ”کیا یہ بات سچ ہے، وہاں کا آسمان دانے برساتا ہے؟“

ثعلبوط نے جواب دیا: ”بالکل، سچ ہے۔ دیشہ! لیکن، تم نے کیسے جان لیا؟ میں تو وہ بات تمام مرغیوں کی سماعت میں نہیں لانا چاہتا تھا۔“

دَیشہ کی اہلیہ نے اپنی سہیلی دجدج کا ایک پنکھ ثعلبوط کے منھ سے لٹکا ہوا دیکھا تو سخت گھبرائی۔ کپکاہٹ سے سوالاً بولی: ”یہ کیا ہے؟ ثعلبوط!“

ثعلبوط کچھ دیر تک اُس پنکھ کو پکڑے رہا، پھر مسکرایا اور مرغی کے پاس جا کر دھیرے سے بولا: ”یہ پنکھ اس کی طرف سے اشارہ ہے کہ وہ بالکل خیریت سے ہے۔۔ اور وہ تمھارے بارے میں خواہاں ہے کہ تم بھی اس کے پاس جاؤ اور اس کے ساتھ دانہ چگو۔“

پھر آواز کو مزید پست کرکے بولا: ”لیکن، وہ تم سے چاہتی تھی کہ تم اپنے شوہر کو ساتھ نہ لانا۔ عرفط اِس کو بالکل نہیں پسند کرتا۔“

جیسے ہی لومڑ مڑا، مرغی نے جلدی سے اپنے شوہر کو سب کچھ بتا دیا۔ دیشہ نے زور دار بانگ دی اور چلّاتے ہوئے بولا: ”عرفط چاہتا ہے کہ وہ اور اس کی مرغیاں اس سرزمین میں اکیلے رہیں، جہاں آسمان دانے برساتا ہے۔ میں اسے کبھی بھی معاف نہیں کروں گا۔“

اس کی چیخ و پکار دوسرے دڑبوں تک بھی پہنچ گئی۔ ہر ایک اس واقعے سے باخبر ہو چکا تھا۔ کتکوت اسی وقت گاؤں پہنچا اور دیشہ کے کابک کی طرف گیا۔ اس کے سامنے تھرّاتے ہوئے بولا: ”دیشہ، چاچا جان! اس لومڑ نے میرے امی اور ابو کو چیر پھاڑ کر کھا لیا ہے۔“

دیشہ کچھ دیر خاموش رہا، پھر کہنے لگا: ”تمہارے باپ عرفط نے یہ جھوٹ موٹ کہانی بنا کر تمہیں بھیجا ہے تاکہ وہ اور اس کی مرغیاں اکیلے وہ تمام دانے کھا جائیں۔“

پھر اس نے سختی سے اپنی مرغیوں کو حکم دیا کہ وہ اس کی اتباع میں رہیں۔
دیشہ ویرانے کے راستے پر متکبرانہ چال میں پروں کو پھڑپھڑاتے ہوئے تیز تیز چلنے لگا۔ اس کی پشت پر دیگر مرغیاں بھی محوِ سفر تھیں۔ اس کے قافلے کے ساتھ باقی گاؤں کے مرغے بھی ہو لیے۔ ان میں سے ہر ایک کی متابعت میں ان کی مرغیاں بھی تھیں۔ پورے گاؤں میں سوائے کتکوت کے کوئی بھی مرغی یا مرغا باقی نہ رہا۔ وہ بے چارہ دڑبے کے ایک گوشے میں اکیلا پڑا زار و قطار رو رہا تھا۔

گاؤں کے فلک پر جب سورج نے اپنا چہرہ ظاہر کیا۔ تمام لوگ اپنی آرام دِہ نیند سے بیدار ہوئے، لیکن پوری بستی خلافِ معمول سکوت میں ڈوبی ہوئی تھی۔ جلد ہی سبھی جان گئے کہ لومڑ گُم ہے، بلکہ اس کے ساتھ گاؤں کے مرغے مرغیاں بھی غائب ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close