میں سوچتا ہوں

تحریر : ڈاکٹر سالم سید

چنانچہ ہر وجودیت کے بعد سوچ اور غور و فکر کا با قائد ہ آغاز ہو تا ہے شائد ہر کو ئی نہ سوچے اور غور و فکر نہ کرے لیکن میں سوچتا ہوں اور غور و فکر کرتا ہوں ۔سو چنے ، غور وفکر اور تحقیق کرنے کے لئے میرا وجود ہو نا ضروری ہے جبکہ میرا وجود ہے اسلئے میں سوچتا ہوں ،غور و فکر کرتا ہوں شعو ر اور قوتِ مشاہدہ کو بروئے کار لاتا ہوں اور تحقیق کرتا ہوں کیونکہ میرا وجود حقیقت رکھتا ہے ۔ وجو د کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے میں سوچتا ہوں ،جبکہ وجود اور سوچ دونوں بیک وقت وجود رکھتے ہیں ۔ میں نے سوچا ،کیا سوچا ؟ کیوں سو چا ؟ اس کا اندازہ میری سوچ ہی سے کیا جا سکتا ہے۔ میری کوشش رہتی ہے کہ میری سوچ میری عقل سے پھسل نہ جائے۔ کیونکہ غور و فکر کا محور اور مرکز عقل ہے۔ جب سوچ عقل سے پھسل جاتی ہے تو ہر سوچ میں پوشیدہ کہانی اپنی طبعی موت مرجاتی ہے۔میرا ہو نا اس وقت حقیقت رکھتا ہے اور میں حقیقت کو پانے کے لئے حقیقت پر مبنی اپنی توجہ مرکوز رکھتا ہوں اور جس کو اپنی عقلِ سلیم میں لا کر شعوری بنیادوں پر سچائی کو بطورسچائی ثابت کر نے کے لئے راستے کا انتخاب کر تا ہوں ، چائے انتخاب کا راستہ کتنا کھٹن و مشکل سہی مگر میں اپنے وجود کی حقیقت کو بر قرار رکھنے کے لئے اپنے وجود کو خطرے میں ڈال کر اپنے وجود کو ختم کر دیتا ہوں۔جس سے میرے وجود کا حقیقت قائم و دائم رہتا ہے جس طرح بیج اپنی وجود کو ختم کر کے کئی اور وجود کو جنم دیتی ہے اسی طرح میرے وجود ختم ہو نے کے بعدمیرے وجود کے ا صل حقیقت کو جنم دے گا۔ مجھے آزاد پیدا کیا گیا جس کے ساتھ ساتھ میری سوچ بھی آزاد ہے جس کو دنیا کی کوئی طاقت مقید نہیں کر سکتا ۔میرے وجود کو اگر کوئی تکلیف ایذا رسانی دینا چاہے تو تکلیف دے سکتا ہے ، لیکن میری سوچ کو کو ئی تکلیف پہنچا نہیں سکتا اور نہ کو ئی میری سوچ کے راستوں کو مسدود کر سکتا ہے اور نہ ہی میری سوچ کو قفل لگایا جاسکتا ہے کیونکہ میں نے اپنے سوچ کو پہلے ہی قفل لگا رکھا ہے۔ جس کی چا بی میرے سوا کسی اور کے پاس نہیں میں اس کو اپنی مرضی اور منشا کے مطا بق استعمال کر تا ہوں ۔
میں ہمیشہ اپنی سوچ کو سوچنے کے نشے میں مدحوش رکھتا ہوں جس سے ہر شے کی اصل حقیقت کو تلاش کرنے نکلتا ہوں۔دنیا میں ہمیشہ میرے لئے دو چیز نہایت اہمیت رکھتے ہیں ، ایک میرا وجود اور دوسری میری سوچ ۔میں اپنی سوچ کو اپنے وجود پر حاوی رکھتا ہوں جس سے زماں و مکاں میں موجود ہر شے کی ماہیت سامنے آجاتی ہے ۔ کیونکہ زماں و مکاں میں موجودہر کو ئی شے کی ماہیت اس کی وجود میں ہر وقت موجود رہتا ہے ۔ حقیقت کو بطور حقیقت سمجھنا ،سمجھانا یا تسلیم کرنا یا کر وانا کو ئی آسان آمر نہیں لیکن کچھ تو اسی شے کی تلاش میں نکل پڑکر کامیاب ہو جاتے ہیں ۔ ویسے تووجود اور سوچ دونوں کے مابین بہت گہرا رشتہ پایا جا تا ہے ہر ایک کے لئے دوسرے کا ہو نا ضروری تصور کیا جا تا ہے ، اگر ان میں سے ایک نہ ہو تو دوسرا وجود نہیں رکھ سکتا ، مثال کے طور پر میں وجود رکھتا ہے تب ہی سوچتا ہوں۔
کامیابی کا راز انسانی سوچ اور غور وفکر کے اختیار میں مضمر ہے ۔کامیابی کے لئے اگر کو ئی نہ سوچے لیکن میں سوچتا ہوں اور غور و فکر کرتا ہوں۔کیونکہ کامیابی وجود رکھتا ہے ، اور میں بھی وجود رکھتا ہوں اور اس کا حصول میں اپنے لئے لازمی تصور کر تا ہوں کیونکہ اس کا حصول ممکن ہے ،حصول لا حاصل نہیں ، کسی بھی چیز کی کامیابی کا حصول یا کامیاب بنانا یا کامیاب ( success ) ہونا انسان کی اپنی محنت اور جہد مسلسل میں مضمر ہو تی ہے ۔
جس طرح بشرالمخلوقات ،نباتات اور حیوانات کو وقتی طور پر زندہ رہنے کے لئے اور اپنی ہستی ،حقیقت اور تجلّی کو بر قرار رکھنے کے لئے کھانا ،پینا ضروری ہو تا ہے ،اسی طرح کامیابی کو کامیاب بنانے یا پانے کے لئے انسانی نادر شے جہد مسلسل کو حاوی کرنا ضروری بھی ہوتاہے ،کیونکہ کامیابی خود وجود اور حقیقت رکھتی ہے اور کامیابی کا حصول نا ممکن نہیں ۔ہر شے کی کامیابی کو بطور ناکامی سمجھنا یا کامیابی کی حقیقت سے رو گردانی کر نا اور مایوسی کا اظہار کرنا یا کروانا یا کامیابی کو کامیاب سمجھنا اور کامیابی کی حقیقت کو سمجھنایا اس کا بر ملا اظہار کر نا دو الگ الگ پہلو ہیں جو انسان کی فطرت میں ہمیشہ وجود رکھتے ہیں ، کامیابی کو کامیاب بنانا ،سمجھنا یا سمجھانا صرف انسانی عقل کو راس آتی ہے ، سوچ اور فیصلہ کو میں ہمیشہ معقول کے مطیع کر تا ہوں کیونکہ سوچ اور فیصلہ کو معقول کے تابع نہ رکھنے سے کسی بھی اچھے اور نہ مساعد حالات میں جزباتی فیصلے کے امکانات زیادہ ہو تے ہیں جس سے نقصانات کا اندیشہ ہو سکتا ہے ۔معقولات کے زیر سایہ میں فیصلہ لینا اور فیصلہ کرنا انسان کو ہمیشہ بڑے نقصانات سے نجات کا زریعہ ہو سکتا ہے ۔
اسلئے فیصلے کو معقول کے تابع رکھنا ضروری ہے ، کیونکہ انسان کو سمھبالنے کی چابی معقول کی کسوٹی میں ہو تی ہے ۔ اگر کو ئی انسان معقولی اختیارات کو اپنے کشکول میں رکھنے سے انکا ر کر کے بلا سوچے سمجھے خود اپنے فرط ِ جذبات کے اختیارات کو استعمال لانے کی سعی کر ے تو یعقیناََ خطرے کی گھنٹی بجتی ہے جس سے اختیارات انسان کو غلط راستے پر لے جا سکتا ہے ۔ کسی بھی فیصلے صادر کرنے اور اختیارات کے استعمال سے پہلے انسان کو اپنی سوچ و بچار اورعقلِ سلیم کے دروازہ کا قفل کھو ل کر اندر گھسناچائیے ، پھر عقل کی دنیا میں آرام سے غور و فکر ، صلاح و مشورے کر کے پھر باہر کی دنیا میں آکر اپنا فیصلہ صادر فرمائے یا خود اپنے فیصلے کا انتخاب کر ے ۔پھر یعقیناََ اختیارات اور زمہ داری کا نفاز اچھے طریقے سے ہو گا ،اسلئے انسان کو اپنی کامیابی کے حاصلات کے لئے اپنی سوچ اور عقل کو سیڑھی بنانا ہوگا ،کیونکہ کامیابی کی اصل سیڑھی انسانی عقل اور سوچ ہے جس سے انسان کامیابیوں کی ا فق تک جا پہنچتا ہے ۔ میں اسلئے سوچنے اور عقل سے لئے گئے فیصلے کے بغیر نہ کو ئی فیصلہ کر تا ہوں اور نہ ہی کو ئی قدم اٹھا تا ہوں ،کیونکہ ان دونوں کی با ہمی مشاورت کے بغیر مجھے قوی یعقین ہے کہ کو ئی فیصلہ قابل قبول اوراقدامات اٹھانا کامیاب نہیں کرواسکتا۔آپ بھی سوچیں، غور وفکر کریں اور دوسروں کو سوچنے اور غور و فکرکے لئے قائل کر یں ،کیونکہ ہر شے ہر مسائل کی وجوہات اور محرکات کا پتہ سوچنے ،غور و فکر اور عقل سے سمجھا جاسکتا ہے۔
سماجی و سیاسی موضوئی مسائل ہوں یا معروضی ان کا اندازہ صرف غور و فکر تحقیق اور معقول سے کیا جا سکتا ہے ۔معاشرے کی ارتقاء و ترقی میں اس وقت اہم کر دار ادا کیا جاسکتا ہے جب ضمیر اور احساس کی پرورش صحتمند خطوط پر ہوں پھر ضمیر اور احساس کی پرورش ،غورو فکرکر نے اور اذہان پر کسی کو حکمرانی کر نے کی اجازت نہ ہو، اگر غور و فکر کرنے اور معقول کی داخلی عدالت میں کسی جج کو بیھٹا دیا گیا پھر غور و فکر کر نے کے تمام اختیارات اسی جج کو سونپا گیا اور خارجی عدالت میں اسی جج کے متعین کر دہ وکیل کو بیھٹا کر دونوں کے جرا اور دلائل کوسننے لگیں خود سکوت اختیار کرے پھر ضرور وکیل اور جج اپنا فیصلہ سنائیں گے۔جن کا فیصلہ فرد کی ضمیر اور غور و فکر کے خلاف آئے گا،جس سے فرد کو ئی کردار ادا نہیں کر سکتا ۔یقینا ایک صحتمند معاشرے کی تشکیل اس وقت تک ناممکنات اور رکاوٹیں سے دوچار ہو تی رہتی ہے جب تک معاشرے میں موجود ہر مسائل کی جڑ کے متعلق علم نہ ہو ں اس رکاوٹوں کی حصار کو اس وقت توڈ دیا جاسکتا ہے جب غور و تحقیق ہو نے کے ساتھ ساتھ معقولات کی داخلی عدالت میں کو ئی جج بیھٹا نہ ہو بلکیں انسان کی معقول خود اپنی جج ہو اور خارجی عدالت میں کسی وکیل کو بیھٹنے کی اجازت نہ ہو جس کی غیر منطقی استدلال سے اجتناب ممکن ہو پھر انسان خود اپنے سے سوال و جواب کر کے مراقبہ کرے،پھر یقینا ہر مسائل کی جڑ کا اکھاڈ سہل ہوگا جس سے فرد ایک اہم رول ادا کر نے اور ایک صحتمند معاشرہ کی تشکیل و ترویج کر نے میں ظفر یاب ہو سکتاہے ۔
اسلئے سوچ اور غور وفکر کرنے سے ہر کو ئی فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے اورمجھے بھی ہر مسائل کی سمجھنے کے ساتھ ساتھ بڑا فائدہ یہ ہوا کہ میں نے اپنے آپ کو شناخت کر لیا کہ میں کون ہوں ،مجھے اس روئے زمین پر کس مقصد کے لئے پیدا کیا گیا، میری تاریخ کیا ہے ، اور مجھے کر نا کیا ہے ،مجھے ان تمام بنیادی شے کے متعلق علم ہو گیا کہ میں ایک ایسی تاریخ کے اندر کھڑا ہوں جس کا ماضی انسانی سر بلندی عدل و انصاف اور جذبہ ایثار و قربانی اور ہمدردی اور محبت سے بھری ہوئی تاریخ ہے اور اسی طرح حال و مستقبل بھی عدل و انصاف اورسچائی انسانی سر بلندی کی تاریخ بنے جا رہی ہے۔کچھ تو اسی انسانی عظمت کی تاریخ کے لئے امر ہو گئے کچھ تو امر ہونے جارہے ہیں کچھ تو امر ہونے کی تیاریوں میں مصروف عمل ہیں۔شائد اسی سوچ اور غوروفکر اور تحقیق نے ہر کسی کو زماں و مکاں میں موجود ہر چیز کی ماہیت و حقیقت کے متعلق روشناس کرایا جس سے کُل کا پہچان آسان ہو گیا اور ہر کوئی سوچنے ، غور وفکر اور تحقیق کرنے اور عقل سے فیصلہ لینے کے بعد اپنا راستہ انتخاب کر رہا ہے ،اب دیکھتے ہیں کون کتنا دشت صحراوں میں بھٹکنے کے بعد اپنا مقدس منزل حاصل کر پائے گا ۔ اور کون کتنا زمین کی طپش سے پاوُں پر چالے پڑنے کے باوجود مقدس منزل کی طرف رواں دوا ں ہو تا رہتاہے اور کون کتنا کال کو ٹھریوں میں تکلیفیں جھیلتا رہے گا اور کتنوں کی پاکیزہ لہو دھرتی پر بہے گا ۔
اور یہ کاروان اسی طرح چلتا رہے گا کیونکہ یہ انسانی عظمت کی سر بلندی کی رقم ہونے والی تاریخ ہے جس نے ہر مصائب اور مشکلات کا حل بتایا ہے۔یہی غورو فکر اور تحقیق اور مثبت سوچ ہے جو انسانیت کے خلاف کام کر نے والوں کے لئے بڑا خطرہ بنا ہے۔ اگر سوچ اور غور و فکر اور تحقیق کو ئی پرندہ ہو تا شائد کسی ظالم نے اس کو پکڑ کر کسی پنجرے میں بند کر دیتا۔ مگر کیا کر یں یہ تو سوچ ہے جو اپنی فطرت سے آزاد و خودمختار ہو تا چلا آ رہا ہے جب چاہے کہ مجھے کہاں کس جگہ اور کس وقت کن حالات میں کیوں فیصلہ کر نا ہے کیا فیصلہ کر نا ہے ،وہ تو پھر معقول کے زیر سایہ میں بیٹھ کر آرام و تسلی سے صلاح و مشورہ کر نے کے بعد فیصلہ لیتا ہے پھر فیصلہ کر تا ہے۔میں اسی لئے سوچتا ہوں غور و فکر کرتا ہوں کہ حقیقت اور سچائی کی افق تک جا پہنچ سکوں آپ بھی سوچیں غور و فکر کریں اور تدبر اور تفکر سے کام لیں اور دوسروں کو سوچنے اور غور و فکر کرنے پر مائل کر یں اور ہر شے کی ماہیت کے تہہ تک جانے کی سعی کرکے معلومات سے باخبر ہو جائیں پھر علم اور منطق کا دامن تھام کر استدلال کے ساتھ حقیقت اور سچائی کا شجاع اور بے باکی سے دفاع کر یں ۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close