سمندر کنارے ایک گھر (تین مختصر کہانیاں)

محمد جمیل اختر

سمندر کنارے ایک گھر

ہمارے گھر کے باہر ایک سمندر ہے، ہم نے دروازہ کھولا تو پانی میں ڈوب جائیں گے۔ اسی لیے ہم دروازے بند رکھتے ہیں، کیونکہ ایسا ہی کرنے کے لیے ہمیں کہا گیا ہے۔

بہت پہلے کسی نے دروازہ کھولنے کی کوشش کی تھی تو پانی کی لہریں اسے اپنے ساتھ بہا کر لے گئی تھیں، تب سے میخیں گاڑ کر دروازے کو مستقل طور پر بند کر دیا گیا ہے۔۔ مگر ہم میں سے کچھ لوگ، جو ہماری حفاظت کرتے ہیں، دروازے سے باہر آتے جاتے رہتے ہیں۔

واپس آنے پر وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ خبردار! باہر مت نکلنا ورنہ ڈوب جاؤ گے۔

بروقت خبردار کرنے پر ہم سب مکین ان کے بے حد شکر گزار ہوتے ہیں اور گھر کی ساری دیواروں پر اپنے محافظوں کے حق میں نعرے درج کرتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہمار ے قلموں کی سیاہی سوکھ جاتی ہے، ہم ان سے مزید سیاہی کا مطالبہ کرتے ہیں تو وہ ہمارے ہی جسموں سے خون نچوڑ کر ہمارے قلموں کو لبالب بھر دیتے ہیں۔

ہم نحیف و ناتواں ہونے کے باوجود اپنے محافظوں کو ممنون نگاہوں سے دیکھتے ہیں کہ ہمارا گھر ایک سمندر کے کنارے ہے، دروازہ کھلا تو۔۔۔

★★★

بدلہ

محبت کرنا بھلا کب آسان رہا ہے۔۔ وہ دو سال سے بچت کر رہا تھا۔ اس نے پیٹ کاٹ کاٹ کر روپے بچائے تھے۔ کئی خواہشوں کی قربانی دی تھی۔ جب اس کے پاس کچھ رقم جمع ہوئی تو اس نے ایک گرامو فون خریدا اور اسے اپنی محبوبہ کو سالگرہ کے تحفے کے طور پر پیش کیا۔

یہ جس زمانے کی کہانی ہے، اس وقت شہر میں چند ہی لوگوں کے پاس گرامو فون تھا۔ وہ محبوبہ کو سب سے انوکھا تحفہ دینا چاہتا تھا، اور یہ سب کرنے کے لیے اسے دو سال کا عرصہ لگ گیا۔

اس کی محبوبہ گرامو فون دیکھ کر بہت خوش ہوئی، تاہم جب اس کے باپ کو اس تحفے کا علم ہوا تو اس نے گرامو فون پہلی منزل سے نیچے گلی میں پھینک دیا۔

وہ آدمی ابھی گلی میں موجود تھا، اس نے گرامو فون کو پرزے پرزے گلی میں بکھرے دیکھا تو اسے بہت دکھ ہوا، جیسے کسی نے گزشتہ دو سال کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے گلی میں بکھیر دیا ہو۔

’اس سے تو بہتر تھا کہ میں پیٹ بھر کر کھانا کھاتا رہتا‘ ، اس نے سوچا۔

”میں سب سمجھتا ہوں تم نیچ ذات کے غریب لوگوں کو، امیر لڑکیوں کو مہنگے تحفے دینے کا کیا مقصد ہوتا ہے“ لڑکی کے باپ نے کہا۔

”دفع ہوجاؤ!“ لڑکی کا باپ گرجا۔

”ہاں میں جاتا ہوں، مگر مجھے میرے فاقوں کی قیمت ادا کی جائے ورنہ۔۔۔“

”ورنہ کیا؟“

اسے کچھ سمجھ نہ آیا۔ پھر ایک پتھر دکھائی دیا۔ وہ دوڑا اور پتھر اٹھا لیا۔

”ورنہ میں اس پتھر سے اپنا سر پھوڑ لوں گا۔“

★★★

ممنوعہ موسموں میں محبت

مجھے اس سے ایسے وقت میں محبت ہوئی، جو محبت کے لیے انتہائی نامناسب تھا۔

اس کے لیے سب سے مناسب وقت کون سا ہوتا ہے؟ اس سوال کا کوئی حتمی جواب نہیں، مگر میں یہ بات پورے وثوق اور اپنی اکیس سالہ زندگی کے تجربے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں کہ جب ہمیں محبت ہوئی تو وہ وقت ہم دونوں کے لیے نامناسب تھا۔

میں تھیلیسیمیا وارڈ میں بیڈ نمبر 7 پر موجود خون کی تبدیلی کے عمل سے گزر رہا تھا۔ مجھے یہ بات شروع میں بتانی چاہیے تھی مگر میں بھول گیا، یہ ہر تیسرے ہفتے خون کی تبدیلی میری یادداشت بھی چاٹتی جا رہی ہے۔ میں تھیلیسیما میجر کا شکار ہوں اور بچپن سے خون کی اس تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہوں۔ بیماری کی بات چھوڑیں کہ یہ کیسا تکلیف دہ عمل ہے، میں پھر اس قصے کی طرف آتا ہوں، جب بیڈ نمبر 7 پر لیٹے لیٹے میں نے اسے پہلی بار دیکھا، اس کی پیلی رنگت اور ناتوانی سے ہی میں سمجھ گیا تھا کہ اس کا اور میرا دکھ ایک ہے۔

لوگوں کو خوشیاں کبھی بھی اتنی جلدی اکٹھا نہیں کر سکتیں، جتنا کہ غم۔۔ مشترکہ غم ہمیں آپس میں یوں جوڑ دیتے ہیں کہ جس کا تصور خوش کن لمحات میں ملے لوگ کر ہی نہیں سکتے۔ میں نے اپنی پیلی اندر دھنسی ہوئی آنکھوں سے اسے دیکھا، اس نے پیغام پڑھ لیا اور جواباً لبوں پر ایسی اداس مسکراہٹ لائی، جس کا مطلب تھا، یہ محبت کے لیے نامناسب وقت ہے۔۔ مگر میں اس سے محبت کرتا رہا۔ ہم ہر تیسرے ہفتے اسی وارڈ میں ایک دوسرے سے ملتے رہے، ہم انتظار گاہ میں اپنی اپنی باری کی راہ دیکھتے رہتے ہیں اور ہماری گفتگو ہماری بیماری کی علامات پر بحث کرتے گزر جاتی ہے۔

میں اسے بتاتا ہوں کہ مجھ پر ہر وقت تھکاوٹ سی طاری رہتی ہے، مگر میں غنودگی میں بھی اس کے چہرے کو یاد کر سکتا ہوں۔

وہ کہتی ہے کہ ہسپتال آنے سے پہلے اس نے آئینہ دیکھا تھا، اس کی رنگت پہلے سے زیادہ زرد ہو چکی ہے اور اس بیماری کی وجہ سے اس کا پیٹ پھولتا جا رہا ہے، جبکہ اسے موٹا ہونا ہرگز پسند نہیں۔

وہ مجھ سے پوچھتی ہے کہ کیا تم پیلی رنگت اور موٹے پیٹ والی لڑکی سے محبت کرتے رہو گے۔

میں اسے یقین دلاتا ہوں کہ میں اس سے محبت کرتا رہوں گا۔ وہاں بیٹھے بیٹھے ہم دونوں اس قدر تھک جاتے ہیں کہ جب ہمیں کوئی ہمارے نام سے بلاتا ہے تو ہم سو رہے ہوتے ہیں۔

ان دنوں ہسپتال کے لان میں لگے پودوں پر سُرخ گلاب آ چکے ہیں، تاہم ہماری پیلی آنکھیں اس منظر سے خوشی کشید نہیں کر پاتیں۔ ہمارے جسم ہماری عمروں سے بہت چھوٹے دکھائی دیتے ہیں۔۔ مگر ہم چاہتے ہیں کہ ایسے ہی انتظار گاہ میں گفتگو کرتے کرتے ہماری عمریں گزر جائیں جو شاید گزر چکی ہیں کہ وبا کے دنوں میں خون کی دستیابی کوئی آسان کام نہیں ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close