آنکھیں خیرہ کرنے والا فطری حسن، فلک بوس سنگلاخ پہاڑی سلسلے اور دِل موہ لینے والے حسین و جمیل نظاروں سے بھرپور گلگت بلتستان بنیادی طور پر دو خطوں پر مشتمل ہے۔ ایک حصہ ’بلتستان‘ جب کہ دوسرا ’گلگت‘ کہلاتا ہے۔
سحر انگیز ہونے کے ساتھ ساتھ اس علاقے کی جغرافیائی حیثیت بھی خوب اہمیت کی حامل ہے۔ کوہِ قراقرم، کوہِ ہمالیہ اور کوہ ِہندوکش کے پہاڑی سلسلوں کے سنگلاخ و د ل فریب قدرتی حصار میں کسی انمول ہیرے کی طرح جگمگاتا گلگت بلتستان کا خطہ پہلے شمالی علاقہ جات کے نام سے مشہور تھا۔
گلگت بلتستان کا خطہ یوں تو اپنی وادیوں، پہاڑوں اور دریاؤں پر مشتمل خوبصورت نظاروں کی وجہ سے یہاں آنے والوں کو مسحور کر دیتا ہے، لیکن یہاں کی جھیلیں بھی اپنے پرسرار حسن کے باعث اپنی مثال آپ ہیں۔
ایسی ہی ایک جھیل ’جربہ ژھو‘ ہے۔ بلتی زبان کے اس نام کا انگریزی میں مطلب نکالا جائے تو یہ ’بلائنڈ لیک‘ یعنی ’اندھی جھیل‘ بنتا ہے۔
اندھی جھیل بلتستان کے علاقے سکردو اور شگر کے سنگم پر واقع سرد صحرا کے قریب واقع ہے۔ سرفہ رنگا کا یہ صحرائی علاقہ دنیا کے بلند ترین سرد صحراؤں میں سے ایک ہے۔ یہاں ریت کے ہئیت بدلتے اور فریب نظر دیتے پہاڑ ہیں۔ سیاچن گلیشیئر کے لیے راستہ بھی یہیں سے جاتا ہے۔ دُنیا کے سب سے بڑے سرد صحرا سرفا رنگا کو کٹپانا ڈیزرٹ، سترنگی اور کولڈ ڈیزرٹ بھی کہا جاتا ہے۔
پاکستان کے سرد ترین شہر اسکردو میں شیر دریا، دریائے سندھ اور دریائے شگار کے سنگم پر واقع یہ سرد صحرا، وادی خپلو سے وادی نبرہ لداخ اور شگار سے مقبوضہ کشمیر کی وادی تک پوری آب و تاب سے اپنی جگہ بنائے ہوئے ہے۔ بہر کیف سرد صحرا کا بڑا حصہ اسکردو اور وادی شگار میں پھیلا ہے۔
سکردو سے قریبا پینتالیس منٹ کی مسافت پر یہ جھیل اسی راستے پر واقع ہے، جو سکردو سے اس صحرا سے ہوتا ہوا دنیا کی دوسری بڑی چوٹی کے ٹو کی طرف جاتا ہے۔
ضلع شگر خاص سے چند کلومیٹر پہلے ایک راستہ بائیں جانب لمسہ سے جھیل کی طرف مُڑ جاتا ہے۔ اس کچے راستے سے گزرتے ہوئے موٹر سائیکل اور کار کے ذریعے اس جھیل تک پہنچا جا سکتا ہے۔
چار کلومیٹر پر پھیلی اس خوبصورت جھیل کا شمار بلتستان کی خوبصورت ترین جھیلوں میں ہوتا ہے۔
اس جھیل کو اندھی جھیل اسی لیے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ معلوم نہیں کہ اس جھیل کا پانی کہاں سے آتا ہے اور اس کا ماخذ کیا ہے؟
گلگت بلتستان کی یہ واحد جھیل نہیں ہے، جس کے متعلق پراسرار کہانیاں منسوب کی جاتی ہیں۔ سکردو لے نزدیک ایسی ہی ایک جھیل سدپارہ بھی ہے۔ جس کے بارے میں لوگوں میں ایک کہانی مشہور ہے کہ ”سدپارہ جھیل کے مقام پر پہلے گاؤں آباد تھا۔ ایک دن ایک بزرگ یہاں لوگوں کو آزمانے آئے تو سوائے ایک بوڑھی خاتون کے گاؤں کے کسی بھی فرد نے ان کی مدد نہیں کی، جس پر اس بزرگ نے ناراض ہوکر بددعا دی، جس کی وجہ سے پورا گاؤں الٹ گیا اور اس جگہ زمین سے پانی نکل آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ پانی ایک جھیل کی شکل اختیار کر گیا۔ کہا جاتا ہے اس پورے معاملے میں مدد کرنے والی بوڑھی خاتون اور اس کا گھر محفوظ رہا۔“
بہرحال’اندھی جھیل‘ کے بارے میں مقامی لوک کہانیوں کے مطابق یہ جھیل ایک چرواہے نے سولہویں صدی میں دریافت کی، جب وہ اپنی بکریوں کے ہمراہ یہاں آ نکلا۔ بعد میں یہ جھیل شاہراہ ریشم پر سفر کرنے والے مسافروں کا پڑاؤ بنی کیونکہ یہاں پینے کو تازہ پانی اور کھانے کو مچھلی وافر مقدار میں دستیاب تھی۔
دریافت کے بعد مقامی لوگوں نے بھی اس جھیل کا رخ کرنا شروع کیا اور فطری تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر سراغ لگانے کی کوشش کی کہ اس جھیل میں موجود پانی آخر کہاں سے آ رہا ہے۔ تاہم وہ پانی کا مآخذ تلاش کرنے میں ناکام رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس جھیل کو ’جربہ ژھو‘ کا نام دیا یعنی اندھی جھیل۔
شگر کی اندھی جھیل سطح سمندر سے 13450 فٹ پر واقع ہے۔ یہ جھیل تقریباً 4 کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس جھیل کے متعلق مشہور تھا کہ ’اس کی گہرائی کسی کو معلوم نہیں‘ لیکن ایک اندازے کے مطابق اس کی گہرائی 100 فٹ کے قریب ہے۔ اس جھیل کی ایک اور خاصیت یہ ہے کہ اس کے ایک طرف بلند و بالا پہاڑ ہیں تو دوسری جانب صحرا جبکہ ایک طرف سے دریا بھی بہہ رہا ہے۔
بلند و بالا پہاڑوں کے کنارے واقع اس جھیل کا پانی صاف اور نیلا ہے لیکن یہ پانی مکمل طور پر ٹھہرا ہوا اور نیم گرم ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق کئی برسوں سے اس جھیل میں پانی کی سطح ایک جیسی ہی ہے۔
مقامی لوگوں کے مطابق چونکہ جھیل میں پانی آنے کا کوئی مقام معلوم نہیں، اس وجہ سے اسے ’اندھی جھیل‘ کا نام دیا گیا ہے۔
تاہم عام خیال یہی ہے کہ جھیل کے نیچے ہی پانی کے چشمے موجود ہوں گے، جو اس خوبصورت اور دلکش جھیل کو پانی فراہم کرتے ہیں۔
اس جھیل کے ذخیرہ آب کے ماخذ کے بارے میں گلگت بلتستان کی تاریخ و حالات پر متعدد کتابیں تحریر کرنے والے سکردو کے ممتاز صحافی اور اکادمی ادبیات کے بورڈ آف گورنرز کے رکن قاسم نسیم کا کہنا ہے کہ اس جھیل سے پانی کے اخراج کا ایک راستہ تو ہے لیکن اس میں پانی آنے کا کوئی بھی ذریعہ معلوم نہیں ہے۔
قاسم نسیم کہتے ہیں ”اس جھیل کے اردگرد نہ تو پہاڑوں پر گلیشئیرز ہیں، جن سے پانی آتا ہو اور نہ ہی کوئی ایسی ندی، جھرنا یا آبشار ہے، جو اسے پانی فراہم کرتا ہو۔ اس جھیل کا پانی کھڑا رہتا ہے۔ لیکن یہ صاف اس لیے ہے، کیونکہ اس میں سے پانی مسلسل باہر نکلتا رہتا ہے“
انہوں نے کہا ”ہمارے بڑے بوڑھے بتاتے ہیں کہ انہوں نے اپنے بزرگوں سے سنا تھا کہ اس ندی کے نیچے پانی کے چشمے ہوں گے، جن سے پانی نکلتا ہے لیکن پانی کے یہ ذرائع نظر نہیں آتے۔‘‘
مقامی شہری ثاقب علی کا کہنا ہے ”اس جھیل میں پانی آنے کے مقام کا معلوم نہیں لیکن ہمارے بڑے بزرگ کہتے ہیں کہ اس کے اندر 15 چشمے ہیں جن کا پانی اس جھیل میں آتا ہے۔“
ان کے مطابق: ”ہم نے بچپن سے دیکھا ہے اور کئی برسوں سے اس جھیل میں پانی کی سطح ایک ہی جگہ پر موجود ہے۔ اس جھیل کا پانی تیراکی کے لیے بہت موزوں ہے۔“
بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اس جھیل کے پاس دریائے سندھ اور شگر دریا بہتے ہیں، ان کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ زیر زمین پانی کی سطح بلند ہو کر اس مقام پر جھیل کی شکل اختیار کر گئی ہو، لیکن مقامی لوگ اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ مقامی شہری نوشاد کے بقول، زیرِ زمین پانی کے نکلنے کا واقعہ صرف اس جگہ پر ہی کیوں رونما ہوا ہے اور کسی جگہ کیوں نہیں؟
ایک کہانی کے مطابق اس جھیل کا نام ’بلائنڈ لیک‘ اس لیے رکھا گیا کیونکہ اس کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ یہاں کی مچھلیاں اندھی ہوتی ہیں۔ تاہم، یہ ایک مقامی کہانی ہے اور اس کی سائنسی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ رات کے وقت جھیل کے ارد گرد ایک عجیب روشنی دیکھنے کو ملتی ہے جو اچانک غائب ہو جاتی ہے۔ یہ روشنی لوگوں کو الجھا دیتی ہے اور اکثر لوگ اسے پراسرار قوتوں سے منسوب کرتے ہیں۔
ایک اور کہانی کے مطابق، بلائنڈ لیک کے ارد گرد نا معلوم مخلوقات رہتی ہیں جو رات کے وقت جھیل کے کنارے پر آتی ہیں۔ یہ مخلوقات نظر نہیں آتیں لیکن ان کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے، جیسے کسی کے قدموں کی چاپ یا کسی کی سانسوں کی آواز۔
یہ کہانیاں زیادہ تر مقامی لوگوں کے درمیان مشہور ہیں اور سیاحوں کو اس جھیل کی جانب متوجہ کرتی ہیں۔ تاہم، یہ تمام کہانیاں زبانی روایات پر مبنی ہیں اور ان کی سچائی کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں ہے۔
یہ ندی اپنے قدرتی حسن کی بدولت اندرون اور بیرون ملک سے آنے والے سیاحوں میں بہت مقبول ہے۔ سیاحت کے دلدادہ لوگ تواتر سے یہاں آتے ہیں۔ وہ جھیل کے کنارے دور دور تک پھیلے سبزے پر چہل قدمی کرتے ہیں، کشتی رانی سے لطف اندوز ہوتے ہیں، مچھلیاں پکڑتے ہیں اور ندی کنارے کیمپ لگا کر تاروں سے جگمگ کرتی پر سکون رات کا نظارہ کرتے ہیں۔ اس سب کچھ کے باوجود یہ ‘ اندھی جھیل‘ پراسرار داستانوں میں گھری ہوئی ہے۔
قاسم نسیم کہتے ہیں ”اس علاقے میں اس جھیل کے حوالے سے عجیب و غریب باتیں مشہور رہی ہیں۔ کچھ لوگ یہ سمجھتے رہے ہیں کہ جھیل کے سامنے والے پہاڑ کسی مافوق الفطرت مخلوق یا جنات کا مسکن ہیں اور کوئی بھی شخص اس پہاڑ کی طرف نہیں جاتا تھا۔ کشتیوں والے بھی آدھی جھیل تک ہی سفر کرتے تھے کیونکہ یہ بات مشہور تھی کہ اگر کوئی شخص آگے جائے گا تو اس کا زندہ واپس آنا ممکن نہیں۔“
لاہور کے علاقے شاہ جمال سے آئی ہوئی ایک سیاح اقصیٰ شاہد کا کہنا تھا ”ہم نے سکردو اور اس کے آس پاس کے تمام علاقے دیکھے ہیں۔ ہم اندھی جھیل بھی دیکھنے گئے تھے لیکن پھر راستے سے مڑ آئے، ہمیں اس کے بارے میں کوئی اچھی اطلاعات نہیں ملی تھیں۔‘‘
ان کے بقول، چند سال پہلے ان کی بہن ایک تفریحی ٹور کے ساتھ گلگت بلتستان آئی تھی۔ اس ٹور کے دوران ان کے ڈرائیور نے بتایا تھا کہ ایک مرتبہ وہ یہاں ایک ٹور لے کر آیا۔ اس ٹور کے دوران کچھ لوگوں نے یہاں تیراکی کی تھی لیکن اس کے بعد تیراکی کرنے والے ایک لڑکے کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہو گئی تھی۔
سکردو کے ایک رہائشی شبیر خان کہتے ہیں ”چند سال پہلے ایک ٹورسٹ فیملی نے اندھی جھیل کے کنارے کھڑے ہو کر دوسری طرف والے پہاڑ کی تصویر لی تھی، جس میں کسی پر اسرار مخلوق کی جھلک آ گئی تھی۔“
جھیل سے جڑی یہ پراسرار کہانیاں اپنی جگہ، لیکن اب حالات بدل رہے ہیں۔ قاسم نسیم کہتے ہیں ”اب صورتحال بدل چکی ہے، اس جھیل میں حکومت نے فش فارم بنا رکھا ہے۔ موٹر والی کشتیاں پوری جھیل میں دوڑتی پھرتی ہیں۔“
واضح رہے کہ گلگت بلتستان کا سالانہ زخ (دیسی کشتی) مقابلہ بھی اسی جھیل سے شروع ہوتا ہے۔ اسی طرح دریائے شگر میں سالانہ زخ ریلی کا انعقاد ہوتا ہے جو کہ ایک منفرد ایونٹ ہے۔ اس ایونٹ کی ابتدا بھی اسی جھیل سے ہوتی ہے۔
یہاں کے مقامی ثاقب نے بتایا کہ یہاں پر سیاحوں کے لیے ایک الگ مقام بنایا گیا ہے۔ یہاں کے تمام انتظامات کمیٹیوں کے ذریعے کیے جاتے ہیں جو لیز، فنڈنگ اور ٹکٹ وغیرہ کے معاملات دیکھتی ہیں۔
ثاقب کے مطابق اب یہاں مقامی کے ساتھ غیر ملکی سیاح بھی آنے لگے ہیں، اس لیے یہاں پر روشنی کا انتظام کیا گیا اور رات کو کیمپنگ بھی ہوتی ہے
گلگت بلتستان میں سیاحت کے امور سے وابستہ ایک سرکاری افسر کے مطابق، ”اندھی جھیل پر بھوتوں اور جنات کی کہانیاں سب سنی سنائی باتیں ہیں۔ یہ باتیں کرنے والوں کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہوتا۔ ہمارے ہوش میں ہمیں ایسا کوئی واقعہ دیکھنے کو نہیں ملا۔‘‘
اندھی جھیل میں کشتی رانی پر معمور عابد شگری کا گاؤں قریب ہی ہے، وہ بتاتے ہیں ”ہم یہاں کے رہنے والے ہیں اپنا زیادہ تر وقت اس جھیل میں کشتی رانی میں ہی گزارتے ہیں، ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ اب تو یہاں لوگ رات کو کیمپنگ کرتے ہیں، یہاں مختلف مقابلے اور میلے ہوتے ہیں۔ اگر صورت حال ایسی ہوتی تو یہ سب کیسے ممکن تھا۔‘‘
اس جھیل میں بہترین کوالٹی کی ٹراؤٹ مچھلیوں کی افزائش بھی ہوتی ہے۔ سیاح خود بھی مچھلی کا شکار کرسکتے ہیں جبکہ بار بی کیو کی سہولت بھی موجود ہے۔
فوٹوگرافی کے شوقین افراد کے لیے یہ جھیل بہت پرکشش ہے۔ چاروں طرف بلند و بالا پہاڑ، صاف و شفاف پانی، اور قدرتی نظاروں سے بھرپور یہ جگہ کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرنے کے لائق ہے۔
سردیوں میں جھیل پر سکینگ کی جاتی ہے
سیاحوں کے لیے اس جھیل پر آنے کا بہترین وقت جولائی، اگست اور ستمبر ہے۔ اکتوبر سے سردی کی شدت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ دسمبر میں یہ جھیل مکمل طور پر جم جاتی ہے۔
سرمائی سیاحت کے شوقین حضرات جمی ہوئی جھیل بھی دیکھنے آتے ہیں اور اس جھیل پر سکینگ کا لطف اٹھاتے ہیں۔
یہاں آنے والے سیاحوں کا کہنا ہے کہ اندھی جھیل کا مقام اس قدر خوبصورت ہے کہ یہاں پہاڑ، پانی، بادل، ہوا اور سبزہ سب مل جل کر ایسا منظر تخلیق کرتے ہیں کہ انسانی آنکھ حیرت سے دنگ رہ جاتی ہیں۔ وہ حکومت پر اس جھیل کے بارے میں آگاہی مہم چلانے پر بھی زور دیتے ہیں۔