صحرائے تھر، ہندوستان اور پاکستان کی سرزمینوں پر پھیلا ہوا ایک ایسا خوابیدہ صحرا ہے، جہاں وقت کی روانی جیسے ٹھہر سی گئی ہے۔ یہ صحرا ایک وسیع و عریض ریت کا سمندر ہے، جہاں آسمان زمین سے ملتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اس کی سنہری ریت پر سورج کی کرنیں بکھر کر ایک ایسا منظر تخلیق کرتی ہیں، جیسے کوئی پرانا قصہ اپنی داستان سنانے کو بیتاب ہو۔
تھر کا صحرا وہ جگہ ہے، جہاں قدرت اپنی اصلی حالت میں موجود ہے۔ یہاں کی ریت کے ذرّے اپنی داستانوں میں صدیوں کی کہانیاں سموئے ہوئے ہیں۔ جب ہوا کے نرم جھونکے اس صحرا کی ریت کو چھیڑتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے صحرا کی رگوں میں زندگی دوڑ رہی ہو۔
یہاں کے بلند و بالا ٹیلے رات کے وقت چاندنی میں نہا کر چاند کی روشنی کو اپنے اندر جذب کر لیتے ہیں، جیسے کوئی اپنی دھڑکنوں میں محبت کا سرور بھر لے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں خاموشی کا اپنا ایک راگ ہے، جہاں ہوا کی سرگوشیوں میں پرانے زمانوں کے قصے گنگناتے ہیں۔
صحرائے تھر کے باسی اپنی سادگی میں دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہیں، جیسے وہ صحرا کی ریت کی مانند مستقل ہیں۔ ان کے گیتوں میں محبت، جدائی اور خوابوں کی خوشبو بسی ہوئی ہے۔ تھر کا یہ صحرا، اپنے سینے میں نہ جانے کتنے انمول راز چھپائے، ہمیشہ کی طرح اپنے سحر میں مبتلا کیے رکھتا ہے۔
یہ سرزمین، جہاں کی صبحیں سنہری اور شامیں زعفرانی ہوتی ہیں، اپنے آپ میں ایک بے مثال جمالیاتی تجربہ ہے۔ تھر کے باسی، ریت کے سمندر میں اپنے خوابوں کی کشتیاں چلاتے، زندگی کے اتار چڑھاؤ کو سہتے ہوئے، اپنے آپ کو اس صحرا کے حوالے کیے ہوئے ہیں۔
تھر کے انہی لوگوں میں ریباری قبیلے کے لوگ بھی شامل ہیں، جن کی نسبت کا افسانوی حوالہ چاند کی نسل سے ہونا ہے، یعنی یہ چندرونش کہلاتے ہیں۔ ایک دور میں یہ قبیلہ راجستھان اور تھر کے خشک اور بیابانی علاقوں میں خانہ بدوشی کی زندگی گزارنے کے باعث مشہور تھا، لیکن اب یہ تقریباً خانہ بدوش طرزِ زندگی ترک کر چکا ہے، مگر باوجود اس کے کسی نہ کسی شکل میں صدیوں پرانی روایات اور منفرد طرز زندگی آج بھی اس قبیلے کی نمایاں پہچان ہے۔
تاریخی حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قبیلے کے افراد راجپوت نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور ہندوستان کے بادشاہ علاؤالدین خلجی کے زمانے میں بھارت میں راجستھان کے علاقے گجرات میں رہائش پذیر تھے۔ ریباری قبیلے کے افراد، ریکاس اور دیواسی کے ناموں سے بھی معروف ہیں۔ ان سے متعلق اساطیری داستانیں مشہور ہیں، جن میں بتایا گیا ہے کہ ہزاروں سال قبل ہندؤوں کے دیوتا، شیواجی نے انہیں اس لیے دھرتی پر اتارا تاکہ وہ پاروتی دیوی کے اونٹوں کی دیکھ بھال اور نگہداشت کریں، اس وقت سے وہ راجستھان کے علاقے میں مقیم تھے۔ ریباری قبائل اس وقت انڈین ریاست گجرات اور راجستھان کے علاوہ صوبہ سندھ کے ننگر پارکر، بدین اور عمر کوٹ اضلاع میں آباد ہیں۔
تھرپارکر میں بسنے والے ریباریوں کو ’پارکری ریباری‘ کہا جاتا ہے، جبکہ بیراجی علاقوں میں بسنے والوں کو ’سندھی ریباری‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس قبیلے کے لوگ ہندو مت کے پیروکار ہیں اور بھگوان شیو کے ماننے والے ہیں۔ ریباری کا مطلب ’باہر سے آنے والے‘ ہے۔
ریباریوں کی تاریخ اور ثقافت میں کئی کہانیاں چھپی ہوئی ہیں۔ ریباری قبیلے کی ایک روایت، جو آج بھی قائم ہے، وہ یہ کہ وہ اپنے قبیلے سے باہر شادی نہیں کرتے۔ کہا جاتا ہے کہ جب ریباری قبیلہ راجستھان میں آباد تھا، جیسلمیر کے ایک راجا کا دل ایک خوبصورت ریباری لڑکی پر آ گیا، لیکن ریباری قبیلے نے لڑکی کی شادی راجا کے ساتھ کرنے سے انکار کر دیا، کیونکہ ان کے اصول کے مطابق وہ اپنے قبیلے سے باہر شادی نہیں کر سکتے، چاہے وہ شخص شاہی خاندان کا ہی کیوں نہ ہو۔
راجا مسلسل دباؤ ڈالتا رہا لیکن ریباری کسی صورت یہ بات ماننے کو تیار نہیں ہوئے۔ راجا کے غضب سے بچنے اور لڑکی کی حفاظت کی غرض سے ریباری رات کی تاریکی میں اپنا گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے اور راجستھان سے نکل کر سندھ کے رن کچھ اور ننگر پارکر کے علاقے میں آ گئے
کہتے ہیں کہ راستے میں راجا کی فوج نے انہیں پکڑ لیا اور ریباری قبیلے کے کئی لوگوں کو قتل کر دیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مذکورہ لڑکی نے خود کو راجا کے حوالے کرنے کے بجائے زمین سے دعا کی کہ وہ اسے بچا لے، اور زمین اس کے قدموں تلے کھل گئی اور اسے نگل گئی۔
جبکہ ایک روایت کے مطابق، ایک بار ایک بادشاہ نے ریباریوں کو اپنی سلطنت میں زمین دینے کی پیشکش کی، لیکن ریباریوں نے اسے یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ وہ خانہ بدوش ہیں اور کسی مخصوص جگہ پر مستقل قیام نہیں کر سکتے۔
بہرحال ہجرت کے بعد یہ راجستھان سے نکل کر سندھ کے رن کچھ اور ننگر پارکر کے علاقے میں آئے، اس وقت یہاں سومرا خاندان کے دودو سومرو کی حکومت تھی، جنہوں نے اس قبیلے کو تحفظ دیا، جس کے بعد وہ اس کے راج میں بس گئے۔
ایک روایت کے مطابق جب علاءالدین نے دودو سومرو سے اس کی بہن باگھل بائی کا رشتہ مانگا، دودو سومرو کے انکار پر علاءالدین نے اس پر حملہ کر دیا۔ اس جنگ میں ریباری برادری نے دودو سومرو کا بھرپور ساتھ دیا، لیکن دودو سومرو کو شکست ہوئی اور وہ جنگ کے دوران جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ پارکری ریباریوں کے مطابق دودو سومرو کے سوگ میں ریباری خواتین نے سیاہ لباس اوڑھ لیا اور یہ سوگ صدیاں گزرنے کے باوجود آج تک جاری ہے
جبکہ اس سوگ کے بارے میں ایک روایت یہ ہے کہ ہجرت کے دوران راستے میں اپنے قبیلے کے لوگوں کے قتلِ عام اور لڑکی کے جان دینے کے واقعے کی وجہ سے کچھ کے علاقے میں ہجرت کرنے والی ریباری خواتین نے سوگ کی علامت کے طور پر سیاہ لباس پہننا شروع کیا۔
بہرحال ریباری قبیلہ گزشتہ سات صدیوں سے اپنی قدیم سماجی و ثقافتی روایات کے ساتھ زندگی گزار رہا ہے۔ اُن کی خواتین گزشتہ سات سو سال سے حالتِ سوگ میں ہیں اور سیاہ ماتمی لباس زیب تن کرتی ہیں اور یہ بات انتہائی حیرت انگیز ہے کہ سوگ منانے کا یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا آ رہا ہے۔
ریباری خواتین سیاہ گھاگھرا اور رنگین چولی پہنتی ہیں جب کہ اس پر سیاہ چادر اوڑھی جاتی ہے۔ دودو سومرو سے ان کی عقیدت کا یہ عالم ہے کہ اس کے غم میں شادی بیاہ کے موقع پر دلہنوں کو بھی سیاہ لباس پہنایا جاتا ہے۔ مرد لنگوٹ اور اس پر چھوٹی قمیض یا واسکٹ پہنتے ہیں، جس کے کناروں پر لیس لگی ہوتی ہے، اسے ’جھلوری‘ کہا جاتا ہے۔
اس قبیلے کی ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کا سماجی ڈھانچہ مادرسری ہے، جہاں خواتین کو بالادستی حاصل ہوتی ہے اور ان کی رائے کو بےحد اہمیت دی جاتی ہے۔ یہ پدرسری نظام کی ضد ہے جہاں تمام اختیارات مرد کے پاس ہوتے ہیں۔
تقسیم کے بعد، ریباری قبائل نے خانہ بدوشی ترک کر دی اور تھرپارکر (جو پہلے راجستھان کا حصہ تھا اور اب سندھ کا حصہ ہے)، بدین اور میرپورخاص میں گاؤں بسا لیے۔ گاؤں بسانے سے ان کا مقامی لوگوں کے ساتھ میل جول بڑھا اور ان کی طرزِ زندگی میں بھی تبدیلیاں آئیں۔
لہٰذا میرپور خاص اور بدین میں بسنے والے ریباری برادری کے لوگ سیاہ لباس نہیں پہنتے۔ کہا جاتا ہے کہ 1970 میں راجپوت اور سومرا خاندان نے ان علاقوں میں ریباری قبیلے کا صدیوں پراناسوگ ختم کرا دیا تھا، لیکن نگر پارکر کے ریباری اب بھی اپنی قدیم روایات پر کاربند ہیں۔ وہاں رہنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ بیراجی علاقوں میں جو ریباری رہتے ہیں، انہوں نے اپنا لباس تبدیل کر لیا ہے لیکن ہم ابھی بھی حالتِ سوگ میں ہیں۔
ننگرپارکر کے پہاڑی علاقوں میں ریباری قبیلے کے تقریباً دس گاؤں آباد ہیں۔ ایک غیرملکی جریدے کے مطابق کارونجھر کی پہاڑیوں کے دامن میں واقع ایک گاؤں کی رہائشی خواتین کا کہنا ہے کہ ان کے گاؤں میں چالیس گھر ہیں اور وہ کالے کپڑے طویل عرصے سے پہن رہے ہیں۔ یہ لوگ کالے کپڑوں کو اپنی مذہبی روایت اور ثقافتی شناخت کا حصہ سمجھتے ہیں۔
شادی میں دلہن کو جو کالے کپڑے پہنائے جاتے ہیں، وہ ریشمی ہوتے ہیں۔ شادی شدہ یا سہاگن خواتین ہاتھوں میں چوڑیاں اور کڑے پہنتی ہیں جب کہ بیوہ عورتوں کے ہاتھ خالی ہوتے ہیں۔ بچیاں رنگین کپڑے پہنتی ہیں، شادی ہونے پر سیاہ رنگ ان کے لباس کا حصہ بن جاتا ہے۔ شادی سمیت ہر خوشی میں سیاہ لباس ہی پہنا جاتا ہے۔
ریباری خواتین گھر گرھستی کے کاموں میں مہارت رکھتی ہیں۔ وہ کڑھائی کرتی ہیں، جو چادروں، تکیوں کے علاوہ کھڑکی کے پردوں پر بھی نظر آتی ہے۔ باورچی خانے کی سجاوٹ سے لے کر کھڑکیوں پر کچی مٹی گوندھ کر نقش و نگار بنائے جاتے ہیں۔
ان خواتین کے جسم پر سانپ بچھو، تاروں اور چاند سمیت مختلف علامات کے ٹیٹوز بنے ہوئے ہوتے ہیں، جو بلوغت کی عمر میں بنائے جاتے ہیں جن کا مقصد جادو اور بیماری سے بچنا ہوتا ہے۔
ریباری خواتین کے زیورات بھی مخصوص ڈیزائن کے ہوتے ہیں، جس میں موتیوں کے بجائے خالص سونا اور چاندی استعمال ہوتی ہے، یہ اس قدر بھاری ہوتے ہیں کہ کئی بزرگ خواتین کے کان لٹکے ہوئے نظر آتے ہیں۔
قبیلے والوں کے مطابق، پہلے کلو ڈیڑھ چاندی اور حیثیت کے حساب سے سونا دیا جاتا تھا لیکن مسلسل قحط سالی میں ان کے جانور مر گئے اب مشکل سے کپڑے ہی دیے جاتے ہیں۔
ریباری سخت پردے کے قائل ہیں۔ اس قدر کہ شادی میں بھی صرف مرد ہی دولہا کے ہمراہ جاتے ہیں جبکہ رخصتی کے وقت دلہن کے ساتھ ماموں یا بھائی آتا ہے جو لڑکی کو چھوڑ کر واپس جاتا ہے۔ بچپن میں کچے رشتے کر لیتے ہیں، لڑکی کے جوان ہوتے ہیں رختصی کر دی جاتی ہے۔
کچھ عرصے قبل تک یہ لوگ مال مویشی کا کاروبار کرتے تھے، دودھ، دہی، مکھن کے علاوہ جانوروں کی کھال، بھیڑوں کی اون کی خرید و فروخت کرتے تھے، لیکن گزشتہ عشرے سے جنگلات کی تعداد میں کمی اور تھر کے خطے میں مسلسل خشک سالی کی وجہ سے وہ اپنے مویشیوں سے محروم ہو چکے ہیں، اور وہ یہ کاروبار چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اب انہوں نے اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے دوسرے پیشے اختیار کر لیے ہیں۔
یہ صورت حال ان کے طرزِ زندگی میں تبدیلی کا باعث بنی ہے۔ تھرپارکر کے قریبی ضلع بدین میں ریباری مرد و خواتین دونوں کا لباس تبدیل ہو چکا ہے۔ خدشہ ہے کہ تھر میں بھی آنے والے سالوں میں یہ لباس اور روایت تبدیل ہو جائے گی اور ریباری قبیلہ اپنی انفرادیت کھو بیٹھے گا۔