رات کو تو چوہے سوتے ہیں (جرمن ادب سے منتخب افسانہ)

وولف گانگ بور خِرٹ (مترجم: امتہ المنان طاہر)


نوٹ: جنوری 1947ع میں لکھی گئی یہ مختصر کہانی ایک ایسے قصبے میں ترتیب دی گئی ہے، جسے جنگ کے دوران بم حملے میں تباہ کر دیا گیا ہے۔ ایک نو سالہ لڑکا اس جگہ کی حفاظت کر رہا ہے، جہاں اس کا مردہ بھائی چوہوں سے بچانے کے لیے ملبے کے نیچے پڑا ہے۔ ایک آدمی جو وہاں سے گزرتا ہے، وہ لڑکے کا اعتماد جیتنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ یہ دعویٰ کر کے کہ چوہے رات کو سوتے ہیں، وہ تھکے ہوئے لڑکے کو اپنی اس رکھوالی سے لے جاتا ہے اور اسے کھوئی ہوئی امید کا ٹکڑا واپس دلاتا ہے۔


تنہا دیوار کی پچکی ہوئی کھڑکی غروبِ آفتاب سے کچھ دیر پہلے کی دھوپ کے ارغوانی رنگ میں جمائی لے رہی تھی۔ عمودی اُٹھی ہوئی چمنیوں کی باقیات کے بیچ گَرد کا بادل جھلملا رہا تھا۔ ملبے کے ڈھیر اونگھ رہے تھے۔ اس نے آنکھیں بند کی ہوئی تھیں۔ یکایک شام کا جھٹپٹا گہرا ہو گیا۔ اسے محسوس ہوا کہ جیسے کوئی آیا تھا اور اب اس کے سامنے کھڑا تھا، تاریک، خاموش۔۔ اب انہوں نے مجھے ڈھونڈ لیا ہے، اس نے سوچا۔۔ لیکن جب اس نے کنکھیوں سے دیکھا تو اسے صرف پھٹی پرانی پتلون پہنے دو ٹانگیں دکھائی دیں۔ وہ اتنی ٹیڑھی تھیں کہ وہ ان کے بیچ میں سے سیدھا دوسری طرف دیکھ سکتا تھا۔ اس نے پتلون والی ٹانگوں سے اوپر نظر ڈالنے کا خطرہ مول لیا اور اسے ایک بوڑھا آدمی دکھائی دیا۔ اس کے ہاتھ میں ایک چاقو اور ایک ٹوکری تھی اور اس کی انگلیوں کی پوریں مٹی سے لپی ہوئی تھیں۔

”تم ضرور یہاں سوتے ہو۔۔۔۔ کیوں بھئی؟“ آدمی نے پوچھا اور اوپر سے اس کے بکھرے بالوں کو دیکھا۔

یورگن نے اس کی ٹانگوں کے بیچ میں سے گزر کر آتی ہوئی سورج کی روشنی میں آنکھیں مچکائیں اور کہا، ”نہیں میں سوتا نہیں۔ مجھے یہاں رکھوالی کرنی ہوتی ہے۔“

آدمی نے سرہلایا، ”اچھا، تو تم نے اس لیے یہ بڑی لاٹھی یہاں رکھی ہوئی ہے؟“

”ہاں۔“ یورگن نے بڑی بہادری سے جواب دیا اور لاٹھی کو مضبوطی سے پکڑ لیا

”تم کس چیز کی رکھوالی کرتے ہو؟“

”یہ میں نہیں بتا سکتا۔“ اس نے اپنی چھڑی پر ہاتھوں کی گرفت مضبوط کرلی۔

”یقیناً پیسوں کی، ہیں ناں؟“ آدمی نے ٹوکری نیچے رکھ دی اور چاقو کو اپنی پتلون پر کئی بار اِدھر اُدھر رگڑ کر صاف کیا۔

”نہیں ، پیسوں کی تو بالکل نہیں“ یورگن نے حقارت سے کہا، ”بالکل کسی اور چیز کی۔“

”تو پھر کس چیز کی؟“

”میں نہیں بتا سکتا۔۔۔ بس کوئی اور بات ہے۔“

”نہیں، تو نہ سہی۔۔ پھر ظاہر ہے کہ میں بھی تمہیں کچھ نہیں بتاؤں گا کہ میرے پاس اس ٹوکری میں کیا ہے۔“ آدمی نے ٹوکری کو پاؤں سے ہلکا سا ٹہوکا دیا اور چاقو کو بند کر دیا۔

”پُھو۔۔۔۔ میں بوجھ سکتا ہوں کہ اس ٹوکری میں کیا ہے۔“ یورگن نے حقارت آمیز انداز سے کہا، ”خرگوش کا چارہ۔“

”بخدا۔۔۔“ بوڑھے آدمی نے حیرت سے کہا، ”تم واقعی بڑے تیز ہو۔۔ تو تمہاری عمر کیا ہے؟“

”نو“

”اوہو۔۔۔۔ ذرا سوچو، نو سال، پھر تو تمہیں یہ بھی پتہ ہوگا کہ تین ضرب نو کیا بنتا ہے، ٹھیک؟“

”بالکل“ ، یورگن نے وقت لینے کے لیے کہا: پھر اور وقت لینے کے لیے اس نے کہا، ”یہ بہت آسان ہے۔“ اور اس نے بوڑھے آدمی کی ٹانگوں کے بیچ میں سے دیکھا۔

”تین ضرب نو؟“ اس نے ایک بار پھر پوچھا

”ستائیس! یہ مجھے پہلے ہی پتہ تھا۔“

”درست“ ، آدمی نے کہا، ”اور بالکل اتنے خرگوش میرے پاس ہیں۔“

یورگن نے اپنا منہ گول کرکے کہا: ”ستائیس؟“

”تم انہیں دیکھ سکتے ہو، ان میں سے کئی ابھی بہت چھوٹے ہیں، دیکھنا چاہتے ہو؟“

”لیکن میں نہیں دیکھ سکتا، مجھے یہاں رکھوالی کرنی ہے“ یورگن نے ہچکچاتے ہوئے کہا۔

”مستقل؟“ آدمی نے پوچھا، ”رات کو بھی۔۔“

”رات کو بھی، ہر وقت، ہمیشہ“ یورگن نے ٹیڑھی ٹانگوں سے اوپر دیکھا، ”ہفتے کے دن سے ہی“ اس نے سرگوشی کی۔

”لیکن کیا تم گھر کبھی نہیں جاتے؟ تمہیں کچھ کھانا بھی تو ہوتا ہے۔“

یورگن نے ایک پتھر اوپر اٹھایا، وہاں پر آدھی ڈبل روٹی پڑی تھی، اور ایک لوہے کا ڈبا۔

”تم سگرٹ پیتے ہو؟“ آدمی نے پوچھا، ”تو کیا تمہارے پاس ایک پائپ ہے؟“

یورگن نے اپنی لاٹھی مضبوطی سے پکڑ لی اور ہچکچاتے ہوئے کہا: ”میں سگریٹ بھر کر پیتا ہوں۔ پائپ مجھے پسند نہیں۔“

”افسوس کی بات ہے۔“ بوڑھا اپنی ٹوکری پر جھک گیا، ”تم بڑی خوشی سے خرگوش دیکھ سکتے تھے۔ خاص طور پر چھوٹے والے۔ شاید تم ایک اپنے لیے چُن لیتے۔ لیکن تم یہاں سے کہیں جا نہیں سکتے۔“

”نہیں۔“ یورگن نے اداسی سے کہا، ”نہیں ، نہیں۔“

آدمی نے اپنی نوکری لی اور اٹھ کھڑا ہوا، ”اچھا تو، اگر تمہیں ضرور یہیں پر رہنا ہے افسوس کی بات ہے۔“ اور وہ جانے کے لیے مڑا۔

”اگر تم میرا راز کھول نہ دو تو۔۔۔“ یورگن نے تیزی سے کہا، ”یہ چوہوں کی وجہ سے ہے۔“

ٹیڑھی ٹانگیں ایک قدم واپس آئیں ”چوہوں کی وجہ سے؟“

”ہاں، یہ مُردوں کو کھاتے ہیں۔ انسانوں کو۔۔۔۔۔ وہ اس پر زندہ رہتے ہیں۔“

”یہ کون کہتا ہے؟“

”ہمارا معلّم۔“

”اور تم چوہوں پر پہرہ دے رہے ہو؟“ آدمی نے پوچھا۔

”ان پر تو نہیں!“ اور پھر اس نے نہایت آہستگی سے کہا، ”میرا بھائی، وہ وہاں نیچے لیٹا ہوا ہے۔ وہاں۔“ یورگن نے اپنی لاٹھی سے گری ہوئی دیواروں کی طرف اشارہ کیا، ”ہمارے مکان پر ایک بم گرا تھا۔ اچانک ہمارے تہہ خانے کی بتّی بند ہو گئی تھی۔۔ اور وہ بھی۔۔ ہم نے بہت آوازیں دیں۔ وہ مجھ سے بہت چھوٹا تھا۔ صرف چھ سال کا۔۔ اسے یہیں کہیں ہونا چاہیئے۔ وہ مجھ سے تو بہت چھوٹا ہے۔“

آدمی نے اس کے سر پر بکھرے بالوں کو دیکھا۔ پھر اس نے اچانک کہا: ”ہاں، لیکن تمہارے معلّم نے تمہیں کبھی یہ نہیں بتایا کہ چوہے تو رات کو سوتے ہیں؟“

”نہیں۔“ یورگن نے سرگوشی میں کہا، اور وہ ایک دم بہت تھکا ہوا دکھائی دینے لگا، ”یہ اس نے نہیں بتایا تھا۔“

”ارے۔۔۔“ آدمی نے کہا، ”وہ کیسا معلم ہے، جس کو یہ بھی نہیں پتہ۔۔ رات کو تو چوہے سوتے ہیں۔ رات کو تم بے شک آرام سے اپنے گھر جا سکتے ہو، رات کو وہ ہمیشہ سوتے ہیں۔ جب تاریکی چھا جاتی ہے، تب ہی۔“

یورگن نے اپنی لاٹھی سے ملبے کے اندر چھوٹے سے گڑھے بنائے۔ ’یہ بہت سے چھوٹے چھوٹے بستر ہیں۔۔۔‘ اس نے سوچا، ’سب چھوٹے چھوٹے بستر۔۔۔‘

پھر بوڑھے آدمی نے کہا (اور اس دوران اس کی ٹیڑھی ٹانگیں بہت بے چین تھیں۔) ”تمہیں پتہ ہے کیا؟ میں اب جلدی سے اپنے خرگوشوں کو کھانا دوں گا، اور جب تاریکی چھا جائے گی تو میں تمہیں لے جاؤں گا۔ شاید میں ایک خرگوش کو ساتھ لے آؤں ۔ ایک چھوٹا سا، تمہارا کیا خیال ہے؟“

یورگن ملبے میں چھوٹے چھوٹے سوراخ کھودتا رہا۔ ”بہت سارے چھوٹے چھوٹے خرگوش، سفید، خاکی، خاکی سفید۔۔ مجھے نہیں پتہ۔۔۔“ اس نے آہستہ سے کہا اور ٹیڑھی ٹانگوں کی طرف دیکھا۔ ”اگر وہ رات کو واقعی سوتے ہیں تو۔“

آدمی دیوار کی باقیات کے اوپر سے چلتا ہوا سڑک پر چلا گیا۔

”بے شک۔۔“ اس کی آواز کہیں دور سے آئی، ”تمہارے معلم کو یہ کام چھوڑ دینا چاہیئے، اگر اس کو یہ بھی نہیں پتہ۔“

پھر یورگن کھڑا ہوگیا اور اس نے پوچھا، ”کیا مجھے ایک مل سکتا ہے؟ شاید سفید والا؟“

”میں کوشش کروں گا۔“ آدمی نے دور جاتے ہوئے آواز لگائی، ”لیکن تمہیں اتنی دیر یہاں انتظار کرنا ہوگا۔ پھر میں تمہارے ساتھ گھر جاؤں گا، سمجھ آئی؟ مجھے تمہارے ابا کو بھی سکھانا ہوگا کہ خرگوشوں کا ایسا ڈربا کیسے بناتے ہیں۔ اور یہ تمہیں بھی معلوم ہونا چاہیئے۔“

”ٹھیک ہے“ یورگن نے کہا، ”میں انتظار کروں گا۔ مجھے ابھی رکھوالی کرنا ہوگی، جب تک تاریکی چھا نہیں جاتی۔ میں ضرور انتظار کروں گا۔“
اور اس نے آواز دی،” ہمارے گھر میں تختے بھی ہیں، ڈربا بنانے والے تختے۔“ اس نے زور سے کہا۔

لیکن اس آدمی تک اس کی آواز اب نہیں پہنچ رہی تھی۔ وہ سورج کی طرف اپنی ٹیڑھی ٹانگوں کے ساتھ تیزی سے چلتا جارہا تھا۔ شام کی لالی پھیل چکی تھی اور اس کی ٹانگیں اتنی ٹیڑھی تھیں کہ ان کے بیچ میں سے یورگن دیکھ سکتا تھا کہ سورج کیسے چمک رہا تھا۔۔ اور آدمی کی ٹوکری جوش کے ساتھ آگے پیچھے جھول رہی تھی۔ اس کے اندر خرگوشوں کا کھانا تھا۔ خرگوشوں کا ہر چارہ ، جو گرد سے مٹیالا ہو چکا تھا۔

Original Title: Nachts schlafen die Ratten doch
English Title: Rats Sleep at Night
By: Wolfgang Borchert

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close