رومی سلطنت یورپ کی وسیع و عریض سلطنت تھی، جو مغرب سے مشرق تک پھیلی ہوئی تھی۔ یہ کئی ادوار سے گزری، جن میں ریپبلکن اور بادشاہت کے مختلف عہد شامل ہیں۔ اس کی تاریخ کے اہم کردار یہ ہیں: سلطنت کے عہدیدار، جن کا انتخاب الیکشن کے ذریعے ہوتا تھا۔ سینيٹ کا ادارہ اور مختلف عہدیدار جو سلطنت کا انتظام چلاتے تھے۔ ان میں مجسٹریٹس، سَنسر اور ٹریبون اہم تھے۔ فوج کا ادارہ انتہائی طاقتور تھا، کیونکہ یہ مسلسل جنگوں میں مصروف رہتے تھے۔ فتوحات کی وجہ سے مالِ غنیمت آتا تھا اور جنگی قیدی غلام بنائے جاتے تھے۔ معاشرے میں امیر اور غریب کے درمیان بہت فرق ہو گیا تھا۔
جو رومی سلطنت فتوحات کی وجہ سے وسیع ہوئی تو اُس کو سنبھالنا مشکل ہو گیا۔ یہی وسعت آہستہ آہستہ اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کا سبب بنی۔ فرانسیسی مُفکر مونٹیسکیو کہتا ہے کہ رومن ایمپائر کے زوال کے اسباب میں فوجی اخراجات کی زیادتی، اس کی بدعنوانی اور غدّاری تھی۔
برطانوی مؤرخ ایڈورڈ گِبن نے رومی سلطنت کے ارتکائی ذوال کا تجزیہ اپنی کتاب Decline and Fall of the Roman Empire میں کیا ہے، جو چھ جلدوں میں 1776ء اور 1788ء کے دوران چھپی۔
ایڈورڈ گِبن نے اپنی کتاب میں رومی سلطنت کے عروج کا ذکر نہیں کیا ہے، بلکہ اس کے زوال کے اسباب کا تجزیہ کیا ہے۔
رومن ایمپائر کے زوال کا ایک اہم سبب بادشاہت کے ادارے کی کمزوری ہے۔ بادشاہ کا انتخاب فوج ارو سینٹ کی منظوری سے ہوتا تھا۔ جو اُمیدوار فوج کو زیادہ سرمایہ فراہم کرتا تھا، فوج اُس کا ساتھ دیتی تھی۔ سینٹ فوج سے ڈر کر اُمیدوار کو حکمران تسلیم کر لیتی تھی۔ مالِ غنیمت کی وجہ سے اُمراء کے پاس بہت دولت آ گئی تھی۔ اس لیے وہ عیاشی اور آرام طلبی کے عادی ہو گئے تھے اور جنگ کی مشکلات برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ عام لوگ غربت اور مُفلسی میں رہتے تھے۔ اُن کے حکمران طبقے سے تعلقات خراب ہو گئے تھے۔ یہ غلام کھیتوں میں کاشت کاری بھی کرتے تھے اور گھریلو کاموں میں بھی مصروف رہتے تھے۔ ان کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے رومی خوفزدہ رہتے تھے کہ یہ بغاوت نہ کر دیں۔ 313 عیسوی میں جب قسطنطین کے بعد رومی ریاست مسیحی ہوئی تو اس کی وجہ سے بڑی تبدیلی یہ آئی کہ رومی افواج کی جنگجو صلاحیتیں کمزور پڑ گئیں کیونکہ مسیحی مذہب اَمن کو ترجیح دیتے تھے۔ رومی فوج اس وجہ سے بھی کمزور ہوئی کیونکہ اس میں مفتوح قوموں کے لوگوں کو شامل کر لیا گیا تھا۔
جب بھی کوئی سلطنت وسیع ہوتی ہے تو اس میں جگہ جگہ بغاوتیں ہونے لگتی ہیں۔ رومی سلطنت ان بغاوتوں کو ختم کرنے میں ناکام ہوئی۔ یہی وجہ تھی کہ اُس نے انگلستان پر اپنا قبضہ چھوڑ دیا اور واپس آ گئے۔ بغاوتوں کے علاوہ وباؤں اور بیماریوں نے بھی سلطنت کو کمزور کیا۔
ایڈورڈ گِبن نے نشاندہی کی ہے کہ مسیحیت کی وجہ سے جگہ جگہ راہبوں نے خانقاہیں قائم کر رکھی تھیں، جہاں دن رات وہ عبادت کرتے تھے۔ اس کی وجہ سے آبادی کا ایک حصہ صرف عبادت کرتا تھا۔ کسی پیدواری عمل میں حصہ نہیں لیتا تھا، اور ریاست پر بوجھ بن گیا تھا۔
جب سلطنت کمزور ہوئی تو یہ اپنا دفاع نہیں کر سکی۔ جرمن قبائل نے 410 عیسوی میں روم پر قبضہ کر کے شہر کو لوٹا۔ اُمراء فرار ہو کر اپنے دیہی محلات میں چلے گئے۔ جب لُوٹ مار شروع ہوئی تو روم کے غریب لوگوں نے بھی اس میں حصہ لیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جب عام لوگوں کو نظرانداز کر دیا جائے تو اُنہیں حکمراں طبقوں سے کوئی لگاؤ نہیں رہتا ہے۔ جرمن قبائل نے مغربی رومن سلطنت کو ختم کیا۔ مشرقی رومن سلطنت بازنطنین میں 1453ء تک رہی جسے ترکوں نے تباہ کر کے ختم کیا۔
ایڈورڈ گِبن نے اس کتاب کی تیاری میں رومی سلطنت کے تمام تاریخی مواد کا مطالعہ کیا۔ اس کی حالت پر بھی لکھا اور اس کے اردگرد جو دوسری سلطنتیں تھیں اُن کے بارے میں بھی معلومات فراہم کیں۔
اگرچہ رومی سلطنت کا زوال تو ہو گیا مگر خاص طور سے اٹلی کے معاشرے میں اس کی شان و شوکت کی یادیں باقی رہیں۔ جب میسولینی 1925ء میں اقتدار میں آیا تو اُس نے رومی سلطنت کے اَحیا کی کوشش کی۔ اُس کی تاریخ پر کانفرنسیں کروائیں۔ کتابیں لکھوائیں اور یہ تاثر دیا کہ وہ اُس کا وارث ہے۔ اگرچہ اس نے فتوحات کی کوششیں کیں۔ مگر ایتھوپیا میں اُسے شکست ہوئی اور لیبیا پر اُس نے قبضہ کر کے اُسے اٹلی کا حصہ بنایا۔
انگلستان بھی اپنے سامراجی دور میں رومی سلطنت سے مُتاثر تھا۔ اس کے آئی۔سی۔ایس افسروں کو خاص طور سے رومی تاریخ پڑھائی جاتی تھی تا کہ وہ اُس کو ماڈل بنا کر حکومت کریں۔ امریکہ کی آزادی کے بعد جب اس کا دستور تیار ہونا تھا تو امریکی سیاستدانوں نے رومی سلطنت کی انتظامیہ کی ساخت کا مطالعہ کیا، اور سینيٹ کا ادارہ متعارف کروایا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ رومی سلطنت زوال کے بعد بھی ایسے ادارے چھوڑ گئی جنہیں بعد میں یورپی حکومتوں نے اختیار کیا۔ جیسے 1799ء میں نیپولین نے اقتدار میں آنے کے بعد خود کو رومی اصطلاح میں کونسل کہا۔ سلطنتیں ختم ہو جاتی ہیں لیکن بعد میں اُن کی یادیں رہ جاتیں ہیں۔
ایڈورڈ گِبن کی کتاب روم زوال کے بعد جرمن فلسفی اوسوالڈ اسپینگلر کی کتاب زوال مغرب جو 1926ء میں چھپی اِس میں اُس نے آٹھ تہذیبوں کا تجزیہ کر کے اُن کے زوال کی وجوہات بتائی ہیں۔ برطانوی ادیب آرنلڈ جے ٹائن بی نے گیارہ جلدوں میں "A study of history” لکھ کر 23 تہذیبوں کا مطالعہ کیا۔ برطانوی مؤرخ پال کینیڈی نے ‘کتاب‘ بڑی طاقتوں کا عروج و زوال لکھ کر اس کے عمل کو بتایا ہے۔ کتاب ‘قومیں کیوں ناکام ہوتیں ہیں‘ کے مصنفین ڈارن ایسموگلو اور جیمز اے روبنسن کا تجزیہ پاکستان کے لیے بھی راہنمائی کا باعث ہے۔
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)