کیا ماحولیاتی تبدیلی سے بارشوں کا بدلتا پیٹرن بارانی علاقوں کی قسمت بدل سکتا ہے؟

ویب ڈیسک

موسمیاتی تبدیلیاں عالمی اور علاقائی دونوں سطحوں پر موسمی پیٹرن کو متاثر کر رہی ہیں، اور ان کی وجہ سے بارشوں کے پیٹرن میں بھی نمایاں تبدیلیاں دیکھی جا رہی ہیں۔ اس بات کا امکان موجود ہے کہ کچھ خشک یا بارانی علاقے مستقبل میں زیادہ بارشیں حاصل کر سکتے ہیں، لیکن اس بات کا امکان بھی ہے کہ کچھ علاقوں میں صورتحال مزید خراب ہو جائے۔ دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات پیچیدہ ہیں اور ہر علاقے میں ان کا اثر مختلف ہو سکتا ہے۔

پاکستان میں حالیہ چند سالوں میں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ہونے والی شدید مون سون بارشیں جہاں بیشتر علاقوں میں جانی و مالی نقصان کی وجہ بنی ہیں، وہیں بیشتر ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ یہ بارشیں ملک کے بارانی خطوں پر مثبت اثر ڈال کر ان کی قسمت بدل سکتی ہیں۔

پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات مختلف علاقوں میں مختلف ہیں۔ کچھ علاقوں میں بارشوں کی تعداد بڑھنے کی پیش گوئی کی جاتی ہے، جبکہ کچھ علاقوں میں خشک سالی کا خطرہ برقرار ہے۔ اگرچہ کچھ علاقوں میں بارش کے پیٹرن میں تبدیلیوں کی وجہ سے سبزہ بڑھ سکتا ہے، لیکن یہ صرف اس صورت میں ممکن ہوگا جب زمین کی زرخیزی اور پانی کی مناسب دستیابی موجود ہو۔

ماہرین کا خیال ہے کہ صحرائی اور خشک علاقوں میں جیسے تھرپارکر اور بلوچستان کے کچھ حصے، بارش کی مقدار میں اضافہ ہو سکتا ہے، جس سے زرعی مواقع بہتر ہو سکتے ہیں۔ تاہم، اگر بارشیں بے قاعدہ اور موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے شدید ہوتی ہیں، تو یہ فائدہ دیرپا نہیں ہوگا۔

پاکستان جیسے ممالک میں زرعی ترقی کے لیے موسمیاتی تبدیلیوں سے زیادہ اہم آبپاشی کے نظام، پانی کے ذخائر اور منصوبہ بندی ہیں۔ اگر ان وسائل کا بہتر استعمال ہو تو خشک علاقے سبزہ زار میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر دس سر فہرست ممالک میں شامل پاکستان کو شدید قدرتی آفات جیسے خشک سالی، سیلاب، ہیٹ ویو، فلیش فلڈز، سطح سمندر میں اضافے اور شمالی علاقہ جات میں برف باری کے اوقات میں تبدیلی جیسے واقعات کا سامنا ہے۔

انڈیپینڈنٹ میں شائع امر گرڑو کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2022 میں ملک بھر میں ہونے والی شدید بارشوں کے باعث ملک کے بیشتر حصوں میں سیلابی صورت حال پیدا ہوگئی تھی، جس کے باعث سینکڑوں اموات کے ساتھ ساتھ شدید مالی نقصان ہوا تھا۔

چین اور انڈیا کی طرح وسیع رقبے کے بجائے پاکستان جغرافیائی طور پر ایک لمبائی میں پھیلا ہوا ملک ہے، جس کے شمال میں دنیا کے بڑے پہاڑی سلسلے ہمالیہ، ہندوکش اور قراقرم اور جنوب میں بحیرہ عرب ہے۔

دریائے سندھ کے دونوں اطراف تقریباً ایک سو کلومیٹر تک دریائی پانی پہنچتا ہے۔ اس کے علاوہ پنجاب کے مشرقی حصے میں موجود بڑا رقبہ بھی دریا سے پانی حاصل کرتا ہے۔

لیکن جنوبی پنجاب میں دریائے سندھ کے مشرق میں واقع صحرائے چولستان، خیبر پختونخوا کے جنوب مشرق میں واقع بڑا رقبہ، ملک کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کا وسیع رقبہ، سندھ کے مشرق میں انڈین سرحد کے ساتھ پنجاب تک پھیلا صحرائی خطہ، دریائے سندھ کے مشرق میں بلوچستان کی سرحد کے ساتھ کھیرتھر نیشنل پارک کی حدود میں واقع کوہستان اور ضلع دادو میں کاچھو سمیت وسیع علاقہ بارانی ہے۔

ان خطوں میں دریا کا پانی نہیں پہنچتا اور یہاں زندگی کا دارومدار بارشوں پر ہے۔ ان بارانی خطوں میں تاریخی طور پر خشک سالی اور قحط عام بات سمجھی جاتی تھی۔

ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستان میں ہر سال شدید مون سون بارشوں کا ان بارانی خطوں پر کس طرح مثبت اثر پڑ رہا ہے؟

اس حوالے سے محکمہ موسمیات پاکستان کے سابق ڈائریکٹر جنرل، عالمی موسمیاتی تنظیم میں پاکستان کے مستقل نمائندے اور ماحولیاتی تبدیلی پر متعدد عالمی اداروں کے ساتھ تحقیق کرنے والے ماہر ڈاکٹر غلام رسول کہتے ہیں ”تاریخی طور پر پاکستان میں زیادہ مون سون بارشیں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں برستی تھیں۔ ہر سال اس موسم کے آغاز میں مون سون کے گیٹ وے کے طور پر جانے جانے والے کشمیر کے پہاڑوں سے ٹکرا کر اسلام آباد، فیصل آباد، ساہیوال سے پنجاب کے میدانی علاقوں میں بارشیں ہوتی تھیں۔ اس کے علاوہ اس سسٹم کا دوسرا حصہ ہندوکش کے پہاڑوں سے ٹکرا کر خیبر پختونخوا میں بارش لاتا تھا، جبکہ بلوچستان اور سندھ میں تاریخی طور پر مون سون بارشیں کم ہی ہوتی تھی۔ ان خطوں میں عام طور پر خشک سالی اور قحط ریکارڈ کیے جاتے تھے۔“

ڈاکٹر غلام رسول کا کہنا ہے ”1997 اور 1998 کے درمیان عالمی درجہ حرارت کو خطرناک حد تک بڑھانے والے موسمیاتی مظہر ’ال نینیو‘ کی شدت کے باعث دنیا کے موسم یکسر تبدیل ہوئے، وہیں اس کے زیر اثر پاکستان کو شدید خشک سالی کا سامنا کرنا پڑا۔ 1998 میں پاکستان شدید قحط سالی کا شکار ہوا، جس کے تحت سندھ کے صحرائے تھر سمیت تمام صحرائی علاقوں، پنجاب کے چولستان، تھل اور بلوچستان کے مختلف خطوں میں شدید قحط شروع ہوا، جو 2002 تک جاری رہا۔ قحط کے دوران غذائی کمی کے باعث ان خطوں میں متعدد انسانوں کی اموات کے ساتھ بڑی تعداد میں مویشی بھی مر گئے ہوئے، جو ان خشک خطوں میں روزگار کا بڑا ذریعہ سمجھے جاتے ہیں۔“

ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق: ”2000 کی دہائی سے پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلی کے باعث موسم تبدیل ہونا شروع ہوئے اور مون سون سسٹم کے تحت تاریخی طور پر پنجاب اور خیبرپختونخوا کے بجائے مون سون کی بڑی مقدار سندھ اور بلوچستان میں برسنے لگی۔ یہ تبدیلی 2011 کے بعد سے مسلسل چل رہی ہے

”2011 میں تھر پارکر کے ضلعی ہیڈکواٹر مٹھی میں تین سے چار روز میں 1400 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔ یہ ایک نیا ریکارڈ تھا، جو اس سے پہلے اس خطے میں نہیں دیکھا گیا۔ شدید بارشوں کے باعث صحرائی علاقے میں کشتیاں بھی چلیں۔

”2011 کے بعد سے سندھ اور بلوچستان کے خشک خطوں میں مسلسل بارشیں ہو رہی ہیں۔ 2020، 2022، 2023 اور اس سال بھی تاریخی طور پر خشک ان خطوں میں مون سون بارشیں ریکارڈ کی جارہی ہیں، جس کے باعث ماضی میں بنجر رہنے والے یہ خطے سر سبز ہو رہے ہیں۔“

پاکستان میں صحرائی علاقوں کی بات کی جائے تو یہاں سندھ، پنجاب اور بلوچستان میں منفرد صحرا واقع ہیں، جو ملک کے جغرافیائی و موسمیاتی تنوع کا ایک حصہ ہیں اور اپنے اندر مختلف قسم کی نباتات اور حیاتیات کی خصوصیات رکھتے ہیں۔

◉ سندھ کے مشرق میں انڈین سرحد کے ساتھ پھیلا صحرائے تھر، پاکستان کا سب سے بڑا صحرا ہے، جس کا دنیا میں بڑی انسانی آبادی رکھنے والے صحراؤں میں شمار ہوتا ہے۔

◉ سندھ کے جنوب میں واقع ایک صحرا ’رن آف کَچھ‘ ہے، جس کا بڑا حصہ انڈیا میں ہے، لیکن کچھ حصہ ضلع تھرپارکر میں واقع ہے۔ یہ نمکین زمین پر مشتمل ایک منفرد صحرا ہے۔

◉ سندھ کے شمال مغربی حصے میں ’صحرائے گوران‘ واقع ہے۔ یہ ایک چھوٹا اور نسبتاً کم مشہور صحرا ہے۔

◉ پنجاب کے وسطی حصے میں ’صحرائے تھل‘ واقع ہے۔ یہ دریائے سندھ اور جہلم کے درمیان واقع ہے اور اپنی منفرد ریتیلی زمین کی وجہ سے مشہور ہے۔

◉ پنجاب کے جنوبی حصے میں ’صحرائے چولستان‘ واقع ہے، جسے ’روہی‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

◉ بلوچستان کے مغربی حصے میں واقع ’صحرائے خاران‘ ایک بنجر اور خشک صحرا ہے، جو اپنی سنگلاخ اور صحرائی زمین کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔

یہ ذکر تھا پاکستان میں واقع صحراؤں کا۔۔ لیکن دنیا بھر کے صحراؤں کے حوالے سے ایک خیال یہ بھی ہے کہ صحرائے تھر دنیا کا ’قدرتی ہریالی والا واحد زرخیز‘ صحرا ہے۔ صحرائے تھر کو کرہ ارض پر موجود تین درجن کے قریب صحراؤں میں ’واحد زرخیز‘ صحرا مانا جاتا ہے، جہاں قدرتی طور پر بارش کے بعد سبزہ اگ آتا ہے۔

جبکہ دوسری جانب اسرائیل کے نیگیو صحرا کو جدید زرعی تکنیکوں جیسے ڈرپ ایریگیشن، پانی کو میٹھا کرنے کے لیے ڈی سیلینیشن اور ٹریٹ کیے ہوئے فضلے کے پانی کے استعمال کے ذریعے زرخیز اور پیداواری بنایا گیا ہے اور یہاں پھل اور سبزیاں کاشت کی جاتی ہیں۔

اسی طرح پیرو میں ایکا اور نازکا کے علاقوں کے ساتھ لگنے والے ساحلی صحرا کو زیر زمین پانی کے ذخیروں اور اینڈیز پہاڑوں سے نکلنے والے دریاؤں کے پانی کو استعمال کر کے زرخیز بنایا گیا ہے۔ قدیم تہذیبوں جیسے نازکا نے جدید آبپاشی نظاموں کا استعمال کیا اور پانی کے انتظام کے طریقوں کے ذریعے یہاں جدید زراعت بھی پروان چڑھی ہے۔

ان دونوں صحراؤں کو پانی کا بندوبست کر کے آباد کیا جاتا ہے، لیکن صحرائے تھر دنیا میں ایسا خطہ ہے، جہاں قدرتی طور پر بارش کے نتیجے میں سبزہ اگ آتا ہے۔

صحرائے تھر کی زرخیزی کے بارے میں ڈاکٹر غلام رسول کہتے ہیں ”تاریخی طور دریائے سرسوتی موجودہ صحرائے تھر کے درمیان سے گزرتا تھا، جو ہزاروں سال قبل گم ہوگیا، مگر دریائے سرسوتی نے اس صحرا کی ریت کے ساتھ مٹی شامل کر دی۔ اس مٹی کی وجہ سے یہ صحرا اتنا زرخیز ہے اور مسلسل بارشوں کے بعد اب یہ ایک آباد خطہ بنتا جا رہا ہے۔“

ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق ماحولیاتی تبدیلی کے باعث جہاں مون سون کی شدید بارشیں سیلاب اور تباہی کا سبب بن رہی ہیں، وہاں ان بارشوں کو خشک اور بارانی خطوں میں مواقع کے طور پر لینا چاہیے۔

وہ کہتے ہیں ”تھر جیسے خشک سالی کے شکار خطے میں ماحولیاتی تبدیلی کے باعث اب زیادہ بارشیں ہو رہی ہیں، لہٰذا یہاں چھوٹے چھوٹے تالاب بنانے کی ضرورت ہے۔ اس خطے میں روایتی طور پر ایسے قدرتی تالاب ہوا کرتے تھے، جنہیں مقامی زبان میں ’ٹوبا‘ یا ’ترائی‘ کہا جاتا ہے۔“

انہوں نے بتایا ”ان تالابوں کے باعث بارش کا پانی ایک جگہ کھڑا ہو کر سیم کر زمین کے اندر چلا جائے گا، جس کے باعث زیر زمین پانی کی سطح میں اضافہ ہوگا اور اس سے وہاں قدرتی طور پر سبزہ اگنا شروع ہوجائے گا۔ یہ سبزہ مویشیوں کے چارے کے طور پر کام آئے گا۔ ایسا کرنے سے اس خطے میں معاشی انقلاب لایا جاسکتا ہے۔“

ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق، ”اس عرصے کے بعد ان تالابوں میں مٹی جمع ہوگی اور تالاب کے برابر درخت اگ جائیں گے، جس کے باعث پانی بخارات کی صورت میں بھاپ بن کر اڑے گا نہیں اور یہ تالاب مستقل طور پر پانی سے بھرے ہوئے ہوں گی۔ اس پانی سے کھیتی باڑی بھی کی جاسکتی ہے۔“

ڈاکٹر غلام رسول کے بقول، ”حکومت صرف لوگوں کو ایک بار سکھا دے، باقی لوگ اپنی مدد آپ کے تحت کر سکتے ہیں۔“

ساتھ ہی انہوں نے کہا، ”اسی طرح بلوچستان کا پہاڑی علاقہ ہے، وہاں پہاڑی کے پتھر گھس کر زمین کو انتہائی زرخیز بنایا جا سکتا ہے۔ وہاں تالاب بنا کر بارش کا پانی جمع کرنے سے سبزہ اُگ سکتا ہے۔ اس سبزے سے ان خطوں میں روزگار کے بڑے ذریعے مویشیوں کو پالنے میں آسانی لائی جاسکتی ہے۔‘

بہرحال عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلیاں بارش کے پیٹرن کو غیر متوقع اور غیر مستقل بنا رہی ہیں۔ کچھ علاقوں میں بارشوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا ہے، جب کہ دوسرے علاقوں میں خشک سالی بڑھتی جا رہی ہے۔ اگرچہ زیادہ بارش کسی علاقے کو سبزہ زار میں بدل سکتی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ دیگر منفی اثرات بھی پیدا ہو سکتے ہیں، جیسے:

شدید بارشیں اور سیلاب: بارش کا غیر متوقع اور شدید ہونا زرعی اور دیگر معاشرتی انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

مٹی کا کٹاؤ: زیادہ بارش کی وجہ سے مٹی کا کٹاؤ ہو سکتا ہے، جس سے زرعی زمینوں کی پیداواری صلاحیت کم ہو سکتی ہے۔

نتیجہ یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں ممکنہ طور پر کچھ علاقوں کو زیادہ سبز بنا سکتی ہیں، لیکن یہ عمل پیچیدہ ہے اور دیگر معاشرتی اور ماحولیاتی عوامل پر بھی منحصر ہے، خاص طور پر پاکستان میں جہاں بارش کا پیٹرن غیر یقینی اور خشک سالی کے خطرات زیادہ ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close