1945ع کا سونامی اپنی آنکھوں سے دیکھنے والی بلوچستان کی نوے سالہ امینہ اور تازہ خطرہ

ویب ڈیسک

پسنی – صوبہ بلوچستان کے شہر پسنی میں اب بھی ایسے کچھ افراد حیات ہیں، جو سونامی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں، اور اس کی خوفناک یادیں آج بھی ان کے دل و دماغ میں اٹکی ہوئی ہیں. ان میں سے کئی اُس وقت چھوٹے تھے، لیکن مدھم یادیں اب بھی ان کے لاشعور میں محفوظ ہیں

جبکہ ان ہی میں سے ایک پسنی کی رہائشی نوے سالہ معمر خاتون امینہ سنہ 1945ع میں بلوچستان کے اس علاقے میں آنے والے سونامی کی چشم دید گواہ ہیں

امینہ نے سونامی سے جڑی تلخ یادوں کو کھنگالتے ہوئے بتایا ”رات کا وقت تھا۔ ہم سو رہے تھے کہ والدہ نے کہا اٹھو اٹھو زلزلہ آگیا ہے، ہم نے قرآن کی آیتوں کا ورد شروع کر دیا۔ باہر سمندر دور نظر آیا، جیسے زمین خشک ہو گئی تھی۔ پھر اچانک سے سمندر کی اونچی اونچی لہریں اٹھنے لگیں اور لوگوں نے آوازیں لگائیں کہ کسی اونچی جگہ پر پہنچو۔“

واضح رہے کہ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 1954ع میں آنے والے اس سونامی سے پسنی، گوادر اور دیگر علاقے بھی متاثر ہوئے تھے اس میں لگ بھگ چار ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے تھے

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے بزرگ امینہ سمیت مکران زلزلے کے چشم دید گواہوں کے انٹرویوز ریکارڈ کیے ہیں، جن میں انہوں نے اس روز کی روداد بتائی ہے

پسنی کے ایک اور رہائشی ہارون کا کہنا ہے کہ اس وقت ان کی عمر سترہ اٹھارہ ماہ ہو گی۔ انہیں چچا اور والد نے بچا لیا تھا، جبکہ ان کی والدہ چھ دیگر بہن بھائیوں سمیت بہہ گئیں

اس کے علاوہ ان کے بڑے چچا، دو پھوپھیاں اور ان کے چار بچے بھی اس میں ڈوب گئے۔ اس سونامی کے اثرات کراچی تک آئے تھے

محکمہ موسمیات کراچی کے ڈائرکٹر امیر حیدر لغاری نے اس پورے خطے کی ارضیاتی تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ 1808 میں ایران کے ساحل پر آنے والے زلزلے کے بعد سونامی نے جنم لیا تھا۔ اس سونامی کے ٹھیک 90 سال بعد 1897 میں مکران ساحل پر زلزلہ آنے پر بھی سونامی نے جنم لیا تھا۔ اس سونامی کے 48 سال بعد 1945 میں دوبارہ سونامی آیا، جس کے باعث پرانے اخبارات کے مطابق چار ہزار کے قریب اموات ہوئیں اور سونامی کراچی سے بھی ٹکرایا

ان کے مطابق: ’اس وقت کے لوگوں نے بتایا ہے کہ سونامی کے باعث سمندری لہروں کا پانی کراچی کے میری ویدر ٹاور تک گیا تھا، جبکہ اس وقت کراچی شہر تھا ہی ٹاور تک۔ کچھ ایسی بھی شہادتیں ملی ہیں کہ مکران ساحل سے جنم لینے والا 1945 کا سونامی ممبئی یا سابق بمبئی سے بھی ٹکرایا تھا۔‘

1945 کے سونامی سے متعلق زیادہ معلومات نہیں ہیں، جس کا سبب یہ ہے کہ قیام پاکستان سے قبل آنے والے اس بڑے زلزلے اور اس کے بعد بننے والے سونامی کو ریکارڈ رکھنے کے لیے نہ تو زیادہ تکنیکی سامان تھا اور نہ ہی سائنس نے اتنی ترقی کی تھی

اس وقت اس خطے میں موسمیات کا ایک بھی مرکز نہیں تھا۔ اس زلزلے کی شدت کا بھی بعد میں مکران کوسٹ پر زلزلے کے باعث پھٹنے والی زمین کو دیکھ کر اندازہ لگایاگیا تھا۔

1945 میں دنیا بھر کے ممالک دوسری عالمی جنگ کے باعث مصروف تھے، اس لیے اس زلزلے اور سونامی کے بارے میں کوئی زیادہ معلومات نہیں ملتیں۔ پاکستان کا پہلا موسمیاتی مرکز 1952 میں کوئٹہ میں قائم ہوا تھا

امیر حیدر لغاری کے مطابق: ’جس جگہ ایک بار سونامی آجائے تو وہاں بار بار آنے کے امکانات ہوتے ہیں۔ عام طور پر ارضیاتی ماہر سمجھتے ہیں کہ سونامی دوبارہ اس علاقے میں ایک صدی تک آتا ہے۔ 1945 کے سونامی کو 77 سال گزر چکے ہیں۔ اب کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کس وقت سونامی دوبارہ آجائے۔‘

اب بدقسمتی سے گوادر میں 12 جنوری کو رات دو بجے کے قریب 77 سالوں کے بعد آنے والا زلزلہ ایک بار پھر سونامی کے خدشات اور خطرات کو زیر بحث لایا ہے

پاکستانی ذرائع ابلاغ پر یہ خبریں گرم ہیں کہ کسی بھی وقت بلوچستان کے ساحل مکران پر بڑے زلزلے کے بعد سونامی جنم لے سکتا ہے اور اس سونامی سے کراچی کو بھی خطرات لاحق ہیں

ایک کثیرالاشاعت اخبار نے تو گوادر میں ہلکی نوعیت کے زلزلے کے جھٹکے کے بعد ’سونامی کا خطرہ منڈلانے لگا‘ جیسی سرخی بھی لگادی

اس حوالے سے ڈائریکٹر جنرل پاکستان میٹرولوجیکل ڈپارٹمنٹ محمد ریاض کا کہنا ہے کہ مکران کی ساحلی پٹی پر زلزلہ آنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ اُن کے مطابق اگرچہ اس کے صحیح وقت کا تعین مشکل ہے لیکن مکران ساحل کے سبڈکشن زون کی فالٹ لائن میں اتنی توانائی جمع ہوچکی ہے، کہ کسی بھی وقت زلزلہ آ سکتا ہے جو ایک سونامی لا سکتا ہے

محمد ریاض کے مطابق مکران کے ساحل کے سبڈکشن زون پر آٹھ یا اس سے زائد شدت کا زلزلہ آسکتا ہے، جو کراچی اور بلوچستان کی ساحلی پٹی کو متاثر کر سکتا ہے

اُنیوں نے بتایا کہ یہ فالٹ لائن اب اپنا قدرتی ’ٹائم اسکیل‘ مکمل کر چکی ہے اور سبڈکشن زون کافی سرگرم ہے اور شدت پکڑ رہا ہے، جس کی وجہ سے اب وہاں کسی وقت بھی زلزلہ اور پھر اس کے نتیجے میں سونامی آ سکتا ہے، جس کے نتیجے میں دس سے پندرہ فٹ بلند لہریں پیدا ہو سکتی ہیں

دوسری جانب کراچی یونیورسٹی کے جیوگرافی ڈپارٹمنٹ کے کا کہنا ہے کہ اس کا تخمینہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ کتنی توانائی پیدا ہوئی اور کتنی خارج ہوئی ہے، کس کو کیا پتہ کہ کل ہو جائے، پانچ سال کے بعد یا سو سال کے بعد، کوئی پیشگوئی نہیں کرسکتا۔ مکران میں جس طرح کا سبڈکشن ہے، ایسا ہی جاپان میں بھی موجود ہے، وہ بھی پیشن گوئی نہیں کر پاتے ہیں

پروفیسر ڈاکٹر محمد نعمت اللہ نے کہا کہ مکران میں زلزلے اور سونامی سے قبل 1935ع میں کوئٹہ میں زلزلہ آیا تھا، دس سال کے بعد سے کوئٹہ میں کوئی ’ایکٹویٹی‘ نہیں ہوئی، یہاں تو کئی فالٹ زونز ہیں، تو کسی میں بھی ’ایکٹویٹی‘ ہو سکتی ہے

ڈائریکٹر جنرل محکمہ موسمیات محمد ریاض کے مطابق ’پاکستان کے محکمہ موسمیات نے کئی سال قبل ارلی سونامی وارنگ مرکز قائم کیا تھا، اس مرکز کے تحت مشاہدے کے علاوہ عوام اور مختلف اداروں کو سونامی کے بارے میں معلومات دینے کے لیے مختلف سرگرمیاں بھی کی جاتی ہیں۔ اسی سلسلے میں چند روز قبل کراچی سونامی کی آگاہی کے لیے ایک ورکشاپ منعقد کی گئی تھی، جس میں مقامی صحافی بھی شریک ہوئے تھے۔‘

محمد ریاض نے بتایا کہ ’ورکشاپ کے دوران ماہرین نے 1945 میں بلوچستان کے مکران ساحل پر آنے والے زلزلے کے بعد پیدا ہونے والے سونامی کا بھی ذکر کیا جو کراچی تک بھی پہنچا تھا اور خدشہ ظاہر کیا کہ مستقبل میں بھی ایسا سونامی آسکتا ہے، جس سے کراچی کو بھی خطرہ لاحق ہوسکتا ہے

ڈائریکٹر جنرل محکمہ موسمیات کے مطابق: ’اس ورکشاپ کے بعد خبروں میں ایسا تاثر دیا گیا جیسے ہم نے مستقبل قریب میں سونامی آنے اور کراچی سے ٹکرانے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ سندھ اور بلوچستان کا ساحل سونامی زون میں آتا ہے اور یہاں سونامی آ بھی سکتے ہیں، مگر سونامی کب آئے گا؟ یہ بتانا ممکن نہیں ہے۔‘

امیر حیدر لغاری کہتے ہیں ’سونامی کے بعد مکران ساحل سے اونچی لہروں کو کراچی پہنچنے میں 30 سے 90 منٹ لگ سکتے ہیں، اس کا دارومدار زلزلے کی شدت پر ہے۔ کراچی سے ٹکرانے کے بعد سونامی کے باعث لہریں کم از کم 10 کلومیٹر اور زیادہ سے زیادہ 20 کلومیٹر اندر تک آسکتی ہیں۔‘

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہونے کے ساتھ تجارتی مرکز ہے، جہاں دو اہم پورٹ اور 129 کلومیٹر طویل ساحل پر بہت بڑی انسانی آبادی مقیم ہے، جس میں مچھر کالونی جیسی کچی آبادی، مچھیروں کی قدیم بستیاں اور ڈی ایچ اے اور کلفٹن جیسی پوش آبادیاں بھی موجود ہیں

مکران سبڈکشن کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان کا ساحلی علاقہ سبڈکشن زون میں شامل ہے، جو ایک ہزار کلومیٹر کی ایک پوری پٹی ہے، جس پر پاکستان کے ساتھ ایران، عمان اور بھارت بھی موجود ہیں

واضح رہے کہ سبڈکشن ایک ارضیاتی عمل ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب ایک سمندری پلیٹ نیچے کی جانب کھسکتی جاتی ہے۔ سبڈکشن زونز میں چونکہ سمندری پلیٹیں شامل ہوتی ہیں، تو وہ ان زلزلوں کے لیے مشہور ہیں، جو سونامی پیدا کرتے ہیں

پروفیسر نعمت اللہ نے بتایا کہ زمین کی تین باؤنڈریز ہوتی ہیں، ایک ڈائیورجن، کنوریجن اور ٹرانسفارم۔ اسی طرح کنوریجن میں دو تہیں ہوتی ہیں، ایک سبڈکشن اور ایک کولین زون کہلاتی ہیں۔ سبڈکشن کا عمل اس کو کہتے ہیں، جب ایک پلیٹ دوسری کے نیچے چلی جائے، جو آہستہ آہستہ نیچے ہوتی جاتی ہے

ان کے مطابق یہ عمل لاکھوں برس سے جاری رہتا ہے، سونامی تب پیدا ہوتی ہے جب دو بلاکس میں سے ایک نیچے چلا جائے اور دوسرا اوپر آجائے

ڈائریکٹر جنرل پاکستان ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی سندھ سید سلمان شاہ کا کہنا ہے کہ مکران کی ساحلی پٹی پر دو ٹیکٹونک پلیٹس ملتی ہیں اور گوادر کے جنوب میں تقریباً چالیس ناٹیکل میل کے فاصلے پر وہ پوائنٹ ہے جہاں یوریشین اور انڈین پلیٹس ملتی ہیں جو کہ سبڈکشن زون کہلاتا ہے

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ انڈونیشیا میں سنہ 2004ع میں سونامی اور اس کے نتیجے میں آنے والی تباہی کے بعد سمندر کے قریب واقع ممالک نے پیشگی اطلاع کے لیے ارلی وارننگ نظام قائم کیا

پاکستان میں محکمہ موسمیات کے سونامی وارننگ سینٹر کے سربراہ امیر حیدر کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے یو این ڈی پی کی جانب سے بیس ارلی وارننگ اسٹیشن قائم کیے گئے ہیں

انہوں نے بتایا کہ گوادر اور پسنی میں یو این ڈی پی نے سائرن لگائے ہیں۔ کراچی سینٹر میں بیٹھ کر ایک کلک پر سونامی سائرن چلائے جا سکتے ہیں، ہنگامی صورتحال میں شراکت داروں کی پوری فہرست ہے، جن کو ایک خودکار نظام کے ذریعے وارننگ الرٹ جاری ہوجائے گی

انہوں نے مزید کہا کہ زلزلے کے تین منٹ میں خودکار نظام کے ذریعے جمع تفریق (کیلکولیشن) ہو جاتی ہے، جبکہ مینوئل طریقے سے سات منٹ میں کر لیتے ہیں، دنیا میں جو سونامی ارلی وارننگ سینٹرز ہیں، ان کے ساتھ معلومات اور قابلیت کا تبادلہ کرتے ہیں

ماہرین کے نزدیک بلوچستان کی بندرگاہ اور چین پاکستان اقتصادی راہداری کا مرکز گوادر اپنے محل وقوع کی وجہ سے سونامی کے حوالے سے حساس سمجھا جاتا ہے

امیر حیدر کے مطابق گوادر دونوں طرف سے سمندر کے حصار میں ہے وہاں کی آبادی کو سائٹ ایریا بھی بنا کر دیا گیا ہے اور وہاں پر باقاعدہ سیڑھیاں بھی بنی ہوئی ہے، ہر علاقے کی مختلف سائئٹس ہیں، پہلے مرحلے میں کہاں جانا ہے، دوسرے مرحلے میں کہاں پہنچنا ہے اور انہیں بروشر بھی دیے ہیں کہ انہوں نے گھر سے کیا کیا چیزیں اٹھانی ہیں

واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی نے 2008ع میں گوادر میں پائلٹ پراجیکٹ شروع کیا، جس میں لوگوں کو سونامی کی آگاہی اور تربیت فراہم کی گئی، اس پراجیکٹ کی کوآرڈینیٹر غزالہ نعیم نے سنہ 1945 کے سونامی کے چشم دید گواہوں کے اپنی ٹیم کے ہمراہ انٹرویوز بھی کیے

غزالہ نعیم کے مطابق پچاس ہزار بچوں کو تربیت فراہم کی گئی ہے

مقامی اداکاروں کی مدد سے ڈرامہ بنایا گیا، جو کیبل کے ذریعے چلایا جاتا تھا اور دس کے قریب کتابچے معلومات اور کہانی کے طرز پر تحریر کیے گئے، گوادر کے علاوہ پسنی میں بھی لوگوں کو بتایا گیا کہ کس طرح نقل مکانی کرنی ہے اور کن مقامات کی طرف جانا ہے

غزالہ نعیم کہتی ہیں ”کام میں تسلسل نہیں ہے، پاکستان میں کئی ملین ڈالرز خرچ ہو چکے ہیں، جاپان سے لے کر یو این ڈی پی اور یونسکو تک کے منصوبے شروع ہوئے۔ ان میں حکومت ساتھ ہوتی ہے اور کام کرتی ہے، لیکن جب پراجیکٹ ختم ہو جاتا ہے، اس کا تسلسل برقرار نہیں رکھا جاتا ہے۔“

غزالہ نعیم کہتی ہیں کہ سونامی کی کچھ علامات ہیں۔ اگر زلزلہ محسوس ہو اور اتنا شدید ہو کہ آپ کھڑے نہ ہو پائیں تو فوری گھر سے نکل کر سمندر کی مخالف سمت میں جائیں، اگر مینگرووز ہیں تو اس کے پیچھے بھی جا سکتے ہیں، پسنی کے لوگوں نے بتایا تھا کہ انہوں نے ریت کے ٹیلوں کے پیچھے پناہ لی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ سنہ 1945 کے سونامی کے چشم دید گواہوں نے انہیں بتایا تھا کہ سمندر سے اتنا شور آ رہا تھا جیسے ہزاروں جہاز اور ٹرینیں ساتھ آرہی ہوں۔ سونامی میں سمندر پیچھے چلا جاتا ہے، آپ نے ڈر کر یا باعث دلچسپی سمندر کی طرف نہیں جانا ہے کیونکہ تھائی لینڈ میں سیاحوں نے سمندر کے بدلتے تیور میں دلچسپی لی اور جیسے ہی سمندر کا فرش خالی ہوا یہ سیپیاں جمع کرنے چلے گئے اور سمندر کی لہر اٹھی اور اپنے ساتھ پانچ ہزار سیاحوں کو لے کر گہرے سمندر میں چلی گئی

غزالہ نعیم کہتی ہیں کہ مکران میں زلزلہ رات کو آیا تھا اس وقت کوئی انتظامیہ نہیں جاگ رہی ہوتی، دوسرا دور دراز علاقے ہیں جہاں آمد و رفت کا کوئی مؤثر وسیلہ نہیں ہے، لہٰذا لوگوں کو شعور اور آگاہی دینے کی ضرورت ہے

ان کے مطابق ’سال میں کم از کم ایک بار تو اسکولوں میں ڈرل کی جائے اور انہیں بتایا جائے کہ ہنگامی حالت میں کہاں جانا ہے۔

انہوں نے کہا ”یہ بچے سفیر ہوتے ہیں یہ اپنے گھر میں جاکر یہ بتائیں گے اور یہ پیغام وہاں تک پہنچ جائے گا۔“

سونامی جاپانی زبان کا لفظ ہے، جس کی معنی ہیں خراب لہر۔ محکمہ موسمیات کراچی کے ڈائرکٹر امیر حیدر لغاری کے مطابق لینڈ سلائیڈنگ یا زلزلے کے باعث اگر پانی پریشر سے لہروں کی صورت میں خشکی پر آجائے تو اسے سونامی کہا جاتا ہے۔ عام طور پر سمندر میں انتہائی طاقتور زلزلے کے آنے کے بعد ہی سونامی جنم لیتا ہے

امیر حیدر لغاری نے بتایا: ’کسی طاقتور زلزلے، جس کی شدت سات یا اس سے زیادہ ہو اور گہرائی پینتیس کلومیٹر سے کم ہو تو اس کے بعد سونامی جنم لے سکتا ہے اور اس زلزلے کے باعث زمین ہلنے سے پیدا ہونے والی قوت پانی کو پریشر کے ساتھ خشکی طرف دھکیلتی ہے۔ اس قوت کے باعث بننے والی لہر اتنی طاقتور ہوتی ہے کہ اس سے پیدا ہونے والا سونامی کئی ممالک تک پہنچ سکتا ہے۔‘

کہا جاتا ہے کہ چند اقسام کے پرندوں، مینڈکوں اور دیگر جانوروں کو کسی زلزلے سے ایک دن پہلے پتہ چل جاتا ہے، مگر تاحال انسان زلزلے کی پیش گوئی کرنے کے قابل نہیں ہوسکا ہے

محمد ریاض کے مطابق دنیا بھر میں اس پر کام ہو رہا ہے کہ کس طرح زلزلے آنے سے پہلے اس کے وقت اور شدت کا اندازہ لگایا جاسکے

محمد ریاض نے بتایا کہ ’تاحال اس کا کوئی خاطرخواہ نتیجہ نہیں نکل سکا ہے، مگر اب سائنسی طریقے کے بعد شاید یہ ممکن ہوجائے۔‘

بلوچستان کے مکران ساحل پر کسی بڑے زلزلے کی صورت میں پیدا ہونے والے سونامی سے کراچی کو خطرہ ضرور لاحق ہوسکتا ہے

امیر حیدر لغاری کے مطابق: ’یہ تو نہیں بتایا جاسکتا کہ ایسا کب ہوگا، مگر چوں کہ مکران ساحل پر ماضی میں سونامی کی تاریخ رہی ہے تو دوبارہ سونامی آنے کا خدشہ تو ہے۔ مگر اس کی کوئی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی۔ مکران ساحل پر کسی بڑے زلزلے کے بعد سونامی بننے اور کراچی سے ٹکرانے کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔‘

امیر حیدر لغاری کے مطابق مکران ساحل پر دنیا کی تین اہم ٹیکٹونک یا ارضیاتی پلیٹوں کا ملاپ ہوتا ہے اور تینوں پلیٹس آپس میں دھنس رہی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ مکران ساحل ارضیاتی فالٹ لائن پر واقع ہے۔ ارضیاتی سائنس میں فالٹ کا مطلب ہے دو ارضیاتی پلیٹوں کا آپس میں دھنسنا

’جیسے انسانی ہڈی اگر ٹوٹ جائے اور اسے درست طریقے سے نہ جوڑا جائے بلکہ ایسے ہی چھوڑ دیا جائے اور ٹوٹے ہوئے حصے آپس میں دھنستے جائیں گے۔ بالکل اسی طرح ارضیاتی پلیٹس کے آپس میں دھسنے کو فالٹ کہا جاتا ہے اور جس جگہ پر فالٹ ہو اسے فالٹ لائن کہا جاتا ہے۔‘

بلوچستان کے مکران ساحل پر موجود فالٹس کے باعث اس علاقے کو ارضیاتی سائنس میں ’مکران سبڈکشن زون‘ قرار دیا گیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہاں ارضیاتی تحریک یا زلزلے آنا عام بات ہے

موجودہ جدید دور میں دنیا بھر کی ارضیاتی پلیٹس کی حرکت، اپنے جگہ سے سرکنے یا دو یا اس سے زائد پلیٹس کے آپس میں دھسنے کو گلوبل پوزیشننگ سسٹم یا جی پی ایس سے متعلق سٹیشن سے مانیٹر کیا جاتا ہے

امیر حیدر لغاری کے مطابق: ’محکمہ موسمیات پاکستان بھی گلوبل پوزیشننگ سسٹم یا جی پی ایس سے متعلق جدید سٹیشنز کی مدد سے مکران سبڈکشن زون کی نگرانی کررہا ہے۔‘

انہوں نے بتایا: ’اس وقت مکران سبڈکشن زون پر موجود ارضیاتی پلیٹس سالانہ 90 ملی میٹر کی رفتار سے حرکت کر رہی ہیں، جو اس ریجن میں آنے والے وقتوں میں کسی بڑے زلزلے کا الارم ہے۔‘

ارضیاتی پلیٹس کی حرکت کے باعث زمین کے اندر بے پناہ قوت اکٹھی ہو رہی ہے، جو کسی بڑے زلزلے کی صورت میں ایک دن پھٹ کر باہر آسکتی ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close