لوگوں کو ’نظربند یا ہپناٹائز کر کے لوٹنے‘ کے بارے میں ماہرین کیا کہتے ہیں؟

ویب ڈیسک

پاکستان میں چوری، ڈکیتی اور لوٹ مار کے کئی طریقے استعمال کئے جاتے ہیں اور ان پرانے طریقوں میں نت نئے طریقے بھی متعارف ہوتے رہتے ہیں۔

جدید ٹیکنولوجی بھی لٹیروں کو معصوم لوگوں کو لوٹنے اور ٹھگنے کے ڈیجیٹل مواقع فراہم کرتی ہے، لیکن لوگوں کو ان کی مال و دولت سے محروم کرنے کا ایک مبینہ پر اسرار طریقہ بہت پرانا ہے۔۔۔ وہ ہے، ’نظر بند کر کے لوٹنا‘، یعنی کسی کو ہپناٹائز کر کے لوٹنا۔

گزشتہ دنوں ایسا ہی کچھ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں بھی ہوا۔ اتوار کو ایس ایس پی ملیر ڈاکٹر عزیر احمد نے بتایا کہ اس نے مبینہ طور پر لوگوں کو ہپناٹائز کر کے لوٹنے والے گروہ میں شامل چھ خواتین کو پکڑ لیا ہے۔ یہ خواتین اس سے قبل اپنے گروہ کے ہمراہ کراچی، حیدرآباد، سکھر، لاہور اور پنجاب کے دیگر شہروں میں وارداتیں کر چکی ہیں۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ ڈاکوؤں نے ان کی قیمتی اشیا لوٹنے سے قبل انہیں ہپناٹائز یا نظر بند کیا تھا۔‘

پولیس کے مطابق گرفتار خواتین کے قبضے سے 40 لاکھ روپے ملے ہیں۔ گروہ واردتوں کے لیے کراچی آتا اور صدر کے سستے ہوٹلوں میں قیام کے دوران شہر کے مختلف حصوں میں ڈکیتیاں کرنے کے بعد واپس پنجاب میں اپنے گھروں کو لوٹ جاتا۔

پولیس نے بتایا کہ گروپ میں شامل خواتین مختلف بہانوں سے گھروں میں گھسنے کی کوشش کرتی تھیں۔ وہ اکثر نوکری مانگتیں، کپڑے سلانے کی پیشکش کرتیں یا مختلف کہانیاں سنا کر معصوم لوگوں کو باتوں میں الجھاتیں، اس دوران ان کے مرد ساتھ گھروں میں داخل ہو کر سامان لوٹ لیتے۔

نظربندی یا ہپناٹزم کے ذریعے لوگوں کو لوٹنے کے سلسلے میں اکثر یہ سوال بھی سامنے آتا ہے کہ آخر ایسا کیسے ہوتا ہے کہ متاثرہ شخص اپنا شعور کھو کر اپنے ہاتھوں سے سامنے والے کو اپنے پیسے تھما دیتا ہے۔۔

اس طرح لٹنےکی کہانیاں نئی نہیں ہیں۔ ایسی خبریں اکثر اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں۔

ایسا ہی ایک واقعہ 16 جون 2020 کو پاکستان کے صوبہ پنجاب کے جنوبی علاقے احمد پور شرقیہ کے قریب جی ٹی روڈ پر ایک چھوٹے سے قصبے ٹرنڈہ محمد پناہ میں پیش آیا۔

صبح کا وقت تھا گرمی کی حدت آہستہ آہستہ بڑھ رہی تھی۔ تبھی قصبے میں محمود الحسن کے چھوٹے سے سپر اسٹور پر ایک گاہک آیا اور کچھ چیزیں خریدیں۔ اس کے بعد ان کے ساتھ ایک ایسا واقعہ پیش آیا کہ وہ آج تک حیران ہیں کہ ان کے مکمل ہوش و حواس میں ہوتے ہوئے ان کے ساتھ اتنا بڑا دھوکہ کیسے ہو گیا۔

محمود الحسن نے یہ واقعہ یوں بیان کیا ”میں اپنے اسٹور کے کیش کاوئنٹر پر موجود تھا کہ ایک شخص دکان میں داخل ہوا اور اس نے کچھ راشن خریدا۔ وہ بہت ملنسار تھا۔ میں نے راشن کے پیسے لیے اور اسے جاتا دیکھ رہا تھا۔ اس شخص میں کچھ مختلف تھا۔ پانچ منٹ کے بعد وہ دوبارہ میری دکان کی طرف آتا دکھائی دیا، ابھی وہ دکان کے قریب پہنچا ہی تھا تو اس کے ہاتھ سے راشن گر گیا جو اس نے میری ہی دکان سے خریدا تھا۔ اس وقت میں دکان میں اکیلا تھا اور جیسے ہی اس شخص کے ہاتھ سے راشن کا تھیلا گرا میں کاؤنٹر کے پیچھے سے بھاگ کر اس کی طرف لپکا اور زمین پر گری چیزوں کو سنبھالنے میں اس کی مدد کرنے لگا۔ مجھے یہ یاد نہیں کہ اس کام میں کتنا وقت وقت لگا لیکن بہر حال چیزیں جب سمٹ گئیں تو اس شخص نے میرا شکریہ ادا کیا اور مجھ سے کوئی ایڈریس پوچھ کر وہاں سےچلا گیا۔“

محمود الحسن نے کو بتایا ”میں اس شخص کو اپنی آنکھوں کے سامنے سے جاتا دیکھ رہا تھا اور تھوڑی ہی دور ایک سلور کلر کی گاڑی کھڑی تھی، جس میں وہ جا کر بیٹھ گیا۔ اس گاڑی میں کچھ اور لوگ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ اس کے بیٹھتے ہی وہ گاڑی روانہ ہو گئی۔ اس واقعے کے ایک گھنٹہ یا شاید اس سے کچھ زیادہ وقت کے بعد میرے اسٹور میں اور گاہک آنا شروع ہوئے تو میں نے کیش کاؤنٹر کھولا۔ کیش کاؤنٹر کھولتے ہی میرا سر چکرا گیا۔ وہ خالی تھا!“

محمود الحسن کہتے ہیں ”کیش کاؤنٹر کو خالی دیکھ کر مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا ہوا ہے۔ اس میں موجود اچھی خاصی رقم کہاں چلی گئی تھی۔ ساتھ میں اپنی ایک اور دکان میں موجود اپنے بھائی کو بلا کر پوچھا کہ کیا وہ میری دکان میں آئے تھے اور کیا پیسے انہوں نے نکالے؟ کیونکہ ہم اکثر ایمرجنسی میں ایک دوسرے سے مدد لے لیتے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ پیسے انہوں نے نہیں نکالے۔“

اس کے بعد محمود الحسن کے سر میں درد شروع ہو گیا۔ ”دکان کھولنے کے بعد میں نے اپنے ہاتھوں سے کیش خود رکھا تھا بلکہ پیسے گنے بھی تھے۔ پورے 56 ہزار روپے تھے۔ مجھے تو یہ بھی یاد تھا کہ بڑے نوٹ کتنے تھے اور چھوٹے کتنے۔ اب اچانک مجھے کچھ یاد آنے لگا۔ جب میں اس شخص کی سامان اٹھانے میں مدد کر رہا تھا تو مجھے محسوس ہوا تھا کہ کوئی اور شخص میری دکان کے اندر گیا ہے لیکن اس وقت مجھے یہی لگا میرا بھائی ہوگا اور میں نے دکان کی طرف مڑ کے دیکھا بھی نہیں تھا۔“

حواس بحال ہونے پر محمود الحسن اور ان کے بھائی نے ان لوگوں کو ڈھونڈنا شروع کیا تو انہیں پتا چلا کہ اس صورت حال کا وہ اکیلے شکار نہیں تھے بلکہ ان کے علاقے میں دو روز کے اندر اس طرح کے پانچ واقعات ہو چکے تھے۔ لٹنے والے سبھی لوگوں نے ایک جیسا حلیہ اور طریقہ واردات بتایا۔

بہرحال پولیس نے بعد ازاں ان ملزمان کو گرفتار کر لیا، جو لوگوں کو ان کی نظروں کے سامنے دھوکہ دینے کے ماہر تھے۔ اور وارداتوں کے غیر روائتی طریقے استعمال کر رہے تھے۔

ان وارداتوں میں استعمال کیے گئے غیر روایتی طریقہ کار میں جو اہم بات سامنے آتی ہے کہ انہوں نے اپنے شکار کو ایسے الجھایا کہ انہیں واردات کا علم ہی نہیں ہونے دیا۔ بلکہ زیادہ اہم بات یہ تھی کہ لوگوں کے سامنے واردات ہوئی لیکن انہیں کافی دیر بعد اس کا ادراک ہوا جیسے انہیں ماؤف کیا گیا ہو۔

تو آخر یہ سب کچھ کیسے کیا جاتا ہے؟ پولیس کا ماننا ہے کہ منظم دھوکہ دہی کے اس طریقہ واردات میں ملزمان لوگوں کی نفسیات سے کھیلتے ہیں اور موقع ملتے ہی چوری کر لیتے ہیں۔

انٹرنیٹ پر ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں جن میں لوگوں نے بتایا ہے کہ کسی نے انہیں ہپنیٹائز کر کے لوٹ لیا۔

تو کیا واقعی کسی کو ہپنیٹائز یا نظر بند کر کے لوٹا جاسکتا ہے؟ کیا کوئی کسی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے اپنے آپ اور ارد گرد سے اتنا بے خبر کر سکتا ہے کہ کوئی اسے اپنی انگلیوں پہ نچائے۔۔ یہاں تک کہ، اسے لوٹ لے اور اسے پتا بھی نہ چلے۔

کراچی میں ایک ہسپتال سے منسلک ماہر نفسیات ڈاکٹر فیصل ممسا اس سوال کا جواب نفی میں دیتے ہیں

ڈاکٹر فیصل ممسا کا کہنا ہے کہ وہ خود ہپناٹائز کرنے کی تربیت رکھتے ہیں۔ لیکن، اس عمل کی افادیت کے قائل نہیں، اور جو ماہرین مریضوں کے علاج کے لئے انہیں ہپناٹائز کر کہ خواب جیسی کیفیت میں لے بھی جاتے ہیں تو اس کا ایک باقائدہ اور طویل طریقہ ہے، جس میں مریض معالج کے ساتھ بھرپور تعاون کرتا ہے اور یہ عمل مریض کی مرضی کے بغیر ممکن ہی نہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ان لوگوں کو ہپناٹائز کرنا ممکن ہوتا ہے جو کسی کے کسی بھی مشورے پر عمل کر لیتے ہیں۔

ڈاکٹر فیصل ممسا کہتے ہیں کہ لوگ لالچ، خوف یا کسی ٹھگ کی شعبدے بازی میں آ کر اپنی چیزوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، جیسے کسی ٹھگ نے اگر کسی کو ایک کرنسی نوٹ کو ہاتھ کی صفائی سے دو کر کے دکھا دیا اور کسی بھولے بھالے لالچی سے کہا کہ اپنا تمام زیور دے میں اسے بھی دگنا کر دوں گا اور اس طرح کی کسی حماقت سے لوگ اپنے مال سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ لیکن، بعد میں اپنی غلطی نہ ماننے کے لئے اور شرمندگی سے بچنے کے لئے ساری بات نظر بندی پہ ڈال دی جاتی ہے۔

ان کے برعکس پاکستان میں ہپناٹزم کے ماہر ڈاکٹر ابراہیم سیاوش کا کہنا ہے ”ہپناٹزم بنیادی طور پر ایسے نفسیاتی طریقہ کار کو کہتے ہیں جس میں کسی بھی شخص کے تحت الشعور کے ساتھ براہ راست ابلاغ کیا جا سکتا ہے۔ یعنی ایک شخص کے تحت الشعور میں کوئی بات داخل کی جا سکتی ہے۔“

وہ کہتے ہیں ”ہپناسز اصل میں ایک تبدیل شدہ حالت کا نام ہے۔ یعنی نہ تو آپ مکمل طور پر ہوش و حواس میں ہوتے ہیں اور نہ سوئے ہوئے ہوتے ہیں بلکہ نیم خوابیدہ قسم کی صورت حال ہوتی ہے جسے انگریزی میں ’آلٹر اسٹیٹ‘ کہتے ہیں۔ اس حالت میں دماغ بہت زیادہ تخلیقی ہوتا ہے۔ اس حالت میں لے جانے کے بعد ہپنا تھراپسٹ ایسے مثبت مشورے دماغ میں ڈالتا ہے جسے دماغ عام حالت میں قبول نہیں کر رہا ہوتا۔ ہپناٹز کرنے کے لیے اگلے شخص کا آلٹر اسٹیٹ میں ہونا ضروری ہے بعض لوگ اس حالت میں جلدی پہنچ جاتے ہیں اور کچھ تاخیر سے۔“

اوپر ذکر کیے گئے واقعے کے حوالے سے متعلق ڈاکٹر ابراہیم سیاوش نے کہا ”یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسے لوگ موجود ہو سکتے ہیں جو اس فن کے ماہر ہیں اور میں اس طرح کے واقعات پہلے بھی سن چکا ہوں۔ ان لوگوں کے پاس ایسی کوئی شناخت ضرور ہے جس سے یہ لوگ پتا چلا لیتے ہیں کہ کون شخص جلدی ہپناٹزم ہو سکتا ہے اور کون نہیں یہی وجہ ہے کہ وہ ہر کسی پر اس کو نہیں آزما رہے تھے۔“

ڈاکٹر ابراہیم سیاوش نے بتایا کہ پوری دنیا میں جرائم پیشہ لوگ ہپناٹزم استعمال کر رہے ہیں اور اس کے لیے وہ بہت زیادہ پریکٹس کرتے ہیں۔

ماہرین ہپناٹزم کو ایک طرح سے مظلوم سمجھتے ہیں کہ یہ ان چند علوم میں سے ہے، جن کے بارے میں عام لوگوں کے ذہن میں عجیب و غریب غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔

ہپناٹزم بھی ایک ایسا ہی علم ہے جس کا خیال آتے ہی ذہن میں ایک ایسے آدمی کا خاکہ ابھرتا ہے جو اپنے بڑے بڑے پُراثر ہاتھوں کو آپ کے چہرے کے گرد گھما گھما کر آپ کو اپنے قابو میں کر رہا ہے۔ ادھر آپ اس کے زیراثر آئے اور ادھر اس نے آپ سے یا آپ کے ذریعے کچھ غلط یا جرم کرایا یا لوٹ لیا۔

ہپناٹرم کی یہ تصویر تھیٹر، فلموں یا تماشوں کی دَین ہے جس کے نتیجے میں اس کارآمد علم کے بارے میں عوام میں غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں اور وہ اس سے پوری طرح مستفید نہیں ہو پاتے۔ ہپناٹزم کا تعلق ذہن سے ہے، اوریہ ذہنی امراض میں راحت دلا سکتا ہے۔

ہپناٹزم یونانی لفظ ’’ہپناسس‘‘ سے بنا ہے، جس کا مطلب ہے نیند یا خمار۔ انیسویں صدی میں ڈاکٹر جیمز بریڈ نے اس لفظ کو موجودہ معنی میں رائج کیا تھا۔ دورجدید میں ہپناٹزم کی شروعات آسٹریا کے ڈاکٹر فرانز انٹون میسمر نے انیسویں صدی کے اوائل میں کی۔

میسمر ایک ماہر روحانیات تھا۔ اس کے مطابق ہر شخص میں ایک مقناطیسیت ہوتی ہے، جو آدمی جتنا اعلیٰ کردار، پاک صاف اور عالم ہوتا ہے اتنی ہی زیادہ قوت اس میں پوشیدہ ہوتی ہے۔ اسی مقناطیسی قوت کو وہ اپنے جسم کے مختلف حصوں سے خارج کر کے اپنے معمول کو متاثر کر سکتا ہے۔ ہاتھ اور آنکھیں اس کام میں خاص طور پر معاون ہوتی ہیں۔

ڈاکٹر میسمر کا یہ فلسفہ اور طریقہ کار اس وقت اتنا مقبول ہوا کہ اسے باقاعدہ ایک علم تسلیم کر کے اس کا نام ’میسمریزم‘ رکھ دیا گیا جو آج بھی کہیں کہیں استعمال ہوتا ہے۔ چونکہ اس کی بنیاد سائنس و حقائق پر کم اور مفروضوں پر زیادہ تھی اس لیے یہ ٹھوس بنیاد نہ پا سکا اور روحانی حلقوں تک ہی محدود رہا۔

بعدازاں ڈاکٹر جیمز بریڈ نے اس عمل کو سائنسی پیرائے میں پیش کیا۔ انیسویں صدی میں جن دیگر حضرات نے اس علم کو فروغ دیا ان میں سگمنڈ فرائڈ قابل ذکر ہے۔

ہپناسس ’’نیند‘‘ کی ایک ایسی قسم ہے جو کہ مختلف طریقوں سے طاری کی جا سکتی ہے۔ شدت کے اعتبار سے یہ نیند اور بیداری کے درمیان واقع ہوتی ہے، یعنی ہپناٹزم کے زیراثر معمول (subject) کو نہ تو آپ بیدار کہہ سکتے ہیں اور نہ ہی وہ پوری طرح نیند میں ہوتا ہے۔ ہمارے جسم کے ظاہری اور باطنی افعال دماغ کے ذریعے کنٹرول کیے جاتے ہیں۔ بہت سے ماہرین کے مطابق لاشعور ذہن کا وہ حصہ ہے جس کا تعلق یادداشت سے ہے۔ ہم جو دیکھتے سنتے ہیں وہ ہمارے لاشعور میں جمع ہوتا رہتا ہے۔ شعور ہمہ وقت بیدار رہتا ہے۔ لاشعور کو بیدار کرنے کے لیے کچھ محنت کرنا پڑتی ہے۔

اسی طرح جیسے کسی پرانی بھولی بسری بات کو یاد کرنے کے لیے آپ کو ذہن پر زور ڈالنا پڑتا ہے۔ اس دوران لاشعور کو ٹٹولا جاتا ہے۔ نیند کے دوران شعور پُرسکون یا کافی حد تک بے عمل ہو جاتا ہے جبکہ لاشعور اس دوران اکثر بیدار ہو جاتا ہے۔ عموماً لاشعور کی بیدار ی ہمیں خواب دکھاتی ہے۔ جو باتیں ہمارے ذہن کے نہاں خانوں میں یا لاشعور میں محفوظ تھیں وہ شعور کے دبتے ہی ابھر آتی ہیں۔

شعور کے آرام کا نام ہی نیند ہے۔ ہپناٹزم میں مختلف طریقوں سے معمول کے شعور کو خاموش کر کے اس کے لاشعور کو بیدار کیا جاتا ہے۔ ہپناٹزم کی بنیاد ایما یا ترغیب (suggestion) پر ہے۔

یہاں ایک بات قابل وضاحت ہے۔ عموماً لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہپناٹزم کے کسی عامل کے پاس جائیں تو بس وہ ان کو قابو میں کر لے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک معمول کی رضا شامل نہ ہو، اس کو ہپناٹائز کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ کیونکہ جب تک معمول کا شعور بیدار رہے گا وہ نیند والی کیفیت میں نہیں جائے گا۔

ہپناٹزم کا استعمال مختلف بیماریوں کا علاج کرنے کے لیے کیا گیا،اور آج بھی محدود پیمانے پر یہ سلسلہ جاری ہے۔ اس کو ہپنوتھراپی کہتے ہیں۔ یہ ایک طرح کا نفسیاتی علاج ہوتا ہے۔ اس عمل کے لیے معمول کو عامل پر مکمل اعتماد اور یقین ہونا چاہیے۔ اسے پوری طرح ذہنی طور پر عامل کی طرف رجوع کرنا ہوتا ہے۔

معمول کو آرام دہ جگہ پر آرام دہ حالت میں رکھ کر عامل اس کے شعور کو غافل کرتا ہے۔ اس کام کے لیے ترغیب کا استعمال ہوتا ہے۔ معمول کو بار بار عامل یقین کے ساتھ کہتاہے کہ تمہیں نیند آ رہی ہے، تم سونے والے ہو، تمہاری آنکھیں بھاری ہو رہی ہیں، تم سو رہے ہو۔ اسی طرح کے اور بھی طریقے ہیں، جن کے نتیجے میں معمول پُرسکون ہو جاتا ہے اور نیند کی کیفیت میں چلا جاتا ہے۔ اس کیفیت کو ٹرانز کہتے ہیں۔ ایسے میں معمول کے شعور کا بڑا حصہ غفلت میں چلا جاتا ہے۔ اس حالت میں جب اس کو کسی بات کی ترغیب دی جاتی ہے تو اس کا ذہن بلا کسی تردید یا مخالفت کے اسے مان لیتا ہے۔ اس طرح یہ بات اس کے ذہن میں گھر کر جاتی ہے اور بیداری کے بعد بھی وہ اس پر عمل کرتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close