روبنسن کروسو (شاہکار ناول کا اردو ترجمہ) نویں قسط

ڈینیل ڈیفو / ستار طاہر

❖ طوفان

اچانک بجلی چمکنے اور بادل گرجنے لگے..
میں نے فرائیڈے سے پوچھا۔ ’’کیا باہر بادل چھائے ہوئے تھے؟‘‘
”ہاں ماسٹر‘‘ اس نے جواب دیا۔

وہ بہت خوش نظر آ رہا تھا ۔ اسے خوش دیکھ کر میرے دل کا بوجھ بھی اتر گیا ۔ ویسے بھی میں اتنا رویا تھا کہ اب صبر آ چکا تھا۔ موسم یکدم سرد ہوگیا ۔ سمندر کی طرف سے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا آ رہی تھی ۔ جانے طوطے کو کیا ہوا کہ مسلسل ٹیں ٹیں کرنے لگا۔ میں نے اسے پکڑ کر پنجرے میں بند کیا اور خاموش کرادیا ۔ کتا منہ اونچا کر کے کچھ سونگھتا ہوا بھونک رہا تھا۔ اسے بھی سختی سے ڈانٹا تو وہ چپ ہوگیا۔

بادل پہلے سے بھی زیادہ کڑاکے کے ساتھ گرجا اور بارش شروع ہوگئی ۔فرائیڈے نے لکڑی کی دیوار کے سوراخ سے آ نکھ لگا کر باہر دیکھا اور بولا،
”ماسٹر.. بڑی تیز ہوا چل رہی ہے…“
اس کے ٹوٹے ہوئے الفاظ میں پریشانی چھپی ہوئی تھی۔ میں نے اسے تسلی دی کہ اس جزیرے میں ایسی ہوائیں چلتی رہتی ہیں۔ بارش بہت تیز ہوگئی اور اس کی بوچھاڑ کیبن کی لکڑی کی دیواروں پر شور کے ساتھ پڑ رہی تھی۔ کیبن کی چھت میں نے درخت کی شاخوں اور لکڑی کے تختوں کو جوڑ کر بنائی تھی. اس پر بھی بارش تیزی سے گر رہی تھی۔

میں اس قسم کی بارشوں کا عادی ہو چکا تھا۔ فرائیڈے کے لئے بھی ایسی بارشیں عام تھیں، لیکن تھوڑی دیر کے بعد خود میں نے محسوس کیا کہ یہ بارش پہلی بارشوں سے مختلف ہوگئی ہے.. جوں جوں رات ہورہی تھی، ہوا کی تندی اور تیزی میں اضافہ ہو رہا تھا۔ سمندر میں بھی جیسے طوفان آ گیا تھا۔ لہریں چٹانوں سے ٹکرا کر شور پیدا کر رہی تھیں. فرائیڈے نے لکڑی کی پلیٹ میں بکری کے گوشت کے ٹکڑے رکھے اور پلیٹ میرے آگے کر دی۔ میں نے کچھ ٹکڑے کھائے اور پھر اپنے گھٹنے پر مچھلی کے تیل کی مالش کر نے لگا۔ جب شارک مچھلی نے کشتی الٹا دی تھی تو میرے گھٹنے میں چوٹ لگ گئی تھی اور درد ہوتا رہتا تھا۔ کیبن کے اندر ہوا کے تیز جھونکے چولہے میں آگ کو بھڑکا رہے تھے. فرائیڈے نے چولہے کے آگے پتھر کی سل رکھ دی کہ شعلے پھیل کر کیبن کو ہی آگ نہ لگا دیں.

ہوا کی تیزی اور زور میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا۔ گھنے اونچے درختوں کے جھولنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ بادل ایسے گرجتے تھے، جیسے آسمان پھٹنے والا ہے۔ بجلی یوں چمکتی کہ آنکھیں چندھیانے لگتی تھیں۔ بارش گویا اب آبشار کی طرح گر رہی تھی۔

تھوڑی دیر کے بعد کیبن کی چھت ٹپکنے لگی۔ فرائیڈے نے لکڑی کی ایک کھپچی لے کر اندر سے چھت میں اس جگہ گاڑ دی، جہاں سے وہ ٹپک رہی تھی. یوں چھت ٹپکنی بند ہوگئی.

مصیبت اس وقت آئی جب ہوا میں ایسی قوت اور تیزی پیدا ہوگئی کہ کیبن کو جیسے تھپیڑے مارنے لگی۔شدید طوفان آ چکا تھا۔ ہمارا کیبن ایک طرف سے چٹان میں پھنسا ہوا تھا۔ اس لئے اس کے ٹوٹنے کا خطرہ تو نہیں تھا. لیکن یہ خطرہ ضرور تھا کہ طوفانی ہوا کہیں کیبن کو ہی اڑا کر نہ لے جائے، کیونکہ دیواروں کی بنیادیں زمین میں گہری نہیں تھیں۔ ابھی یہ خیالات میرے دل میں پیدا ہی ہو رہے تھے کہ طوفانی ہواؤں کے ٹکراؤ سے اچانک لکڑی کی ایک دیوار کچھ اوپر اٹھ گئی.. جلدی سے اٹھ کر میں نے درخت کی ایک ٹوٹی ہوئی شاخ دیوار کے ساتھ اس طرح لگائی کہ ہوا کا سارا زور اب دیوار کے بجاۓ اس پر پڑے۔

طوفان بڑے زوروں کا تھا۔ یوں لگتا تھا کہ سارا جزیرہ ہل رہا ہے۔ درختوں کے جڑ سے اکھڑنے اور گرنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ سمندر کی لہروں کا شور بتا رہا تھا کہ سمندر جزیرے کے اندر پھیل رہا ہے..

پھر ایک نئے خوف نے مجھے پریشان کر دیا..
ہمارے کیبن کی چھت کے پاس ہی ایک بھاری گھنا درخت تھا، یہ ڈر پیدا ہوگیا کہ کہیں وہ درخت ٹوٹ کر چھت پر نہ گر جائے۔ ایسی صورت میں تو کیبن کا ٹکڑے ٹکڑے ہو جانا لازمی تھا۔ ہماری زندگیاں خطرے میں تھیں..!

میں نے فرائیڈے کو حکم دیا کہ وہ فوراً چولہے میں جلنے والی آگ بجھا دے۔ اس نے فوراً آگ بجھا دی۔
میں باہر نکلا۔ رسی کی سیڑھی پر چڑھ کر دیوار کے اوپر گیا اور اس درخت کو دیکھا۔ ج وکسی پا گل کی طرح تیز و تند طوفانی ہواؤں میں جھول رہا تھا۔ درخت بہت مضبوط اور بڑا تھا۔ بظاہر اس کے ٹوٹنے کا کوئی اندیشہ نہیں تھا، لیکن اس وقت ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے۔ ہماری زندگیاں خدا کے رحم و کرم پر تھیں کیونکہ درخت ٹوٹ کر چھت پر گرتا تو ہم اسے روک نہیں سکتے تھے ۔اس میں کچھ شک نہیں کہ جب سے میں اس جزیرے میں آیا تھا، میں نے ان گنت طوفان دیکھے تھے، لیکن ایسا طوفان پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔

وہ تمام چیزیں جن کے بھیگ جانے اور ناکارہ ہو جانے کا اندیشہ ہو سکتا تھا، ہم نے محفوظ کر کے چٹان کی کھوہ میں چھپا دیں.

سمندری طوفان کی شدت میں کوئی کمی نہ آ رہی تھی۔ پانی کی بوچھاڑیں مسلسل دیواروں سے ٹکرا رہی تھیں ۔ بار بار بجلی کوندتی تھی، بادل گرج رہے تھے۔ سمندری لہریں چٹانوں سے ٹکرا کر خوفزدہ کرنے والا شور مچا رہی تھیں. ایسے شور اور طوفان میں بھلا کسے نیند آ سکتی تھی، لیکن فرائیڈے نے مجھے کہا۔
”ماسٹر.. تم سو جاؤ.. میں جاگ کر پہرہ دیتا ہوں“
میں نے اسے بتایا کہ مجھے نیند نہیں آ رہی ہے.
آدھی رات کے بعد مجھے یوں لگا کہ جیسے طوفان میں کچھ کمی آ گئی ہے۔ دیکھا تو فرائیڈے گہری نیند سو رہا تھا۔ میں بھی اونگھنے لگا اور اونگھتے او نگھتے ہی دوبارہ سو گیا. جب آنکھ کھلی تو صبح ہو رہی تھی۔ آسمان پر اب بھی بادل چھائے ہوئے تھے۔ میں نے فرائیڈے کو جگایا۔ اٹھ جاؤ، صبح ہوگئی ہے.. طوفان بھی گز رگیا ہے.

فرائیڈے نے آنکھیں کھولیں اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگا. میں نے اسے صبح کا سلام سکھا دیا تھا، اس نے مجھے صبح بخیر کہا
میں نے اسے سلام کا جواب دیا. اس کے بعد وہ اٹھ کر ناشتہ تیار کرنے لگا. میں جائزہ لینے کے لیے کیبن سے باہر نکل آیا.

طوفان نے جزیرے میں تباہی مچادی تھی۔
کئی درخت ٹوٹے ہوئے، گرے پڑے تھے۔ ساحل کی ریت پر ان گنت سیپیاں اور گھونگھے بکھرے ہوئے تھے۔ چٹانوں کے پاس دو تین شارک مچھلیاں مردہ پڑی دکھائی دیں۔ واقعی رات کا طوفان بہت ظالم تھا۔ ایسا تباہ کن طوفان میرے سامنے تو اتنے برسوں میں نہ آیا تھا، جس نے جزیرے کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔

میں واپس آیا تو فرائیڈے ناشتہ تیار کر چکا تھا۔ ناشتے کے بعد ہم کام میں جٹ گئے۔ کیبن کی ضروری مرمت کی۔ دیوار جو کئی سے ہل گئی تھی، وہاں لکڑی کے کئی نئے تختے بنا کر پھنسا دیئے۔ چھت پر چڑھ کر اس کی مرمت کی۔ شام تک ہم دونوں ہی کاموں میں مصروف رہے.

شام کے کھانے سے پہلے میں ایک بار پھر دور بین لگا کر پہاڑی پر چڑھا اور سمندر کو دیکھنے لگا۔ سمندر پرسکون تھا۔ کوئی جہاز دکھائی نہ دے رہا تھا۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ برسوں کے بعد میں نے جو جہاز دیکھا تھا، شاید وہ اصلی جہاز نہ تھا، بلکہ میرا وہم تھا۔ میں سوچنے لگا کہ وہ جہاز حقیقت تھا یا میرا وہم…. اور ایسے خیالوں نے ایک بار پھر میرا دل بوجھل کر دیا.

❖ سہانا خواب

تین سال اور گزر گئے..
مجھے اس جزیرے میں رہتے ہوئے اب تیس برس ہو گئے تھے.. اب لندن کی گلیاں اور بازار اور اپنے باپ کی شکل میرے ذہن میں دھندلانے لگی تھی۔ اس عر صے میں فرائیڈے کو میں نے اتنی انگریزی بولنا سکھا دی تھی وہ اب اپنا مطلب بخوبی بیان کر سکتا تھا. فرائیڈے سے میں نے بھی تھوڑی بہت جنگلی بولی سیکھ لی تھی. اس کی باتوں سے میں نے یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ یہ ٹرینیڈیڈ خلیج اور فوکو میں واقع ہے. فرائیڈے سے مجھے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ اس کے قبیلے کا جزیرہ ہمارے جزیرے سے تھوڑے سے فاصلے پر ہی ہے۔

ایک دن اس نے مجھے بڑی تفصیل سے بتایا۔ ’’ماسٹر ہمارا قبیلہ بہت پرانا ہے اور آدم خور ہے۔ کوئی بھی باہر سے آنے والا آدمی ہمارے ہاتھوں بچ نہیں سکتا۔ گوروں کو تو بڑے شوق سے کھایا جاتا ہے۔‘‘

اس نے بتایا ”ان دنوں میں چھوٹا تھا۔ جب ایک بڑے طوفان میں راستے سے بھٹک کر ایک جہاز ہمارے جزیرے سے آ لگا۔ ہمارے قبیلے کے لوگوں نے جہاز کے ہر آدمی کو پکڑ لیا۔ ہر روز ایک آدمی قتل کیا جاتا اور اسے آگ پر بھون کر کھایا جاتا تھا۔ اس طرح پندرہ بیس دنوں تک خوب دعوتیں اڑائی گئیں۔“

جب میں نے فرائیڈے سے یہ پوچھا کہ اس نے بھی کبھی انسانی گوشت کھایا ہے، تو وہ بوکھلا گیا، پھر کہنے لگا۔
”ماسٹر، میں نے اپنی زندگی میں بس ایک دو بار انسان کا بھنا ہوا گوشت کھایا ہے ۔ یا پھر اس دن آپ کے سامنے کچا کلیجہ چبا ڈالا تھا، لیکن شوق میں نہیں بلکہ انتقام کی وجہ سے.. اصل میں میرے باپ کو انسانی گوشت پسند نہیں تھا…“

یکدم اس کے لہجے میں گرمی اور جوش پیدا ہوا، وہ کہنے لگا۔
”ہاں دل میں یہ آرزو ضرور ہے، کہ کسی دن اپنے دشمنوں سے بدلہ لوں، وہاں جا کر سردار کو قتل کرکے اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں اور لوگوں کا انتقام لوں۔‘‘
مجھے ایک بات سوجھی اور میں نے فرائیڈے سے کہا،
’’فرائیڈے کیوں نہ ہم ایسا کریں کہ ایک بڑی کشتی بنا کر خدا کا نام لے کر یہاں سے چل دیں۔ کسی نہ کسی طرح ہم ٹرینیڈیڈ کے ساحل تک تو پہنچ ہی جائیں گے۔ وہاں پہنچ جانے کی صورت میں ہم وہاں دن رات کام کریں، روپیہ جمع کریں.. پھر کرائے کے سپاہی بھرتی کریں۔ انہیں اسلحہ دے کر تمہارے جزیرے پر حملہ کر دیں۔‘‘

جاری ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close