ماہرینِ فلکیات کا کہنا ہے کہ زمین کو ایک اور چاند ملنے والا ہے جو آئندہ ہفتے سے اس کے مدار میں چکر لگانا شروع کردے گا۔
تو کیا آسمان پر بیک وقت دو دو چاند نظر آیا کریں گے؟ اور کیا یہ نیا چاند بھی کیا پہلے والے کی طرح روشن ہوگا؟ محققین اس کا جواب نفی میں دیتے ہیں
فلکیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین کو ملنے والا یہ نیا چاند دراصل ایک شہابیہ یا چھوٹا سا سیارچہ ہے، جس کا نام ’پی ٹی فائیو2024‘ 2024 PT5 ہے اور جسے عرفِ عام میں ’منی مون‘ یا ’چھوٹا چاند‘ بھی کہا جا رہا ہے۔
زمین کا پرانا ساتھی یعنی چاند، جو تقریباً چار ارب سال سے زمین کے ساتھ ہے، کے برخلاف یہ ’نیا چھوٹا چاند‘ صرف دو ماہ تک ہمارے ساتھ رہے گا اور پھر اپنے گھر کی طرف لوٹ جائے گا، جو کہ ہمارے سیارے کے پیچھے پیچھے سورج کے گرد مدار میں چکر لگانے والے سیارچوں کی پٹی میں واقع ہے۔
ایک سائنسدانوں کی ٹیم، جو کہ ’چھوٹے چاند کے واقعات‘ کے مطالعے میں ماہر ہے، نے اس آنے والے کششی قبضے کے واقعے کی نشاندہی کی ہے۔ انہوں نے 2024 PT5 کی غیر معمولی حرکیاتی خصوصیات کو اس وقت دیکھا جب وہ نئے دریافت شدہ اجسام کی عادات کو باقاعدگی سے مانیٹر کر رہے تھے۔
واضح رہے کہ زمین کے اس نئے مہمان کو امریکی خلائی تحقیق کے ادارے ناسا کی فنڈنگ سے تحقیق کرنے والے سائنس دانوں نے رواں برس اگست میں ایک تحقیق کے دوران دریافت کیا تھا اور اس کا نام 2024 پی ٹی ایس فائیو رکھا تھا۔
جنوبی افریقہ میں زمین کے گرد شہابیوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے والے سائنس دانوں کی یہ تحقیق امریکن آسٹرونومیکل سوسائٹی کے تحقیقی جریدے میں شائع ہوئی ہے۔
اس تحقیق کے مطابق یہ شہابیے نظام شمسی میں موجود ’ارجنا ایسٹرائیڈ بیلٹ‘ سے زمین کے مدار میں آئے گا۔
ناسا کے مطابق ایسٹرائیڈ، شہابیے یا سیارچے دراصل 4.6 ارب سال پہلے نظامِ شمسی وجود میں آنے کے بعد بچ جانے والا ملبہ ہے۔ یہ شہابیے بڑی تعداد میں خلا میں حرکت کرتے رہتے ہیں۔ واضح رہے کہ نظامِ شمسی میں ایسٹرائیڈ ایک ساتھ جہاں حرکت میں ہوتے ہیں انہیں ’ایسٹرائیڈ بیلٹ‘ کہا جاتا ہے۔
خلا اور فلکیات کے بارے میں تحقیقی مواد شائع کرنے والی ویب سائٹ ’اسپیس‘ سے بات کرتے ہوئے تحقیق کے سربراہ اور میڈرڈ یونیورسٹی کے پروفیسر فونیتے مارکوس کا کہنا تھا کہ زمین کے مدار میں آنے والا یہ شہابیہ ’ارجنا ایسٹرائیڈ بیلٹ‘ سے آیا ہے، جو کہ ایسی خلائی چٹانوں پر مشتمل ہے جو زمین کی مانند سورج کے گرد تقریباً 93 ملین میل (150 ملین کلومیٹر) کے فاصلے پر مدار میں چکر لگاتے ہیں“
انہوں نے کہا کہ سورج سے ڈیڑھ کروڑ کلو میٹر فاصلے پر موجود ایسٹرائیڈ بیلٹ کی گردش کا مدار زمین سے بہت مماثلت رکھتا ہے اور یہ زمین کے قریب پائے جانے والے شہابیوں اور دُم دار ستاروں کے گروپ میں شامل ہے۔
مارکوس نے وضاحت کی کہ ارجنا سیارچہ پٹی کے کچھ اجسام زمین کے قریب 2.8 ملین میل (4.5 ملین کلومیٹر) کی دوری تک پہنچ سکتے ہیں اور تقریباً 2,200 میل فی گھنٹہ (3,540 کلومیٹر فی گھنٹہ) کی رفتار سے سفر کر سکتے ہیں۔
”ان حالات میں، جسم کی ارضی کشش توانائی منفی ہو سکتی ہے، اور وہ عارضی طور پر زمین کا چاند بن سکتا ہے۔ یہ مخصوص جسم اگلے ہفتے سے اس عمل سے گزرے گا اور تقریباً دو ماہ تک رہے گا،“ انہوں نے مزید کہا، ”یہ زمین کے گرد مکمل مدار نہیں بنائے گا۔“
”آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر ایک حقیقی سیٹلائٹ ایک گاہک کی طرح ہوتا ہے جو کسی دکان کے اندر سامان خریدتا ہے، تو 2024 PT5 جیسے اجسام دکان کے شوکیس سے چیزیں دیکھنے والے گاہک ہوتے ہیں۔“
منی مون یا چھوٹا چاند کیا ہے؟
زمین کے قریب پہنچنے پر کوئی بھی شہابیہ یا تو اپنی حرکت جاری رکھتے ہوئے گزر جاتا ہے یا پھر اس کی سطح سے ٹکرا جاتا ہے، لیکن بہت کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شہابیہ یا سیارچہ زمین کی ثقلی کشش یا ’گریویٹیشنل پل‘ کی گرفت میں آ جائے۔
پلینیٹری سوسائٹی کے مطابق ایسے شہابیے کو منی مون کہا جاتا ہے، جو ثقلی کشش کی وجہ سے عارضی طور پر زمین کے مدار میں گھومنا شروع کردے اور یہ مدت اوسطاً ایک سال سے کم ہوتی ہے۔
فونیتے مارکوس کا کہنا ہے کہ ارجنا بیلٹ سے بعض اور اجسام زمین سے لگ بگھ پینتالیس لاکھ کلو میٹر کی رینج میں قریب آ سکتے ہیں۔ اس میں سے ’2024 پی فائیو‘ 29 ستمبر تک زمین کے مدار کے قریب آئے گا۔
فونیتے مارکوز کا کہنا ہے کہ منی مون کے زمرے میں آنے کے لیے اجرام فلکی میں سے کسی شہابیے یا سیارچے وغیرہ کا زمین سے 28 لاکھ میل کے فاصلے تک آنا ضروری ہے اور اس کی رفتار 22 سو ایم پی ایچ ہونی چاہیے۔
ان کے بقول ستمبر کے اواخر تک زمین کے قریب پہنچنے والا شہابیہ ان شرائط پر پورا اترتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے ’منی مون‘ کہا جا رہا ہے۔
تو کیا ہم دو چاند دیکھ سکیں گے؟ تو اجرامِ فلکی سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے بری خبر یہ ہے کہ تقریباً دو ماہ تک زمین کا دوسرا چاند تو ہوگا، لیکن اسے انسانی آنکھ سے دیکھا نہیں جا سکے تھے۔
تحقیق کے مطابق یہ ایسٹرائیڈ حجم میں بہت چھوٹا ہے اور اسے صرف خاص صلاحیت رکھنے والی ٹیلی اسکوپ اور دور بین سے ہی دیکھا جا سکے گا۔
محقیق نے بتایا ہے کہ ایسٹرائیڈ کا حجم ایک بس جتنا ہوگا جس کی لمبای 33 فٹ ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ زمین کے گرد پورا چکر کاٹنے کے بجائے گھوڑے کی نعل سے مشابہ دائروی حرکت کرے گا۔
تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ یہ ایسٹرائیڈ دو ماہ تک زمین کے مدار میں رہے گا اور اس کے بعد بھی چند ماہ زمین کے قریب ہی رہے گا، جس کے بعد 2055 میں اس کی دوبارہ زمین کے مدار میں آمد متوقع ہوگی۔
یہ تحقیق جریدے ’دی ریسرچ نوٹس آف دی اے اے ایس‘ میں شائع ہوئی ہے۔