کینجھر جھیل میں ’فلوٹنگ سولر پینلز‘ کا منصوبہ: ماحولی اور معاشی اثرات

ویب ڈیسک

رومانوی داستان نوری جام تماچی کے حوالے سے مشہور کینجھر یا کلری جھیل کراچی سے ایک سو بائیس کلومیٹر کے فاصلے پر ٹھٹہ کے ضلع میں واقع ہے، تقریباً 135 مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلی یہ جھیل محکمہ انہار (آبپاشی) سندھ کی ملکیت ہے، اس جھیل کو دریائے سندھ سے نکلنے والے کلری بگھیاڑ فیڈر یا کے بی فیڈر کے ذریعے پانی کی فراہمی ہوتی ہے۔

مقامی لوگوں کے مطابق صدیوں سے آباد سنیہری اور کینجھر جھیلیں دریائے سندھ کے راستہ تبدیل کرنے سے وجود میں آئی تھیں، جنہیں 1950ء اور 60ء کی دہائی میں ایک بند تعمیر کر کے آپس میں ملا دیا گیا تھا۔

1976ء میں اس جھیل میں پانی کی گنجائش بڑھائی گئی اور اسی سال ہی اسے رامسر سائیٹ ڈیکلیئر کیا گیا۔ کینجھر جھیل کو پہاڑی نالوں کے علاوہ کلری کینال کے ذریعے دریائے سندھ سے پانی مہیا کیا جا تا ہے۔

اس جھیل سے نہ صرف کراچی، ٹھٹہ اور نوری آباد کے لاکھوں لوگوں کو پانی کی فراہمی کی جاتی ہے بلکہ اس جھیل سے کئی ہزار ماہی گیروں کا روزگار منسلک ہے، ساتھ ہی کینجھر پودوں، پرندوں اور آبی حیات کا ایک بڑا مسکن بھی ہے۔

کینجھر جھیل ایک رامسر سائٹ ہے، جسے رامسر کنونشن، 1971 کے تحت تسلیم کیا گیا ہے۔ یہ رتبہ بین الاقوامی اہمیت کی ایک آبی ذخیرے کے طور پر اس کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ حکومت سندھ نے اس کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اسے جنگلی حیات کی پناہ گاہ کے طور پر تسلیم کر رکھا ہے۔ اس جھیل نے مختلف قسم کے ہجرت کرنے والے اور مقامی پرندوں کی اقسام، مختلف دیگر ویٹ لینڈ مخلوق اور ماہی گیری کے لیے ایک اہم مسکن کے طور پر کام کیا ہے۔

سردیوں کے موسم میں، یہ سائبیریا سے نقل مکانی کرنے والے پرندوں کے لیے ایک آرام گاہ بن جاتا ہے، جو اسے عالمی ہجرت کرنے والے پرندوں کے نیٹ ورک کا ایک اہم حصہ بناتا ہے’، جس سے دنیا کی حیاتیاتی تنوع میں بہت زیادہ تعاون ہوتا ہے۔

ایک طرف جہاں پانی کی کمی اور آلودگی کی وجہ سے پاکستان کی سب سے بڑی آب گاہ کینجھر کا مسقبل مخدوش ہو گیا ہے تو دوسری جانب حکومت اس پر ’فلوٹنگ سولر پروجیکٹ‘ شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، جس پر ماحولی ماہرین اور علاقہ مکین شدید خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔

باون سالہ انیس ہلیو کینجھر جھیل کنارے آباد گاؤں محمد یوسف ہلایو کے رہائشی ہیں ان کے گذر بسر کا واحد ذریعہ ماہی گیری ہے۔ لوک سجاگ میں شائع اشفاق لغاری کی رپورٹ کے مطابق انیس کے پاس تین کشتیاں ہیں، جن کی مدد سے جھیل سے مچھلیاں پکڑنا ان کا ذریعہ روزگار ہے۔ وہ اس جھیل کے تحفظ کے لیے سرگرم ’کینجھر کنزرویشن نیٹ ورک‘ نامی این جی او کے صدر بھی ہیں۔

انیس ہلیو کے مطابق انہیں گزشتہ سال پتہ چلا کہ سندھ حکومت کینجھر میں تیرتا ہوا (فلوٹنگ) سولر انرجی پراجیکٹ شروع کرنے جا رہی ہے، جس کی تصدیق تب ہوئی جب سندھ انوائرنمینٹل پروٹیکشن ایجنسی (سیپا) نے عوام سے رائے مانگی۔

سیپا کی ویب سائٹ پر موجود اشتہار کے مطابق عوامی شنوائی 12 جون 2024ء کو کینجھر جھیل پر واقع محکمہ آبپاشی کے ریسٹ ہاؤس پر منعقد کی گئی، جس کا اعلان اخبارات میں کیا گیا۔

اس عوامی شنوائی میں شرکت کے لیے انیس کو بھی دعوت نامہ موصول ہوا۔ انیس کے بقول، عوامی شنوائی میں بتایا گیا کہ کینجھر جھیل کا پانچ فیصد رقبہ فلوٹنگ سولر پینلز کے لیے استعمال ہوگا جو نوری کے مزار کے قریب پانی پر بنائے جائیں گے۔

انیس کا کہنا ہے ”مجھ سمیت اجلاس میں موجود مچھیروں اور کینجھر کے گرد و نواح کے باسیوں نے اس منصوبے پر تحفظات کا اظہار کیا۔“ لیکن ان کے تحفظات پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔

ان دنوں کینجھر سے اپنی روزی روٹی کمانے والے اس پریشانی میں مبتلا ہیں کہ ان کے تحفظات اور خدشات کو سنا ان سنا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جھیل ان سے چھن جائے گی یا پانیوں میں ان کا آنا جانا مشکل ہو جائے گا۔

یاد رہے کہ محکمہ توانائی سندھ، محکمہ آبپاشی، کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی (کے الیکٹرک)، سندھ ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیج کمپنی (ایس ٹی ڈی سی) اور گو انرجی پرائیویٹ لمیٹیڈ نے جون 2024ء میں ایک مشترکہ معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ معاہدے کے تحت کینجھر جھیل پر فلوٹنگ سولر پراجیکٹ شروع کیا جائے گا، جس سے پانچ سو میگا واٹ بجلی پیدا ہوگی، جو ایس ٹی ڈی سی جھیل سےتقریباً 60 کلومیٹر طویل 220 کے وی ٹرانسمشن لائن بچھا کر دھابیجی گرڈ اسٹیشن تک پہنچائی جائے گی اور وہاں سے ‘کے الیکٹرک‘ کو فراہم کی جائے گی۔

’گو انرجی‘ نے سیپا کو اس سولر منصوبے کے سماجی و ماحولیاتی اثرات پر مبنی جو جائزہ رپورٹ جمع کرائی ہے، اس کے مطابق جھیل کے کل رقبے یعنی تقریباً 33ہزار 280 ایکڑ (13468 ہیکٹر) میں سے لگ بھگ ایک ہزار 606 ایکڑ (650 ہیکٹر) علاقہ سولر پینلز کے لیے استعمال ہوگا۔

’گو انرجی‘ کی طرف سے یہ ’ماحولیاتی و سماجی مطالعہ‘ منصوبہ شروع ہونے سے پہلے سیپا قانون 2014ء کی شق 17 پر عمل درآمد کے ضمن میں کرایا گیا ہے۔

اس پراجیکٹ کے فوائد بتاتے ہوئے رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ”منصوبے سے پیدا ہونے والی بجلی کی قیمت کم ہوگی جس کا فائدہ صارفین کو ہوگا جبکہ سندھ حکومت کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوگا۔ کینجھر جھیل میں تعمیراتی کام کے دوران ڈھائی سے تین سو لوگوں کو کام ملے گا اور جب پراجیکٹ فعال ہوگا تو آپریشن، مینٹیننس کے لیے 50 مقامی افراد کو روزگار میسر آئے گا۔“

جائزہ رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ توانائی کا یہ منصوبہ فوسل فیول (کوئلہ، تیل و گیس) کی بجلی طرح مزید ماحولیاتی خرابیوں اور گلوبل وارمنگ کا باعث نہیں بنے گا۔

دوسری جانب سنجیدہ حلقوں کا ماننا ہے کہ یہ جھیل صرف پانی کا ذخیرہ اور لاکھوں لوگوں کو پانی کی فراہمی کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ کئی ملاحوں کی روزی روٹی کا مستقبل وسیلہ بھی ہے

ورلڈ والڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ نوری کا مقبرہ اور جھیل صرف مقامی ثقافت لوک کہانیوں کا محور ہی نہیں بلکہ پچاس ہزار سے زائد لوگوں کے روزگار کا ذریعہ اور سیر و تفریح کا مرکز بھی ہے جہاں ہر ویک اینڈ پر پندرہ ہزار سے زیادہ لوگ آتے ہیں۔

علاوہ ازیں لوک سجاگ میں شائع رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ورلڈ والڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے مطابق ستمبر 2006ء کے سروے میں جھیل کی علاقے میں علفیہ (Poaceae)، ایزویسیا (Aizoaceae)، کیکر، ببول (Acacia nilotica)، بہان (Populus euphratica)، ٹائیفا (typha، مقامی نام کوندر)، سرکنڈا (کانی یا تیلا)، لوٹس (کنول) سمیت مختلف گروپوں کے 136 پودے پائے گئے تھے۔

واضح رہے کہ جھیل کے کناروں پر کھلنے والے کنول (لوٹس) کے پھول اور پتے کئی طرح ادویات کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ کنول کی جڑ جسے اردو میں کملا ککڑی اور مقامی زبان میں ’بھے‘ کہا جاتا ہے، سبزی کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔

انیس ہلایو بتاتے ہیں کہ ٹائیفا، سرکنڈے سے مچھیرے اپنی جھگیاں جھونپڑیوں کی چھتیں بناتے ہیں، مرد و خواتین مل کر ان سے چٹائیاں، چھپرے، دروازوں اور کھڑکیوں کی چکیں بنا کر بیچتے اور اپنے خاندانوں کی روزی کماتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق لگ بھگ چوبیس کلومیٹر لمبی اور چھ کلومیٹر چوڑی جھیل کا پانی 26 فٹ تک گہرا ہے۔ یہاں دور تک پھیلی نباتات، سالانہ یہاں لاکھوں مقامی اور مہمان پرندوں کی میزبانی کرتے ہیں۔ 1988ء میں یہاں دو لاکھ پانچ ہزار پرندے گنے گئے تھے، جو 2006ء میں کم ہو کر 13 ہزار760 ہو گئے تھے۔

محکمہ جنگلی حیات سندھ ہر سال سردیوں میں پرندہ شماری کرتا ہے، جس کے مطابق 2020ء میں کیجھر جھیل پر 15 ہزار 274 پرندے رکارڈ کیے گئے۔ 2021ء میں یہاں 17 ہزار سے زائد پرندے دیکھے گئے تاہم گزشتہ سال 2023 میں یہ تعداد کم ہو کر پانچ ہزار 410 پر آگئی۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف نے 8-2007ء میں یہاں کی تفصیلی اسٹڈی کرائی تھی۔ یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ اس جھیل کے اندر اور ارد کے علاقے میں 26 اقسام کے بڑےاور 17 چھوٹے ممالیہ (جانور) پائے جاتے ہیں۔

اسی طرح یہاں ایمفیبین (پانی اور خشکی دونوں پر رہنے والے) اور رینگنے والے جانوروں کی کئی انواع بھی موجود ہیں، جن میں سے بعض انٹرنیشنل یونین آف کنزرویشن آف نیچر (آئی یو سی این) کی ناپید ہونے کے خطرے سے دوچار جانوروں کی ریڈ لسٹ میں شامل ہیں۔

ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کے مطابق کینجھر جھیل میں مچھلی کی پچپن انواع (خاندان/گروپ) ریکارڈ کی گئیں جن میں سب سے زیادہ سپرینی فارمز خاندان کی 45 فیصد مچھلیاں پائی جاتی ہیں۔ میٹھا ہونے کی وجہ سے کرڑو، موراکھی اور دئیو یہاں کی پسندیدہ اور خاص مچھلیاں ہیں۔

محکمہ فشریز سندھ بتاتا ہے کہ ڈیپارٹمنٹ نے مئی 2021ء سے مئی 2022ء تک کینجھر سے تین کروڑ 41 لاکھ چار ہزار 300 روپے مالیت کی 228.7 ٹن مچھلی پکڑی۔ جھیل میں شکار کے لیے ایک ہزار 350 کشتیوں کو لائسنس اور ماہی گیری کے لیے دو ہزار 265 مچھیروں کو اجازت نامے جاری کر رکھے ہیں۔

انیس ہلایو کے مطابق ویسے تو ایک کشتی کے ساتھ اس کے مالک اور دو مددگاروں کو اجازت نامے جاری ہوتے ہیں لیکن 50 فیصد شکار محکمے کے اجازت ناموں کے بغیر ہوتا ہے۔ جھیل کے گرد ونواح میں تقریباً 42 گاؤں آباد ہیں جہاں کے بیشتر لوگوں کا گذر جھیل کے وسائل پر ہی ہو رہا ہے۔

انہوں نے بتایا ”جھیل کے وسائل سے براہ راست پچاس ہزار سے زیادہ آبادی کے گھروں کے چولہے جلتے ہیں جبکہ ارد گرد آٹھ مچھلی منڈیاں جھیل کی مچھلی سے چلتی ہیں جن میں کھمبو میان، یوسف ہلایو میان، سونہری میان، کھپری میان، کھڈایوں میان، جھمپیر میان، مولڈی میان، ڈھور میان اور چلیا میان شامل ہیں۔“

انیس کے مطابق سولر منصوبے سے صرف مچھیرے متاثر نہیں ہوں گے بلکہ یہاں کی فطری زندگی چرند پرند، مچھلی، سبزہ، پودے گھاس سب پر اثر پڑے گا۔

انہوں نے کہا ”یہ روشنی اور ماحول دوستی کا کیسا منصوبہ ہے، جس کے لیے حکومت پہلے سے تنگ ہم مچھیروں کو کیوں دربدر کرنا چاہتی ہے۔“

انیس ہلایو کا کہنا تھا کہ حکومت اس جھیل کو نوری آباد اور کوٹڑی کے صنعتی اداروں سے خارج ہونے والی گندگی و زہریلے پانی سے محفوظ نہیں کر سکی مگر اب لگتا ہے کہ پورا کینجھر ہی مچھیروں سے چھیننے کا منصوبہ بنا چکی ہے۔

پاکستان فشر فوک فورم کے نوجوان چئیرمین مہران شاہ بھی انیس ہلایو سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا خیال میں یہ پانیوں پر قبضہ (اوشن گریبنگ) ہے۔ ان کا ادارہ جھیل کے اندر شمسی توانائی کا یہ منصوبہ لگانے کی مخالفت کرے گا۔ ”یہ صرف مچھیروں کے روزگار اور معاشی وسائل کا معاملہ نہیں ان کے باپ دادا کی میراث اور ثقافت کا بھی مسئلہ ہے۔ اس منصوبے سے جھیل پر گزر بسر کرنے والوں سے ان کی زندگی چھن جائے گی۔“

سعید احمد سیٹھار اپنے ایک مضمون میں’فنانشل ڈیلی انٹرنیشنل‘ میں لکھتے ہیں ”میں حیران ہوں کہ کینجھر جھیل پر ایک تیرتا ہوا شمسی منصوبہ کیسے تجویز کیا جا سکتا ہے اور اس کی ماحولیاتی اہمیت کے باوجود ایک نامزد وائلڈ لائف سینکچری اور دنیا کا ویٹ لینڈ اثاثہ ہے۔“

وہ لکھتے ہیں ”جھیل کا ماحولیاتی نظام نازک اور تبدیلیوں کے لیے انتہائی حساس ہے۔ جھیل کے 1/4 پر بڑے پیمانے پر تیرتے سولر پینل پلیٹ فارم کا تعارف اس توازن میں خلل ڈالے گا۔ یہ پینل سورج کی روشنی کو پانی تک پہنچنے سے روکیں گے۔ آبی نباتات اور حیوانات کی نشوونما کے لیے ضروری ہے، جو آبی حیات کے لیے جھیل میں فیڈ چین کی بنیاد ہے۔ سورج کی روشنی کے بغیر، یہ پودے روشنی سنتھیسائز نہیں کریں گے، اس کے علاوہ جھیل کی ثقافت کے لیے خوراک بھی۔ یہ پانی میں آکسیجن کی سطح میں کمی کا باعث بنے گا، جس کا اثر پورے ماحولیاتی نظام پر پڑے گا۔ یہ مچھلیوں اور دیگر آبی حیاتیات کو متاثر کرے گا جو اپنی خوراک، آکسیجن اور رہائش کے لیے ان پودوں پر انحصار کرتے ہیں۔“

کینجھر جھیل کی سماجی اقتصادی اہمیت کے حوالے سے سعید احمد سیٹھار کا کہنا ہے ”کینجھر جھیل نہ صرف ایک ماحولیاتی خزانہ ہے بلکہ ایک سماجی اقتصادی اثاثہ بھی ہے۔ اس نے کراچی، ایک میٹروپولیٹن اور پاکستان کے سب سے بڑے شہر کو پینے کا پانی فراہم کیا۔ اس جھیل نے گردونواح میں رہنے والے ہچاس سے زیادہ لوگوں کی روزی روٹی کو سہارا دیا۔ یہ کمیونٹیز ماہی گیری اور آبی پودوں کے لیے جھیل کے وسائل پر منحصر تھیں۔ تیرتا ہوا شمسی منصوبہ آمدنی کے دونوں شعبوں میں کمی کا باعث بنے گا اور رہائشیوں کو پہلے سے بھیڑ بھرے بڑے شہروں کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور کر دے گا۔“

وہ لکھتے ہیں ”ایک سیاحتی مقام کے طور پر جھیل کی ممکنہ اہمیت پر زور دینا قابل قدر ہوگا۔ اس کا مقام؛ کراچی کے قریب ہونے نے اسے عالمی معیار کے سیاحتی مقام کے طور پر ترقی کے لیے مثالی بنا دیا تھا۔ اس چھوٹے تیرتے سولر انرجی پلانٹ کو لگانا سیاحوں کے لیے اے سی وائلڈ لائف کے خزانے کے طور پر اس کی کشش کو ختم کر دے گا۔“

لاگت سے فائدہ کا تجزیہ کرتے ہوئے انہوں نے لکھا ہے ”لاگت کے نقطہ نظر سے، زمین پر مبنی پراجیکٹ کے مقابلے میں تیرتے شمسی پراجیکٹس کو انسٹال کرنا، چلانا اور برقرار رکھنا نمایاں طور پر زیادہ مہنگا ہوگا۔ سولر پینلز کے نیچے زیادہ نمی ان کی عمر کو کم کر دے گی، جس سے وہ زمین پر موجود پلیٹس کے مقابلے میں کم پائیدار ہو جائیں گے۔ تیرتے سولر پاور پلانٹس کو صرف دستیاب زمین کی کمی یا زرعی زمین کو بجلی پیدا کرنے کی سہولت میں تبدیل کرنے سے روکا جا سکتا ہے۔ اس معاملے میں، کینجھر جھیل سے دھابیجی گرڈ اسٹیشن کے کنیکٹنگ پوائنٹ تک بنجر زمین دستیاب تھی، جسے پراجیکٹ کی لاگت کی افادیت کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے تھا اور اس طرح پیداواری لاگت میں کمی آتی۔ تاہم، اس فلوٹنگ پروجیکٹ کو جھیل سے باہر جانے والی نہر سے دھابیجی پمپنگ اسٹیشن تک منتقل کرنے کا دوسرا آپشن تلاش کیا جا سکتا ہے، جس میں میرٹ کے اضافی نکات ہیں۔“

انہوں نے لکھا ہے کہ منصوبے میں ماہرین کی جانب سے تحقیق کی کمی اور نااہلی نظر آئی۔ مکمل معلومات اور اسٹیک ہولڈر کی مشاورت کا فقدان ہے۔ انہیں جھیل کی حیاتیاتی تنوع اور ماحولیاتی عدم توازن، سماجی و اقتصادی رکاوٹوں اور یہاں تک کہ لاگت کے فائدہ کے تناسب پر طویل مدتی منفی اثرات کی سنگینی کا احساس نہیں تھا۔

سعید احمد سیٹھار لکھتے ہیں ”ایسا لگتا تھا کہ اس طرح کے کمزور اور عجیب و غریب منصوبے کا آغاز ’گوگل سرچ‘ کا نتیجہ تھا، جہاں حکومت کے توانائی کے شعبے میں ’ریسورس پرسنز‘ نے جھیلوں پر شمسی توانائی کے تیرتے پلانٹس کا وجود پایا۔ ان کا خیال تھا کہ چونکہ کینجھر جھیل دنیا کی سب سے بڑی جھیلوں میں سے ایک اس ملک میں موجود ہے اس سے زیادہ کیوں نہ اس جھیل پر ایسا نظام شروع کر کے ہم دوسرے ممالک سے آگے نکل جائیں۔ یہ منصوبہ جھیل کی اہمیت اور گہرائی میں اس کا مطالعہ کیے بغیر ترتیب دیا گیا لگتا ہے۔“

انہوں نے لکھا ہے ”یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ منی گرڈ سٹیشن کے تصور کو اس پروجیکٹ سے کیوں جوڑا گیا ہے۔ منی گرڈ اسٹیشنوں پر انحصار کرنے کے بجائے براہ راست دور دراز علاقوں میں چھوٹے سولر پلانٹس کی تنصیب زیادہ پائیدار اور اقتصادی ہو گی۔ ٹرانسمیشن لائنوں پر لاگت کا خاتمہ۔ یہ نقطہ نظر دور دراز کی آبادیوں کے لیے بجلی کا مزید قابل اعتماد اور پائیدار ذریعہ فراہم کرے گا۔“

سعید سیٹھار کے مطابق، یہ قابل اعتراض ہے کہ تیرتے ہوئے شمسی توانائی کے منصوبے کو کینجھر جھیل پر کیوں منظور کیا گیا اور اسے صاف کیا گیا، جہاں زیادہ اقتصادی اور فائدہ مند سہولیات موجود تھیں۔ یہ تصور سے باہر ہے کہ سنگاپور کی ایک بین الاقوامی شہرت یافتہ کمپنی نے اس طرح کے عجیب و غریب اور ناقابل عمل منصوبے کو کس طرح صاف کیا اور آگے بڑھایا۔

وہ لکھتے ہیں ”اس میں کوئی شک نہیں کہ سولر انرجی پاور پروجیکٹ؛ جیسا کہ صاف اور سبز توانائی آج کی ضرورت ہے لیکن تیرتے ہوئے سولر انرجی پاور پروجیکٹ کی طرح انسٹال کرنا۔ خاص طور پر کینجھر جھیل پر تصور سے باہر ہے۔ جھیل پر اس کی تنصیب کا ایک بھی پہلو نہیں ہے۔ جنگلی حیات کی پناہ گاہ اور دنیا کی گیلی زمین کا اثاثہ قرار دیا گیا ہے۔ اگرچہ، جس کا مقصد سبز اور صاف توانائی کو فروغ دینا تھا، اس سے اہم ماحولیاتی اور سماجی اقتصادی خطرات لاحق ہیں۔ دوسری طرف بین الاقوامی معیار پر جھیل کی سیاحت کی صلاحیت کو تلاش کیا جا سکتا ہے، جس سے مقامی لوگوں کی آمدنی میں اضافہ ہو سکتا ہے اور اس کے ساتھ ہی کینجھر جھیل کے ماحولیاتی نظام کی حفاظت کی جا سکتی ہے۔
جھیل کے نازک ماحولیاتی نظام اور کمیونٹیز کی روزی روٹی کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ایسے ترقیاتی منصوبوں کا بغور جائزہ لیا جانا چاہیے۔“

وقار حسین پھلپوٹو، سیپا ہیڈ کوارٹر میں بطور ڈائریکٹر (ٹیکنیکل) کام کر رہے ہیں۔ وہ اعتراف کرتے ہیں کہ کینجھر جھیل ہجرت کر کے آنے والے پرندوں کا مسکن ہے۔ اگر یہاں سولر منصوبہ لگایا گیا تو امکان یہ ہے کہ پرندے یہاں سے گزرنا ہمیشہ کے لیے بند کر دیں۔ سولر پینلز سے منعکس ہونے والی روشنی کی چمک پرندوں کی آنکھوں پر پڑے گی جو ان کا یہاں سے گذرنا مشکل بنا دے گی۔ منصوبے کے ڈیزائن اور نقشے (دس لاکھ پینلز)کے تحت اس میں جھیل کا تقریباً 20 فیصد آجائے گا، کینجھر جھیل رامسر سائٹ میں ہے اور ہم اس معاہدے پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔“

وہ یہ بات بھی تسلیم کرتے ہیں کہ سولر پینلز سے ڈھکے ہوئے رقبے کے نیچے آبی حیات متاثر ہوگی۔ وہاں نہ مچھلی ہوگی اور نہ ہی پودے اور گھاس اگے گی۔

تاہم اس سب کے باوجود وہ ذرا مختلف انداز میں منصوبے کی حمایت کرتے ہیں: ”میرے خیال میں ایک ہی جگہ پلیٹس نہ لگائی جائیں بلکہ ان کو جھیل میں مختلف جگہوں میں بانٹا جائے اس سے جھیل کے اندر اور باہر کی زندگی کم متاثر ہوگی۔“

محکمہ جنگلی حیات سندھ کے ڈپٹی کنزرویٹر ممتاز سومرو کہتے ہیں ”سورج کی روشنی سولر پینلز کے نیچے پانی تک نہیں پہنچے گی، جس کی وجہ سے جھیل کے اس حصے کا پانی گدلا رہے گا اور وہاں کی آبی زندگی سخت متاثر ہوگی۔ کینجھر جھیل مہمان پرندوں کا اہم مرکز ہے جہاں اس منصوبے کے بعد ان کا راستہ اور خوراک متاثر ہو گی اور وہ یہاں آنا بند کر دیں گے۔“

وہ کہتے ہیں کہ صوبے میں ماحول دوست توانائی منصوبے وقت کی ضرورت ہیں تاہم اس پر کام کرتے وقت جنگلی حیات کے تحفظ کا خیال ضرور ذہن میں رکھا جائے۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف کے سینئر مینیجر کنزرویشن الطاف شیخ کا کہنا ہے کہ جھیل میں پہلے ہی پودے اور گھاس کم ہوتا جا رہا ہے۔ سولر منصوبے کی تعمیرات اور فعالی کے بعد جھیل کی نباتاتی زندگی سخت متاثر ہوگی۔ ”رامسر سائٹ اور وائلڈ لائف سینکچری پر ایسے کسی بھی منصوبے سے جھیل کے قدرتی ماحول کو خطرات ہیں۔ پراجیکٹ شروع کرنے سے پہلے یہاں حیاتیاتی تنوع (بائیوڈائورسٹی) کا مطالعہ ہونا چاہیے اور مقامی لوگوں کی رضا مندی حاصل کرنا ضروری ہے۔“

مندرجہ بالا حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ فلوٹنگ سولر پروجیکٹس (یعنی جھیل یا دیگر آبی ذخائر پر تیرتے سولر پینلز کی تنصیب) کے کئی منفی ماحولیاتی اثرات ہو سکتے ہیں، جیسا کہ:

1. آبی زندگی پر اثرات: فلوٹنگ سولر پینلز کی وجہ سے پانی کی سطح پر روشنی کا دخول کم ہو جاتا ہے، جس سے جھیل میں موجود مچھلیوں، پودوں اور دیگر آبی جانداروں کی نشوونما متاثر ہو سکتی ہے۔ روشنی کی کمی سے فوٹوسنتھیسز کا عمل سست ہو سکتا ہے، جس کا براہ راست اثر پانی کے اندرونی ماحولیاتی نظام پر پڑ سکتا ہے۔

2. درجہ حرارت میں تبدیلی: پینلز کی وجہ سے پانی کی سطح پر سایہ بننے کے باعث جھیل کا درجہ حرارت کم یا زیادہ ہو سکتا ہے، جس سے جھیل کے حیاتیاتی ماحول میں عدم توازن پیدا ہو سکتا ہے۔ زیادہ درجہ حرارت سے کچھ انواع کو خطرہ ہو سکتا ہے۔

3. آبی جانداروں کی نقل و حرکت میں رکاوٹ: سولر پینلز کے بڑے پلیٹ فارم آبی جانداروں کی نقل و حرکت کو محدود کر سکتے ہیں، خاص طور پر جب پینلز کا بڑا حصہ جھیل کی سطح پر پھیل جاتا ہے۔

4. مقامی پرندوں پر اثرات: پرندے جو جھیلوں یا آبی ذخائر کے ارد گرد رہتے یا شکار کرتے ہیں، ان کی پرواز اور نقل و حرکت پر سولر پینلز منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔ یہ پینلز پرندوں کے قدرتی مسکن کو کم کر سکتے ہیں یا ان کے شکار کے مواقع میں کمی کر سکتے ہیں۔

5. آبی بخارات میں کمی: فلوٹنگ سولر پینلز پانی کے بخارات بننے کے عمل کو کم کر سکتے ہیں، جو کہ کچھ ماحولیاتی نظام کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے، خاص طور پر جہاں آبی بخارات کا عمل قدرتی نظام کا حصہ ہوتا ہے۔

6. رہائشی جانداروں کے لیے شور اور آلودگی: سولر پینلز کی تنصیب اور بعد ازاں ان کی دیکھ بھال کے دوران شور، ہلچل اور ممکنہ کیمیائی آلودگی بھی جھیل کے قریب رہائش پذیر جانداروں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close