گُم ہونے کی جگہ ( ہندی ادب سے منتخب افسانہ)

کمار امبُج (ترجمہ: تصنیف حیدر)

اگر کسی شہر میں گُم ہوجانے لائق جگہیں نہیں ہیں تو وہ ایک ادھورا شہر ہے۔۔ بلکہ وہ کوئی وسیع ریگستان ہے، جہاں ریت ہی ریت اڑتی ہے، آنکھوں میں بھرجاتی ہے، پھر نیند میں اور خوابوں میں گھس جاتی ہے۔۔ جہاں دھوپ ہی دھوپ ہے، چھاؤں نہیں ہے۔ سراب ہے، پانی نہیں ہے۔جیسے درخت تو ہیں لیکن کھجور کے ہیں۔

انسان کی طرح گم ہو سکنے کے لیے شہر میں کچھ جگہیں تو خیر ہم کو ہی اپنی دلچسپی کے سبب دریافت کرنی ہوتی ہیں، جو کسی شہر میں کوئی معمار، منتری یا میونسپل کاؤنسل کا صدر نہیں بنا سکتا۔ ان کی کوئی اطلاع عام نہیں ہوتی۔۔ بس، وہ جگہیں شہر میں اپنے آپ بنتی چلی جاتی ہیں، جیسے ہمارے بدن میں گھاٹیاں، خندقیں، پتیاں، جھاڑیاں، گلیاں اور بیہڑ ہیں۔

میں ایک معصوم شہری اور پریشان حال انسان کی طرح کچھ دیر کے لیے اپنے روزمرہ میں گم ہوجانا چاہتا ہوں تاکہ اپنی قوتوں کو اکٹھا کرلوں اور خود کے بکھر گئے پرزوں کو بھی۔ دقت یہ ہے کہ گم ہونے کی یہ جگہیں روز بروز ختم ہو رہی ہیں یا ختم کی جارہی ہیں۔ قصے کو کچھ مختصر کیا جائے۔

(ایک)

بات تھوڑی سی پرانی ہے۔

ایک دوپہر میں بہت اداس تھا۔ اداسی کی ہیئت کچھ ایسی تھی کہ کسی دوست، رشتے دار یا شناسا سے نہیں ملنا چاہتا تھا۔ گھر نے مجھے گھیر لیا تھا اور میں بس تباہ ہی ہونے والا تھا۔ یہ اداسی کسی ٹائمر کی طرح میرے اندر لگ گئی تھی اور کوئی دھماکا ہو، اس سے پہلے ہی میں ایک گلی میں گُم ہونے چلا گیا۔ گم ہونے کے لیے یہ بہت مفید جگہ تھی، حالانکہ ادھر میں مہینوں بعد آیا تھا۔ یہ بہت پرانی گلی تھی۔ شہر بسنے کی شروعات میں جو گلیاں بنی ہوں گی، ان میں سے رہی ہوگی۔ جیسا عام طور پر بدلتی ہوئی گلیوں کے ساتھ ہوتا ہے، اس گلی کی چوڑائی لگاتار کم، زیادہ ہوتی رہتی تھی۔ کہیں سترہ فٹ تک تھی اور کہیں محض ڈھائی تین فٹ۔۔ اس گلی کی سب سے بڑی طاقت تھی کہ یہ دماغ کی نسوں جیسی پیچ دار تھی اور اچانک کہیں بھی مڑ جاتی تھی۔ اس میں بہت سی دوسری تنگ گلیاں اور یادیں آ کر ملتی تھیں۔ کچھ شاخوں کی طرح اور مناظر کی طرح اس میں سے پھوٹتی تھیں۔ اس لیے اچانک پن، تجسس، طمانیت اور تحیر کا بسیرا اس میں اپنے آپ ہو گیا تھا۔ یہ گلی میرے گھر سے کافی دور تھی۔ میری طرف کے لوگ ادھر نہیں آتے تھے۔ کبھی کبھار کوئی آتا بھی ہے تو شاید وہ گم ہونے کے لیے ہی آتا ہوگا، اس لیے ہم ایک دوسرے کو دیکھ کر پہچانتے نہیں تھے۔ کیونکہ ہم تو گمشدہ لوگ تھے اور یہاں کسی کو ڈھونڈنے کا کھیل نہیں کھیلا جاتا تھا۔

سب جانتے ہیں کہ تجربہ کار، تخیل پسند اور دکھی انسان کو گُم ہونے کے لیے روز کوئی نہ کوئی جگہ چاہیے۔ جس طرح آکسیجن، روٹی، پانی، بوسہ، نیند اور منجن چاہیے۔جیسے ہم اپنے ہی کسی دکھ کی جھاڑی میں، سکھ کی گلیوں اور امید کے جھرمٹ میں گم ہو جاتے ہیں۔ جیسے ہم ایک اجلی شام میں یا تاروں بھری رات میں گم ہو سکتے ہیں۔۔ یا کسی اپنے کی آغوش میں۔ ہم ہیں بھی، اور نہیں بھی ہیں۔ ہم اسی شہر میں ہیں لیکن ابھی کوئی ہمیں ڈھونڈ نہیں سکتا۔ ڈھونڈ بھی لے تو پا نہیں سکتا۔ یہ بھاگ کر گم ہونا نہیں، اجاگر ہو کر گم ہونا ہے۔اس طرح گم ہو جانے میں امکانات ہیں۔ نئے سرے سے واپسی ہے۔ اس طرح اسی جیون میں پھر سے ظہور پذیر ہونا ہے۔

ایسی جلیبی قسم کی گلیوں کی خاصیت ہوتی ہے کہ بار بار گزر کر بھی آپ ان گلیوں کی تھاہ نہیں پا سکتے۔ ان کے سارے اندھیرے، اجالے اور اسرار کو پا نہیں سکتے۔ یہ امر جوانیاں ہیں۔ ان کے رموز نِت نئے ہیں۔ اب آپ ایک پرانی، دیکھی بھالی گلی میں چل رہے ہیں اور ساتھ ساتھ ایک بے حد نئی، اچانک ابھر آنے والی اور چھومنتر گلی میں بھی۔ کندھے سے کندھا ملائے، ایک دوسرے کے اوپر گرتے پڑتے، نئے پرانے مکانوں کی یہ گلیاں گم ہو جانے کے لیے شاندار جگہیں ہیں۔ بس، آپ کو چلتے رہنا ہوگا۔ مٹ میلے، نارنگی، بینگنی اور پیلے رنگوں کی ساری شکلیں قدم قدم پر ملتی جاتی ہیں، لیکن لال نیلے ہرے کی بھی کوئی کمی نہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ بیچ گلی میں ہی بڑا سا دروازہ آ جاتا ہے اور اچانک آپ کسی گھر میں سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ اس گھر کے صحن میں سے ہوکر گلی آگے بڑھتی ہے، وہاں آ پ کو مونج کی کھٹیاؤں پر پاپڑ، بیڑیاں سوکھتی دکھیں گی، راہگیروں کی پروا کیے بنا، دوپہری کی گپ شپ کے ساتھ عورتیں گرہستی کے کام نمٹاتی رہیں گی۔ لذیذ کھانوں کی خوشبوئیں آپ کا پیچھا کریں گی۔ کبھی ایسا لگ سکتا ہے کہ آپ الف لیلہ کے کسی قصے کے منظر میں سے گزر رہے ہیں۔۔ یا آڑی ترچھی آرٹ گیلری میں سے۔ فیلنی، کیتن مہتا یا رِتوِک گھٹک کی فلم کے کسی فریم میں سے۔

اب گلی میں میں پوری طرح گُم ہو چکا تھا اور اپنی تجدید نو میں مصروف تھا۔ ساتواں یا آٹھواں موڑ آیا ہوگا کہ اچانک سامنے دو لحیم شحیم آدمی آ گئے۔ میں ڈر کر ٹھٹھک گیا۔ کچھ سمجھتا بوجھتا، اس سے پہلے اغل بغل کی گلیوں میں سے چار ویسے ہی آدمی اور نکل کر آئے۔ انہوں نے مجھے گھیر لیا۔ وہ مضبوط کاٹھی کے اور فوج کے جوانوں جیسا ہیئر کٹ لیے تھے۔ میرا پسینہ چھوٹ گیا لیکن میں نے سوچا کہ میں ایک سیدھا سادا شہری ہوں، میں بھلا ان سے کیوں ڈروں؟ ایک پل کے لیے یہ بھی لگا کہ کہیں یہ غنڈے تو نہیں ہیں۔ ان میں سے ایک قدآور آدمی نے کہا، ”معاف کریں، ہم آپ کا بہت دیر سے پیچھا کر رہے ہیں۔ آپ چاروں طرف ایک ایک چیز کو دھیان سے دیکھتے ہوئے اس گلی میں کیا کر رہے ہیں، کہاں جارہے ہیں؟“

میں نے جاننا چاہا کہ وہ لوگ کون ہیں اور کیوں یہ پوچھ تاچھ کی جا رہی ہے۔ قدآور آدمی نے اپنے سخت ملائم لہجے میں بتایا کہ وہ ’قومی حفاظتی دستے‘ کے افسران ہیں۔ میں نے چپ چاپ اپنا نام پتا بتا دیا۔ پورا تعارف دیا۔۔لیکن میں ڈر گیا تھا۔ اس خوف میں یہ تک بتا دیا کہ میری محض ایک پتنی ہے اور دو بچے ہیں اور بڑی بیٹی اس سال دسویں کلاس میں پورے ضلعے میں اول آئی ہے۔ ادھر ادھر کے رسوخ والوں اور جان پہچان والوں کا حوالہ دیا، پھر اپنا ڈرائیونگ لائسنس نکال کر دکھایا۔

وہ سب مسکرائے۔ قدآور شخص نے پھر کہا، ”جناب، ہم آپ کا چالان نہیں بنا رہے ہیں، ہماری بات کا سیدھا جواب دیں کہ آپ اس گلی میں اتنی دیر سے نگاہ بازی کرتے ہوئے کیوں گھوم رہے ہیں۔ آپ کا ارادہ کیا ہے؟“

کچھ سنبھل کر آہستہ آہستہ میں نے انہیں بتانے کی کوشش کی، ”یہ میری پسندیدہ گلی ہے۔ میں یہاں سے دور، شہر کے اس کونے میں رہتا ہوں لیکن یہی میری پسندیدہ گلی ہے۔“

۔۔۔منہ سے نکلنے کو ہی تھا کہ میں یہاں کبھی کبھی یوں ہی گم ہو جانے کے لیے آتا ہوں۔۔ لیکن لگا کہ ’گُم ہونا‘ کہنا تو حالات کو اور بگاڑ دے گا، کیونکہ کئی لوگ اس طرح گم ہونے کو چھپنا سمجھتے ہیں۔ اس لیے میں نے آگے بتایا کہ اس گلی میں گھومنا اچھا لگتا ہے۔ اور یہ کہ ’قومی حفاظتی دستے‘ کے لیے میرے دل میں بہت عزت ہے۔

میرا ڈر اپنا کام کر رہا تھا۔ ان میں سے محض ایک قدآور آدمی بول رہا تھا، گویا صرف اسے ہی بولنے کی اجازت حاصل تھی، ”ٹھیک ہے۔ سمجھ گئے۔۔ لیکن اب آپ فوراً یہاں سے واپس جائیے۔ یہ کوئی گھومنے یا چہل قدمی کرنے کی جگہ نہیں ہے۔۔ ویسے بھی یہ ایک خطرناک گلی ہے۔ یہ تو اچھا ہے کہ آپ کا چہرہ عجیب و غریب ہے، اسے دیکھ کر کوئی یہ طے نہیں کرسکتا کہ آپ کس طرف کے ہیں، ورنہ ابھی تک ہم آپ کی لاش برآمد کر رہے ہوتے۔ پچھلے چار مہینوں سے یہ گلی ہماری نگرانی میں ہے۔ اب آپ ان گلیوں میں یوں ہی نہیں گھوم پھر سکتے۔ یہاں کوئی گُم بھی نہیں ہو سکتا۔“

’ارے! انہیں کیسے پتا چلا کہ میں یہاں گم ہونے آیا ہوں۔۔‘ میں نے من ہی من حیرت کا اظہار کیا۔ دستے کے لوگوں کو شاید نفسیات میں ماہر بنایا جاتا ہے۔

میں کشمکش اور حیرت میں غوطے لگا ہی رہا تھا کہ قدآور شخص نے تحکم آمیز لہجے میں کہا، ”یہاں سے دائیں مڑ کر، مین روڈ سے اپنے گھر جائیں۔ آپ کے لیے یہ جگہ بالکل محفوظ نہیں۔“

پھر وہ چھ کے چھ لوگ غائب ہو گئے، جیسے وہاں کبھی تھے ہی نہیں۔ مجھے اس گلی سے باہر ہونا پڑا۔۔ تو میری یہ پسندیدہ اور شاندار گلی اب نگرانی میں ہے۔۔ اور گلیاں کب سے خطرناک ہونے لگیں؟ میں نے تو اس سمت کبھی توجہ ہی نہیں دی۔۔ ضرورت ہی نہیں پڑی۔ لگتا ہے میں غافل ہوں۔ شاید اچھا ہے کہ یہ لوگ ہم جیسے غیر ہوشیار شہریوں کو بیدار کر رہے ہیں۔۔لیکن، اگر میں اپنی پسندیدہ گلی میں ہی محفوظ نہیں ہوں تو اس جہان میں بھلا کہاں محفوظ ہوسکتا ہوں۔

آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کسی فوجی دستے کی نگرانی میں اگر کوئی گلی آ جائے تو وہ عام لوگوں کے لیے کس قدر ناممکن اور ناقابلِ رسائی ہو جاتی ہے۔ میں نے اس گلی سے رخصت لی۔

سنسار میں میرے لیے ایک جگہ کم ہو چکی تھی۔ یہ کہنا زیادہ سچ ہوگا کہ وہ چھین لی گئی تھی۔ ایک پل کے لیے میں نے خود کو عجیب ڈھنگ سے بے گھر، محروم اور غلام محسوس کیا۔ شاید میرا دماغ گھوم گیا تھا اور میں کچھ بھی طے نہیں کر پا رہا تھا، سوائے اس کے کہ گم ہونے کے لیے مفید، میری پیار ایک جگہ چھین لی گئی ہے۔

(دو)

لیکن مایوس ہوکر نہیں بیٹھا جا سکتا تھا۔

دنیا کی کوئی طاقت عام انسان کو اس طرح ختم نہیں کر سکتی۔ مجھے جینا ہوگا، اپنی طرح سے۔۔ تمام ایسی جگہیں ابھی ہوں گی، جہاں وقتِ ضرورت میں گم ہو سکتا ہوں۔ جہاں خود کو پھر سے زندہ کر سکتا ہوں۔ میں اس شہر کو بھی اس طرح مرنے نہیں دوں گا۔ چاہے پوری فوج ہی اس شہر میں کیوں نہ لگا دی جائے۔ نا ہی اسے ریگستان بننے دوں گا۔۔ اور جب میں اس شہر کو بچانا چاہتا ہوں تو یہ شہر بھی میرے لیے حاضر رہے گا۔ امید، پیار اور کوشش۔۔ میں ان تین الفاظ میں گہرا یقین رکھتا ہوں۔

وہ ایک چائے کی دکان تھی۔ جہاں سے شہر گاؤں کی طرف دھنستا جا رہا تھا، اس چوراہے کے ایک کنارے وہ دکان تھی۔ شہر آگے دھنستا جاتا تھا اور اس کے سہارے سہارے وہ بھی۔ گرمیوں میں وہاں دھول اڑتی تھی۔ سردیوں میں جب تب کہرا جم جاتا تھا اور بارش میں بادل اسے گھیر لیتے تھے۔ کچھ پیڑ بھی، پوری طرح کاٹے جانے سے پہلے اس کے حصے میں آتے تھے۔ اسے ’چائے کی دکان‘ کہنے کے بجائے، کہنا چاہیے کہ گم ہو جانے کی اس طلسمی جگہ میں چائے بھی ملتی تھی۔

یہ صبح تڑکے سے لے کر دیر رات گئے تک کھلی رہتی تھی۔ یہ اجنبیوں اور راہگیروں کا اڈا تھی۔ چار پانچ اخبار پڑے رہتے تھے، جن کے سہارے سب کو گم ہونے میں مدد ملتی۔ پھر کوئی اڑتی ہوئی دھول میں گم ہو جاتا، کوئی کہرے میں اور کوئی بادلوں میں، کوئی کوئی پیڑوں میں۔ یہ راہگیر، یہ اجنبی کبھی کبھی ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکراتے بھی تھے۔ جیسے کہتے ہوں کہ کسی کو بتائیے مت کہ ابھی ہم یہاں کھوئے ہوئے ہیں۔ چائے پئیں یا نہ پئیں، آپ یہاں بے روک ٹوک بیٹھے رہ سکتے ہیں۔ حالانکہ کون بدقسمت ہوگا جو یہاں آکر بھی چائے نہ پینا چاہے گا۔یہاں دو چار گھونٹوں میں ہی وہ ہوا پھیپھڑوں میں بھری جا سکتی تھی، جو اس شہر کی آلودگی اور بگڑے ماحول کا سامنا کرنے میں کام آتی تھی۔

لیکن ہر آدمی ہر جگہ جاکر گم نہیں ہو سکتا۔ آپ جہاں گم ہو سکتے ہیں، وہ جگہ شاید مجھے ناکافی لگے یا مجھے اطمینان ہی نہ ہو کہ میں گم ہو گیا ہوں۔ وہ یقین ہی نہ مل سکے جو گم ہونے میں ملتا ہے۔۔ اور جہاں جا کر میں گم ہو سکتا ہوں، ممکن ہے کہ وہاں جاکر آپ روشن ہو جائیں اور مضحکہ خیز طور پر پکڑ لیے جائیں۔۔ ظاہر ہے، میں اس طرح گم ہونے کی بات نہیں کر رہا ہوں، جیسے کتھاؤں میں رانیاں ’کوپ بھَوَن‘ (اشتعال گھروں) ٭ میں گُم ہو جاتی ہیں یا جیسے لوگ مذہبی عمارتوں میں کھو جاتے ہیں۔۔ یا دعاؤں میں۔۔ یا جیسے لوگ فارم ہاؤزوں، پولیس اسٹیشنوں، پانچ ستارہ ہوٹلوں، قانون ساز اسمبلیوں یا جیل خانوں میں گم ہو جاتے ہیں۔

کبھی میں اس طرح گُم ہو جاتا تھا کہ دنیا کو تو دکھائی دیتا تھا لیکن حقیقت میں اس وقت میں گُما ہوا ہوتا تھا۔ جیسے، پچھلی پندرہ تاریخ کو اتوار تھا۔ دوپہر میں ڈھائی بجے ریڈیو سے ہیمنت کمار کا ایک گانا بجا۔ وہ مجھے ڈھانپنے لگا۔ آخر میں اس میں پوری طرح گُم ہو گیا۔ سب مجھے دیکھ رہے تھے اور بے فکر تھے کہ میں اپنے کمرے میں ہی ہوں۔ سب کو دکھائی دیتا ہوا۔۔ لیکن میں گم ہو چکا تھا۔ سارے لوگ مجھے دیکھ پا رہے تھے اور انہیں یقین تھا کہ میں یہیں ہوں، ان کے پاس ہوں، میسر ہوں۔۔ سچ ہے، انسان کے امکانات کو آپ ختم نہیں کر سکتے۔ کوئی نہیں، نہ تانا شاہ، نہ غنڈے اور نہ گھر گرہستی کی مشکلیں۔۔ اور نا ہی وزیرِ خزانہ یا وزیرِ دفاع کے اعلانات۔ گاڑھے وقت میں اچانک کوئی سنگیت، چہچہاہٹ، کوئی آواز آدمی کو بچا لیتی ہے، اپنی آغوش میں چھپا لیتی ہے۔

میں اب غمزدہ ہوں گا تو اسٹیڈیم میں جا کر بیٹھ جاؤں گا۔ یہ ان نئی جگہوں میں سے ہے، جنہیں میں نے اپنے لیے تلاش کیا ہے۔ شام کو میدان میں بچے ہاکی کھیل رہے ہوں گے یا باسکٹ بال۔ وہ اپنا کام کر رہے ہوں گے، بنا میری طرف دھیان دیے۔ میں وسیع اسٹیڈیم کی گیلری کے ایک کونے میں مونگ پھلی لے کر بیٹھ جاؤں گا اور بیٹھا رہوں گا۔ جب تک کہ تروتازہ نہ ہو جاؤں۔ حالانکہ اس پسندیدہ گلی کے حادثے کے بعد میں بہت خوفزدہ رہتا ہوں۔ مجھے لگنے لگا ہے کہ کوئی ہے، جس کی نگاہ میرے گم ہو جانے کی جگہوں پر ہے۔ کوئی ہے جو مجھے انسان نہیں رہنے دینا چاہتا۔ کوئی ہے جو میرے حقِ تنہائی کو، میری بڑبڑاہٹ کو اور میری تجربہ گاہوں کو، جہاں میں تجربے کرتا رہتا ہوں، ختم کر دینا چاہتا ہے۔۔ اور یہ پورا کھیل اب ایک گوریلا جنگ میں تبدیل ہو چکا ہے۔

کوئی ایکٹ، بہاؤ یا اصول ایسا نہیں ہے جس کے تحت اندیشے کی بنیاد پر شکایت کر سکوں، نہ ہی کوئی عدالت میں قبول ہو سکنے والی ٹھوس دلیل میرے پاس ہے کہ اپنے جینے کے حق کے لیے حفاظت طلب کر سکوں۔ میرے حق میں زندگی بسر کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ یوں بھی، میں اس سب کو کسی سطح پر، عام نہیں کر دینا چاہتا۔ اس لیے مجبور ہوں کہ یہ لڑائی اپنے تئیں جاری رکھوں۔ جدوجہد کرتے ہوئے، چھاپاماری کرتے ہوئے اور اپنی پراسراریت بنائے رکھ کر ہی میں بچا رہ سکتا ہوں۔ اور تب ہی اس شہر کو بھی بچا سکتا ہوں۔

حالانکہ میرے اندیشے بے بنیاد نہیں تھے۔ اس بیچ معلوم ہوا کہ بنتے ہوئے شہر کے ایک کونے کی چائے کی دکان کو غیر قانونی قبضہ ہٹانے والے دستے نے اکھاڑ پھینکا ہے۔میرے اندیشے کو مزید تقویت تب ملی، جب میرے پاس ایک لمبا دن تھا اور میں کہیں جاکر گم ہو جانا چاہتا تھا۔ میں ایک نظموں کی کتاب کے الفاظ میں پناہ لینا چاہتا تھا۔ گھر میں یہ ممکن نہیں ہو پا رہا تھا۔ وہاں بازار کا، تہذیب اور چھٹی کے دن کا گھریلو شور و غل بکھرا ہوا تھا۔ تو میں نے اس جگہ جانا طے کیا، جہاں تب ہی جانا ممکن ہوتا تھا، جب کچھ اطمینان اور وقت میسر ہو۔

شہر کی مغربی سرحد پر ایک پوکھر کے کنارے، چٹانوں کی قطار تھی۔ مغرب میں ہونے کے کارن وہاں دیر شام تک روشنی ٹکتی تھی۔۔ اور چٹانوں نے مل کر ایک صاف ستھری جگہ ایسی بنائی تھی کہ گرمیوں میں بھی ٹھنڈک رہتی تھی۔ پاس میں ہی بانس کے لمبے جھرمٹ تھے۔ بانس کے جھنڈوں کو، ان بانس کنجوں، اس بانسواری کو اگر آپ نے نہیں دیکھا ہے تو پھر معاف کریں، آپ کا جیون کچھ حد تک تو اکارت ہوا۔ ان درختوں اور چٹانوں کی اوٹ نے ایسا طلسم رچا ہے کہ لگتا ہے شہر کی آتما تو دراصل، یہاں اس مغربی کنارے پر ہی بسیرا کرتی ہے۔ شہر کے ٹھیک مہانے پر، غروب کی سمت میں قدرت نے یہ جگہ کسی انسان کے گم ہو جانے کے لیے مقرر کردی ہے۔۔ تاکہ قدرت اور شہری تہذیب کے بیچ وہ ایک صحت مند انہ آمدو رفت کر سکے۔

یہاں میں پہلے بھی آتا رہا ہوں۔ بہت سی کتابیں یہاں بیٹھ کر پڑھی ہیں۔ کئی بار میں نے یہاں کی تنہائی میں اپنی مرحوم ماں کی یاد میں کھو جانے کی روحانی کوشش کی ہے۔ اپنے اس بھائی کو یاد کرتا رہا ہوں، جو ابھی زندہ ہے، اسی شہر میں ہے لیکن مجھ سے بارہ سال پہلے بچھڑ چکا ہے۔ اسی طرح بہت سے دوستوں کو اور نوجوانی کے دنوں کو بھی۔۔ دنیا میں مجھے جو اور کچھ چاہیے، اس کی خواہشیں بھی یہیں بیٹھ کر کرتا رہا ہوں۔ گم ہو جانے کی اس جگہ سے میں اپنے ادھورے سنسار کو پورا کرنے کی کوشش کرتا رہا ہوں۔ کسی طرح کی بھرپائی کے لیے یہ ایک آدرش جگہ ہے۔ یہاں چٹانوں پر بیٹھ کر مجھے ایسا زاویہ ملتا ہے جہاں سے میں پورے شہر کو دیکھ سکتا ہوں۔ شہر مجھے نہیں دیکھ سکتا کیونکہ میں تو گمشدہ ہو گیا ہوں۔ یہ جگہ مجھے تکمیل کا احساس کراتی ہے اور گم ہونے کی طاقت کو نئے سرے سے قلم زد کرتی ہے۔ تو میں نظموں کی ایک کتاب ساتھ لے کر آیا۔ ساڑھے چار کلو میٹر پیدل چلنے سے پیدا ہونے والا جوش اور رسائن میرے بھیتر تھے۔

پہلے میں چٹانوں کی طرف بڑھا کہ ٹھنڈک میں بیٹھوں گا، لیکن ارادہ بدل کر سوچا کہ بانسوں کے جھنڈ کے نیچے بیٹھوں گا۔ ان کے ٹھیک بیچ میں، جہاں کچھ گھاس اُگ آتی ہے، بانس کی پتیاں بھی وہاں گر کر ایک ملائم قالین بناتی ہیں۔ اپنے اس گرد آلود ہرے پیلے قالین تک جیسے ہی پہنچا تو دیکھا گھاس اور پتیوں پر جگہ جگہ خون کے نشان ہیں۔ میں پسینہ پسینہ ہو گیا۔ الٹے پاؤں بھاگا۔ کچھ دور جاکر رکا اور گہری سانس لی۔ اب طے ہو چکا ہے کہ کوئی ہے، جو میرے گم ہو سکنے کی جگہوں کو ختم کر دینا چاہتا ہے۔ کوئی ہے جو مجھ انسان کا پیچھا کر رہا ہے۔ جو مجھے گلا گھونٹ کر مار ڈالنا چاہتا ہے۔ میری زندگی کی دھاراؤں کو سکھا دینا چاہتا ہے۔ کوئی ہے جس نے مجھے اپنے ریموٹ پر لے لیا ہے۔

اگلے دن کے اخبار میں ’بانسوں کی چھاؤں میں قتل‘ کے عنوان سے خبر چھپی۔ میڈیکل کے ایک ہونہار طالب علم کو مار ڈالا گیا تھا۔ میرے اندیشے بے بنیاد نہیں تھے۔

(تین)

مشکلیں بڑھتی جا رہی تھیں۔ میں گلیوں میں نہیں جا سکتا تھا۔ اسٹیڈیم میں بم رکھنے کی افواہ بھی دو تین بار پھیل گئی تھی۔ ممکن ہے، وہ نشانے پر تو تھا ہی۔ چائے کی کچھ دوسری دکانیں، سنگیت، کتابیں جیسی چیزیں باقی تھیں۔ (ہیئر کٹنگ سیلون، آرٹ گیلریاں، سینما ہال، ناٹک گھروں جیسی جگہوں میں لگاتار میری نقلیں تیار کی جاتی ہیں۔ اڑچنیں اور رکاوٹیں پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ بے خیالی کو محتاج ہو جاتا ہوں۔ اس لیے یہاں میں چاہ کر بھی گم نہیں ہو پاتا۔حالانکہ میرے کوئی دوست کہتے ہیں کہ گم ہونے کے لیے یہ بھی خوبصورت جگہیں ہیں۔ ہوں گی، ان کے لیے ہوں گی۔۔ میں نے کہا نا، کہ جہاں آپ گم ہو سکتے ہیں، شاید وہ جگہیں میرے لیے ناکافی ہیں۔) پھر ایک انسان کو گم ہونے کے لیے الگ الگ طرح کی جگہیں چاہیے۔ گم ہونے کا اطمینان بھی چاہیے کہ آپ قرینے سے گم ہو سکیں۔ اپنی آدمیت کے ساتھ گم ہو سکیں۔ نہیں تو گم ہونے کی جگہیں قید خانوں میں تبدیل ہو سکتی ہیں۔۔ اور میں کوئی مجرم نہیں ہوں۔ پھر بھی میرے اطمینان کو ختم کیا جا رہا ہے۔

ایسے میں ایک خزانہ اچانک مل گیا۔ کسی دریافت کی طرح۔۔ یا مان لیجیے کسی سوغات کی طرح۔۔ قبل از تاریخ کی ناقابل دخول گپھاؤں کی مانند۔۔۔ ہوا یہ کہ ابھی پرسوں میں شہر کے بیچو ں بیچ ایک ایسی بے حد عام پُلیا پر بیٹھا ہوا تھا، جس کا ابھی تک ذاتی استعمال میں آنا باقی تھا۔ وہ ایک چلتی ہوئی سڑک تھی۔ آس پاس کچھ پرانے زمانے کے پیڑ تھے۔ گل مہر، نیم، پیپل اور بکائن کے۔ صبح سات بجے سے میں وہاں بیٹھا ہوا تھا اور سوچ رہا تھا کہ آخر خواہش جاگنے پر اب کہاں گم ہو سکوں گا۔ پہلے سے تیاری کے طور پر میں نے اپنا موبائل بند کر رکھا تھا۔

کئی دنوں سے میں بھٹک رہا تھا اور اب مجھے اپنے لیے، اپنی سانسوں کے لیے اور زندگی کی راہوں میں پھر سے جانے کے لیے کچھ دیر تک گم ہونے کی ضرورت تھی۔ پورا شہر اس سڑک سے میرے سامنے سے گزر رہا تھا۔ میں سب کو دیکھ رہا تھا، ہر آنے جانے والے کو۔۔ ٹھٹھک کر یا تھک کر رک جانے والے کو۔۔ ہڑبڑی میں جاتے انسانوں کو۔۔ اس آدمی کو بھی جو پُلیا پر آ کر، میرے پاس ہی دوسرے کنارے پر بیٹھ گیا۔۔ لیکن دھیرے دھیرے میں نے جان لیا کہ لوگ میری طرف دھیان نہیں دے رہے ہیں۔ لگتا ہے مجھے دیکھ نہیں پا رہے ہیں۔ تین چار دوست اور بہت سے شناسا بھی ادھر سے گزرے۔ کچھ نے تو ٹکٹکی باندھ کر پُلیا کی طرف بھی دیکھا۔ جیسے میری آنکھوں میں ہی دیکھا ہو۔۔ لیکن ان کی آنکھوں میں کوئی پہچان اور چمک نہیں دکھائی دی۔

کافی دیر بعد مجھے تلاش کرتے ہوئے پتنی بھی آئی، بیٹی ساتھ میں تھی۔ آتے جاتے لوگوں سے کچھ پوچھ رہی تھی۔ پلیا پر بیٹھے آدمی سے بھی پوچھنے لگی۔ میری تصویر اس کے ہاتھ میں تھی، جبکہ میں اس کے سامنے تھا۔ نہ پتنی نے مجھے دیکھا اور نہ بیٹی نے۔ نا ہی ان تمام آدمیوں نے۔ تو کیا میں واقعی کہیں گم ہو چکا ہوں؟

لیکن میں تو یہاں سرِ عام بیٹھا ہوں۔

تب لوگ مجھے دیکھ کیوں نہیں پا رہے ہیں۔ ضرور میں ہی کسی اوٹ میں ہوں۔ کوئی چیز ہے جو مجھے چھپا رہی ہے اور بچا رہی ہے۔ شام پانچ بجے کے لگ بھگ میں نے سر آسمان کی طرف اٹھایا تو دیکھا کہ پیپل کا ایک پتہ گرتا ہوا میرے بالوں میں نہ جانے کب سے اٹکا ہے۔ اس کی نوک میرے ماتھے تک آ گئی ہے۔

اچھا! تو میں پیپل سے جھڑ کر میرے بالوں میں اٹک گئے پتے میں گُم ہو گیا ہوں۔ خاص طور پر پتے کی، اس لمبی نوک کے پیچھے۔۔ میں نے اس پیپل کی طرف ، اس کے پتوں کی طرف شکر گزاری کے احساس کے ساتھ دیکھا اور باقی درختوں کی طرف بھی، جن کے پتے ہوا میں لگاتار ہل رہے تھے۔ مجھے کچھ بھروسہ ہوا کہ میں ابھی سچ مچ زندہ، متحرک اور مرتعش بنا رہ سکتا ہوں، کہ جب سب آپ کے خلاف ہوں تو شہر ایک سچے دوست کی طرح آپ کے ساتھ کھڑا ہو سکتا ہے۔ وہ اپنے قدرتی پن اور قدرتی مناظر کے ساتھ آپ کو اپنی پناہ میں لے لیتا ہے۔ ضرورت پڑنے پر اپنی اوٹ میں چھپا لیتا ہے۔

اب آپ بھلے نہتے ہیں لیکن محفوظ ہیں۔ فاتح ہیں۔ شہر میں کھوج بین کرنے کے لیے، جیون کا سامنا کرنے کے لیے پھر سے تیار اور حاضر ہیں۔

٠٠٠٠٠
٭ کوپ بھون : راج محلوں کا ایسا کمرہ، جہاں رانیاں اپنے غصے کا اظہار کرتی تھیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button
Close
Close