نارمل ڈیلیوری کے ذریعے پیدا ہونے والے بچوں میں قوت مدافعت زیادہ ہوتی ہے، تحقیق

ویب ڈیسک

اسکاٹ لینڈ اور ہالینڈ میں کی جانے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق کسی ویکسین کے جواب میں ہمارے مدافعتی نظام کے ردعمل کا انحصار اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ ہماری پیدائش کیسے ہوئی تھی، یعنی نارمل ڈیلیوری یا آپریشن (سی سیکشن) کے ذریعے

اس تحقیق کے مطابق نارمل ڈیلیوری یا قدرتی طریقے سے پیدا ہونے والے بچوں میں ویکسین لگانے کے بعد پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز کی مقدار آپریشن (سی سیکشن) کے ذریعے پیدا ہونے والے بچوں کے مقابلے میں دگنا ہوتی ہے

ماہرین کہتے ہیں کہ اس فرق کی وجہ مدافعت پیدا کرنے والے وہ اچھے بیکٹیریا ہیں، جو پیدائش کے وقت ہمارے جسم میں جمع ہو جاتے ہیں

اگرچہ آپریشن سے پیدا ہونے بچوں میں بھی مدافعت یا قدرتی تحفظ موجود ہوتا ہے، تاہم ہو سکتا ہے انہیں نارمل ڈیلیوری سے پیدا ہونے والے بچوں کی نسبت زیادہ پروبائیوٹِک یا ویکسین کی اضافی خوراک دینا پڑے

ہماری پیدائش کا لمحہ ایک ایسا وقت ہوتا ہے، جب ہم ماں کی بچہ دانی کی جراثیم سے نکل کر ایک ایسی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں، جہاں ہر طرف خوردبینی جرثوموں کی بھرمار ہوتی ہے

اس خوردبینی حیات میں شامل مائیکروبز (بیکٹیریا، فنگی، وائرس اور آکیاہ) ہمارے جسم کو اپنا گھر بنا لیتے ہیں اور آخرکار ان کی تعداد ہمارے ’انسانی‘ خلیوں سے بھی زیادہ ہو جاتی ہے

اگر بچہ قدرتی طریقے یعنی آپریشن کے بغیر اس دنیا میں آتا ہے، تو جن مائیکروبز سے اس کا پالا سب سے پہلے پڑتا ہے، وہ اس کی ماں کی اندام نہانی میں موجود ہوتے ہیں۔ لیکن اگر بچہ آپریشن یا سی سیکشن کے ذریعے پیدا ہوتا ہے تو اُس کا اِس دنیا میں آنے کا راستہ دوسرا ہو جاتا ہے اور اس کا واسطہ جن جرثوموں سے پڑتا ہے، وہ انسانی جلد پر پائے جاتے ہیں یا ہسپتال اور گھر کی ہوا میں موجود ہوتے ہیں

حالیہ تحقیق میں یونیورسٹی آف ایڈمبرا اور نیدرلینڈ کی اٹریچٹ یونیورسٹی کے ماہرین اس بات کا جائزہ لے رہے تھے کہ بچے کی پیدائش کے بعد انہیں دی جانے والی مختلف ویسکینز پر ان جرثوموں یا مائیکروبز کے کیا اثرات ہوتے ہیں؟

اس مقصد کے لیے ماہرین نے ایک سو بیس نوزائیدہ بچوں کے پہلے گہرے سبز رنگ کے پاخانے (میکونیئم) سے لے کر ایک برس کی عمر تک کے پاخانے پر تحقیق کی

جرنل آف نیچر کمیونیکیشن نامی جریدے میں اس تحقیق کے شائع ہونے والے نتائج میں دیکھا گیا ہے کہ جو بچے اندام نہانی کے راستے پیدا ہوئے، ان میں بائفائیڈو بیکٹیریئم اور ایسکیرکیا کولائی نسل کے مائیکروبز کی مقدار زیادہ تھی

ان تنائج کی روشنی میں ماہرین کا کہنا ہے کہ ان مفید بیکٹیریا کی مقدار زیادہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جب ایسے بچوں کو نیوموکوکل اور مینیگوکوکل قسم کی ویکسین لگائی جائے گی تو ان میں بیماری کے خلاف مدافعت پیدا کرنے والی اینٹی باڈیز کی مقدار تقریباً دوگنا ہوگی

اس سے پہلے دیکھا جا چکا ہے کہ ہمارے جسم میں موجود مائیکروبائیوز فُلو اور تپ دق (ٹی بی) کی ویکسین پر اثرانداز ہوتے ہیں

حالیہ تحقیق کے حوالے سے یونیورسٹی آف ایڈنبرا کے شعبۂ امراض اطفال کی سربراہ، پروفیسر ڈیبی بوگارٹ کا کہنا تھا ’عین پیدائش کے وقت مائیکروبز اور ہمارے مدافعتی نظام کے درمیان پہلا رابطہ اہم ہوتا ہے۔‘

انہوں نے بتایا ”بیکٹیریا مختلف قسم کے کیمیائی اجزا خارج کرتے ہیں، جنہیں فیٹی ایسڈ کہا جاتا ہے۔ یہ فیٹی ایسڈ ہمارے مدافعتی نظام کو بتاتے ہیں کہ اب کام شروع کر دو۔ اگر یہ فیٹی ایسڈ نہ ہوں تو جسم میں بی سیلز قسم کے خلیوں کی نشونما کمزور پڑ جاتی ہے اور یہ وہی خلیے ہیں جو ہمارے جسم میں سفید خلیے پیدا کرتے ہیں جو بیماری کے خلاف لڑتے ہیں۔“

اس تحقیق میں جن نوزائیدہ بچوں کا مطالعہ کیا گیا، وہ تمام صحتمند تھے، مدت پوری ہونے پر پیدا ہوئے تھے اور انہیں کسی دوسرے مرض کا سامنا نہیں تھا

واضح رہے کہ اکثر آپریشن یا سی سیکشن اس وقت کیا جاتا ہے جب اس کا مقصد ماں یا بچے کی صحت کو محفوظ بنانا ہوتا ہے

حالیہ عرصے میں ’وجائنل سیڈِنگ‘ کا رجحان بھی دیکھا گیا ہے، جس میں آپریشن سے پیدا ہونے والے بچے کے جسم پر ماں سے خارج ہونے والا قدرتی مائع لگایا جاتا ہے

اس کے علاوہ ایک اور تحقیق میں یہاں تک کیا گیا کہ ماں کے معدے میں پائے جانے والے بیکٹیریا بچے کے جسم میں ڈالے گئے۔ ان تمام تجربات کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ بچے کو وہ مائیکروبز مل جائیں، جو اسے سی سیکشن کی وجہ سے نہیں مل سکے

تاہم، پروفیسر بوگارٹ کہتی ہیں ”خیال کی حد تک تو سی سیکشن والے بچوں کو یوں مائیکروبز دینا شاید بہترین حل ہو، لیکن عملی طور پر یہ ایک خاصا پیچیدہ عمل ہے کیونکہ یہ طریقہ بچے کے لیے خطرناک بھی ہو سکتا ہے“

اسی لیے پروفیسر بوگارٹ کہتی ہیں کہ سی سیکشن سے پیدا ہونے والے بچوں کو مفید بیکٹیریا کا ملغوبہ (جیسے پروبائیوٹِک) دینا ’زیادہ محفوظ‘ ہو گا۔ اس کا دوسرا حل یہ ہے کہ سی سیکشن والے بچوں کو ویکسین کی اضافی خوراک دی جائے

دوسری جانب، مدافعتی نظام کے ماہر اور یونیورسٹی آف ایڈمبرا سے ہی منسلک، پروفیسر نیل مابوٹ کے مطابق یہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ کسی بچے میں زیادہ اینٹی باڈیز پیدا ہونے کا براہ راست تعلق مائیکروبز سے ہوتا ہے

تاہم، ان کا کہنا تھا ”حالیہ تحقیق نے بہرحال یہ امکان پیدا کر دیا ہے کہ ہم نوزائیدہ بچوں، خاص طور پر آپریشن سے پیدا ہونے والے بچوں، کے مدافعتی نظام کو بہتر بنانے، ویکسین کے بہتر اثرات اور ان بچوں کو دیگر انفیکشنز سے بچانے کے لیے مفید بیکٹیریا پلا سکتے ہیں“

اس تحقیق پر تبصرہ کرتے ہوئے بائیو سائنس کے ماہر، ڈاکٹر جارج سوّا کا کہنا تھا ”یہ مضمون اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس سے ہمیں ان عوامل کو سمجھنے میں زیادہ مدد ملے گی، جو نوزائیدہ بچوں میں ویکسین اور مائیکروبائیوم پر اثر انداز ہوتے ہیں“

تاہم، ان کا کہنا تھا ”یہ تحقیق نسبتاً محدود پیمانے پر کی گئی ہے اور کوئی حتمی نتائج اخذ کرنے سے پہلے ہمیں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close