آرٹیکل 63 اے پر نظرثانی کی اپیل: ’ججز کے درمیان خیلج نے عدلیہ کا مذاق بنایا ہے‘

زاہد حسین

بات اب تنازعات سے آگے بڑھ چکی ہے۔ اندرونی چپقلش نے ملک کی اعلیٰ عدلیہ کو تقسیم کردیا ہے۔ اگرچہ اندرونی کشیدگی کافی عرصے سے عروج پر تھی لیکن سپریم کورٹ کے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں ترمیم کرنے والے حالیہ صدارتی آرڈیننس کی وجہ سے عدلیہ تنازع شدت اختیار کرگیا ہے۔

اپنی ریٹائرمنٹ سے چند ہفتے قبل چیف جسٹس آف پاکستان کو اپنی صفوں سے ہی ورچوول بغاوت کے خطرے کا سامنا ہے کہ جہاں سینئر ججز نے متنازع ترمیم کی قانونی حیثیت کو چیلنج کیا ہے۔ ادارے کی اندرونی جنگ شدت اختیار کرچکی ہے۔ سپریم کورٹ کو فوج کی حمایت یافتہ حکومت سے اپنی آزادی پر ایسے حملے کا سامنا ہے جس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ حکومت عدالت عظمیٰ کے پروں کو کاٹنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔

عدلیہ تقسیم کا شکار ہے جہاں ساتھی ججز ہی چیف جسٹس کے کردار پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ اس سب نے بار اور بینچ کی جانب سے عدلیہ کی آزادی پر کیے جانے والے حکومتی حملے کے دفاع کو انتہائی مشکل بنا دیا ہے۔ آرٹیکل 63 اے سے متعلق فیصلے پر نظرثانی درخواست کی سماعت کرنے والے پانچ رکنی بینچ کی تشکیل پر تنازع کھڑا ہوا، جس میں جسٹس منیب اختر نے بینچ کا حصہ بننے سے معذرت کرلی۔ اس پیش رفت نے مزید تناؤ پیدا کیا ہے۔

سنیارٹی لسٹ میں تیسرے نمبر پر موجود جسٹس منیب اختر نے ہی 2022ء میں یہ فیصلہ لکھا تھا جنہیں تین رکنی بینچ سے اس وقت ہٹا دیا گیا کہ جب چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے متنازع صدارتی آرڈیننس کے بعد پریکٹس اینڈ پروسیچر کمیٹی دوبارہ تشکیل دی۔

سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ نے بھی کمیٹی کا حصہ بننے سے معذرت کرلی تھی اور جسٹس منیب اختر کی برطرفی پر اعتراض اٹھایا تھا۔ انہوں نے آرڈیننس کی قانونی حیثیت پر بھی سوال اٹھایا تھا۔

ایک سینئر جج کی برطرفی اور دوسرے جج کی شمولیت سے معذرت نے چیف جسٹس کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی کی ساکھ اور اس کے تحت 5 رکنی بینچ کو متنازع بنادیا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے چیف جسٹس کو خط لکھ کر بینچ کا حصہ نہ بننے کی وجہ بتاتے ہوئے دوبارہ تشکیل دی گئی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کی جانب سے بنائے گئے بینچ پر تحفظات کا اظہار کیا۔

بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ کمیٹی کی تشکیل نو کے پیش نظر یہ متوقع تھا کہ فیصلے پر نظرثانی کی درخواست پر سماعت کی جائے گی۔ 2022ء کے فیصلے جس کے تحت نہ صرف پارٹی فیصلے کے خلاف جا کر ووٹ دینے والوں کو نااہل قرار دیا جا سکتا ہے بلکہ ان کے ووٹوں کو گننے کی بھی ممانعت ہے، اس فیصلے کو کالعدم قرار دینے سے حکمران اتحاد، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ان اراکین اسمبلی سے ووٹ لے پائے گا، جنہیں پارٹی وفاداریاں تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا۔

متعلقہ فیصلہ کالعدم قرار دیے جانے سے ہوگا یہ کہ حکمران اتحاد کو پارلیمان میں آئینی ترامیم منظور کروانے کے لیے درکار دو تہائی کی اکثریت حاصل ہوجائے گی جس کے تحت وہ آئین کی بنیاد کو تبدیل کرسکتے ہیں اور جمہوری حقوق کو بھی محدود کردیں گے۔ حکومت نے اس سے قبل بھی ایسی کوشش کی تھی لیکن درکار تعداد نہ ہونے کے باعث وہ ناکام رہے۔ نظرثانی اپیل کے لیے جس عجلت میں بینچ تشکیل دیا گیا اس نے ممکنہ محرکات پر سوالات اٹھائے ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے گزشتہ کمیٹی کے فیصلے کے خلاف بینچ کی سربراہی چیف جسٹس کی جانب سے کیے جانے پر بھی اعتراض کیا ہے۔ انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ نظرثانی بینچ کی سربراہی جسٹس منصور علی شاہ کو کرنی چاہیے تھی۔ فیصلے کو کالعدم قرار دینے سے چیف جسٹس کی غیر جانبداری پر تحفظات پیدا ہوں گے۔

خیال یہی ہے کہ نظرثانی درخواست پر فیصلے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا اور 26 اکتوبر کو چیف جسٹس کے ریٹائر ہونے سے قبل ہی اس کا فیصلہ سامنے آجائے گا۔ کچھ وفاقی وزرا اور حکمران اتحاد کے اراکین پہلے ہی اگلے دو ہفتوں میں متنازع آئینی ترمیم کو منظور کروانے کی کوششوں کے حوالے سے بات کرچکے ہیں۔

بہ ظاہر دیکھا جائے تو حکمران اتحاد کمربستہ ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں ترامیم منظور کروانے کے لیے درکار تعداد کے حصول کے لیے وفاداریاں تبدیل کرنے والے ممبران کے اوپر سے عائد پابندیاں ہٹانے میں کامیابی حاصل کرلیں تاکہ ان کے ووٹوں سے حکومت کو فائدہ ہوسکے۔ یہ آرٹیکل 63 اے کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کا مضبوط جواز بن سکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود جس طرح 5 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا، اس سے اس مؤقف کو تقویت ملی ہے کہ کمیٹی کی تشکیل کا مقصد یہی ہے کہ حکومت کے حق میں مثبت فیصلہ دیا جاسکے۔

یہ حیران کُن تھا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی ریٹائرمنٹ کے قریب جسٹس منصور علی شاہ کے بجائے خود کو بینچ کا سربراہ مقرر کیا۔ جیسا کہ بہت سے حلقوں کے مطابق اس قدر متنازع اقدام، ان کی میراث کے لیے کسی طور بھی مثبت نہیں جوکہ پہلے ہی منقسم کردار ادا کرنے پر خطرے میں ہے۔

ججز کو متحد کرنے اور عدالت عظمیٰ کی آزادی اور تقدس کا دفاع کرنے کے بجائے چیف جسٹس کے حالیہ فیصلوں نے عدلیہ میں خلیج کو مزید گہرا کیا ہے۔ موجودہ تقسیم نے اعلیٰ عدلیہ کے تشخص کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ سینئر ججز کے درمیان کھلے عام کی جانے والی بحث نے اعلیٰ ترین عدالتی فورم کا مذاق بنایا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ تاریخی اعتبار سے ہماری اعلیٰ عدلیہ کا ریکارڈ قابلِ رشک نہیں۔ انہوں نے فوجی آمروں کے فیصلوں کی توثیق کی۔ ماضی قریب میں آنے والے چیف جسٹسس کو پاپولسٹ اقدامات کے ذریعے ایگزیکٹو اور پارلیمنٹ کے اختیارات کو کمزور کرنے کی کوشش کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے جس سے ریاستی اداروں میں طاقت کا شدید عدم توازن پیدا ہوا ہے۔

جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری عدالتیں سیاسی جماعتوں کا محاذ بن چکی ہیں، ایسے میں ناگزیر ہو چکا ہے کہ ججز کو سیاسی رنگ نہ دیا جائے۔ عدالتی معاملات میں سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت نے نظام عدل کو سنگین نقصان پہنچایا ہے۔

یہ واضح ہے کہ عدلیہ ایگزیکٹو اور پارلیمنٹ کے دائرہ کار میں آنے والے ایسے معاملات میں دخل دے رہی ہے جنہیں سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے جبکہ اسٹیبلشمنٹ ان اقدامات کے ذریعے منتخب سویلین اداروں اور پارلیمنٹ کو کمزور کرنا چاہتی ہے۔

متنازع قوانین کے ذریعے اداروں کی آزادی اور اختیارات کا استحصال نہیں کیا جانا چاہیے۔ تمام ریاستی اداروں کے درمیان توازن پیدا کرنے کی ضرورت ہے لیکن موجودہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ جو کچھ کررہی ہے وہ عدلیہ میں موجود آزاد آوازوں کو دبانے کی کوشش ہے۔

عدالتی معاملات میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت پر آواز اٹھانے کی جرأت کرنے والے ججز کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ آئین کی مجوزہ ترامیم صرف عدلیہ کو ایگزیکٹو اور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ماتحت بنانے کے حوالے سے نہیں بلکہ یہ عوام کے بنیادی جمہوری اور انسانی حقوق کو سلب کرتی ہیں۔ ترامیم سے آمرانہ طرزِ حکمرانی کے قیام کا راستہ ہموار ہوجائے گا۔

تعجب نہیں کہ فوج کی حمایت یافتہ حکومت کی جانب سے عدلیہ میں اختلافات کو ہوا دی جا رہی ہے، یہ ایک خطرناک کھیل ہے جو نہ صرف عدلیہ کو کمزور کرے گا بلکہ ملک کے جمہوری عمل کو بھی نقصان پہنچائے گا۔ آزاد اور خود مختار عدلیہ کے بغیر ملک میں قابلِ عمل مضبوط جمہوری نظام رائج نہیں ہوسکتا۔

ملک کو کمزور آئینی بنیادوں کی نہیں بلکہ سیاسی مفاہمت اور مضبوط پارلیمنٹ کی ضرورت ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ایک کمزور اور منقسم عدلیہ اپنی آزادی کے لیے کام کرسکتی ہے نہ قانون کی حکمرانی کا دفاع کرسکتی ہے۔

بشکریہ روزنامہ ڈان۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close