پروفیسر علی نواز: موجودہ دور کے ایک مثالی استاد

’عالمی یومِ معلم‘ کے موقع پر سید علی عمران کی خصوصی تحریر

مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ لیکچرار شپ کے پوسٹنگ آرڈر ملنے سے پہلے میں انتہائی خوش تھا مگر جب میں نے آرڈر کھول کر پڑھا تو تھوڑی پریشانی ہوئی کیونکہ میری پوسٹنگ شہر کے دیہی علاقے میں موجود گورنمنٹ ڈگری کالج مراد میمن گوٹھ ملیر میں ہوئی تھی۔ اگلے دن میں اس کالج کی طرف چلا تو گاڑی کھیتوں کے درمیان سے ہوتی ہوئی کالج کے دروازے پر پہنچ گئی۔ جب میں کالج کے دروازے سے اندر داخل ہوا تو حیران کن منظر تھا، دروازے سے بلڈنگ تک ایک لمبی روڈ تھی اور دونوں طرف اونچے اونچے درخت قطار سے لگے ہوئے تھے اور ان کی شاخیں اس طرح باہم تھیں کہ سورج کی روشنی نیچے نہیں آ سکتی تھی۔ پرنسپل آفس میں آ کر میں نے پرنسپل صاحب کے پاس جوائننگ دی۔ میرے ساتھ مزید آٹھ لیکچررز نے بھی مختلف شعبوں کے لیے جوائننگ دی۔

تھوڑے دنوں میں جب کلاسز شروع ہوئیں تو بہت کم طلباء آئے۔ اس حوالے سے جب معلوم کیا گیا تو پتہ چلا کہ بہت سارے مضامین کے اساتذہ نہ ہونے کی وجہ سے طلباء نے آنا چھوڑ دیا ہے۔ نئے آنے والے لیکچررز اور باقی سارے اساتذہ کے ساتھ مل کر ہم لوگوں نے بھرپور کوشش کی کہ طلباء کالج میں آ جائیں۔ اساتذہ نے کلاسز کا نظام اس طرح بنایا کے طالب علم ہو یا نہ ہو ٹیچر ضرور کلاس میں جاتے. یہاں تک کہ ایک ہی ٹاپک کئی کئی بار پڑھانا پڑتا کیوں کہ ہر دفعہ ایک نیا طالب علم ہوتا. یوں ایک طالب علم بھی ہوتا تو وہ بھرپور احساس لے کر جاتا کہ ساری کلاسز کالج میں ہو رہی ہیں. آہستہ آہستہ طلباء کلاس میں آنے لگے اور کچھ عرصے میں ہی کلاسز کھچا کھچ بھرنے لگیں۔

ان کلاسز کے انعقاد اور کلاسز میں بچوں کو لانے میں اہم ترین کردار جس نئے لیکچرار کا تھا وہ پروفیسر علی نواز جوکھیو صاحب کا تھا، جن کا مضمون سندھی تھا.

آپ 13 جنوری 1978ء میں کراچی کی قدیم تہذیب رکھنے والے گڈاپ ٹاؤن کے چھوٹے سے گوٹھ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گاؤں کے ایک سرکاری اسکول سے حاصل کی جبکہ میٹرک 3 کلومیٹر دور ایک اسکول سے کیا۔ آپ نے انٹرمیڈیٹ کونکر ہائر سیکنڈری اسکول سے کیا جو آپ کے گھر سے 12 کلومیٹر دور کونکر گوٹھ میں تھا۔ آپ روز 12 کلومیٹر پیدل اسکول جاتے اور پھر جلتی دھوپ میں اسی طرح سے واپس آتے۔ 2000ء میں آپ نے ایس ایم کالج سے بی اے کیا۔ 2002ء میں آپ نے کراچی یونیورسٹی سے سندھی لٹریچر میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

ایم اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد، آپ نے جس اسکول سے تعلیم حاصل کی تھی، اسی اسکول میں رضاکارانہ طور پر تدریس کے فرائض انجام دینے لگے۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے والد کے ساتھ کھیتی باڑی سے بھی منسلک رہے۔

2009ء میں کمیشن کا امتحان پاس کر کے آپ گورنمنٹ ڈگری کالج میمن گوٹھ میں لیکچرار بھرتی ہوئے۔ آپ اپنے گھر سے پہلے 3 کلومیٹر دور اسٹاپ پر پیدل آتے پھر بس پکڑ کر 20 کلومیٹر آگے بقائی اسپتال سپر ہائی وے پر آتے۔ جہاں ایک اور بس پکڑ کر ملیر 15 پہنچتے اور پھر ملیر 15 سے ایک اور بس پکڑ کر کالج آتے۔ آپ کی کالج میں پوسٹنگ کے کچھ عرصے بعد ہی پہلے سے موجود سندھی کے دو پروفیسرز بوجہ پروموشن ٹرانسفر ہو گئے۔ اب کالج میں انٹر اور بی اے کو ملا کر روز سندھی کی 6 کلاسیں بنتی تھیں۔۔ اور ٹیچر بھی ایک۔ یہاں پروفیسر علی نواز صاحب کا کمال یہ تھا کہ وہ بسوں سے اتنا لمبا سفر طے کر کے پہلے پیریڈ سے لے کر آخری چھٹے پیریڈ تک مسلسل کلاسیں لیتے رہتے تھے اور یہ سلسلہ سالوں چلتا رہا. چھٹی کرنے کا لفظ تو شاید آپ کی ڈکشنری میں کہیں تھا ہی نہیں. کبھی کبھی تو پورے پورے سال میں آپ کی ایک چھٹی بھی نہیں ہوتی۔ اب بھی 15 سال کے کیریئر میں آپ کی چھٹیاں انگلیوں پر گنی جا سکتی ہیں.

کئی دفعہ لوگوں نے آپ کو سمجھایا کہ آپ پر لوڈ زیادہ ہے، اس لیے ہفتے میں 6 کی جگہ 3 کلاسیں کر لیں۔ مگر کبھی راضی نہیں ہوئے اور ان کا ہمیشہ یہی جواب ہوتا 100 نمبر کا پیپر ہے تو ہفتے میں کلاسز بھی 6 ہونی چاہیں۔ بچوں کے ساتھ زیادتی نہیں ہونی چاہیے۔ چونکہ مسلسل کلاسیں ہوتی تھیں اس لیے کبھی کبھار ایسا ہوتا کہ ایک بلڈنگ سے نکل کر دوسری بلڈنگ میں جاتے ہوئے چھٹے پیریڈ میں بچے بہت کم رہ جاتے مگر ہم نے ہمیشہ دیکھا کہ اگر ایک بچہ بھی رہ گیا ہے تو وہ مسلسل چَھٹی کلاس لینے میں بھی اتنی ہی دلچسپی اور محنت سے پڑھا رہے ہوتے، جتنی پہلے پیریڈ میں اسپرٹ سے پڑھاتے۔ کبھی ان کے عزم اور ہمت میں کمی نہیں آتی۔

پھر کافی بعد میں جا کر آپ نے موٹر سائیکل لی پھر بھی شارٹ کٹ راستوں سے آنے کے باوجود آپ کے گھر سے کالج کا سفر 35 کلومیٹر بنتا تھا۔

2013 میں آپ نے ایم فل میں ایڈمیشن لیا جو ادارے کی این او سی کی وجہ سے مسائل کا شکار ہو گیا پھر بعد میں آپ نے دوبارہ ایڈمیشن لیا اور 2019 میں ایم فل کی ڈگری حاصل کی، اب آپ کا پی ایچ ڈی کا تھیسز تقریباً آخری مراحل میں ہے اور انشاءاللہ 2025ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر لیں گے۔

پسماندہ علاقے میں رہتے ہوئے جس طرح سے آپ نے انتہائی مسائل کے باوجود اپنی اعلیٰ تعلیم مکمل کی، یہ اس دیہی علاقے کے بچوں کے لیے ایک بڑی انسپریشن تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ سے متاثر ہو کر اور آپ کی موٹیویشن اور محنت سے ایک بڑی تعداد نے اعلٰی تعلیم کے لیے یونیورسٹیز کا رخ کیا۔ آپ اور آپ کے ساتھیوں ہی کی محنت تھی جس سے میمن گوٹھ کالج کی بدولت تعلیم کا ماحول اس دیہی علاقے میں پیدا ہوا۔

آپ جتنے بڑے استاد ہیں، اتنے ہی بڑے انسان بھی ہیں۔ خلوص کیا ہوتا ہے وہ آپ کو دیکھ کر پتہ چلا۔ میرے والد کے انتقال کے بعد ان کی پینشن کا مسئلہ اے جی سندھ میں چل رہا تھا، میں نے ان سے ذکر کیا۔ میرے کام کو کروانے کے لیے ہفتوں انہوں نے اے جی سندھ کے چکر لگائے جبکہ میں خود ایک دفعہ بھی نہیں گیا۔ میں سوچتا ہوں کہ کیا اتنا مخلص انسان بھی دنیا میں ہو سکتا ہے کہ جس کا کام ہے، وہ تو کچھ ہل نہیں رہا اور دوسرا اس کو کروانے کے لیے بغیر کسی مقصد کے محنتیں کر رہا ہے۔

گڈاپ ایک انتہائی خوبصورت علاقہ ہے اور بارشوں کے زمانے میں بالکل وہ نظارے پیش کرتا ہے، جیسے آپ ناران میں آگئے ہوں۔ میں اکثر اپنے دوستوں اور کبھی خاندان والوں کے ساتھ گڈاپ گھومنے گیا۔ مجال ہے کہ کھانا کھائے بغیر جانے دیا ہو، چاہے کافی لوگ ہی کیوں نہ ہوں۔

جہاں وہ ایک انتہائی ایماندار فرض شناس استاد ہیں اور انتہائی مخلص اور بہترین دوست، اسی طرح سے اپنے اصولوں کے معاملے میں انتہائی سخت اور پیچھے نہ ہٹنے والے اور دیوار کی طرح اپنے موقف پر کھڑے ہو جانے والے شخص ہیں۔ ایک دفعہ پرنسپل صاحب سے ان کا اختلاف ہوا، شاید درختوں کی کٹوائی کے حوالے سے، انہوں نے اس پر باقاعدہ اسٹینڈ لیا اور روز کلاسز کے اختتام پر کالج میں پلے کارڈ لے کر کھڑے ہو جاتے اور احتجاج کرتے۔ کبھی ان کے ساتھ ایک یا دو افراد آجاتے مگر مجال ہے کہ کبھی ان کی ہمت میں کمی آئی ہو. کئی دنوں تک انھوں نے اسی طرح سے احتجاج جاری رکھا۔

استاد کی عزت اور تکریم پر بھی آپ نے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا 2019ء میں ایک چوکیدار نے آپ سے شدید بدتمیزی کی جس پر آپ نے پرنسپل سے احتجاج کیا۔ اور اس کے ساتھ ساتھ تدریسی عملے نے باقاعدہ ایک میٹنگ منعقد کی، جس میں یہ قرارداد پاس ہوئی کہ اس چوکیدار کو فوری طور پر کالج سے ریلیو کیا جائے۔ لیکن پرنسپل صاحب نے روایتی طرفداری دکھاتے ہوئے چوکیدار کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جس سے دل برداشتہ ہو کر پروفیسر علی نواز صاحب نے اپنا عارضی تبادلہ یعنی ڈیٹیل ٹو ورک سپر ہائی وے پر موجود گورنمنٹ کالج کمال خان جوکھیو میں کرا لیا، جہاں پر کلاسز کا انعقاد صحیح طریقے سے نہیں ہو رہا تھا کیونکہ متعلقہ مضامین کے ٹیچرز نہیں تھے۔ آپ نے ایک دفعہ پھر کالج کے نظام کو بنانے کے لیے اپنے مضمون سندھی کے علاوہ اردو، مطالعہ پاکستان اور ایجوکیشن کے مضامین کی کلاسز خود لینا شروع کر دیں اور ایک دفعہ پھر کلاسز کے نظام کو منظم کر لیا۔

آج پروفیسر علی نواز جوکھیو صاحب اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر گورنمنٹ ڈگری کالج کمال خان جوکھیو میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں، جہاں اب بھی پروفیسر صاحب اپنے بنیادی مضمون سندھی کے علاوہ پاکستان اسٹڈیز اور ایجوکیشن کی کلاسز لیتے ہیں۔ ان کی اب بھی 15 سال گزر جانے کے باوجود روز 5 کلاسز ہوتی ہیں۔

مجھے پروفیسر علی نواز سے ٹرانسفر کی وجہ سے الگ ہوئے کوئی 6 سال کے قریب ہو گئے ہیں مگر ان کے ساتھ گزارے 10 سال میری زندگی کا بہترین سرمایہ ہے.

پروفیسر علی نواز جوکھیو دراصل پورے سندھ کے کالجز میں استادوں کے لیے ایک چمکتے ہوئے ستارے کی مانند ہیں، جس کو دیکھ کر استاد تدریس کے راستے میں اپنی منزل تلاش کر سکتے ہیں ۔

خدا تعالی اس عظیم، باصلاحیت، باکردار، باہمت، مخلص، محنتی اور پروقار استاد کو ہمیشہ خوش رکھے اور دنیا جہاں کی نعمتوں سے نوازے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close