بلوچ شورش کا ارتقا: تین اہم نکات

عبدالباسط خان

بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے خودکش دستے مجید بریگیڈ نے گزشتہ ہفتے کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب چینی انجینئرز کے قافلے کو ایک ہائی پروفائل حملے میں نشانہ بنایا جبکہ اسی طرح اگست کے مہینے میں نواب اکبر خان بگٹی کی برسی کے موقعے پر بیک وقت متعدد بڑے حملے ہوئے، جو بلوچ شورش کے ارتقا کو ظاہر کرتے ہیں۔

گذشتہ دو دہائیوں سے بلوچ علیحدگی پسند مسلح تنظیمیں زیادہ تر بجلی کے کھمبوں، موبائل ٹاورز، گیس پائپ لائنز، ریلوے ٹریکس اور سکیورٹی اداروں کے چیک پوسٹوں پر حملے اور دور دراز کی سرکاری تنصیبات کو نشانہ بناتی رہی ہیں۔

لیکن اب یہ مسلح کارروائیاں شہری علاقوں اور حساس عمارتوں سے لے کر بین الاقوامی سرمایہ کاری کے مراکز تک پھیل گئی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، گوریلا جنگ اب پہاڑوں سے اتر کر شہروں تک پھیل گئی ہے۔

مزید برآں، بی ایل اے نے اپنے میڈیا اور گوریلا وارفیئر کو ہم آہنگ کر کے جنگ کے میدان کو مربوط کیا ہے، جو بلوچ شورش کے ارتقا کی طرف ایک اور واضح اشارہ ہے۔

کراچی میں حالیہ خودکش حملہ 15-16 اکتوبر کو اسلام آباد میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے سربراہان حکومت کی 23 ویں کونسل کے اجلاس کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس حملے کا مقصد چین-پاکستان تعلقات کو متاثر کرنا بھی ہے۔

بی ایل اے مجید بریگیڈ کی چینی انجینیئرز کی نقل و حرکت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے، کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب ایک ہائی سکیورٹی زون میں چینی انجینیئرز کے گاڑیوں کے قافلے کو 80-85 کلو گرام دھماکہ خیز مواد سے نشانہ بنانے کی صلاحیت، تنظیم کی بڑھتی ہوئی طاقت کا اظہار ہے۔

بی ایل اے کی بڑھتی ہوئی آپریشنل صلاحیتیں، وسیع جغرافیائی رسائی اور جارحانہ رویہ پاکستان کے لیے ایک بڑا سکیورٹی چیلنج ہے۔

مثال کے طور پر، ماضی میں بلوچ مسلح تنظیمیں بلوچستان کے مختلف علاقوں میں سکیورٹی چیک پوسٹوں اور فوجی کیمپوں پر حملے کرتی تھیں، لیکن اب وہ کراچی میں بھی چینی مفادات اور شہریوں کو نشانہ بنا رہی ہیں۔

بلوچ شورش کے ارتقا کو سمجھنے کے لیے تین عوامل اہم

اول، بلوچ سرداروں کے متکبرانہ رویے، نچلے کیڈرز کو سیاسی اور مالی فوائد کے لیے ذاتی تنازعات میں استعمال کرنے جیسے عوامل نے سرداروں کو حالیہ تحریک میں غیر متعلق کر دیا ہے، اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں نے علیحدگی پسند تحریک کو سنبھال لیا ہے۔

اسی لیے تنازعے کا سیاسی حل ڈھونڈنے کے لیے حکومت کو سرداروں سے بات کرنے کے بجائے پہاڑوں میں موجود شورش پسندوں سے مذاکرات کرنے ہوں گے۔

2002 میں علیحدگی پسند بغاوت کی موجودہ اور پانچویں لہر شروع ہوئی تو اس کا مرکز شمال مشرقی بلوچستان تھا، جہاں قبائلی ڈھانچے اور بلوچ سردار اثرانداز تھے۔

اس کی سربراہی بگٹی، مری اور مینگل قبائل نے کی۔ تاہم، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلح تنظیموں کا مرکز غیر قبائلی علاقوں رخشان اور مکران کی طرف منتقل ہو گیا، جہاں تعلیم یافتہ متوسط طبقے نے شورش میں بھرپور حصہ لیا۔

حالیہ برسوں میں بلوچستان میں ریاست کی غلط پالیسیوں، عوامی مینڈیٹ کی چوری اور مصنوعی سیاسی قیادت کے مسلط کرنے کی وجہ سے مقامی نوجوان سیاسی عمل سے دور ہو گئے ہیں، یہاں تک کہ کچھ پڑھے لکھے بلوچ نوجوان شورش میں بھی شامل ہوئے ہیں۔

بی ایل اے مجید بریگیڈ کے خودکش بمباروں کے پروفائل پر ایک سرسری نظر، بلوچ مسلح تنظیموں کے تعلیم یافتہ، متوسط طبقے کے پس منظر کو واضح طور پر اجاگر کرتی ہے۔

ریاست کی ہٹ دھرمی، بلوچوں کے مسائل کے ازالے کے لیے حقیقی سیاسی عمل کو نظرانداز کرنے اور جبری گمشدگیوں جیسی پالیسیوں نے بلوچستان میں متعدد فالٹ لائنز کو جنم دیا ہے، جن کا بلوچ مسلح تنظیموں نے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔

دوسرا، سوشل میڈیا کی وجہ سے بیک وقت معلومات کے تیز بہاؤ اور غیر مرکزیت نے سیاسی بیانیے کو کنٹرول کرنے کی ریاست کی اجارہ داری کو کمزور کیا ہے۔

بلوچ مسلح تنظیموں کے ساتھ ساتھ بلوچ معاشرے کے دیگر طبقات نے اپنے نسلی بیانیے کو اُجاگر کرنے اور اپنی شکایات کی طرف بین الاقوامی توجہ مبذول کرنے کے لیے مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو مؤثر طریقے سے استعمال کیا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا نے پاکستان کے اندر اور باہر نوجوان بلوچوں کو بہتر طور پر متحرک اور منظم ہونے کا موقع دیا ہے جس کے نتیجے میں خیالات کے تبادلے اور اپنے محرومیوں کی کہانیوں کے ذریعے انہوں نے ایسے رشتے بنائے ہیں جو بلوچ قبائلی تقسیم سے بالاتر ہیں۔

اس قسم کی سوشل میڈیا ایکٹیوزم زمین پر بھی جھلکتی ہے، جیسا کہ بلوچستان کے سیاسی منظرنامے پر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی بلوچ یکجہتی کمیٹی جیسے نئے گروپ کا ابھرنا ہے۔

حال ہی میں ڈاکٹر ماہ رنگ کا نام ٹائم میگزین کی 2024 کی 100 عالمی بااثر شخصیات میں شامل کیا گیا ہے۔

اس قسم کے سوشل میڈیا ایکٹیوزم نے بلوچ قوم پرستی کی ایک نئی اور زیادہ بنیاد پرست شکل کو جنم دیا ہے، جو خود مختاری کی بجائے علیحدگی پسندی کی حمایت کرتی ہے۔

مزید برآں، سخت گیر موقف رکھنے والے علیحدگی پسند زیادہ پرتشدد کارروائیوں، جیسے کہ خودکش دھماکوں کے حامی ہیں، اور اس سخت گیر موقف کے زیر سایہ بلوچ عورتیں بھی نمایاں طور پر علیحدگی پسند تحریک میں حصہ لے رہی ہیں۔

اس سے پہلے، خواتین شورش کے لیے پروپیگنڈا، بھرتی اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ کے طور پر کردار ادا کر رہی تھیں، لیکن اب انہوں نے خودکش حملہ آوروں کے طور پر زیادہ بنیادی کردار سنبھال لیے ہیں۔

26 اگست کو ماہل بلوچ کو سات خودکش حملہ آوروں کے ساتھ شامل کرنے کا فیصلہ سوچا سمجھا تھا تاکہ شورش میں فرنٹ لائن میں عورتوں کی موجودگی کو اُجاگر کیا جا سکے۔

تیسرا، 2018 سے مختلف بلوچ مسلح تنظیموں کے درمیان بڑھتی ہوئی کوارڈینیشن بھی شورش کے ارتقا کو ظاہر کرتی ہے۔

بلوچ مزاحمت کاروں نے اپنی کوششوں، فائر پاور اور کیڈرز کو برقرار رکھنے اور مؤثر بنانے کے لیے بلوچ راجی آجوئی سنگر جیسے اتحاد بنائے ہیں۔

باغی گروپوں کے درمیان اتحاد میں تعاون کی متعدد شکلیں شامل ہوتی ہیں، جیسے انضمام، سٹریٹجک کوآرڈینیشن، حکمت عملی اور لین دین کے معاملات۔

زیادہ تر نسلی اور نظریاتی طور پر ملتے جلتے گروہ، جو ایک ریاست کے خلاف جغرافیائی طور پر ملحقہ علاقوں میں کام کرتے ہیں، اپنے فائدے کو زیادہ سے زیادہ اور اپنے نقصانات کو کم کرنے کے لیے اپنی کوششوں کو ہم آہنگ کرتے ہیں۔

مختلف بلوچ مسلح تنظیموں نے انہی وجوہات کی بنا پر سٹریٹجک اتحاد قائم کیا ہے۔ اس طرح کے اتحاد طویل مدتی ہوتے ہیں اور ان کے نتیجے میں اکثر انضمام بھی ہو سکتے ہیں۔

پاکستانی ریاست کی غلط پالیسیوں نے ان گروہوں میں بھرتیوں کے ایک مستقل سلسلے کو یقینی بنایا ہے۔ اپنے مربوط حملوں اور اتحاد کی وجہ سے باغی میدان جنگ میں تنازعے کو ڈیڈ لاک کرنے میں کامیاب رہے ہیں، یعنی اس وقت دونوں فریق ایک دوسرے پر فوجی حل مسلط کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچ شورش کا ارتقا امتیازی پالیسیوں، سیاسی اخراج اور جبری گمشدگیوں کا براہ راست نتیجہ ہے۔

لہٰذا حقیقی سیاسی قوتوں کو آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے بلوچ عوام کی قومی اور صوبائی سطح پر نمائندگی کی اجازت نہ دینا اور مرکزی دھارے کے میڈیا میں بلوچوں کے نقطہ نظر کو سنسر کرنے سے ان مسائل کے حل کی تجاویز بھی پس منظر میں چلی گئی ہیں۔

پاکستان کو بلوچ شورش سے نمٹنے کے لیے ایک طویل المدتی سیاسی نقطہ نظر کی ضرورت ہے، جس کا مقصد تنظیموں کو تنہا کرنے کے لیے مقامی نوجوانوں کے دل جیتنا ہے۔

ایسے سیاسی عمل کا نقطہ آغاز بلوچ لاپتہ افراد کے مسئلے کو حل کرنے سے کیا جا سکتا ہے۔

مصنف ایس راجارتنم اسکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز، سنگاپور میں سینئر ایسوسی ایٹ فیلو ہیں۔

بشکریہ انڈیپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close