خونِ ناحق کا خاموش انتقام ایک ایسی حقیقت ہے جو بظاہر نہ دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی سنی جاتی ہے، لیکن اس کا اثر ایک گہری اور خاموش لہر کی طرح پھیلتا ہے۔ جب کسی سے ناحق زندہ رہنے کا حق چھین لیا جاتا ہے، تو اس کی روح اور خون ایک بے آواز جنگ میں داخل ہو جاتے ہیں، جس کا اثر اس وقت تک محسوس نہیں کیا جاتا، جب تک کہ وہ اپنا انتقام نہ لے لے۔
خونِ ناحق کا انتقام وہ شعلہ ہے جو بظاہر بجھتا نظر آتا ہے، مگر اس کی تپش دلوں کو جلا دیتی ہے۔ کسی مظلوم پر ڈھایا گیا ظلم ایک چپ چاپ دستک بن کر وجود کی گلیوں میں گھومتا ہے، اور ہر دستک کے ساتھ درد اور بے بسی کی کہانی سناتا ہے۔ یہ انتقام وہ چیخ ہے جو ہواؤں میں گم ہو جاتی ہے، لیکن فطرت کی کائناتی کتاب میں لکھی جا چکی ہوتی ہے۔
ایسی ہی ایک کہانی مظلوم فلسطینیوں کے خونِ ناحق سے اپنے ہاتھ رنگنے والے ایک اسرائیلی فوجی کے ہاتھوں بھی اس وقت لکھی گئی، جب اس نے نفسیاتی عوارض سے تنگ آ کر اپنی جان لے لی
غزہ سے واپس آنے والے اسرائیلی فوجی شدید ذہنی صدمے کی شکایات کر رہے ہیں، کچھ نے اپنی جان بھی لے لی ہے کیونکہ وہ ان ہولناکیوں کا سامنا کر رہے ہیں جنہیں باہر کی دنیا کبھی مکمل طور پر نہیں سمجھ سکتی۔ ان کے دل دہلا دینے والے بیانات اسرائیل کی غزہ پر جارحیت اور فلسطینیوں کے خلاف ہونے والے تشدد کا فوجیوں پر پڑنے والے ذہنی اثرات کا ایک جھلک پیش کرتے ہیں۔
ایلیرن مزراحی، ایک چالیس سالہ ریزروسٹ، ان قابض فوجیوں میں سے ایک ہے جنہوں نے غزہ سے واپس آنے کے بعد خودکشی کی۔ غزہ میں ظلم و ستم ڈھانے اور فلسطینیوں کو بلڈوزر سے کچلنے والے اسرائیلی فوجی نے اپنے سر میں گولی مار کر خودکشی کی، گھر والوں کا کہنا ہے کہ ”اسے اپنے اندر سے نظر نہ آنے والا خون بہتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔“
مزراحی نے 8 اکتوبر کو غزہ میں تعیناتی کے بعد 186 دن ایک D-9 بلڈوزر چلایا، جو کہ ایک 62 ٹن کی بکتر بند گاڑی ہے جو دھماکوں اور گولیوں کو برداشت کر سکتی ہے۔ مزراحی کے دوست اور بلڈوزر کے شریک ڈرائیور، گائے زکن نے غزہ میں اپنے تجربے کے بارے میں سی این این کو بتایا، ”ہم نے بہت، بہت، بہت مشکل چیزیں دیکھیں.. ایسی چیزیں جنہیں قبول کرنا مشکل ہے۔“
امریکی نشریاتی ادارے سی این این کی رپورٹ کے مطابق چالیس سالہ ایلیران میزراحی کو (حالیہ اسرائیلی جارحیت کے دوران) غزہ میں تعینات کیا گیا تھا۔ اہل خانہ نے سی این این سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ غزہ سے واپس آنے کے بعد اس کی شخصیت بالکل بدل گئی۔ وہ جنگ کی ہولناکی کے ’صدمے‘ میں چلا گیا اور پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر (PTSD) کا شکار ہو گیا، اس سے پہلے کہ اسے دوبارہ واپس محاذ پر تعینات کیا جاتا، اس نے اپنی جان لے لی۔
اس کی ماں جینی میزراحی نے سی این این کو بتایا، ”وہ غزہ سے نکل گیا، لیکن غزہ اس سے نہیں نکلا۔ اور اس کے بعد وہ ’صدمے‘ کی وجہ سے مر گیا، جب وہ غزہ سے واپس آیا تو اکثر اپنے گھر والوں کو بتاتا تھا کہ اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس میں سے ’نظر نہ آنے والا خون‘ نکل رہا ہے۔“
اس کی بہن نے اپنے بھائی کی موت کا ذمہ دار اسرائیلی فوج کو ٹھہراتے ہوئے کہا کہ اس فوج کی وجہ سے اور اس جنگ کی وجہ سے میرا بھائی مر گیا، شاید وہ گولی یا راکٹ سے نہیں مرا، لیکن وہ ایک نظر نہ آنے والی گولی سے مر گیا۔
دوسری جانب اسرائیلی فوج نے اعتراف کیا ہے کہ ہزاروں فوجی ’جنگ‘ سے متعلق پی ٹی ایس ڈی اور دیگر ذہنی امراض میں مبتلا ہیں، تاہم فوج نے خودکشیاں کرنے والے فوجیوں کی تعداد کے بارے میں سرکاری اعداد و شمار فراہم نہیں کیے۔ لڑائی سے واپس آنے والے ایک تہائی سے زیادہ اسرائیلی فوجی دماغی صحت کے مسائل سے دوچار ہو چکے ہیں۔
واضح رہے کہ ایک سال کے دوران غزہ میں اسرائیل کی وحشیانہ بمباری میں 42 ہزار سے زیادہ افراد شہید ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ جبکہ آزاد ذرائع جان سے جانے والوں کی تعداد دگنی سے بھی زیادہ بتاتے ہیں۔
غزہ میں چار ماہ تک تعینات رہنے والے ایک اسرائیلی فوجی طبیب نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر سی این این کو بتایا، ”ہم میں سے بہت سے فوجی حکومت پر بھروسہ نہیں کرتے اور دوبارہ جنگ کے لیے بھیجے جانے سے بہت خوفزدہ ہیں۔“
طبیب (فرضی نام) نے سی این این کو بتایا کہ غزہ میں فلسطینیوں کے تئیں اسرائیلی فوجیوں کے درمیان عدم اعتماد کا ایک ’انتہائی مضبوط اجتماعی رویہ‘ تھا، خاص طور پر جنگ کے آغاز میں۔
طبیب نے کہا کہ ایک تصور تھا کہ غزہ کے باشندے، بشمول عام شہری، برے ہیں، کہ وہ حماس کی حمایت کرتے ہیں، کہ وہ حماس کی مدد کرتے ہیں، کہ وہ گولہ بارود چھپا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا ”تاہم، میدان میں، جا کر دیکھنے سے یہ تاثر بدل گیا.. جب آپ حقیقت میں غزہ کے شہریوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتے ہیں۔“
غزہ میں شہری بار بار بڑی تعداد میں مارے گئے ہیں، جن میں ان علاقوں میں پناہ لینے کے دوران بھی شامل ہے۔
غزہ میں ذہنی صحت کی تعداد بہت زیادہ ہونے کا امکان ہے۔ امدادی گروپوں اور اقوام متحدہ نے بارہا غزہ میں شہریوں کے خلاف جنگ کے تباہ کن ذہنی صحت کے نتائج کو اجاگر کیا ہے، جن میں سے اکثر پہلے ہی 17 سال کی ناکہ بندی اور اسرائیل کے حملوں کی وجہ سے متاثر ہو چکے ہیں۔
اسرائیلی حکام نے غزہ کو غیر ملکی صحافیوں کے لیے مکمل بند کر دیا ہے، جبکہ وہاں لڑنے والے اسرائیلی فوجیوں نے سی این این کو بتایا کہ انہوں نے ایسی ہولناکیوں کا مشاہدہ کیا، جسے باہر کی دنیا کبھی بھی صحیح معنوں میں نہیں سمجھ سکتی۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے ایک دائمی جنگ چھیڑدی ہے، جسے ہر دباؤ کے باوجود ختم نہیں کر رہا۔
اسرائیلی حکومت نے اپنے فوجیوں کو اس بات پر قائل کیا ہے کہ ’غزہ کی جنگ‘ اسرائیل کی بقا کی جنگ ہے اور اسے ہر قیمت پر جیتنا ہوگا لیکن اس جنگ کی پورے اسرائیل کو بہت بھاری قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔
خودکشی کرنے والے اسرائیلی فوجی میزراحی کو گزشتہ سال 8 اکتوبر کو غزہ میں تعینات کیا گیا تھا اور اسے ڈی 9 بلڈوزر چلانے کا کام سونپا گیا، غزہ میں زخمی ہونے کے بعد اسے علاج کے لیے واپس بلالیا گیا، جہاں دورانِ علاج وہ پی ٹی ایس ڈی کا شکار ہوا۔
مزراحی نے اپنی زندگی لینے سے پہلے شدید پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر (PTSD) کی علامات کا سامنا کیا، جن میں غصے کے دورے، شدید پسینہ آنا، بے خوابی اور سماجی علیحدگی شامل تھے۔ اس کے خاندان نے بتایا کہ وہ بار بار کہتا تھا کہ صرف وہی لوگ، جو اس کے ساتھ کام کر چکے ہیں، حقیقت میں سمجھ سکتے ہیں کہ اس نے کیا دیکھا تھا۔
میزراحی کے اہل خانہ نے بتایا کہ اس نے غزہ میں بہت سے لوگوں کو مرتے دیکھا اور شاید خود بھی اس نے بہت سے لوگوں کا قتل کیا ہوگا۔
سی این این کو دی گئی گواہیوں میں، غزہ سے واپس آنے والے قابض فوجیوں نے اسرائیل کی کارروائیوں کی ہولناکیوں کا انکشاف کیا۔ انہوں نے بیان دیا کہ فوجیوں کو ’سینکڑوں‘ مردہ یا زندہ فلسطینیوں کے اوپر سے گزرنا پڑتا تھا۔ کچھ نے بتایا کہ تعیناتی کے بعد وہ گوشت نہیں کھا سکتے، کیونکہ اس کا دیکھنا انہیں غزہ میں دیکھے گئے خوفناک مناظر کی یاد دلاتا ہے۔
میزراحی کے فوجی دوست زکین نے بتایا کہ غزہ میں ہم نے بہت ’مشکل کام‘ کیے جنہیں قبول کرنا بہت مشکل ہے، زندہ اور مردہ سینکڑوں فلسطینیوں کو اپنے بلڈوزروں سے کچلا، اتنا زیادہ خون خرابا اور لاشیں دیکھیں کہ اب گوشت کھانا ہی چھوڑ دیا کیونکہ گوشت دیکھ کر غزہ کے وہ مناظر اور فلسطینیوں کے جسدِ خاکی یاد آتے، جنہیں اپنے بلڈروزر سے دیکھا تھا، راتوں کی نیند اڑ گئی اور دھماکوں کی آوازیں سونے نہیں دیتیں۔
بتایا جاتا ہے کہ اسرائیل کی قابض فوج اپنی صفوں میں ایک بے مثال ذہنی صحت کے بحران کا سامنا کر رہی ہے۔ اسرائیلی دفاعی وزارت کی بحالی کی تقسیم کے مطابق، تقریباً 1,000 فوجیوں کو ماہانہ طور پر جنگ سے ہٹایا جا رہا ہے، جن میں سے 35 فیصد ذہنی صحت کے مسائل کی شکایت کر رہے ہیں۔ اس سال کے آخر تک پیش گوئی کی جا رہی ہے کہ 14,000 زخمی جنگجو علاج کی ضرورت میں ہوں گے، جن میں سے 40 فیصد کو ذہنی صحت کے مسائل کا سامنا کرنے کی توقع ہے۔
کنگز کالج لندن کے سیاسی سائنسدان اور سابق اسرائیلی فوجی، اہارن برگ مین نے وضاحت کی کہ غزہ اپنے شہری علاقے اور طویل مدت کی وجہ سے منفرد نفسیاتی چیلنجز پیش کرتا ہے۔ ”آپ اپنے بچوں کو بستر پر کیسے سلائیں گے، جب آپ جانتے ہیں کہ آپ نے غزہ میں بچوں کو مرتے دیکھا ہے؟“ اس نے پوچھا۔ اسرائیل فی الحال نسل کشی کے الزامات پر بین الاقوامی عدالت انصاف (ICJ) کے زیرِ تفتیش ہے۔ اس نے اس الزام کی تردید کی ہے۔
برگ مین نے مزید وضاحت کی کہ بکتر بند بلڈوزر آپریٹرز ان لوگوں میں شامل ہیں جو غزہ میں اسرائیل کی کارروائیوں کی وحشانیت کا سب سے زیادہ سامنا کرتے ہیں۔ ”جو وہ دیکھتے ہیں وہ مردہ لوگ ہیں، اور وہ انہیں ملبے کے ساتھ صاف کرتے ہیں،“ برگ مین نے سی این این کو بتایا۔ ”وہ ان کے اوپر سے گزر جاتے ہیں۔“
اسرائیل بھر میں، خودکشی کا بحران فوج سے آگے بڑھ چکا ہے۔ ہر سال 500 سے زائد افراد خودکشی کر رہے ہیں، جب کہ 6,000 سے زائد افراد اپنی جان لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وزارت صحت نے ان اعداد و شمار میں ممکنہ 23 فیصد کم رپورٹنگ کا اعتراف کیا ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ بحران کی اصل حد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ خاص طور پر قابض فوج کے اندر، 2021 میں فوجیوں میں خودکشی موت کی سب سے بڑی وجہ کے طور پر رپورٹ کی گئی، جب کہ کم از کم 11 فوجیوں نے اس سال اپنی جان لی۔
میزراحی کی خودکشی کے بعد اس کی غزہ میں گھروں اور عمارتوں کو بلڈوز کرتے ہوئے ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پر منظر عام پر آئی ہیں، جس پر لوگوں نے اسے شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے قاتل کہا۔
مزراحی کی PTSD کی پوری حد تنازع کے درمیان سامنے آئی، جب اسرائیلی فوج نے ابتدائی طور پر خودکشی کے اسے فوجی تدفین دینے سے انکار کر دیا۔ عوامی احتجاج کے بعد فوج کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔
اسرائیلی فوجیوں میں شدید ذہنی صدمے کے بڑھتے ہوئے شواہد اور غزہ میں نسل کشی کے ذاتی اثرات کے باوجود، حالیہ سروے سے پتہ چلتا ہے کہ صرف چھ فیصد اسرائیلیوں کا ماننا ہے کہ محصور انکلیو میں فوجی آپریشن کو روکنا چاہیے۔
بہرحال۔۔۔ ناحق خون کا انتقام وقت کی تہہ میں چھپے ہوئے ریت کے ذروں کی طرح ہے۔ ایک دن یہ ریت طوفان بن کر لوٹتی ہے۔ کبھی یہ طوفان تاریخ کی شکل میں آتا ہے، جب مظلوم مقتولین کی یادیں قاتل کے ذہن کو ہلا دیتی ہیں۔ کبھی یہ طوفان انصاف کی کرسیوں پر بیٹھے منصفوں کے قلموں میں لرزہ پیدا کر دیتا ہے۔ اور کبھی یہ طوفان معاشرتی شعور کو جھنجھوڑ دیتا ہے، جب خاموش اکثریت اٹھ کھڑی ہوتی ہے اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرتی ہے۔
خون ناحق کا خاموش انتقام ایک احساس ہے، جو کبھی گہرے خوابوں میں جاگتا ہے اور کبھی حقیقت کی کڑوی سچائی میں پلٹتا ہے۔ یہ انتقام اس لمحے میں جنم لیتا ہے جب ظالم کو بھی اپنی ہی ہتھیلیوں پر خون کے نشان نظر آنے لگتے ہیں، جب وہ اپنے ہی ہاتھوں کو دھو کر بھی اس کا بوجھ محسوس کرتا ہے۔ فطرت کے قوانین میں خون ناحق کا قرض کبھی معاف نہیں ہوتا، اور یہ قرض اس وقت ادا ہوتا ہے جب ظلم کا بوجھ خود ظالم کی گردن پر گرا دیا جاتا ہے۔
انسانی تاریخ میں بے شمار مثالیں ہیں جہاں ناحق خون نے معاشروں کو بدل دیا، سلطنتوں کو گرا دیا اور تہذیبوں کو بیدار کر دیا۔ یہ خون جسے خاموش انتقام کہا جاتا ہے، دراصل وہ چیخ ہے جو وقت کی دیواروں پر کندہ ہو جاتی ہے۔ ظلم کا نشانہ بننے والے کی روح وہ لمحہ تلاش کرتی ہے جب کائنات کی عدالت میں انصاف کا سورج طلوع ہو، اور اس وقت وہ خون جو بےآواز بہا، گواہ بن کر سامنے آتا ہے۔
یہ خاموش انتقام ہمیں یاد دلاتا ہے کہ انصاف محض طاقت کے ترازو میں نہیں، بلکہ دلوں کے احساس اور شعور کے عدل میں بھی ہوتا ہے۔
ظلم کے قدموں کی چاپ ہو یا خون ناحق کی بہتی خاموش لہر، انتقام کا سفر لازمی ہے!