دستک (روسی ادب سے منتخب افسانہ)

انتون چیخوف (ترجمہ: منظر سلیم)

آسمان پر سویرے ہی سے گہرے بادل چھائے ہوئے تھے، ہوائیں تھمی ہوئی تھیں اور یہ قدرے سرد اور بے رونق دن انہی کہریلے دنوں میں سے ایک تھا جب بہت دیر سے بہت نیچائی پر معلق بادلوں کو دیکھ کے خیال ہوتا ہے کہ بارش بس اب ہونے ہی کو ہے، پر ہوتی نہیں۔ مویشی ڈاکٹر ایوان ایوانچ اور ہائی اسکول ٹیچر بورکین چلتے چلتے تھکن سے چور ہو چکے تھے اور کھیتوں کے درمیان سے گزرتا ہوا راستہ انہیں بے کراں معلوم ہو رہا تھا۔ دوری پر انہیں میرونو سیتس کوئے گاؤں کی پون چکی دھندلی دھندلی سی نظر آ رہی تھی یا پھر دائیں جانب گاؤں سے کافی آگے تک پھیلا ہوا نیچی نیچی پہاڑیوں کا ایک سلسلہ سا، جو دراصل جیسا کہ وہ دونوں جانتے تھے، دریا کا کنارا تھا۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اس سے کچھ اور آگے سبزہ زار بید کے ہرے بھرے درخت اور دیسی جاگیریں واقع ہیں نیز یہ کہ ان میں سے کسی پہاڑی کی چوٹی پر کھڑے ہونے سے حدِ نگاہ تک پھیلے ہوئے کھیت، ٹیلی گراف کھمبے یا پھر دوری پر کسی کیڑے کی طرح رینگتی ہوئی ٹرین نظر آتی ہے اور اچھے موسم میں تو شہر تک دکھائی دیتا ہے۔ اس پُر سکون دن میں جبکہ ساری قدرت مہربان اور خیالوں میں کھوئی کھوئی سی لگ رہی تھی، ایوان ایوانچ اور بورکین کے دل اس میدانی علاقے سے محبت کے جذبات سے معمور ہو گئے اور انہوں نے سوچا کہ ان کا ملک کتنا وسیع و عریض ہے، کیسا خوبصورت!

”گزشتہ بار جب ہم نے گاؤں کے مکھیا پروکوفی کے ہاں رات بسر کی تھی“ بورکین نے کہا، ”تو آپ مجھے کوئی قصہ سنانا چاہتے تھے۔“

”جی ہاں میں آپ کو اپنے بھائی کا قصہ سنانا چاہتا تھا۔“

ایوان ایوانچ نے گہری سانس لی اور قصہ چھیڑنے کی تیاری کے طور پر اپنا پائپ سلگایا لیکن اتنے ہی میں پانی برسنے لگا۔ پلک جھپکتے ہی میں موسلا دھار بارش شروع ہو گئی اور کوئی بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ کب تھمے گی۔ ایوان ایوانچ اور بورکین چپ چاپ کھڑے ہو کر خیالوں میں کھو گئے۔ کتے، جو شرابور ہو چکے تھے، دُمیں دبائے ان دونوں کو اداس اداس نظروں سے تکے جا رہے تھے۔

”ہمیں کہیں سر چھپانے کی جگہ ڈھونڈنی چاہئے“ بورکین نے کہا، ”آئیے،آلیو خین کے ہاں چلیں۔ انکا گھر قریب ہی تو ہے۔“

”چلئے۔“

وہ مڑ کے ایک کھیت میں داخل ہوئے جس کی فصل حال ہی میں کاٹی جا چکی تھی اور کبھی سیدھے، کبھی دائیں طرف چلتے چلتے سڑک پر نکل آئے۔ جلد ہی انہیں پاپلر کے درخت پھلوں کا باغ اور زرعی گوداموں کی سرخ چھتیں دکھائی دینے لگیں۔ پھر انہیں دریا کے دور تک پھیلے ہوئے پانی کی چمک، پون چکی اور سفید پُتا ہوا غسل خانہ دکھائی دیا۔
یہ سو فینو تھا جہاں آلیو خین رہتا تھا۔

چکی چل رہی تھی، اس کے پنکھوں کے شور میں بارش کی آوازیں دب گئی تھیں اور سارا باندھ کانپ رہا تھا۔ کچھ چھکڑوں کے قریب ان کے گھوڑے سر جھکائے کھڑے بھیگ رہے تھے اور لوگ سر یا کندھے پر بورے اٹھائے اِدھر اُدھر آ جا رہے تھے۔ ہر شے بھیگی ہوئی تھی، ہر جگہ کیچڑ ہی کیچڑ تھی، ماحول ویران ویران اور باندھ کا پانی سرد اور ڈراؤنا سا لگ رہا تھا۔ ایوان ایوانچ اور بورکین نمی، گندگی اور جسمانی تکلیف کی مصیبت جھیل رہے تھے، لانگ بوٹوں پر کیچڑ کی تہیں جم چکی تھیں اور جب انہوں نے چکی کے باندھ سے آگے بڑھ کے بلندی کی طرف زمیندار کے زرعی گوداموں کو جانے والے راستے کو دیکھا تو خاموش ہو گئے، گویا ایک دوسرے سے تنگ آچکے ہوں۔
ایک گودام کے اندر سے بھوسا اڑا کر غلہ صاف کئے جانے کی آوازیں آ رہی تھیں اور اس کے کھلے ہوئے دروازے سے دھول کے بادل کے بادل نکلتے چلے آ رہے تھے۔ در میں خود آلیو خین کھڑا ہوا تھا۔ فربہ اندام چالیس کے لگ بھگ عمر اور لمبے لمبے بال۔۔ دیکھنے میں زمیندار سے زیادہ کوئی پروفیسر یا مصور لگتا تھا۔ سفید قمیض جس پر ڈوری کا ایک ٹکڑا پیٹی کی طرح بندھا ہوا تھا، فریاد کر رہی تھی کہ اب تو دھویا جائے۔ وہ پتلون نہیں صرف اس کے نیچے والا لمبا سا جانگھیا پہنے ہوئے تھا اور اس کے لانگ بوٹوں پر کیچڑ اور بھوسے کی تہیں جمی ہوئی تھیں۔ آنکھوں اور ناک کے ارد گرد دھول نظر آتی تھی۔ اس نےایوان ایوانچ اور بورکین کو پہچان لیا اور ان کی آمد سے مسرور نظر آیا۔

”آپ لوگ مہربانی کر کے گھر چلئے“ اس نے مسکراتے ہوئے کہا، ”میں ابھی ابھی حاضر ہوتا ہوں۔“

گھر کشادہ اور دو منزلہ تھا۔ آلیو خین نچلی منزل کے محرابی چھتوں اور چھوٹی چھوٹی کھڑکیوں والے دو کمروں میں رہتا تھا جہاں اس سے قبل جائیداد کے منتظمیں رہا کرتے تھے۔ ان کا فرنیچر معمولی قسم کا تھا اور ان میں رئی کی روٹیوں، سَستی واڈکا اور گھوڑوں کے ساز و سامان کی بٗو بھی بسی ہوئی تھی۔ اوپری منزل کے کمروں میں وہ عموماً صرف مہمانوں کی آمد کے موقع پر ہی جایا کرتا تھا۔ ایوان ایوانچ اور بورکین کا خیر مقدم ایک نوجوان خادمہ نے کیا جس کی خوبصورتی کا یہ عالم تھا کہ دونوں بت بن کر کھڑے کے کھڑے رہ گئے اور ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔

”آپ اندازہ نہیں لگا سکتے، عزیز دوستو کہ آپ کی آمد سے مجھے کتنی خوشی اور کتنی حیرت ہوئی۔۔“ آلیو خین نے، جبکہ وہ دونوں مکان کے اگلے حصے ہی میں تھے، گھر میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔
”پیلاگیا!“ اس نے خادمہ کی طرف مڑتے ہوئے کہا، ”مہمانوں کے لئے ذرا کپڑے تو نکال لاؤ۔ میں خود بھی کپڑے بدلوں گا لیکن پہلے تو مجھے غسل کرنا چاہئے کیونکہ مجھے یقین نہیں ہے کہ بہار کے بعد سے اب تک کبھی نہایا بھی ہوں۔۔
اور جب تک یہاں ضروری انتظامات کئے جائیں تب تک کیا آپ لوگ بھی غسل کرنا نہ پسند کریں گے؟“

حسین و جمیل نرم و نازک پیلاگیا تولیے اور صابن لے آئی۔ آلیو خین اور اس کے مہمان غسل خانے کو چلے گئے۔

”جی ہاں، مجھے نہائے ہوئے کافی دن ہو چکے ہیں۔“ اس نے کپڑے اتارتے ہوئے کہا، ”جیسا کہ آپ دیکھ ہی رہے ہیں، ہمارے یہاں دریا کے کنارے نہانے کی بہت اچھی جگہ موجود ہے۔۔ اسے میرے والد نے تعمیر کرایا تھا لیکن زندگی کا کچھ ایسا چکر ہے کہ نہانے تک کی فرصت نہیں ملتی۔“ اس نے سیڑھی پر بیٹھ کے اپنے لمبے لمبے بالوں اور گردن میں صابن لگایا اور اس کے ارد گرد پانی کا رنگ بھورا ہو گیا۔

”جی ہاں، واقعی آپ نے۔۔۔“ ایوان ایوانچ نے اپنے میزبان کے سر کو پر معنی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔

”مجھے نہائے ہوئے کافی دن ہو چکے ہیں۔۔۔۔“ آلیوخین نے نے قدرے مخل ہو کر دھرایا اور سر میں دوبارہ صابن لگایا اب کے پانی گہرا نیلگوں ہو گیا جیسے روشنائی۔

ایوان ایوانچ نے شیڈ سے باہر نکل کر دریا میں چھپ سے غوطہ لگایا اور بازو پھیلا پھیلا کر بارش ہی میں تیرنے اور اپنے ارد گرد لہریں پیدا کرنے لگا جن سے کنول کے پھول ملنے لگے۔ وہ تیرتا ہوا دریا کے بالکل وسط تک چلا گیا، غوطہ لگا کر کچھ فاصلے پر نمودار ہوا پھر بار بار غوطے لگا کر دریا کی تہہ کو چھونے کی کوشش کرنے لگا۔ وہ لطف اندوز ہو کے بار بار پکار اٹھتا تھا: ’اوہ میرے خدا۔۔۔۔۔‘ وہ تیرتا ہوا چکی کے پاس تک چلا گیا جہاں بعض کسانوں سے چند باتیں کیں اور واپس لوٹنے کے لئے مڑا لیکن بیچ دھارے میں پہنچ کر پیٹھ کے بل اس طرح تیرنے لگا کہ بارش کا پانی اس کے چہرے پر گرنے لگا۔ اس کے غوطے لگانے اور تیرنے کا سلسلہ اس وقت بھی جاری تھا جب بورکین اور آلیو خین کپڑے پہن کر گھر کے اندر جانے کے لئے تیار ہو چکے تھے۔

”اوہ! میرے خدا!“ وہ بار بار کہے جا رہا تھا، ”رحم کر خدایا! ارے باہر آئیے!“ بورکین نے پکار کے ان سے کہا۔

وہ تینوں گھر لوٹ آئے۔ پھر جب کشادہ ڈرائنگ روم میں لیمپ روشن کر دیا گیا، بورکین اور ایوان ایوانچ جو اب ریشمی ڈریسنگ گون اور گرم چپلیں پہنے ہوئے تھے، آرام کرسیوں پر بیٹھ گئے، جب آلیو خین جو بالوں میں کنگھی کر چکا تھا اور نیا فراک کوٹ پہنے ہوئے تھا، ڈرائنگ روم میں ٹہل ٹہل کر گرمی، صفائی، اپنے خشک کپڑوں اور آرام دہ چپلوں سے لطف اندوز ہونے لگا اور جب حسین و جمیل پیلاگیا جو زیر لب مسکرائے جا رہی تھی، قالین پر دبے پاؤں چلتی ہوئی مہمانوں کو ٹرے سے چائے اور مربا پیش کرنے لگی، تب کہیں جا کر ایوان ایوانچ نے اپنا قصہ شروع کیا اور دیواروں پر آویزاں سنہرے فریموں کے اندر سے سن رسیدہ اور نوجوان خواتین اور فوجی افسروں نے کچھ اس انداز سے ان تینوں پر نظریں جما دیں جیسے کہ وہ بھی ہمہ تن گوش ہوں۔

”ہم دو بھائی تھے“ اس نے کہنا شروع کیا، ”میں ایوان ایوانچ اور میرا بھائی نکولائی ایوانچ جو مجھ سے دو سال چھوٹا تھا۔ میں نے تو تعلیم پر توجہ دی اور مویشی ڈاکٹر بن گیا لیکن نکولائی نے انیس سال کی عمر ہی میں ایک سرکاری دفتر میں ملازمت اختیار کر لی۔ ہمارے والد چیمشا۔ ھمالا لیٔسکی نے تعلیم تو سپاہیوں کے بیٹوں والے اسکول میں پائی تھی لیکن بعد میں انہیں ترقی دے کر افسر بنا دیا گیا، خاندانی رئیس کا خطاب ملا اور اس کے ساتھ ہی ایک چھوٹی سی جاگیر۔ ان کے انتقال کے بعد قرضوں کی ادائیگی کے سلسلے میں یہ جاگیر بیچ دینی پڑی لیکن بہرحال ہمارا بچپن دیسی علاقے کی کھلی فضاؤں میں گزرا، جہاں ہم کسانوں کے بچوں کی طرح کھیتوں اور جنگلوں میں گھومتے پھرتے تھے، گھوڑوں کو چَرانے لے جاتے تھے، لنڈن کے درختوں کے ستنوں سے چھال نکالتے، مچھلیاں پکڑتے اور ایسی ہی دوسری سرگرمیوں میں مصروف رہتے تھے۔۔۔ جو شخص اپنی زندگی میں ایک بار بھی پرچ مچھلیوں کا شکار کھیل لیتا ہے یا خزاں کے صاف شفاف ٹھنڈے دنوں میں خوش الحان پرندوں کو جنوبی علاقوں کی طرف جاتے ہوئے گاؤں کے اوپر پرواز کرتے دیکھ لیتا ہے، وہ شہر کی زندگی کے کسی کام کا نہیں رہ جاتا اور اپنی زندگی کے باقی ایام میں دیہات کی زندگی کے خواب دیکھتا رہتا ہے۔ میرا بھائی بھی اپنے سرکاری دفتر میں بیٹھا مسلسل کڑھتا رہتا تھا۔ سال گزرتے گئے۔ وہ ہر روز ایک ہی جگہ بیٹھتا تھا، ایک ہی طرح کی دستاویزات لکھتا تھا اور تمام وقت ایک ہی فکر میں کھویا رہتا تھا: ’دیہات کو کیسے واپس جائے۔‘ دھیرے دھیرے اس کی اس آرزو نے کسی دریا یا جھیل کے کنارے چھوٹی سی جاگیر خریدنے کے واضح خواب کی شکل اختیار کر لی۔
میرا بھائی بڑا منکسر اور خوش مزاج تھا، میں اس سے محبت کرتا تھا لیکن کسی نجی جاگیر کے زنداں میں خود کو عمر بھر کے لئے اسیر کر لینے سے متعلق اس کی آرزو سے مجھے خاک بھی ہمدردی نہ تھی۔ کہا جاتا ہے کہ انسان کو بس دو گز زمین ہی تو درکار ہوتی ہے۔۔ لیکن سچ پوچھئے تو اس دو گز زمین کی ضرورت انسان کو نہیں، اس کی لاش کو ہوتی ہے۔ آج کل تو یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ دانش وروں میں زمین اور دیسی رہائش گاہوں کے حصول کا جو گہرا رجحان پیدا ہو گیا ہے، وہ ایک اچھی علامت ہے۔۔ مگر یہ دیسی جاگیریں وہی دو گز زمین ہی تو ہیں۔ شہر سے زندگی کی جدوجہد اور شوروغل سے فرار اور کسی دیسی جاگیر پر منہ چھپا کے بیٹھ رہنا زندگی نہیں بلکہ انانیت ہے، کاہلی ہے، ایک طرح کا سنیاس ہے اور سنیاس بھی کسی اعتقاد کے بغیر۔۔ انسان کو دوگز زمین کی کسی دیسی جاگیر کی نہیں بلکہ سارے کرۂ ارض کی ساری قدرت کی ضرورت ہوتی ہے، جہاں وہ اپنی صلاحیتوں اور اپنی روح کی انفرادی خصوصیات کا مظاہرہ کر سکے۔
میرا بھائی نکولائی اپنے دفتر کی میز پر بیٹھے بیٹھے خواب دیکھا کرتا تھا کہ وہ اپنے پیدا کئے ہوئے کرم کلوں کا شوربا کھائے گا، جس کی ذائقے دار مہک اس کے سارے احاطے میں پھیلی ہوگی کہ وہ گھر کے باہر ہری گھاس پر بیٹھ کر کھانا کھائے گا، دھوپ میں سوئے گا اور اپنے پھاٹک کے بنچ پر بیٹھ کر کھیتوں اور جنگلوں کو گھنٹوں تکتا رہے گا۔ زرعی کتابیں اور کیلنڈروں پر چھپے ہوئے مشورے اس کے لئے مسرت کا باعث اور محبوب روحانی غذا ہوتے تھے۔ اخباروں سے بھی وہ بڑی رغبت رکھتا تھا لیکن ان میں پڑھتا بس انہی اشتہارات کو تھا، جن میں بتایا جاتا تھا کہ اتنی ایکڑ اراضی فروخت ہو رہی ہے جس میں کھیت بھی ہیں، چراگاہیں بھی، مکان بھی بنا ہوا ہے، درمیان سے دریا بھی گزرتا ہے، پھلوں کا ایک باغ اور ایک چکی بھی ہیں اور تالاب ایسے ہیں جنہیں چشموں سے پانی ملتا ہے۔ اس کے ذہن میں باغ کی روشوں، پھولوں، پھلوں، چڑیوں کے گھونسلے بنانے کے بکسوں، کارپ مچھلیوں کے تالابوں اور ایسی ہی دوسری چیزوں کے مناظر منڈلاتے رہتے تھے۔ یہ مناظر اس کے مطالعے میں آنے والے اشتہاروں کے بموجب بدلتے بھی رہتے تھے، پر جانے کیا بات تھی کہ کروندے کی جھاڑیاں ان میں ہمیشہ ہی شامل رہتی تھیں۔ وہ ایسی کسی جاگیر یا پر فضا جگہ کا تصور ہی نہیں کر پاتا تھا، جہاں کروندے کی جھاڑیاں نہ ہوں۔
’دیہات کی زندگی کا کہنا ہی کیا۔۔‘ وہ کہا کرتا تھا، ’آپ بر آمدے میں بیٹھ کے چائے پیتے ہیں، آپ کی بطخیں آپ کی نظروں کے سامنے تالاب میں تیرتی رہتی ہیں اور سارے ماحول میں عجب خوشبوئیں بھی ہوتی ہیں اور اور کروندے کے پیڑوں پر پھل پکتےرہتے ہیں۔‘
وہ اپنی جاگیر کے نقشے مرتب کرتا رہتا تھا اور ہر نقشہ یکساں خصوصیات کا حامل ہوتا تھا: خاص رہائش گاہ، نوکروں کے کوارٹر، ترکاریوں کا باغ اور کروندے کی جھاڑیاں۔ زندگی انتہائی کفایت شعاری سے بسر کرتا تھا۔ کبھی جی بھر کے کھاتا پیتا نہیں تھا اور تن پر کپڑے لتے بھی بس بھکاریوں ہی کے جیسے ہوتے تھے۔ کوڑی کوڑی جوڑتا اور بینک میں جمع کر دیتا تھا۔ اس کی کنجوسی حد سے بڑھ گئی تھی۔ مجھ سے اس کی یہ حالت دیکھی نہیں جاتی تھی کبھی اسے تھوڑے سے پیسے دے دیتا یا کسی تیوہار پر تحفہ بھیج دیتا تو وہ اسے بھی بچا کے رکھ لیتا تھا۔ دراصل قصہ یہ ہے کہ آدمی پر کسی بات کی دھن سوار ہو جاتی ہے تو پھر کوئی کچھ بھی نہیں کر سکتا۔
سال گزرتے گئے، اس کا تبادلہ ایک دوسرے صوبے کو کر دیا گیا، عمر چالیس سے تجاوز کر گئی مگر اخباروں کے اشتہارات پڑھنے اور کوڑی کوڑی جوڑنے کا سلسلہ جاری ہی رہا۔ آخر کار میں نے سنا کہ اس نے شادی کر لی پر یہ شادی بھی مصلحت ہی کی تھی۔ ایسی جاگیر خریدنے کے لئے، جس پر کروندے کی جھاڑیاں بھی ہوں، اس نے ایک بدصورت، معمر بیوہ سے شادی کی تھی۔۔ دل کی آواز پر قطعاً نہیں، محض پیسوں کی جھنکار پر، جن کی وہ مالک تھی۔ شادی کے بعد بھی وہ کنجوسی سے ہی گزر بسر کرتا رہا، بیوی کے سارے پیسے بینک کے اپنے کھاتے میں جمع کر دیئے تھے اور اسے پیٹ بھر کھانے تک سے محروم رکھتا تھا۔ بیچاری کا پہلا شوہر پوسٹ ماسٹر تھا، عمدہ عمدہ کھانوں کی عادی تھی لیکن دوسرے شوہر کے یہاں سیاہ روٹی کے بھی لالے پڑ گئے۔ ایسی غذا اور وہ بھی قلت کے ساتھ۔۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کا جسم گھلنے لگا اور تین سال کے اندر اندر دوسری دنیا کو سدھار گئی۔ ظاہر ہے کہ میرے بھائی نے بیوی کی موت کے سلسلے میں خود کو پل بھر کے لئے بھی قصور وار نہ تصور کیا۔ پیسہ بھی صاحب! عجب چیز ہے، یہ بھی واڈکا ہی کی طرح انسان کو پاگل کر دیتا ہے۔ ہمارے شہر میں ایک تاجر ہوا کرتا تھا۔ اس نے بستر مرگ پر پلیٹ میں شہد مانگی اور اپنے سارے نوٹوں اور لاٹری ٹکٹوں کو شہد لگا لگا کے ہڑپ کر گیا تاکہ رقم کسی اور کے ہاتھ نہ لگ سکے۔۔ اور یہ بھی سنئے، ایک روز میں کسی ریلوے اسٹیشن پر مویشیوں کی ایک کھیپ کی جانچ کر رہا تھا، مویشیوں کا ایک تاجر گاڑی کے انجن کے نیچے آ گیا اور اس کی ایک ٹانگ کٹ کے جسم سے الگ ہو گئی۔ ہم لوگ اس لہولہان شخص کو، جو بڑا دردناک سماں پیش کر رہا تھا، اٹھا کے ویٹنگ روم لے گئے۔ وہ ہم سے صرف یہی درخواست کئے جا رہا تھا کہ اس کی ٹانگ اٹھا لائی جائے۔۔ بڑا فکر مند لگ رہا تھا۔ قصہ دراصل یہ تھا کہ اس نے اپنے لانگ بوٹ میں کہیں روبل رکھ چھوڑے تھے اور ڈر رہا تھا کہ کہیں ان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھے۔“

”آپ اپنے قصے سے کچھ بھٹک سے چلے ہیں۔“ بورکین بول پڑا۔

ایوان ایوانچ نے پل بھر کی خاموشی کے بعد دوبارہ کہنا شروع کیا: ”بیوی کے انتقال کے بعد میرا بھائی جاگیر تلاش کرنے لگا۔ تلاش کرنے کو آپ پانچ سال بھی کرتے رہیں لیکن آخر میں غلطی سے کوئی ایسی چیز بھی خرید سکتے ہیں جو آپ کے خوابوں کی چیز سے بالکل ہی مختلف ہو۔ میرے بھائی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔۔ اس نے ایک ایجنٹ کے ذریعے رقم کی ادائیگی کر کے تین سو ایکڑ کی جو جاگیر خریدی، اس پر شرفا کے رہنے کے قابل ایک مکان اور نوکروں کے کوارٹر بنے ہوئے تھے ، ایک پارک بھی تھا لیکن نہ پھلوں کا باغ تھا، نہ کروندوں کی جھاڑیاں اور نہ ہی کوئی تالاب جس پر بطخیں تیر رہی ہوں۔ دریا ضرور تھا لیکن اس کا پانی کافی جیسا سیاہ تھا کیونکہ جاگیر کے ایک طرف اینٹوں کا بھٹہ تھا اور دوسری طرف ہڈیوں کی بھٹیاں۔ بہر حال ان سب باتوں سے نکولائی کے حوصلے پست نہ ہوئے، اس نے کروندے کے بیسں پیڑ منگوا لئے اور زمیندار کی حیثیت سے وہاں جا بسا۔
گزشتہ سال میں اس سے ملنے گیا۔ میں نے سوچا ذرا وہاں جا کے دیکھوں تو، کہ اس کی زندگی کیسے بسر ہو رہی ہے۔ میرا بھائی اپنے خطوں میں پتے کے طور پر اس جگہ کا نام چومبار و کلوف بنجر زمین یا ہمالا یٔسکوئے لکھا کرتا تھا۔ میں اس ہمالا یٔسکوئے میں سہ پہر کو پہنچا۔ خاصی گرمی پڑ رہی تھی۔ جگہ جگہ گڑھے، جنگلے اور صنوبر کے درختوں کی قطاریں موجود تھیں اور بگھی کو احاطے تک لے جانے اور اسے کھڑی کرنے کی جگہ تلاش کرنے میں سخت دشواری ہوئی۔ خیر میں اندر داخل ہوا تو ہلکے سرخی مائل زرد رنگ کے ایک کتے نے، جو حیرت انگیز طور پر سور سے مشابہ تھا، میرا خیر مقدم کیا۔ اس نے مجھے جن نگاہوں سے دیکھا وہ کہہ رہی تھیں کہ اگر وہ اتنا زیادہ کاہل نہ ہوتا تو ضرور بھونکتا۔ پھر باورچن، وہ بھی بڑی موٹی اور بالکل سوّر جیسی تھی، باورچی خانے سے ننگے پاؤں باہر نکلی اور بتایا کہ اس کا مالک دوپہر کے کھانے کے بعد آرام کر رہا ہے۔ میں اپنے بھائی کے کمرے میں داخل ہوا تو اسے گھٹنوں کو کمبل سے ڈھکے ہوئے پلنگ پر بیٹھے دیکھا۔ وہ بوڑھا اور بری طرح موٹا ہو چکا تھا۔ اس کے پھولے پھولے گالوں، پھولی پھولی ناک اور لٹکے ہوئے موٹے موٹے ہونٹوں کو دیکھ کر مجھے ایسا لگا کہ وہ اپنے کمبل کے اندر سور کی طرح غرانے ہی کو ہے۔
ہم بغل گیر ہو کر رو پڑے۔ مسرت کے ان آنسوؤں میں غم بھی شامل تھا کیونکہ ہم دونوں کبھی نوجوان تھے اور اب دنیا سے کوچ کی گھڑی قریب آ رہی تھی۔ پھر اس نے کپڑے پہنے اور مجھے اپنی جاگیر دکھانے کے لئے نکل کھڑا ہوا۔
’کہو بھئی، یہاں کیسی کٹ رہی ہے؟‘ میں نے پوچھا۔ ’سب ٹھیک ہے، خدا کا شکر ہے کہ زندگی مزے سے کٹ رہی ہے۔‘
اب وہ غریب اور ڈرپوک کلرک تھوڑی تھا، اب تو وہ صحیح معنوں میں زمیندار اور بڑا آدمی تھا۔ اس نے اپنے قدم جما لئے تھے اور دیسی زندگی میں بڑے جوش و خروش کے ساتھ داخل ہو رہا تھا۔ ڈٹ کے کھاتا تھا، غسل خانے میں نہاتا تھا اور جسم پر چربی کی تہیں جمتی جاتی تھیں۔ بھٹوں کے مالکان اور گاؤں پنچایت سے وہ مقدمے بازی شروع کر چکا تھا اور کوئی کسان اسے مخاطب کرتے وقت ’حضور‘ کہنا بھول جاتا تو اس کی تیوریوں پر بل پڑ جاتے تھے۔ مذہب سے اسے گہرا لگاؤ پیدا ہو گیا تھا اور نیک کام یوں ہی روا روی میں نہیں بلکہ بڑے دھوم دھڑکے سے انجام دیتا تھا۔ اور یہ نیک کام تھے کیا؟ وہ کسانوں کی تمام بیماریوں کا سوڈے کے بائی کاربونیٹ اور کیسٹر آئل سے علاج کرتا تھا، اس سینٹ کے دن پر جس کے نام پر اس کا نام رکھا گیا تھا، شکرانے کی عبادت کراتا تھا اور اس عبادت کے بعد نصف بالٹی واڈکا اس خیال سے دے دیتا تھا کہ یہ مناسب بات ہے۔ لعنت ہو ان نصف بالٹیوں پر! آج تو کوئی توندیل زمیندار کسانوں کو زیمستور کے نمائندے کے سامنے محض اتنی سی بات پر حاضر کر دیتا ہے کہ انہوں نے اس کی اراضی پر اپنی بھیڑیں چرالی تھیں اور کبھی خوشی کا موقع آتا ہے تو ان کو نصف بالٹی واڈکا دے دیتا ہے۔ کسان اس شراب کو پی پی کر نعرہ ہائے تحسین بلند کرتے ہیں اور دھت ہو کر زمیندار کے قدموں پر گر پڑتے ہیں۔
روسیوں کی زندگی میں ذرا بہتری آ جاتی ہے، وہ ذرا بھی خوشحال ہو جاتے ہیں تو ان کے اندر عجب واہیات سی آسودہ خاطری پیدا ہو جاتی ہے۔ نکولائی ایوانچ سرکاری ملازمت کے دوران تو کسی معاملے میں نجی رائے رکھتے ہوئے بھی ڈرتا تھا لیکن اب وزیروں کے سے انداز میں اقوال پر اقوال پیش کئے جا رہا تھا: ’تعلیم ہے تو ضروری پر عوام اس کے لئے ابھی تیار کہاں ہیں‘ ، ’جسمانی سزا ہے تو ایک لعنت لیکن بعض معاملات میں مفید بھی ہوتی ہے اور ناگزیر بھی۔‘ ، ’میں عوام کی رگ سے واقف ہوں اور جانتا ہوں کہ ان سے کیا سلوک کیا جانا چاہیے؟‘ اس نے کہا، ’یہاں کے عوام مجھ سے محبت کرتے ہیں۔ میں انگلی سے اشارہ بھی کردوں تو جو کچھ میں چاہوں، اسے لوگ کر گزریں گے۔‘
اور خیال رہے کہ وہ یہ ساری باتیں دانش مندانہ اور مشفقانہ مسکراہٹ کے ساتھ کہہ رہا تھا۔۔ ’ہم شرفا‘ یا ’میں شائستہ شخص کی حیثیت سے..‘ جیسے فقروں کی وہ جس طرح رٹ لگائے ہوئے تھا، اس سے خیال ہوتا تھا کہ اس حقیقت کو وہ بالکل ہی فراموش کر چکا ہے کہ ہمارے دادا کسان اور والد معمولی سپاہی تھے۔ ہمارا چیمشا۔۔۔ ہمالا لئیسکی جیسا مہمل خاندانی نام تک اب معلوم ہوتا تھا کہ اسے بہت گونجدار، ممتاز اور کان میں رس گھولنے والا لگتا ہے۔
لیکن میں اس کے متعلق نہیں بلکہ اپنے متعلق آپ لوگوں سے کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ بھائی کی جاگیر پر گزارے ہوئے ان کچھ گھنٹوں کے دوران میرے اندر جو تبدیلی پیدا ہوئی، اس پر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں۔ شام کو ہم لوگ چائے پی رہے تھے تو باورچن پلیٹ بھر کے کروندے لائی۔ یہ کروندے خریدے نہیں گئے تھے بلکہ نکولائی ایوانچ کے باغ میں اس کے لگائے ہوئے پیڑوں کے اولین پھل تھے۔ میرا بھائی زور سے ہنس پڑا اور پھر آبدیدہ ہو کے ان کروندوں کو ایک منٹ تک تکتا رہا۔ جذبات کی شدت نے زبان پر مہر لگا دی تھی۔ آخر اس نے ایک کروندا اٹھا کے منہ میں رکھا، مجھے اس بچے کی جیسی فاتحانہ نظروں سے دیکھا جو مطلوبہ کھلونا حاصل کر لینے میں کامیاب ہو گیا ہو اور کہا:
’کتنا ذائقہ دار ہے!‘
اور وہ بڑے ندیدے پن سے کروندے کھانے اور بار بار کہنے لگا: ’کیا شاندار ذائقہ ہے! ذرا چکھئے نا۔‘
یہ کروندے سخت بھی تھے اور کھٹے بھی لیکن جیسا کہ پشکن نے کہا ہے: ’مسرت عطا کرنے والا جھوٹ سنجیدہ سچائیوں سے بھی زیادہ عزیز ہوتا ہے۔‘ میرے سامنے صحیح معنوں میں خوش و خرم شخص بیٹھا ہوا تھا، جس کی دلی آرزو بر آئی تھی، جو اپنی منزل مقصود پر پہنچ گیا تھا، جو کچھ چاہتا تھا حاصل کر چکا تھا اور اب اپنے نصیب اور اپنے آپ سے مطمئن تھا۔
انسانی مسرت سے متعلق میرے تصور پر ہمیشہ ہی اداسی کا ہلکا ہلکا رنگ چھایا رہا ہے اور اس وقت جبکہ ایک مسرور شخص میرے سامنے بیٹھا ہوا تھا، مجھے ایک ایسی اداسی کے جذبے نے مغلوب کر دیا، جس کی حدیں مایوسی سے مل رہی تھیں۔ رات کو اس جذبے نے اور بھی زیادہ شدت اختیار کرلی۔
میرے سونے کا انتظام میرے بھائی کی خواب گاہ سے ملحق کمرے میں کیا گیا تھا اور میں اس کے بے چینی سے کروٹیں بدلنے اور تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد پلیٹ سے ایک کروندا لینے کے سلسلے میں پلنگ سے اٹھنے کی آوازیں سن رہا تھا۔ میں سوچنے لگا کہ خوش و خرم اور مطمئن لوگوں کی تعداد آخر ہے کتنی۔ کیسی بے قابو کر دینے والی قوت ہے یہ بھی! ذرا اس زندگی کے متعلق تو سوچیے، ایک طرف شہ زوروں کی بد تمیزی اور کاہلی ہے اور دوسری طرف کمزوروں کی جہالت اور جانوروں کی سی زندگی۔۔ جدھر دیکھئے ادھر ناقابل برداشت افلاس، تن و تاریک رہائش گاہوں، انحطاط بدمستی، ریا کاری اور دروغ گوئی کا دور دورہ ہے۔۔۔۔۔ اس سب کے باوجود بظاہر ان سب گھروں میں اور سڑکوں پر امن اور نظم و ضبط پایا جاتا ہے۔ کسی شہر کے پچاس ہزار باشندوں میں ایک فرد بھی تو ایسا نہ ملے گا جو صدائے احتجاج بلند کر سکے، اپنے غصے کا کھل کر اظہار کر سکے۔ ہم صرف انہی لوگوں کو دیکھتے ہیں جو غذا خریدنے کے لئے بازار جاتے ہیں، جو دن میں کھاتے اور رات کو سوتے ہیں، جو الٹی سیدھی باتیں کرتے رہتے ہیں، شادی کرتے ہیں، بوڑھے ہوتے ہیں اور اپنے مُردوں کو قبرستان لے جاتے ہیں۔۔ لیکن ہم دکھ درد جھیلنے والوں کو نہ دیکھتے ہیں نہ ان کی باتیں سنتے ہیں، زندگی کے سارے مہیب ترین واقعات تو پردے کے پیچھے رونما ہوتے ہیں۔ سارا ماحول پر سکون ہے، صرف اعداد و شمار ہی جو بے زبان ہیں، احتجاج کرتے ہیں: اتنے افراد پاگل ہوگئے، اتنے پیپے شراب پی گئی اور اتنے بچے ناقص غذا کی بنا پر لقمہ اجل بن گئے…. اور ظاہر ہے کہ یہ سب ویسا ہی ہے جیسا کہ ہونا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ جو لوگ مسرور ہیں، وہ اپنی مسرتوں سے صرف اسی وجہ سے لطف اندوز ہو رہے ہیں کہ مغموم افراد اپنی مصیبتوں کو خاموشی سے جھیل رہے ہیں، ان کی اس خاموشی کے بغیر دوسروں کی مسرت کا وجود نا ممکن ہوگا۔ یہ صورت حال تقریباً ایسی ہی ہے جیسے کسی عمل کے ذریعے بے شمار افراد کو سلا دیا جائے۔ دراصل ہر مسرور شخص کے دروازے پر کسی شخص کو ہتھوڑی لیے موجود ہونا چاہئے جو اپنی مسلسل کھٹکھٹاہٹ سے اسے مغموم افراد کے وجود کا احساس دلاتا رہے، بتاتا رہے کہ آج وہ مسرور ہے تو کیا ہوا؟ دیر سویر زندگی اسے اپنے چنگل میں جکڑ لے گی۔۔ علالت، افلاس اور زیاں کی شکل میں اس پر آفت نازل ہوگی اور تب کوئی دیکھنے والا نہ ہوگا، بالکل اسی طرح جیسے کہ وہ خود اس وقت دوسروں کی بد بختی کو دیکھ سن نہیں رہا ہے۔۔ لیکن ہتھوڑی لیے ہوئے کوئی شخص موجود نہیں ہے، مسرور شخص ٹھاٹ سے جی رہا ہے، زندگی کے چھوٹے چھوٹے تغیرات اس کو بس اتنا ہی متاثر کرتے ہیں جتنا کہ ہوائیں سفیدے کے درخت کو اور سب کچھ ٹھیک ہے۔“

”اس رات میری سمجھ میں آیا کہ میں بھی مسرور و مطمئن تھا.“ ایوان ایوانچ نے جو کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا تھا، اپنی بات جاری رکھی، ”میں بھی شکار کے دوران یا کھانے کی میز پر خیال ظاہر کیا کرتا تھا کہ جینا کیسے چاہیے، عبادت کیسے کرنی چاہیے اور عوام کو قابو میں کیسے رکھنا چاہئے۔ میں بھی کہا کرتا تھا کہ علم کے بغیر روشنی ممکن نہیں، تعلیم بہت ضروری ہے لیکن عوام کے لئے صرف خواندگی ہی کافی ہوگی۔ میں بھی خیال ظاہر کرتا تھا کہ آزادی ایک نعمت ہے، اس کے بغیر انسان کا کام اسی طرح نہیں چل سکتا جس طرح ہوا کے بغیر لیکن ہمیں انتظار کرنا چاہئے۔ جی ہاں، میں نے یہ سب کہا تھا لیکن اب آپ سے پوچھ رہا ہوں: آخر ہمیں کاہے کے لئے انتظار کرنا چاہئے؟؟؟“ اس مرحلے پر ایوان ایوانچ نے غصے کے ساتھ بورکین کو دیکھا، ”آخر ہمیں کا ہے کے لئے انتظار کرنا چاہئے؟ میں آپ سے پوچھتا ہوں۔۔! کیا سوچ کا انتظار کرنا چاہئے؟ مجھ سے کہا جاتا ہے کہ اتنی زیادہ عجلت سے نہ کام لو، ہر خیال کی تشکیل دھیرے دھیرے اپنے وقت پر ہوتی ہے۔۔ لیکن یہ بات کہنے والے ہیں کون؟ ثبوت کیا ہے کہ یہ بات سچ ہی ہے؟ آپ چیزوں کے قدرتی نظام اور واقعات کی قوت کا ذکر کرتے ہیں لیکن آخر میں ایک جاندار اور عقل مند فرد ہو کر بھی کسی نظام اور کسی قوت کے بموجب کسی نالے کے کنارے کھڑا انتظار کرتا رہوں کہ اسے دھیرے دھیرے پاٹ دیا جائے گا یا پانی کے ساتھ بہہ کہ آنے والی ریت اور مٹی سے خود ہی اوپر تک بھر جائے گا۔۔ جبکہ میں اسے چھلانگ لگا کے پار کر سکتا ہوں یا اس کے اوپر پل بنا سکتا ہوں؟ پھر وہی سوال اٹھتا ہے کہ آخر ہمیں کا ہے کے لئے انتظار کرنا چاہئے؟ انتظار کرتے رہیں۔۔ جبکہ ہم میں جینے کی سکت باقی نہیں، حالانکہ ہمیں جینا چاہئے اور جینا ہم چاہتے بھی ہیں!
اگلے روز میں سویرے ہی سویرے اپنے بھائی کے یہاں چلا آیا اور اس کے بعد سے شہر کی زندگی ناقابلِ برداشت معلوم ہو رہی ہے۔ نظم و سکون سے میں مغموم و ملول ہو جاتا ہوں، کھڑکیوں کی طرف نظریں اٹھاتے ہوئے بھی مجھے ڈر لگتا ہے کیونکہ چائے کی میز پر بیٹھے ہوئے کسی خوش و خرم خاندان کا نظارہ میرے لئے انتہائی تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے۔ میں بوڑھا ہو چکا ہوں، جدوجہد کرنے کے قابل نہیں رہا اور اب تو شدت کے ساتھ نفرت بھی نہیں کر سکتا۔ بس دل ہی دل میں اذیت جھیلتا رہتا ہوں، غصے سے کھولتا اور جھلاتا رہتا ہوں۔ راتوں کو خیالوں کے ہجوم سے سر میں آگ سی لگی رہتی ہے اور پلک تک نہیں جھپکا پاتا…. اوہ کاش کہ میں نوجوان ہوتا!“

ایوان ایوانچ کمرے میں آگے پیچھے چلنے لگا اور ایک بار پھر کہا: ”اوه کاش کہ میں نوجوان ہوتا!“

اچانک اس نے آلیو خین کے پاس پہنچ کے پہلے اس کے ایک ہاتھ کو اور پھر دوسرے کو گرم جوشی سے دبایا۔
”پاویل کونستن تینچ“ اس نے منت کرنے کے انداز میں کہا، ”آپ خود کو بےحس نہ ہونے دیں، آپ اپنے ضمیر کو مرنے نہ دیں! جب تک آپ جوان طاقتور اور مستعد ہیں، تب تک نیک کاموں سے کبھی بھی نہ تھکیں۔ مسرت کا کوئی وجود نہیں اور ہونا بھی نہ چاہیے لیکن اگر زندگی کوئی مفہوم یا مقصد رکھتی ہے تو اس مفہوم اور مقصد کو ہمیں اپنی مسرت میں نہیں بلکہ کسی عظیم تر کسی معقول تر چیز میں تلاش کرنا چاہئے، نیکی کیجئے!“

ایوان ایوانچ نے یہ سب رحم طلب التماس بھری مسکراہٹ کے ساتھ کہا، گویا وہ خود کوئی چیز مانگ رہا ہو۔

پھر وہ تینوں ڈرائنگ روم میں ایک دوسرے سے کافی الگ تھلگ رکھی ہوئی آرام کرسیوں پر خاموش بیٹھے رہے۔ ایوان ایوانچ کے قصے سے نہ بورکین کو کوئی اطمینان حاصل ہوا تھا نہ آلیوخین کو کروندے کھانے والے کسی غریب کلرک کے قصے کو سننا ایسے میں کیا خاک دلچسپ ثابت ہوتا، جبکہ دیواروں پر سے جنرل اور شاندار خواتین جن میں اندھیرے میں جان سی پڑ گئی تھی، اپنے سنہرے فریموں کے اندر سے انہیں تکے جا رہے تھے۔ سورماؤں اور خوبصورت عورتوں کے متعلق کوئی قصہ کہیں زیادہ دلچسپ ثابت ہوتا۔ خود یہ حقیقت بھی کہ وہ ایک ایسے ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہوئے تھے جہاں کی ہر شے غلاف چڑھے شیشے کے جھاڑ، آرام کرسیاں، فرش پر بچھے ہوئے قالین، زبانِ حال سے کہہ رہی تھی کہ فریموں کے اندر سے جھانکتے ہوئے افراد کبھی یہاں چلتے پھرتے تھے، کرسیوں پر بیٹھتے اور چائے پیتے تھے اور جہاں اس وقت حسین و جمیل پیلاگیا قدموں سے ذرا بھی آواز پیدا کئے بغیر آ جا رہی تھی، کسی بھی افسانے سے بہتر تھی۔۔

آلیوخین کا نیند کے مارے برا حال تھا۔ وہ اپنی جاگیر کے کاموں میں مصروف ہونے کے لئے کوئی تین بجے رات ہی کو بیدار ہو گیا تھا اور اب آنکھوں کو کھولے رکھنا سخت دشوار ثابت ہو رہا تھا۔ وہ سونے کے لئے اپنے کمرے کو نہیں جا رہا تھا تو بس اس خیال سے کہ کہیں اس کے مہمان کوئی اور دلچسپ گفتگو نہ چھیڑ دیں اور وہ سننے سے محروم رہ جائے۔ وہ یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا تھا کہ ایوان ایوانچ نے ابھی ابھی جو کچھ بیان کیا تھا، وہ دانش مندانہ منصفانہ تھا کہ نہیں لیکن اس کے مہمان غلے، خشک گھاس اور تارکول کے متعلق نہیں بلکہ دوسری چیزوں کے متعلق ایسی چیزوں کے متعلق باتیں کر رہے تھے جو اس کی زندگی سے براہ راست تعلق نہیں رکھتی تھیں اور اسے یہ گفتگو پسند تھی، وہ چاہتا تھا کہ اس گفتگو کا سلسلہ جاری رہے۔۔۔

”اچھا بھئی، سونے کا وقت ہو گیا“ بورکین نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا، ”اجازت دیجئے کہ آپ کو شب بخیر کہوں۔“

آلیوخین شب بخیر کہہ کے اپنے نچلی منزل کے کمرے کو چلا گیا اور مہمان اوپری منزل ہی پر رہ گئے۔ ان کے سونے کا انتظام جس کشادہ کمرے میں کیا گیا تھا۔ اس میں منقش لکڑی کے دو قدیم پلنگ بچھے ہوئے تھے اور ایک گوشے میں ہاتھی کے دانت کی صلیب لگی تھی۔ کشادہ اور آرام وہ پلنگوں کے بستروں میں جو حسین و جمیل پیلاگیا نے ان لوگوں کے لئے بچھائے تھے، نئی دھلی ہوئی چادروں کی مہک بسی ہوئی تھی۔

ایوان ایوانچ خاموشی سے کپڑے اتار کے لیٹ گیا۔

’خدا ہم گناہ گاروں پر رحم کرے!‘ اس نے کہا اور چادر سے سر ڈھک لیا۔ اس نے اپنا پائپ میز پر رکھ دیا تھا، جس سے باسی تمباکو کی تیز بو پھیل رہی تھی اور بورکین کافی دیر تک لیٹے لیٹے سوچتا رہا کہ یہ گلا گھونٹ دینے والی بُو آخر کہاں سے آ رہی ہے۔

بارش کھڑکیوں کے شیشوں پر ساری رات دستک دیتی رہی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close