ہنی ٹریپ: وہ ’دلفریب‘ جال، جس میں پھنس کر لوگ خود کچے کے ڈاکوؤں تک پہنچ جاتے ہیں۔۔۔

شیر علی خالطی

’کانوں میں رس گھولنے والی آواز میں وہ مسلسل کہے جا رہی تھی ’ہیلو جانو، بس تم آ جاؤ۔ میں تمہیں جلوے دیکھاؤں گی۔ اب میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتی۔ سب کام چھوڑ کے آ جاؤ۔ میں تمھاری یاد میں روتی رہتی ہوں۔۔۔ میرے آنسوؤں کا حساب کون دے گا۔‘

یہ کال سُننے کے بعد خیبر پختونخوا کے شہر چارسدہ کے رہائشی فضل خان سے رہا نہ گیا، انھوں نے ٹکٹ بُک کروائی اور پنجاب کے شہر صادق آباد کے لیے روانہ ہو گئے

’مجھے 15 گھنٹے کا سفر پندرہ سال جیسا لگ رہا تھا۔ میں اپنے دل اور دماغ میں اس کی تصویر بناتا اور سوچتا کہ یہ ملاقات کیسی ہو گی۔ جو لڑکی میرے عشق میں اتنی پاگل ہو چکی ہے، اس سے ملاقات کا سوچ میں تھوڑا کنفیوز تھا۔

مجھے ملنے کی خوشی بھی تھی لیکن انجانا سا خوف بھی تھا مگر پھر میں نے خود کو تسلی دی کہ اس لڑکی سے میں کئی مہینوں سے بات چیت کر رہا تھا، وہ بھلا مجھے دھوکہ کیوں دے گی۔‘

’جب میں بس اڈے پر پہنچا تو اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ اسی اثنا میں کال آ گئی اور اس نے پوچھا کہ آپ اڈے پر پہنچ گئے ہیں؟ میں نے جواب دیا ’ہاں‘۔ اس پر اس نے کہا کہ میں آپ ہی کا انتظار کر رہی تھی۔‘

’اس نے مجھے بتایا کہ میں وہاں سے ایک اور گاڑی میں بیٹھ کر مرید شاخ نامی علاقے تک پہنچوں جہاں اس کا بھائی میرا انتظار کر رہا ہو گا اور یہ کہ وہ بھائی مجھے گاڑی میں منزل مقصود تک پہنچا دے گا۔‘

’میں ’نازو‘ کے بھائی کے ساتھ بیٹھ گیا۔ ہم جنگل کی طرف جا رہے تھے اور یہی وہ وقت تھا جب مجھے ذرا سا خوف محسوس ہونے لگا۔ راستے سے دو لوگ اور بھی گاڑی میں بیٹھ گئے۔ تھوڑا سا آگے گئے تو انھوں نے میری کنپٹی پر پستول رکھ دیا اور میرا موئل فون لے لیا۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد ہماری گاڑی رُکی مگر اس دوران وہ میرے ہاتھ پاؤں باندھ چکے تھے۔‘

’نامعلوم جگہ پہنچ کر مجھے زنجیروں میں جکڑ دیا گیا۔ کچھ دیر بعد انھوں نے مجھے کہا کہ اپنے گھر والوں کو فون کرو اور پیسے منگواؤ۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ میں اغوا ہو چکا تھا۔‘

’انہوں نے دھمکی دی کہ اگر میں نے انکار کیا تو وہ مجھے یہیں پر زندہ دفن کر دیں گے۔ میں نے تھوڑی سی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا تو انھوں نے مجھے مارنا شروع کر دیا۔ خیر میں نے گھر والوں کو کال کی کہ پیسے بھجوا دیں۔‘

لیکن فضل خان کے گھر والوں نے پیسے بھجوانے کے بجائے پولیس سے رابطہ کر لیا۔ ’مجھے نہیں پتا اس دوران پولیس نے ایسا کیا کیا کہ مجھے بحفاظت بازیاب کروا لیا گیا۔‘

فضل خان بتاتے ہیں کہ انھیں وہ لڑکا بھی دکھایا گیا جو اُن سے لڑکی بن کر بات کرتا تھا۔

صادق آباد کے اے ایس پی سرکل شاہزیب چاچڑ نے بی بی سی کو بتایا کہ صادق آباد پولیس گذشتہ کچھ عرصے میں اسی طرح اغوا ہونے والے چار سے پانچ لوگوں کو ڈاکوؤں سے بازیاب کروا چکی ہے۔

ہنی ٹریپ کا شکار ہونے والے فضل خان کوئی پہلے شخص نہیں تھے۔

اوکاڑہ کے رہائشی محمد ایوب بھی ہنی ٹریپ کا شکار ہو چکے ہیں۔ ان کو ایک انجان نمبر سے کال آئی اور بے تکلفانہ گفتگو شروع ہو گئی۔ بات چیت جلد ہی دوستی اور پھر محبت میں بدلی اور شادی کی باتیں ہونے لگیں۔

پولیس کے مطابق اوکاڑہ کے رہائشی ایوب کی دوستی فون پر ایک خاتون کے ساتھ ہو گئی تھی جو کہ ڈاکووں کی ساتھی تھی۔ اس خاتون نے انھیں شادی کا جھانسہ دے کر بلا کر اغوا کروایا تاہم جب اغوا کار انھیں کچے کے علاقے کی طرف لے جا رہے تھے تو ان کا آمنا سامنا تھانہ ماچھکہ کی حدود میں پولیس سے ہو گیا اور انھیں تاوان دیے بغیر ہی آزاد کروا لیا گیا۔

ڈاکوؤں کو ہنی ٹریپ جیسی تکنیک کی ضرورت پیش کیوں آئی؟

کچے کے علاقوں میں ماضی میں متعدد آپریشن ہو چکے ہیں مگر ان علاقوں سے ڈاکوؤں کا خاتمہ ممکن نہیں ہو سکا۔

سندھ کے ضلع گھوٹکی کے ایس ایس پی تنویر تنیو نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کچے سے باہر کے اردگرد کے علاقوں کو پولیس نے کافی حد محفوظ بنا لیا ہے اور یہاں رہنے والے ڈاکوؤں کے لیے اب اپنے علاقے سے باہر جا کے اغوا کی واردات کرنا ذرا مشکل ہو چکا ہے۔ لہذا اب انھوں نے کارروائیوں کے لیے ہنی ٹریپ کی تکنیک استعمال کرنا شروع کر دی ہے۔

انھوں نے کہا کہ وقت کے ساتھ اب ڈاکوؤں نے بھی اپنی حکمت عملی تبدیل کر لی ہے۔ ’یہ اغوا کار انجان نمبرز پر کال ملا کر فون اٹھانے والے بندے کو اپنے جال میں پھنساتے ہیں۔ ان کی باتوں میں پھنسنے والا آدمی جیسے ہی ملاقات کے لیے پہنچتا ہے تو مسلح افراد اس کو اغوا کر لیتے ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’تفتیش کے دوران یہ بھی سامنا آیا کہ سوشل میڈیا پر ان کے پیج بنے ہوئے ہیں جہاں وہ خوبصورت لڑکیوں کی تصاویر اپ لوڈ کرتے رہتے ہیں، ان تصاویر کے جھانسے میں آ کے لوگ پھنس جاتے ہیں اور یوں اغوا ہو جاتے ہیں۔‘

تنویر تنیو نے کو بتایا کہ ’سندھ میں ہنی ٹریپ کا شکار لوگ کم ہوتے ہیں، اب ان کا شکار زیادہ تر خیبرپختونخوا اور پنجاب کے لوگ بنتے ہیں۔‘

’لڑکی کے علاوہ لوگوں کو سستی سکیموں کا جھانسہ دیتے ہیں۔ لوگوں کو سستے ٹریکٹر، سستی گاڑی اور دیگر مشینری کا لالچ دے کر بلایا جاتا ہے اور اغوا کر لیا جاتا ہے جہاں سے ان کو کچے کے علاقوں میں لے جاتے ہیں اور پھر بھاری تاوان کے عوض ہی ان کے چنگل سے آزاد ہوتے ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ڈاکو ایسے سافٹ ویئر استعمال کرتے ہیں جس سے لڑکے کی آواز نسوانی سنائی دیتی ہے جبکہ بعض کیسز میں یہ بھی دیکھا گیا کہ ڈاکوؤں کی دوست خواتین بھی اس کام میں ملوث ہوتی ہیں۔

پولیس ہنی ٹریپ کو روکنے کے لیے کیا کر رہی ہے؟

شاہزیب چاچڑ، اے ایس پی سرکل صادق آباد، نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پولیس والے گاڑیوں میں بھی اعلان کرواتے رہتے ہیں کہ اگر کوئی مسافر صرف خواتین کے بہکاوے میں آ کر ملنے جا رہا ہے، یا پھر ان کو کسی سستی سکیم کا لالچ دیا گیا ہے وہ یہیں اتر جائیں، آگے خطرہ ہے، وہ ہنی ٹریپ کا شکار ہو رہے ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ اس حوالے سے سپیشل کاؤنٹر بھی بنا دیے گئے ہیں تاکہ لوگوں کو معلومات فراہم کی جا سکیں۔

انھوں نے کہا کہ ہنی ٹریپ کا سلسلہ گھوٹکی سے شروع ہو کر اب صادق آباد اور رحیم یار خان تک پھیل چکا ہے۔ ’ہنی ٹریپ کا شکار لوگ واپسی پر شرمندگی کے باعث عموماً مقدمہ درج نہیں کرواتے۔‘

شاہزیب چاچڑ اے ایس پی کے مطابق محکمہ پولیس نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی یعنی پی ٹی اے کو کچے کے علاقے میں کام کرنے والے موبائل بند کرنے اور فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی یعنی ایف آئی اے کو بھی متعدد خطوط لکھے ہیں کہ ان کے خلاف کاروائی کی جائے۔

حکام سے ڈاکوؤں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بند کرنے کی بھی اپیل کی گئی ہے۔

بشکریہ: بی بی سی اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close