سال 2018 سے دنیا کے مختلف خطوں سے سمندری مخلوقات کی پراسرار اموات کی خبریں وقتاً فوقتاً سامنے آتی رہی ہیں، لیکن 2021 میں شمالی امریکہ سے ایک ہولناک اور چونکا دینے والا انکشاف ہوا۔ اس سال تقریباً ایک ارب سمندری جاندار، بشمول اسٹار فش، کیکڑے، اور یہاں تک کہ سمندری پرندے جیسے بگلے، ہلاک پائے گئے۔ اس کے علاوہ، سمندر کی حیاتیاتی خوبصورتی کا مرکز سمجھے جانے والے ’کورل ریفز‘ کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا اور وہ تباہ ہو گئے۔ امریکی ماہرین نے اسی وقت خبردار کر دیا تھا کہ اگر ماحولیاتی تبدیلیوں پر قابو نہ پایا گیا تو آئندہ سالوں میں یہ تباہی مزید شدت اختیار کر سکتی ہے۔
یہ پیشگوئی 2023 کے اواخر میں جنوبی امریکہ میں حقیقت کا روپ دھارتی نظر آئی، جب ایمازون ریور کی تاریخی ٹیفے جھیل سے 155 ڈولفنز کی ہلاکت کی خبر ملی۔ اسی دوران، قریبی کوآری جھیل سے بھی 120 دریائی ڈولفنز کی اموات رپورٹ ہوئیں۔ ان افسوسناک واقعات نے ایک بار پھر سمندری ماحولیاتی بحران کی سنگینی کو اجاگر کیا، جو زمین کے سب سے اہم ماحولیاتی نظام کو تباہی کے دہانے پر لے جا رہا ہے۔
مذکورہ بالا حقائق کے بارے میں جان کر ذہن میں فوراً یہ خیال آتا ہے کہ سمندری مخلوقات کی اموات کا سبب ماحولیاتی آلودگی ہوگی، لیکن حقیقت، اگرچہ اس سے جڑی ہوئی مگر اس سے کہیں زیادہ گہری اور پریشان کن ہے۔ ان قیمتی سمندری جانداروں کی موت کی اصل ذمہ دار اوشین وارمنگ ہے یعنی سمندروں کا گرم ہونا۔۔ جو سمندر کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کا المیہ ہے۔
ہم سب ’گلوبل وارمنگ‘ کے تصور سے بخوبی واقف ہیں، لیکن حالیہ برسوں میں ’اوشین وارمنگ‘ ایک نئی اور سنگین اصطلاح کے طور پر سامنے آئی ہے، جس نے پوری دنیا کو شدید تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ یہ عمل نہ صرف سمندری ماحولیاتی نظام کو بلکہ ہمارے سیارے کی بقا کو بھی خطرے میں ڈال رہا ہے۔
دراصل اوشین وارمنگ، گلوبل وارمنگ کا ایک مہلک پہلو ہے، جس کے تحت زمین کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے سمندر کا پانی گرم ہونے لگتا ہے اور یہ پھیلنے لگتا ہے۔ نتیجتاً، سمندروں کی سطح بلند ہو رہی ہے، جو ساحلی علاقوں اور ماحولیاتی توازن کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکا ہے۔
گرم درجہ حرارت کے باعث گلیشیئرز کا تیزی سے پگھلنا سمندر کی سطح میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ قرار دی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی، گرم پانی کے بخارات بننے کا عمل شدت اختیار کر لیتا ہے، جس سے درجہ حرارت کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ جاتا ہے، اور یہ تباہ کن سلسلہ جاری رہتا ہے۔
پاکستان کے تناظر میں اس بحران کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ درجہ حرارت میں تیزی سے ہونے والی تبدیلی کے باعث پاکستان کے گلیشیئرز بڑی رفتار سے پگھل رہے ہیں، جس کے نتیجے میں لاکھوں کروڑوں ٹن پانی سمندروں میں شامل ہو رہا ہے۔“ یہ صورتحال نہ صرف مقامی بلکہ عالمی سطح پر ماحولیاتی تباہی کے خدشات کو بڑھا رہی ہے۔
گرم ہوتی زمین اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے نتیجے میں ساحلی پٹی مسلسل سمندر میں دفن ہوتی جا رہی ہے، اور ٹراپیکل طوفانوں کی شدت میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے پچھلی دو دہائیوں میں ایسے طوفانوں کی سب سے زیادہ تعداد کا سامنا کیا، جو گزشتہ پچاس سالوں کے مجموعی طوفانوں سے بھی تجاوز کر گئی۔ ان طوفانوں کی جڑ سمندر میں پیدا ہونے والی وہ تبدیلیاں ہیں، جو زمین کے بدلتے ہوئے موسم کا نتیجہ ہیں۔
گرم درجہ حرارت نہ صرف سمندری طوفانوں کو جنم دیتا ہے بلکہ ہوا میں خلا (ویکیوم) پیدا کرکے اربن فلڈنگ کا سبب بنتا ہے، جس سے شہر زیرِ آب آ جاتے ہیں اور روایتی زراعت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ یوں بڑھتا ہوا درجہ حرارت زمین اور سمندر دونوں کی حیات کے لیے خطرے کی گھنٹی بن چکا ہے۔
سمندری پانی کا تیزی سے گرم ہونا اور فضاء میں گرین ہاؤس گیسز کی بڑھتی ہوئی مقدار، اس گرمی کو فضا میں قید کر کے رکھتی ہے۔ نتیجتاً، بخارات کے عمل اور بارش کے بعد بھی ماحول ٹھنڈا نہیں ہو پاتا، اور یہ مسلسل گرمائش ماحولیاتی توازن کو مزید بگاڑ رہی ہے۔
کورل ریفس، جو سمندری حیات کے لیے نرسری کا کردار ادا کرتی ہیں، زیادہ درجہ حرارت کے باعث ’کورل بلیچنگ‘ کا شکار ہو رہی ہیں۔ اس عمل میں کورل اپنی رنگت اور غذائی تعلقات کھو بیٹھتی ہیں، جو ان کی موت کا باعث بنتا ہے۔ جبکہ سمندری مچھلیوں کی اقسام اپنے روایتی مسکن سے نکل کر ٹھنڈے پانی کی تلاش میں دوسری جگہوں پر منتقل ہو رہی ہیں، جس سے مقامی ماہی گیری صنعت متاثر ہو رہی ہے۔ گرم پانی میں آکسیجن کی مقدار کم ہو جاتی ہے، جو کئی اقسام کی سمندری حیات کے لیے مہلک ثابت ہو رہی ہے۔
سائنسی تحقیقات نے خبردار کیا ہے کہ اگر گلوبل وارمنگ کا سلسلہ جاری رہا تو مالدیپ 2100 تک سمندر کی گہرائیوں میں دفن ہو سکتا ہے۔ اس سنگین خطرے کے پیشِ نظر مالدیپ نے گلیشیئرز کے پگھلاؤ کو اپنا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا ہے۔ اس حوالے سے نیپال میں ایک اہم اجلاس منعقد ہوا، جہاں مالدیپ نے اپنی بقا کے لیے آواز بلند کی، اور پاکستان سمیت دیگر ممالک کو بھی مدعو کیا گیا۔
رواں ماہ منعقد ہونے والی COP 29 کانفرنس میں پاکستان کا ایجنڈا بھی موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے اثرات اور گلیشیئرز کے خطرات کے گرد گھومتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستان کو شدید موسمیاتی نتائج کا سامنا ہے، جن میں سیلاب، گلیشیئرز کا تیزی سے پگھلنا، اور زراعت کو درپیش مشکلات شامل ہیں۔
تاہم، تلخ حقیقت یہ ہے کہ بھارت اور چین جیسے بڑے صنعتی ممالک فوسل فیول کے استعمال کو ترک کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ان کی غفلت اور بے احتیاطی کے باعث کاربن کے اخراج میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جس کے اثرات پورے جنوبی ایشیا پر مرتب ہو رہے ہیں۔ ان اقدامات نے نہ صرف بنگلہ دیش کے چند جزیروں کو بلکہ مالدیپ کو بھی مکمل ڈوبنے کے خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف جنوبی ایشیائی ممالک بلکہ دنیا کے ہر فرد کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ جبکہ ہمارے اقدامات بھی ماحول دوستی کی بجائے ماحول دشمنی کے عکاس ہیں۔
بات صرف نیپال تک ہی محدود نہیں۔ 2060 تک کراچی کو سمندر کے نگلنے کا خطرہ بھی موسمیاتی تبدیلی اور اوشین وارمنگ کے ممکنہ اثرات کے تناظر میں ایک سنگین سوال موجود ہے۔ ماہرین کے مطابق، اگر موجودہ رجحانات برقرار رہے اور سمندر کی سطح اسی رفتار سے بلند ہوتی رہی، تو کراچی جیسے ساحلی شہر شدید خطرے سے دوچار ہو سکتے ہیں۔ اور اس خطرے کی وجوہات میں سر فہرست یہی ’اوشین وارمنگ‘ ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق، اگر گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کو کنٹرول نہ کیا گیا تو 2100 تک دنیا بھر میں سمندر کی سطح 1-2 میٹر تک بڑھ سکتی ہے۔ کراچی، جو پہلے ہی کم سطح پر واقع ہے، اس کے لیے زیادہ حساس ہے۔ 2060 تک، موسمیاتی تبدیلی اور ناقص ماحولیاتی پالیسیوں کی وجہ سے یہ خطرہ حقیقت کا روپ دھار سکتا ہے۔ یہ خطرہ صرف ایک شہر تک محدود نہیں بلکہ پوری دنیا کے ساحلی علاقوں کے لیے انتباہ ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کو نظرانداز کرنے کی قیمت بہت زیادہ ہو سکتی ہے۔
یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ زمین کی مخلوقات کے لیے 90 فیصد آکسیجن فراہم کرنے والا سمندر ہماری زندگی کا بنیادی ستون ہے، لیکن یہی سمندر اب انسانی غفلت اور غیر ذمہ دارانہ رویوں کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ فوسل فیولز کے جلنے سے خارج ہونے والا کاربن بڑی مقدار میں سمندر جذب کرتا ہے، اور گرین ہاؤس گیسز کے بے تحاشا اخراج کو کنٹرول کرنے میں ناکامی نے سمندر کو مزید نقصان پہنچایا ہے۔ آج یہ ہمارے ماحول کی 90 فیصد گرمائش اور 30 فیصد کاربن ڈائی آکسائیڈ کا بوجھ اٹھا رہا ہے۔
امریکی خلائی ادارے ناسا کی رپورٹ کے مطابق، موسمیاتی تبدیلی کے 90 فیصد اثرات براہِ راست سمندر پر مرتب ہو رہے ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں میں سمندری درجہ حرارت میں خطرناک حد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جس کے نتیجے میں بے شمار سمندری مخلوقات اپنی بقا کی جنگ ہار گئیں۔
سمندر کی سطح سے زیرو سے 200 میٹر کی گہرائی تک بڑھتے ہوئے درجہ حرارت نے وہاں موجود زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ شارکس، وہیلز، اسٹار فش، ڈولفنز، ٹونا، کیکڑے، کچھوے اور یہاں تک کہ سمندری پرندے، جیسے بگلے، اوشن وارمنگ کے براہِ راست شکار بن رہے ہیں۔ یاد رہے کہ سورج کی روشنی سمندر میں زیادہ سے زیادہ 700 میٹر تک پہنچتی ہے، اور اس سے نیچے کا علاقہ ہمیشہ کے لیے تاریکی میں ڈوبا رہتا ہے۔ لیکن ان مخلوقات کے لیے جو 200 میٹر کے اندر رہتی ہیں، بڑھتے ہوئے درجہ حرارت نے سمندر کو ان کے لیے موت کا گہوارہ بنا دیا ہے۔
سمندر، جو کبھی زندگی کی ضمانت تھا، اب انسان کی بے پروائی کا سب سے بڑا شکار بن چکا ہے۔ یہ ہمارے لیے ایک کڑا سوال ہے: کیا ہم اپنے اس محافظ کو بچانے کے لیے کچھ کریں گے، یا اسے بھی اپنے ہاتھوں برباد کر دیں گے؟
جس طرح پاکستان کے شہروں میں ہیٹ ویوز انسانی زندگی کو جھلسا دیتی ہیں، بالکل اسی طرح سمندر میں بھی ’ہیٹ ویوز‘ آتی ہیں، جو سمندری زندگی کے لیے جان لیوا ثابت ہو رہی ہیں۔ اس سلسلے کا پہلا بڑا واقعہ 2017 اور 2018 میں نیوزی لینڈ میں پیش آیا، جب اس ملک نے اپنی تاریخ کے گرم ترین سال کا سامنا کیا۔ جنوری 2018 کا مہینہ، جو ملک کا سب سے گرم مہینہ قرار پایا، نے پہلی بار دنیا کی توجہ اوشن وارمنگ کی سنگینی کی جانب مبذول کرائی۔
یہ مہلک لہر، جسے ماہرین نے جغرافیائی طور پر ٹریک کیا، 2021 کے فروری میں شمالی امریکہ تک جا پہنچی، جہاں ہم پہلے ہی سمندری مخلوقات کی ہولناک اموات کا ذکر کر چکے ہیں۔ اس غیر متوقع اور تباہ کن تبدیلی نے ماہرینِ ماحولیات کو گہری تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ یہ مہلک ’لہر‘ کیا ہے؟ 2023 میں برازیل کی تیفے جھیل میں پائی جانے والی مردہ ڈولفنز کے پیچھے سائنسدانوں نے ’ایل نینو ایفیکٹ‘ کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ اس دوران، سمندر کے درجہ حرارت نے 44 ڈگری سینٹی گریڈ کو چھو لیا— ایک ایسا درجہ حرارت، جس کے ساتھ وہاں کی سمندری مخلوقات کا مطابقت پیدا کرنا یا اسے جھیلنا ممکن نہ تھا!
یہ ’ہیٹ ویوز‘ صرف ایک انتباہ نہیں بلکہ ایک سنگین خطرہ ہیں، جو بتاتی ہیں کہ سمندری ماحولیاتی نظام پہلے سے کہیں زیادہ غیر متوازن ہو چکا ہے۔ اگر ہم نے فوری طور پر اقدامات نہ کیے تو یہ سلسلہ نہ صرف سمندری حیات بلکہ انسانوں کے لیے بھی ناقابلِ تلافی نتائج کا باعث بنے گا۔
’ایل نینو‘ کی اصطلاح نے سولہویں صدی میں پیرو کے ماہی گیروں کے مشاہدات سے جنم لیا، جب انہوں نے سمندر کے غیر معمولی حد تک گرم ہونے کا تجربہ کیا۔ اس مظہر کو ہسپانوی زبان میں ’ایل نینو‘ یعنی ’جیسس کا بچہ‘ کہا گیا، کیونکہ یہ عموماً کرسمس کے قریب وقوع پذیر ہوتا تھا۔
ایل نینو کو سمندر میں اٹھنے والی ایک تباہ کن ہیٹ ویو کے طور پر جانا جاتا ہے، جو نہ صرف سمندری مخلوقات کے لیے جان لیوا ثابت ہوتی ہے بلکہ ساحلی علاقوں میں قحط سالی کا باعث بھی بنتی ہے۔ اس کے اثرات زراعت کو بری طرح متاثر کرتے ہیں، جہاں کھیت خشک اور زمین بنجر ہو جاتی ہے۔
یہ لہر پیسفک اوشن میں ماہرین کی جانب سے ٹریک کی گئی ہے، اور اگرچہ فی الحال یہ دنیا بھر کے سمندروں تک نہیں پہنچی، ماہرین اسے مکمل طور پر خارج از امکان بھی قرار نہیں دے رہے۔ ایل نینو ایک واضح انتباہ ہے کہ اگر ہم نے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو سنجیدگی سے نہ لیا تو یہ لہر عالمی سطح پر سمندری حیات، نباتات، زراعت، اور انسانی زندگی کے لیے ناقابلِ تلافی نقصان کا پیش خیمہ بن سکتی ہے، یہ نقصان صرف ایک ماحولیاتی مسئلہ نہیں بلکہ ہمارے پورے ایکو سسٹم کے لیے ایک گہری تشویش کا سبب ہے۔
کراچی کے ایک نجی کالج کی سینیئر پروفیسر، اسما تبسم، جنہوں نے اپنے پی ایچ ڈی مقالے میں سمندری مخلوقات پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا تفصیلی جائزہ لیا ہے، بتاتی ہیں کہ درجہ حرارت میں اضافہ سمندری نباتات کے لیے زہر قاتل ثابت ہو رہا ہے۔ سمندری پودے، جو ہماری فضا کو 90 فیصد آکسیجن مہیا کرتے ہیں، موسمیاتی تبدیلی کی تباہ کاریوں سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں، اور ان کی تباہی ماحولیات کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکی ہے۔
کورل ریفس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ہر سمندر کا ایک مخصوص درجہ حرارت ہوتا ہے جس پر اس کی مخلوقات پروان چڑھتی ہیں، لیکن جب یہ درجہ حرارت غیرمعمولی طور پر بڑھتا ہے تو کورل ریفس کو بلیچنگ کا سامنا ہوتا ہے۔ یہ عمل انہیں کمزور کر کے تباہ کر دیتا ہے، اور یوں ایکو سسٹم کا اہم ستون ختم ہو جاتا ہے۔
پاکستان میں سمندری نباتات، خاص طور پر سی ویڈ، کو بھی موسمیاتی تبدیلی کے باعث شدید نقصان پہنچا ہے۔ سی ویڈ، جو عموماً پتھروں سے جڑا ہوتا ہے، سمندری طوفانوں کی شدت کی وجہ سے اپنی جڑیں کھو دیتا ہے۔ اس نقصان کے اثرات فوڈ چین تک پھیلتے ہیں: ”سی ویڈ اور کورل ریفس جیسے پودے وہ بنیادی غذا فراہم کرتے ہیں جس پر چھوٹی مخلوقات کا انحصار ہوتا ہے۔ جب یہ ختم ہوتے ہیں تو پورے سمندری ماحولیاتی نظام پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، چھوٹی مچھلیوں سے لے کر بڑی مچھلیوں تک۔“
یہ المیہ صرف سمندری حیات کا نقصان نہیں بلکہ ہمارے ماحول، خوراک کی فراہمی، اور معیشت کے لیے ایک گہری وارننگ ہے۔ اگر ہم نے فوری اقدامات نہ کیے، تو موسمیاتی تبدیلی کے یہ مہلک اثرات نہ صرف سمندری بلکہ ہماری زندگیوں کو بھی بری طرح متاثر کریں گے۔
اس ساری صورتحال کے دریا پر ہونے والے اثرات کے بارے میں ذوالفقار علی بھٹو جونیئر، جو ’سیو ڈولفنز‘ کے نام سے ایک مہم چلا رہے ہیں، کا کہنا ہے کہ کیسے درجہ حرارت میں اضافے سے سندھ کی سمندری مخلوقات کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ وہ اپنے ایک آرٹیکل میں لکھتے ہیں ”دریائے سندھ میں افسوس ناک طور پر ڈولفنز کو تیرنے کے لیے صرف ایک ہی چینل دستیاب ہے جس میں بھی 6 بیراج اور ایک ڈیم ان کے راستے میں رکاوٹ کی مانند موجود ہیں۔“
وہ مزید لکھتے ہیں ”ہمارے ملک کی 60 فیصد ڈولفنز سندھ میں پائی جاتی ہیں۔ چونکہ یہ نشیبی علاقہ ہے اس لیے بالائی علاقوں میں آنے والی تبدیلیوں کی وجہ سے یہ ڈولفنز بھی متاثر ہوتی ہیں۔ یہاں تک کہ پانی کی سطح میں معمولی سی تبدیلی بھی بہت سے دریائی مخلوق کے لیے جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے جبکہ یہ دریا کنارے رہنے والے لوگوں کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔“
ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کے آرٹیکل میں مزید بتایا گیا ہے کہ دریائے سندھ میں مختلف مقامات پر باڑ لگائے جانے کے باعث سندھ میں پانی کی سطح کم ہو رہے جس سے سندھ میں پائی جانے والی ڈولفنز کو اپنی بقا کے خطرات لاحق ہیں۔
اس بارے میں ڈاکٹر علی توقیر شیخ کا کہنا ہے کہ دریا میں پانی کی سطح بلند ہونے سے انسان اور سمندری مخلوقات دونوں متاثر ہوتے ہیں جن کے باعث انسان تو ہجرت کرجاتے ہیں لیکن سمندری مخلوقات کی بڑی تعداد میں موت واقع ہوتی ہے جس میں آلودگی بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔
عالمی سطح پر اس کی تازہ مثال ایمازون کے دریا میں ڈولفنز کی اموات ہیں جو کہ الارم ہیں کہ دنیا کے دیگر خطوں میں بھی اس طرح کے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
سمندری حیات نہ صرف قدرتی توازن کے لیے ضروری ہے بلکہ انسانی زندگی پر بھی اس کے اثرات گہرے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی کو روکنے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے، ورنہ سمندر کی گرمائش اور اس کے اثرات پوری دنیا کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔