فنگر پرنٹس کی تاریخ اور دو ہم شکل و ہم نام قیدیوں کی حیران کن کہانی

امر گل

شناخت کے میدان میں بہت کم لوگ ہیں، جو انیسویں صدی کے اختتام کے فوراً بعد، لیون ورتھ پینٹینٹری میں دو قیدی ول (ولیم) ویسٹ اور ولیم ویسٹ کی کہانی نہیں جانتے۔

ول ویسٹ اور ولیم ویسٹ کی کہانی ایک ایسے معمے کی ہے جو بظاہر کسی جاسوسی ناول سے نکلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے، لیکن حقیقت میں یہ واقعہ مجرموں کی شناخت کے نظام میں ایک انقلابی تبدیلی کی بنیاد بن گیا۔

ایک صدی سے زائد عرصے تک ، ’ول ویسٹ‘ اور ’ولیم ویسٹ‘ کی کہانی کو بار بار سنایا جاتا رہا ہے، کبھی کہانی کے طور پر اور کبھی تاریخ کے طور پر۔۔ لہٰذا، کم و بیش تفصیلات کے ساتھ ، کہانی کو کئی بار مروڑ کر دوبارہ لکھا گیا ہے۔ تاہم، اپنی خالص ترین شکل میں، کہانی اسی واقعے کو بیان کرتی ہے جو مندرجہ ذیل ہے:

یکم مئی 1903 کو، ایک افریقی نژاد امریکی شخص ول ویسٹ کو لیونورتھ کی امریکی جیل میں لایا گیا۔ دیگر قیدیوں کی طرح، ویسٹ کو بھی معیاری جانچ کے عمل سے گزرنا پڑا: جیل کے عملے نے حسبِ روایت اس کی تصاویر کھینچیں، جسمانی تفصیلات نوٹ کیں، اور ’برٹیلون سسٹم‘ کے تحت اس کی پیمائش کی۔

ابھی یہ تمام مراحل مکمل ہی ہوئے تھے کہ ریکارڈ کیپر کا سامنا ایک حیرت انگیز مسئلے سے ہوا۔ ول ویسٹ کی تمام جسمانی پیمائشیں اور تفصیلات ایک اور قیدی کے ریکارڈ سے بالکل مطابقت رکھتی تھیں۔ اس قیدی کا نام ولیم ویسٹ تھا، جو اسی جیل میں پہلے سے موجود تھا اور قتل کے جرم میں عمر قید کی سزا کاٹ رہا تھا۔ عملے کی نظر میں یہ حیران کن نہیں تھا کہ ویسٹ نے وہ آدمی ہونے سے انکار کیا۔۔ جبکہ ریکارڈ کلرک کو یقین تھا کہ اس نے اسے پہلے دیکھا ہے۔

جیل کے ریکارڈ کلرک نے ولیم ویسٹ کی اس فائل فوٹو کو نکالا، جو ہوبہو اسی کا لگتا تھا۔۔ جیل کا عملہ حیرت زدہ رہ گیا۔ دونوں افراد ایک دوسرے کے ہم شکل تھے۔ ان کے چہرے، جسمانی ساخت، اور برٹیلون پیمائشیں تقریباً ایک جیسی تھیں۔ لیکن دونوں افراد نے ایک دوسرے کو نہ جاننے کا دعویٰ کیا۔

جب ول سے پوچھا گیا ، ول ویسٹ نے وہاں اپنی سابقہ ​​قید کی تردید کی، لیکن مسٹر میک کلاؤری ماضی کے جرائم کو تسلیم کرنے کے لیے مجرموں کی ہچکچاہٹ کو جانتا تھا۔

مصنفین ہیریس ہاتھورن وائلڈر اور برٹ وینٹورتھ (1918) کے مطابق:
”برٹیلون پیمائشوں کی بنیاد پر ریکارڈ کیپر نے فائل سے ایک کارڈ نکالا، جس پر پیمائش کی تفصیلات اور نام ’ولیم ویسٹ‘ درج تھا۔ یہ کارڈ قیدی کو دکھایا گیا، جس نے حیرت سے مسکراتے ہوئے کہا:
’یہ میری تصویر ہے، لیکن مجھے نہیں معلوم یہ آپ کو کہاں سے ملی، کیونکہ میں جانتا ہوں کہ میں یہاں کبھی نہیں آیا۔‘

ریکارڈ کلرک نے کارڈ کا دوسرا رخ دیکھا اور وہاں درج تفصیلات پڑھیں، تو ریکارڈ سے معلوم ہوا کہ یہ شخص پہلے ہی اسی ادارے میں عمر قید کی سزا کاٹ رہا ہے، جسے 9 ستمبر 1901 کو قتل کے جرم میں سزا دی گئی تھی۔

دوسرے ویسٹ کو طلب کیا گیا، اور وہ پہلے ویسٹ سے حیرت انگیز حد تک مشابہ نظر آیا۔ اب ان میں فرق کرنے کے لیے ایک ہی راستہ رہ گیا تھا۔۔ دونوں کے فنگر پرنٹس لینا؟

اس عمل کا سرخیل اسکاٹ لینڈ یارڈ کا سارجنٹ تھا، جان کے فیریئر ، جس نے 1904 میں سینٹ لوئس ورلڈ میلے میں میک کلاؤری سے ملاقات کی جب وہ کراؤن جیولز کی حفاظت کر رہے تھے ، جو دورے پر تھے۔

اس نے امریکی جیل افسر کو بتایا کہ کس طرح اسکاٹ لینڈ یارڈ پچھلے تین سالوں سے فنگر پرنٹنگ کا استعمال کر رہا تھا اور اس کی درستگی کو دستاویز کرتا تھا۔

میک کلاؤری کی سفارش قبول کر لی گئی۔ 2 نومبر 1904 کو اٹارنی جنرل نے نئے نظام کی تنصیب کی اجازت دی لیکن اس سے پہلے اکتوبر 1904 کے دوران سارجنٹ فیریئر نے لیون ورتھ جیل کا دورہ کیا، اور فنگر پرنٹ سسٹم کے بارے میں ہدایات دیں۔

ایسا لگتا ہے کہ لیون ورتھ میں حکام کی طرف سے فنگر پرنٹ کی شناخت کے بارے میں آگاہی ول ویسٹ کی آمد کے بہت دیر بعد آئی ہے۔ تکنیک کے بارے میں ہدایات دیے جانے کے بعد ، مسٹر میک کلاؤری نے اسے لیون ورتھ جیل سے متعارف کرایا۔ امریکہ کا پہلا قومی فنگر پرنٹ ذخیرہ تھوڑی دیر بعد قائم کیا گیا۔

یہ معاملہ اس وقت دلچسپ موڑ پر پہنچا جب ان دونوں کے فنگر پرنٹس کا موازنہ کیا گیا۔ فنگر پرنٹس نے ثابت کیا کہ ول ویسٹ اور ولیم ویسٹ دو مختلف افراد تھے، چاہے وہ کتنا ہی ایک دوسرے سے مشابہ کیوں نہ ہوں۔

یہ حیرت انگیز اتفاق جیل کے نظام کے لیے ایک سبق بن گیا۔ جیل کے وارڈن آر ڈبلیو مکلاوری نے فوراً اعلان کیا: ”یہ برٹیلون نظام کا خاتمہ ہے!“ اور اگلے ہی دن جیل میں فنگر پرنٹس کو شناخت کا لازمی حصہ بنا دیا گیا۔

یوں اس ایک واقعے نے تین شناختی نظاموں (تصاویر، برٹیلون پیمائش، اور ناموں) کی خامیاں واضح کر دیں اور شناخت کے لیے فنگر پرنٹس کی اہمیت کو ثابت کیا۔

ول ویسٹ-ولیم ویسٹ کیس کے بعد، زیادہ تر پولیس محکموں نے اپنے مجرموں کے ریکارڈز میں تصاویر، برٹیلون پیمائش، اور فنگر پرنٹس کا استعمال شروع کر دیا۔ بالآخر برٹیلون نظام کو ترک کر دیا گیا۔

ولیم اور ول ویسٹ کی کہانی کو کسی حد تک مبالغہ آرائی سے پیش کیا گیا، اور بعد میں محققین کے ذریعے قیدیوں کے ریکارڈز میں یہ انکشاف ہوا کہ دونوں ایک ہی خاندان کے افراد سے رابطے میں تھے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ممکنہ طور پر رشتہ دار تھے۔

جیل کے ریکارڈز میں یہ بھی ذکر ہے کہ لیونورتھ کے قیدی جارج بین نے کہا تھا کہ وہ ولیم اور ول ویسٹ کو جیل سے پہلے ان کے آبائی علاقے میں جانتا تھا اور یہ دونوں جڑواں بھائی تھے۔

تاہم، اس سب کے باوجود، ان کا حقیقی تعلق آج بھی غیر واضح ہے۔ بہرحال یہ حقیقت ہے کہ ویسٹ نام کے یہ ہوبہو ہم یہ شکل دونوں اشخاص غیر معمولی نہیں تھے؛ کیونکہ بہت سے لوگوں کی جسمانی پیمائشیں ایک جیسی ہوتی ہیں۔

عام طور پر مانا جاتا ہے کہ جڑواں افراد کی جسمانی پیمائشیں تقریباً ایک جیسی ہوتی ہیں، لیکن ان کے فنگر پرنٹس مختلف ہوتے ہیں۔ اس سے فنگر پرنٹس کی برتری واضح ہو جاتی ہے۔

چاہے یہ واقعہ فنگر پرنٹنگ کے اپنانے کے لیے کتنا ہی اہم کیوں نہ ہو، ان دونوں قیدیوں کے ریکارڈز، جن میں ان کے تقریباً ایک جیسے مگ شاٹس، مماثل برٹیلون پیمائشیں، اور مختلف فنگر پرنٹس شامل ہیں، ایک حیرت انگیز اتفاق کے طور پر آج بھی زیرِ بحث ہیں۔

ول ویسٹ، جو لیونورتھ کے نئے قیدیوں میں سے ایک تھا، نے قتلِ خطا کی سزا کاٹی اور رہائی کے بعد گمنامی میں چلا گیا۔

ولیم ویسٹ، جو عمر قید کاٹ رہا تھا، اپنے ابتدائی قید کے سالوں میں لڑائی جھگڑوں اور مسائل پیدا کرنے کے لیے تنہائی کی سزا کاٹتا رہا۔ 1919 میں پیرول پر رہا ہونے سے پہلے، اس نے ایک بار فرار ہونے کی کوشش بھی کی۔

1916 تک ولیم ویسٹ ایک مثالی قیدی بن چکا تھا اور ایک ’ٹرسٹی‘ تھا، یعنی وہ قیدی جو کام کے دوران دوسرے قیدیوں کو سنبھالنے اور انضباطی کام انجام دینے پر مامور تھا۔ ایک دوپہر وہ لالچ کے آگے جھک گیا اور جیل سے بھاگ نکلا۔ وہ ایک مال گاڑی پر سوار ہو کر ٹوپیکا تک پہنچا لیکن اگلے ہی دن گرفتار ہو کر واپس لیونورتھ بھیج دیا گیا۔

اسے پکڑنے والے پولیس اہلکاروں کو اس کی شناخت کے لیے فنگر پرنٹس کی ضرورت نہیں پڑی۔ جیل کے جاری کردہ ایک اشتہار، جس میں اس کے مگ شاٹس اور تحریری تفصیلات شامل تھیں، پہلے ہی ٹوپیکا پہنچ چکا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہی معلومات کافی تھیں، اس شخص کو پکڑنے کے لیے جس نے مجرموں کی شناخت کو جدید بنانے میں کردار ادا کیا۔

اس واقعے نے دنیا کو یہ سبق دیا کہ انسانی مشابہت اتفاقیہ ہو سکتی ہے، لیکن فنگر پرنٹس کبھی جھوٹ نہیں بولتے۔ یہی وہ لمحہ تھا جب فنگر پرنٹنگ کو شناخت کے ناقابلِ تردید نظام کے طور پر اپنایا گیا، جو آج بھی مجرمانہ نظام انصاف کی بنیاد ہے۔

ولیم اور ول ویسٹ کی یہ کہانی نہ صرف ایک حیرت انگیز اتفاق کا قصہ ہے بلکہ ایک ایسی مثال بھی ہے جس نے سائنس، ٹیکنالوجی، اور قانون کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔ آج کے دور میں، فنگر پرنٹس مجرمانہ عدالتی نظام میں شناخت کے لیے نہایت اہم ہیں اور مجرموں کی تاریخ برقرار رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔

فنگر پرنٹس کی تاریخ، قدیم دور سے جدید دور تک

قدیم تہذیبوں میں مجرموں کی شناخت کے طریقوں کی بات کی جائے تو اس مقصد کے لیے ان پر داغ لگانا یا ان کے جسمانی اعضاء (جیسے ہاتھ یا ناک) کاٹ دینا عام تھا۔ مثال کے طور پر، چور کو وہ ہاتھ کاٹ کر سزا دی جاتی تھی جس نے چوری کی تھی۔ قدیم رومیوں نے مبینہ طور پر بھاگنے سے روکنے کے لیے کرائے کے فوجیوں پر ٹیٹو بنوائے۔

انیسویں صدی کے وسط سے پہلے، قانون نافذ کرنے والے افسران غیرمعمولی بصری یادداشتوں کے حامل تھے، جنہیں ’کیمرا آنکھیں‘ کہا جاتا تھا۔ وہ پہلے گرفتار ہونے والے مجرموں کو صرف اپنی یادداشت کی بنیاد پر پہچان لیتے تھے۔ فوٹوگرافی نے اس یادداشت پر انحصار کو کم کر دیا، لیکن یہ مجرموں کی شناخت کے مسئلے کا مکمل حل نہ تھا کیونکہ وقت کے ساتھ ذاتی ظاہری شکل بدل سکتی ہے۔

تقریباً 1880 میں، ایک فرانسیسی ماہر بشریات، الفونس برٹیلون نے افراد کی شناخت کے لیے جسمانی پیمائشوں کا ایک نظام وضع کیا۔ اس نظام کو ’اینٹھروپومیٹری‘ کہا جاتا تھا، جس میں سر، پاؤں، درمیانی انگلی، اور جسم کے دیگر ہڈی والے حصوں کی پیمائش شامل تھی۔ ان پیمائشوں کو ایک فارمولے میں تبدیل کیا جاتا تھا، جو نظریہ کے مطابق ہر فرد کے لیے منفرد ہوتا اور وقت کے ساتھ تبدیل نہ ہوتا۔ برٹیلون نے فنگر پرنٹس اور جسمانی پیمائشوں کے ساتھ ساتھ گرفتاری کے لیے تصاویر (مگ شاٹس) لینے کا رواج بھی متعارف کرایا۔

برٹیلون سسٹم اگلی تین دہائیوں تک کئی ممالک میں قبول کیا گیا، لیکن یہ نظام 1903 کے مذکورہ بالا واقعے کے بعد اپنی مقبولیت کھو بیٹھا۔

ذیل میں مجرموں کی شناخت کے اس سفر کو نکتہ وار بیان کریں گے، جو بالآخر فنگرپرنٹس تک پہنچا۔

قبل از تاریخ: دنیا کے مختلف مقامات پر قدیم نوادرات دریافت ہوئے ہیں جن پر جلد کی رگوں جیسے نمونے کندہ ہیں۔ نووا اسکاٹیا میں ایک چٹان پر ہاتھ کے ساتھ رگوں کے نمونوں کی ماقبل تاریخ کی تصویر کشی ملی ہے۔ قدیم بابُل میں مٹی کی تختیوں پر کاروباری لین دین کے لیے انگلیوں کے نشانات استعمال کیے جاتے تھے۔

● 200 قبل مسیح – چین: چین کے چِن خاندان (221-206 قبل مسیح) کے ریکارڈ میں چوری کی تحقیقات کے دوران ہاتھ کے نشانات بطور ثبوت استعمال کرنے کی تفصیلات شامل ہیں۔
چِن اور ہان خاندان (221 قبل مسیح – 220 عیسوی) کے دوران مٹی کی مہریں جن پر جلد کی رگوں کے نشانات موجود تھے، استعمال کی جاتی تھیں۔

1400 عیسوی – فارس: چودہویں صدی کی فارسی کتاب جامع التواریخ، جو خواجہ رشیدالدین فضل اللہ ہمدانی (1247-1318) سے منسوب ہے، میں انگلیوں کے نشانات سے لوگوں کی شناخت کرنے کے عمل پر تبصرے موجود ہیں۔

1684گرو: 1684 میں، فلسوفیکل ٹرانزیکشنز آف دی رائل سوسائٹی آف لندن میں شائع ہونے والے ایک مقالے میں، ڈاکٹر نیہمیا گرو پہلے یورپی تھے جنہوں نے جلد کی رگوں کے مشاہدات کو شائع کیا۔

1685بڈلو: ڈچ اناٹومسٹ گووارڈ بڈلو کی 1685 کی کتاب انسانی جسم کی اناٹومی میں جلد کی رگوں (پاپلری رِج) کی تفصیلات شامل ہیں۔

1686مالپیگی: 1686 میں، مارسیلو مالپیگی، جو اٹلی کی یونیورسٹی آف بولونیا میں اناٹومی کے پروفیسر تھے، نے اپنی تحریر میں انگلیوں کے نشانات کی رگوں، چکروں، اور گھماؤ کو شامل کیا۔ ان کے نام پر جلد کی ایک تہہ کا نام ’مالپیگی‘ تہہ رکھا گیا، جو تقریباً 1.8 ملی میٹر موٹی ہوتی ہے۔

گرو، بڈلو یا مالپیگی میں سے کسی نے بھی جلد کی رگوں کی انفرادیت یا مستقل مزاجی کا ذکر نہیں کیا۔

1788مایر: انفرادیت کا پہلا ذکر: جرمن اناٹومسٹ جوہان کرسٹوف اینڈریاس مایر نے اپنی کتاب Anatomical Copper-plates with Appropriate Explanations میں جلد کی رگوں کے نمونوں کے خاکے شامل کیے۔ مایر نے لکھا:
”اگرچہ جلد کی رگوں کی ترتیب دو افراد میں کبھی دہرائی نہیں جاتی، تاہم کچھ افراد میں مشابہت زیادہ ہوتی ہے۔ دیگر میں یہ فرق نمایاں ہوتا ہے، لیکن اپنی خاص ترتیب کے باوجود، ان سب میں ایک خاص حد تک یکسانیت پائی جاتی ہے۔“
مایر پہلے شخص تھے جنہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ جلد کی رگوں کی ترتیب منفرد ہوتی ہے۔

1823 – پرکنجے: 1823 میں، جین ایوانجلیسٹا پرکنجے، جو پولینڈ کے شہر وروکلا کے بریسلاو یونیورسٹی میں اناٹومی کے پروفیسر تھے، نے اپنی تحقیق شائع کی جس میں نو فنگر پرنٹ نمونوں پر بحث کی گئی۔ تاہم، پرکنجے نے فنگر پرنٹس کو ذاتی شناخت کے لیے استعمال کرنے کی اہمیت کا ذکر نہیں کیا۔

1856 – ویلکر: جرمن انسانیات دان ہرمن ویلکر، جو یونیورسٹی آف ہالے سے وابستہ تھے، نے جلد کی رگوں کی مستقل مزاجی کا مطالعہ کیا۔ انہوں نے 1856 میں اپنے دائیں ہاتھ کا پرنٹ لیا اور دوبارہ 1897 میں، اور 1898 میں اس مطالعے کو شائع کیا۔

1858 – ہرشل: انگریزوں نے جولائی 1858 میں فنگر پرنٹس کا استعمال شروع کیا، جب سر ولیم جیمز ہرشل، جو بھارت کے ہوگلی ضلع کے جُنگی پور (موجودہ نام جنگی پور، مغربی بنگال) میں چیف مجسٹریٹ تھے، نے مقامی معاہدوں پر فنگر پرنٹس استعمال کیے۔ ہرشل نے مقامی تاجر راجیادھر کونائی کو ایک معاہدے پر اپنے ہاتھ کا نشان لگانے کا کہا۔ اس وقت اس کا مقصد معاہدے کو زیادہ موثر بنانا تھا۔ ہرشل نے مقامی لوگوں سے معاہدوں پر ہتھیلی کے نشانات اور بعد میں دائیں ہاتھ کی شہادت اور درمیانی انگلی کے نشانات لینا شروع کیے۔ جیسے جیسے ان کے فنگر پرنٹس کا ذخیرہ بڑھا، انہوں نے محسوس کیا کہ یہ نشانات کسی کی شناخت ثابت یا مسترد کرنے میں مددگار ہو سکتے ہیں۔

1863 – کولیئر: پروفیسر پال-جین کولیئر، جو پیرس کے وال-دی-گریس میں پروفیسر تھے، نے اپنی تحقیق میں ذکر کیا کہ فنگر پرنٹس کو کاغذ پر آیوڈین کے دھوئیں کے ذریعے نمایاں کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے ان نشانات کو محفوظ کرنے اور مشتبہ افراد کی شناخت کے لیے عدسے کے استعمال کے طریقے پر تبصرہ کیا۔

● 1877 – ٹیلر: امریکی خوردبین دان تھامس ٹیلر نے یہ تجویز دی کہ انگلی اور ہتھیلی کے نشانات، جو کسی بھی شے پر چھوڑے جاتے ہیں، جرائم کو حل کرنے کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں۔
دی امریکن جرنل آف مائکروسکوپی اینڈ پاپولر سائنس کے جولائی 1877 کے شمارے میں ان کی ایک تقریر کے بارے میں لکھا گیا: ”مائکروسکوپ کے تحت ہاتھ کے نشانات – حالیہ لیکچر میں، مسٹر تھامس ٹیلر نے ہاتھ کی ہتھیلی اور انگلیوں کے نشانات کو اسکرین پر دکھایا اور اس امکان پر توجہ دلائی کہ مجرموں کی شناخت ان نشانات کے ذریعے کی جا سکتی ہے جو کسی شے پر چھوڑے جاتے ہیں، اور ان کا موازنہ مشتبہ افراد کے ہاتھوں سے لیے گئے نشانات کے ساتھ کیا جا سکتا ہے۔“

1870 – فوالڈز: 1870 کی دہائی میں، ڈاکٹر ہنری فوالڈز، جو جاپان کے شہر ٹوکیو کے سُکیجی اسپتال میں برطانوی سرجن-سپرنٹنڈنٹ تھے، نے ’جلد کی جھریوں‘ کا مطالعہ شروع کیا۔ یہ دلچسپی انہیں ’قبل از تاریخی‘ مٹی کے برتنوں پر انگلیوں کے نشانات دیکھ کر پیدا ہوئی۔ فوالڈز نے نہ صرف فنگر پرنٹس کی اہمیت کو ایک شناختی طریقے کے طور پر پہچانا بلکہ ان کے درجہ بندی کے لیے ایک طریقہ بھی تیار کیا۔ ٹوکیو میں ان کا کلینک بالآخر سینٹ لوک انٹرنیشنل اسپتال بن گیا۔

● 1880 میں، فوالڈز نے اپنی درجہ بندی کے نظام کی وضاحت اور سیاہی والے نشانات ریکارڈ کرنے کے لیے ڈیزائن کیے گئے فارم کے نمونے سر چارلس ڈارون کو بھیجے۔ ڈارون، جو عمر رسیدہ اور صحت کے مسائل کا شکار تھے، نے فوالڈز کو بتایا کہ وہ ان کی مدد نہیں کر سکتے، لیکن وعدہ کیا کہ یہ مواد اپنے کزن فرانسس گالٹن کو بھیج دیں گے۔

اسی سال، فوالڈز نے سائنٹیفک جرنل نیچر میں ایک مضمون شائع کیا، جس میں فنگر پرنٹس کو ذاتی شناخت کا ذریعہ اور پرنٹر کی سیاہی کو ان نشانات کو ریکارڈ کرنے کے طریقے کے طور پر پیش کیا۔ وہ ایک چکنائی والے فنگر پرنٹ کی شناخت کے لیے بھی مشہور ہیں، جو الکوحل کی بوتل پر پایا گیا تھا۔

1882 – تھامپسن: 1882 میں، نیو میکسیکو میں یو ایس جیولوجیکل سروے کے گلبرٹ تھامپسن نے جعلسازی کو روکنے کے لیے ایک دستاویز پر اپنے انگوٹھے کے نشان کا استعمال کیا۔ یہ امریکہ میں فنگر پرنٹس کے استعمال کا پہلا معلوم واقعہ ہے۔

● 1882 – برٹیلون: الفونز برٹیلون، جو فرانس کے شہر پیرس کی پولیس کے دفتر میں کلرک تھے، نے ایک درجہ بندی کا نظام تیار کیا جسے ’انٹروپومیٹری‘ یا ’برٹیلون سسٹم‘ کہا جاتا ہے۔ یہ نظام جسم کے مختلف حصوں کی پیمائش پر مبنی تھا، جیسے سر کی لمبائی، چوڑائی، درمیانی انگلی کی لمبائی، بائیں پاؤں کی لمبائی، اور کہنی سے درمیانی انگلی کے سرے تک بازو کی لمبائی۔ برٹیلون نے چہروں کی فوٹوگرافی کا نظام بھی وضع کیا، جسے ’مگ شاٹس‘ کہا جاتا ہے۔ 1888 میں، برٹیلون کو نئے بنائے گئے ’ڈیپارٹمنٹ آف جوڈیشل آئیڈینٹٹی‘ کا سربراہ مقرر کیا گیا، جہاں انہوں نے انٹروپومیٹری کو شناخت کے بنیادی ذریعے کے طور پر استعمال کیا۔ بعد میں انہوں نے فنگر پرنٹس کا بھی تعارف کرایا، لیکن انہیں ’خاص نشانات‘ کے زمرے میں ثانوی حیثیت دی۔

● 1883 – مارک ٹوین (سیموئل ایل کلیمنس) : مارک ٹوین کی کتاب Life on the Mississippi میں ایک قاتل کو فنگر پرنٹ کی شناخت کے ذریعے پکڑا گیا۔ ان کی ایک اور کتاب The Tragedy of Pudd’n Head Wilson میں ایک ڈرامائی عدالتی مقدمے کا منظر پیش کیا گیا، جس میں فنگر پرنٹ کی شناخت شامل تھی۔ اس کتاب پر 1916 میں ایک فلم بنی اور 1984 میں ایک ٹی وی مووی بھی تیار کی گئی۔

1888 – گالٹن: سر فرانسس گالٹن، برطانوی ماہر بشریات اور چارلس ڈارون کے کزن، نے 1880 کی دہائی میں فنگر پرنٹس کو شناخت کے ایک ذریعہ کے طور پر مطالعہ کرنا شروع کیا۔

1891 – ووسیٹیچ: جوان ووسیٹیچ، جو ایک ارجنٹائنی پولیس افسر تھے، نے گالٹن کے طے کردہ نمونوں کی بنیاد پر پہلی فنگر پرنٹ فائلیں تیار کیں۔ ابتدائی طور پر ووسیٹیچ نے برٹیلون سسٹم کو بھی ان فائلوں میں شامل کیا۔

1892 – الواریز: 1892 میں بیونس آئرس، ارجنٹینا میں انسپکٹر ایڈورڈو الواریز نے پہلی مجرمانہ فنگر پرنٹ شناخت کی۔ انہوں نے فرانسسکا روخاس کو شناخت کیا، جس نے اپنے دو بیٹوں کو قتل کیا اور اپنی گردن کاٹ کر یہ الزام کسی اور پر ڈالنے کی کوشش کی۔ ان کا خون آلود فنگر پرنٹ ایک دروازے کے ستون پر پایا گیا، جو جائے وقوع پر ان کی موجودگی کا ثبوت تھا۔ الواریز کو جوان ووسیٹیچ نے تربیت دی تھی۔

● 1892 – گالٹن: سر فرانسس گالٹن نے اپنی کتاب Finger Prints 1892 میں شائع کی، جس میں فنگر پرنٹس کی انفرادیت اور پائیداری کو ثابت کیا گیا۔ یہ کتاب فنگر پرنٹس کے لیے پہلا شائع شدہ درجہ بندی کا نظام بھی فراہم کرتی ہے۔ 1893 میں گالٹن نے کتاب Decipherment of Blurred Finger Prints شائع کی اور 1895 میں Fingerprint Directories شائع کی۔

گالٹن کی فنگر پرنٹس میں دلچسپی ان کی یوجینکس (Eugenics) پر تحقیق میں مدد کے لیے تھی، جو موروثیت کو قابو کرنے یا نسلوں کی افزائش سے بہتر انسان پیدا کرنے اور حیاتیاتی طور پر کمتر سمجھے جانے والے افراد کو ختم کرنے پر مرکوز تھی۔ اگرچہ گالٹن نے جلد ہی دریافت کیا کہ فنگر پرنٹس ان کی جینیاتی تحقیق میں کوئی مدد فراہم نہیں کرتے (فنگر پرنٹس سے کسی فرد کی ذہانت یا جینیاتی تاریخ کے بارے میں کوئی واضح معلومات حاصل نہیں ہوتیں)، ان کی تحقیق نے وہی ثابت کیا جو ہرشل اور فوالڈز پہلے سے مانتے تھے: 1) چوٹ یا بیماری کے علاوہ، کسی فرد کی زندگی کے دوران فنگر پرنٹ کے نمونے نہیں بدلتے۔ 2) دو فنگر پرنٹس کبھی بھی ایک جیسے نہیں ہوتے۔

گالٹن کے حساب کے مطابق، دو فنگر پرنٹس ایک جیسے ہونے کے امکانات 1/64 ارب تھے۔ انہوں نے ان خصوصیات کو بھی نام دیا جن سے فنگر پرنٹس کی شناخت کی جا سکتی ہے۔ تاہم، جدید فرانزک سائنس میں گالٹن کے اکثر اصطلاحات کو ترک کر دیا گیا ہے۔

1896 – ہوڈسن: 8 مئی 1896 کو ڈاکٹر رالف ہوڈسن نے آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں ’سڈنی اسکول آف آرٹس‘ میں فنگر پرنٹ شناخت کی اہمیت پر ایک لیکچر دیا۔ لیکچر میں فنگر پرنٹس کی زبردست اہمیت اور دنیا بھر کے اداروں میں برٹیلون پیمائش کے ساتھ ان کے محدود استعمال پر بات کی گئی۔

1897امریکہ اور کینیڈا میں پہلا قومی شناختی بیورو: 20 اکتوبر 1897 کو، امریکہ اور کینیڈا کے پولیس چیفوں کی قومی تنظیم نے شکاگو، ایلی نوائے کے سٹی ہال میں نیشنل بیورو آف آئیڈینٹیفکیشن (NBI) کا آغاز کیا۔ این بی آئی کے فائلوں میں مجرموں کی مگ شاٹس، فنگر پرنٹس اور متعلقہ برٹیلون ریکارڈ شامل تھے۔ 1902 میں، اس تنظیم کا نام بدل کر انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف چیفس آف پولیس رکھا گیا اور این بی آئی کو شکاگو سے واشنگٹن، ڈی سی منتقل کر دیا گیا۔

1897 – ہندوستان میں فنگر پرنٹ کے بانی: 12 جون 1897 کو، گورنر جنرل آف انڈیا کی کونسل نے ایک کمیٹی کی رپورٹ کی منظوری دی جس میں سفارش کی گئی تھی کہ مجرمانہ ریکارڈ کی درجہ بندی کے لیے فنگر پرنٹس کا استعمال کیا جائے۔ اسی سال، کلکتہ (موجودہ کولکتہ) میں اینتھروپومیٹرک بیورو دنیا کا پہلا فنگر پرنٹ بیورو بن گیا۔

قاضی عزیز الحق اور ہیم چندر بوس نے کلکتہ اینتھروپومیٹرک بیورو میں کام کیا (اس سے پہلے کہ یہ فنگر پرنٹ بیورو بنا)۔
قاضی عزیز الحق اور ہیم چندر بوس کو ایڈورڈ رچرڈ ہنری کے ماتحت کام کرتے ہوئے ’ہنری سسٹم آف فنگر پرنٹ کلاسفیکیشن‘ کی بنیادی ترقی کا سہرا دیا جاتا ہے۔ ہنری سسٹم آج بھی کئی ممالک میں استعمال ہوتا ہے، خاص طور پر وہ ممالک جہاں کاغذی فنگر پرنٹ کارڈ آرکائیوز کو اسکین یا کمپیوٹرائزڈ نہیں کیا گیا۔

1900 – ای۔ آر۔ ہنری: برطانیہ کے ہوم سیکریٹری آفس نے ’مجرمانہ شناخت بذریعہ پیمائش اور فنگر پرنٹس‘ پر ایک انکوائری کا انعقاد کیا۔ اس انکوائری کمیٹی کے سامنے مسٹر ایڈورڈ رچرڈ ہنری (جو بعد میں سر ای۔ آر۔ ہنری کہلائے) پیش ہوئے اور اپنی حالیہ کتاب The Classification and Use of Fingerprints میں شائع کردہ نظام کی وضاحت کی۔ کمیٹی نے فنگر پرنٹس کو شناخت کے لیے اپنانے کی سفارش کی، جو نسبتاً غیر مستند برٹیلون سسٹم کی جگہ لیتا، جس میں جزوی طور پر فنگر پرنٹس کا استعمال کیا جاتا تھا۔

1901 – نیو اسکاٹ لینڈ یارڈ: جولائی 1901 میں نیو اسکاٹ لینڈ یارڈ (میٹروپولیٹن پولیس) میں فنگر پرنٹ برانچ قائم کی گئی، جو ہنری سسٹم آف فنگر پرنٹ کلاسفیکیشن استعمال کرتی تھی۔

1902 – ڈی فورسٹ کا امریکہ میں پہلا شہری فنگر پرنٹ عمل شروع کرنا: جون 1902 میں، ڈاکٹر ہنری پیلوڈز ڈی فورسٹ کو نیویارک سٹی سول سروس کمیشن کا چیف میڈیکل ایگزامینر مقرر کیا گیا۔ ان کا کام یہ تھا کہ شہری درخواست دہندگان کے شناختی عمل کو بہتر بنایا جائے تاکہ دھوکہ دہی اور جعلی امتحانات کو روکا جا سکے۔

ڈی فورسٹ یورپ کے سفر پر گئے تاکہ برٹیلون سسٹم کا مطالعہ کریں، لیکن انگلینڈ میں فرانس جانے کے دوران انہوں نے ڈیلی ٹیلی گراف اخبار (15 ستمبر 1902) میں ایک مضمون پڑھا جس کا عنوان تھا: "فنگر پرنٹس کے ذریعے شناخت”۔ اسکاٹ لینڈ یارڈ کی کامیابی سے متاثر ہو کر، ڈی فورسٹ نے برٹیلون سسٹم کو ترک کر دیا اور فرانس میں اس کے مطالعے کے منصوبے منسوخ کر دیے۔

ابتدا میں اسکاٹ لینڈ یارڈ نے انہیں مسترد کر دیا، لیکن امریکی سفارت خانے کی مدد سے وہ سارجنٹ (بعد میں چیف انسپکٹر) چارلس ایس کولنز کے تحت فنگر پرنٹ کے طالب علم کے طور پر قبول کر لیے گئے۔ واپس امریکہ آنے کے بعد، وہ ایک فنگر پرنٹ میگنیفائر، کئی ریکارڈ فارم، اور سر ایڈورڈ آر ہنری کی کتاب The Classification and Uses of Finger Prints ساتھ لائے۔

19 دسمبر 1902 کو، جیمز جانسن وہ پہلے فرد تھے جنہیں نیویارک سٹی کی سول سروس درخواست کے عمل کے تحت فنگر پرنٹ کیا گیا۔

1903: نیویارک اسٹیٹ کے جیل نظام اور لیون ورتھ جیل (کنساس) نے فنگر پرنٹ استعمال کرنا شروع کیے۔ لیون ورتھ جیل میں، ول اور ولیم ویسٹ کے فنگر پرنٹس کا موازنہ کیا گیا کیونکہ دونوں افراد کی اینتھروپومیٹرک (برٹیلون سسٹم) پیمائشیں بہت مشابہت رکھتی تھیں۔

یہ تھی شناختی عمل کے لیے مستند مانے جانے والے فنگر پرنٹس کے سفر کی کہانی، جو 1903 میں ایک اہم موڑ سے ہوتی ہوئی آج جدید دور میں ڈی این تک پہنچ چکی ہے۔

نوٹ: اس فیچر کی تیاری میں سی اے ایسبرے اور اونن ویبسائٹس کے مضامین سے مدد لی گئی ہے۔ امر گل۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close